Home / Socio-political / پاکستان میں جمہوری اقدار کی پامالی: ذمہ دار کون

پاکستان میں جمہوری اقدار کی پامالی: ذمہ دار کون

پاکستان میں جمہوری اقدار کی پامالی: ذمہ دار کون

جمہوریت ایک صبر آزما عمل ہے اور جمہوریت کے ذریعے کسی ملک میں بدلاو لانے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔  پاکستان میں اول تو جمہوریت کو کبھی پوری طرح سے پھلنے پھولنے ہی نہیں دیا گیا اور اگر کسی طور اسے موقع ملا بھی ہے تو خود اس کے پاسبانوں نے اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ نتیجتاً آج پاکستان اپنی تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں جمہوریت اور آمریت کے بیچ کا فرق موہوم ہو جاتا ہے۔ اس دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے فرعون اور شداد کو بھی آواز لگا سکتے ہیں فوجی ڈکٹیٹر تو پھر بھی انہی کے بیچ کے ہیں۔

                بینظیر بھٹو کی قربانی کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو لوگوں نے اس حکومت سے بے پناہ توقعات لگا لیں ہر چند کہ زمینی حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کا آدھا وقت تو آمرانہ نظام کی باقیات کی صفائی پر صرف ہوگا۔ حکومت نےوقت تو لگایا لیکن آمرانہ اقدار کی صفائی میں نہیں بلکہ انہیں اپنا معاون بنانے میں۔ اسی تگ ودو میں چیف جسٹس کی بحالی بھی تاخیر کا شکار رہی اور اس تاخیر کو پارٹی کے کارکنوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی واضح مثال اعتزاز احسن تھے  جو عدلیہ کی بحالی کے لئے نکالے جانے والے لانگ مارچ کے ہراول دستہ میں شامل تھے۔ با دل نخواستہ حکومت نے چیف جسٹس کو بحال کیا لیکن اس وقت تک عدلیہ کے دلوں میں یہ بات گھر کر چکی تھی کہ حکومت اس کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور اس طرح روز اول سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔  حکومت جو این۔آر۔او کو قانون میں تبدیل کرنے میں ناکام رہی اس نے عدالت کے پالے اس کھیل کا پینلٹی شوٹ آؤٹ دے دیا۔ عدالت نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ این۔ آر۔او کو مسترد کیا بلکہ تمام لوگوں کے مقدمات بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دے ڈالا۔ اس حکم وہ مقدمہ بھی شامل تھا جو بینظیر بھٹو اور آصف زرداری سے متعلق وہ مقدمہ بھی تھا جو سوئٹزر لینڈ کی عدالت میں قائم کیا گیا تھا اور این۔ آر۔ او کے تناظر میں سوئس حکام کواس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے خط لکھ دیا تھا کہ اس مقدمہ سے حکومت پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ عدالت نے آناً فاناً حکم دے ڈالا کہ دوبارہ سوئس حکام کو خط لکھا جائے جس میں یہ استدعا کی جائے کہ پاکستان اس مقدمے میں ایک پارٹی کی حیثیت رکھتا ہے اور کیس کو بند نہ کیا جائے۔ شومی تقدیر کہ  اس وقت تک صدر مملک کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے جس سے اس معاملے میں زبردست قسم کی پیچیدگی پیدا ہوئی اور اس پیچیدگی نے عدلیہ اور حکومت کے درمیان ایک محاذ آرائی کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ نتیجتاً یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیا گیا اور انہیں وزیر آعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

                یہ سارا معاملہ اس طرح ڈرامائی انداز میں رونما ہوا کہ لوگ کئی جگہ پر دم بخود رہ گئے خاص کر بابر اعوان کے راندہ درگاہ ہونے پر اور اعتزاز احسن کے عدالت پر تنقید کرنے پر۔  تمام کردار یکے با دیگرے اسٹیج پر آتے رہے اور اپنا کردار ادا کر کے واپس جاتے رہے اور ان رخصت ہونے والے کرداروں میں سب سے اہم یوسف رضا گیلانی ہیں جو کھلے عام کہتے رہے تھے کہ توہین عدالت کی سزا منظور ہے تاہم آصف علی زرداری سے غداری منظور نہیں۔

                اب جو کردار ہمارے سامنے آیا ہے وہ راجہ پرویز اشرف ہے اور لہجہ اس کا بھی وہی ہے جو یوسف رضا گیلانی کو ہوتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ مکالمے ان کے لئے بھی وہیں لکھے جاتے ہیں جہاں یوسف رضا گیلانی کے لئے لکھے جاتے تھے۔ اس بار ان کی حفاظت کے لئے حکومت نے توہین عدالت کے بل میں بھی ترمیم کر ڈالا  ہے اور اس طرح یہ توہین عدالت کے قانون سے بالا تر ہونگے۔ عدالت نے انہیں بھی حکم نامہ بھیجا ہے کہ یہ وہ خط لکھیں جو یوسف رضا گیلانی نہ لکھ سکے اور اس کے لئے انہیں آٹھ اگست تک کی مہلت دی گئی ہے۔  عدلیہ کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ آخر کتنے وزیر اعظم کو عدلیہ نا اہل قرار دے گی اور آخر کار اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔  کیا پاکستان میں کھیلا جانے والا یہ کھیل بند ہو جائے گا؟  بشمول بلوچستان کتنے ہی معاملات ہیں جن میں فوج نے عدلیہ کا منہ چرایا ہے تو کیا عدلیہ نے فوج کے خلاف اتنا سخت فیصلہ سنایا  ؟ نہیں کیونکہ کچھ معاملات میں مصلحت پسندی ضروری ہے اور یہی مصلحت پسندی پاکستان میں جمہوری اقدار کو بچا سکتی ہے۔

                اس پورے معاملے کو غور سے دیکھیں تو ایسا  بھی لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی صرف ان ہی مقدمات میں دلچسپی ہے جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے بھی اپنی ناکامی کا ٹھیکرا عدالت کے سر پر پھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔  اب عدالت اگر راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی وہی کرتی ہے جو اس نے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیا ہے تو حکومت خود کو شہید پکارے گی دوسری طرف حکومت نے توہین عدالت کے خلاف بل منظور کر کے خود بھی ایک سیاسی نا عاقبت اندیشی کا ثبوت دیا ہے۔ عدالت کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں جمہوری اقداری کی مضبوطی کے لئے ذرا تحمل سے کام لیں جبکہ حکومت بھی جمہوری اقدار کی پاسداری کرے اور اسے اس حد تک نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *