ترجمہ وتلخیص
محمد اَفروز قادری چریاکوٹی
afrozqadri@gmail.com
(جامعہ اَزہر، مصر کے اَربابِ فقہ واِفتا نے ایک سلگتے ہوئے سوال کے جواب میں بڑا ہی معرکة الآرا،فکرانگیز،
ایمان افروز اور چشم کشا فتویٰ رقم فرمایا ہے، اِفادہٴ عام کے لیے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ -چریاکوٹی-)
اِستفتاء : اس وقت لیبیا کے اندر کچھ لوگ ایک نئی فکر لے کر خود رو پودے کی مانند اُگ آئے ہیں،خود کوسلف صالحین سے وابستہ بتاتے ہیں؛ مگر یہ نراظلم ہے، اور اس کی حقیقت بہتان و فریب کے سوا کچھ نہیں۔ علماے اَعلام،اولیاے کاملین، اور شہدا و صالحین کے مزارات کے قبوں کو مسمار کرنا، قبروں کی کھدائی، اور اُن کے ( پختہ وبلند) مقبروں کے نشانات اپنے ہاتھوں، کلہاڑوں اور جدید آلات کے ذریعہ اُکھاڑ پھینکنا اُن کے اَہداف واَغراض میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سارا سیاہ کام بلا کسی اِطلاع وہ رات کی تاریکیوں میں کرگزرتے ہیں۔
اِس منحوس عمل کو اُس فکر جدیدکے حاملین کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پورے شہر میں بس وہی لوگ نہ صرف ایسے فکرواِعتقاد کے حامل ہیں بلکہ لوگوں کے اندر بھی اس کی ترویج واِشاعت میں وہ سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اُن کے اپنے خودساختہ عقیدے کے مطابق اَولیاوصالحین کی قبروں پر قبے اور عمارات تعمیر کرناکفرو گمرہی ہے۔ یوں ہی اُن پر مساجد بنانا اور ایسی مسجدوں میں نماز اَدا کرنا بھی اُن کے نزدیک حرام کے زمرے میں آتاہے؛ حالاں کہ انھیں یہ پتا ہوتا ہے کہ اِن قبروں میں بعض صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب ہیں، کچھ کبارِ علماو مشائخ کی ہیں جن کی پوری زندگی دعوت اِلی اللہ سے عبارت رہی۔ کچھ اِعلاے کلمة اللہ کی خاطر بعض اِسلام مخالف جنگوں میں اپنی جانوں کا نذرانہ لٹا دینے والوں کی ہیں؛ مستزاد یہ کہ جن قبروں کووہ مسمارکیے دیتے ہیں، وہ محکمہ آثارِ قدیمہ کے زیرحمایت ہیں، اور اُن میں سے بیشتر پانچ سو سال قدیم ہیں۔ ان میں زیادہ ترمزارات اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہیں، جن کے ثبوت آج بھی تصویر کی شکل میں انٹرنیٹ پر دیکھے اور دکھائے جاسکتے ہیں۔
اس تعلق سے علماومشائخ کا تحقیقی فتویٰ درکارہے؛ کیوں کہ وہ عوام میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ(اِن مزارات کے اِنہدام کی شکل میں ہم دین کی حقیقی خدمت) اور شرک وگمرہی کے اَڈوں کا خاتمہ کررہے ہیں‘۔
مرسلہ: محمد سالم عجیل۔ بتاریخ:۲۳/۱۰/۲۰۱۱ء-
مقید برقم:۵۱۴۔ سال:۲۰۱۱ء-
الجواب: اِسلام نے مُردوں کی حرمت کابھی پاس ولحاظ رکھاہے، اور اُن کی توہین وتذلیل کسی بھی طریقے سے حرام قرار دی ہے؛ لہٰذا اُن کی قبروں کی کھدائی کا یہ عمل کیوں کر جائز ہوسکتاہے؟۔ ایک مسلمان مرنے کے بعد بھی وہی عزت وتکریم رکھتاہے جو جیتے جی اُسے حاصل تھی۔ اور اگر صاحب قبر‘ اہل اللہ اور صلحاے اُمت سے ہوں تو پھر اُن کے مزارات کے ساتھ یہ زیادتی نہ صرف اَشد حرام ہوگی بلکہ ناقابل برداشت جرمِ عظیم بھی۔ کیوں کہ یہ وہ مقدس مقامات ہوتے ہیں جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جس نے انھیں میلی نگاہ سے دیکھا، یا انھیں کسی بھی طرح تکلیف واَذیت دینے کا سوچا تو گویا وہ مالک الملک کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ جنگ کررہاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث قدسی ہے:’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی مول لی،تو میری طرف سے اُسے کھلی دعوتِ جنگ ہے‘۔ (صحیح بخاری)
غور طلب اَمر یہ ہے کہ قبرکی جگہ یا توخود مرنے والے کی اپنی ملک ہوتی ہے،یا کوئی وہ جگہ اُس کے لیے وقف کردیتاہے، اور وقف‘ حکم شرع ہی کی مانند ہے؛ لہٰذا اِس اعتبار سے بھی اُس قبرکی کھدائی یا اُس پرتعمیرشدہ قبوں اور عمارات کی مسماری یااس جگہ کو جس بھی مد میں استعمال کیا جارہاہو (اس کا انہدام واِستحصال کسی طور) جائز نہیں ہوگا۔
بعض لوگ جو یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ اُن مسجدوں میں نماز باطل ہے جن میں اولیا وصالحین کی قبریں موجود ہوں تویہ ایک فتنہ ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسی مسجدوں میں نماز شرعاً نہ صرف جائز ودرست ہے؛ بلکہ درجہٴ اِستحباب میں ہے۔ اس پر کتاب وسنت کے صریح وصحیح دلائل موجود ہیں، سلف صالحین کااسی پرعمل رہاہے اوراُن کی اقتدا میں اَخلاف اِسی پر کاربند ہیں۔ اَب اُ س کے حرام وباطل ہونے کی بات کرناکسی نئے فتنے کو ہوا دینے کے مترادف ہے، اہل اسلام اس کی طرف مطلق توجہ نہ دیں اور نہ اس پر کبھی عمل کریں۔
کتاب اللّٰہ : قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتاہے :
فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْْہِم بُنْیَاناً رَّبُّہُمْ أَعْلَمُ بِہِمْ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوا عَلَی أَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْْہِم مَّسْجِداً o (کہف:۲۱)
(جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان(کے غار) پر ایک عمارت(بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال)سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں)نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)۔
اِس آیت کریمہ کا سیاق وسباق بتارہاہے کہ پہلا قول مشرکین کاہے، اور دوسراقول اہل توحید کا۔ خاص بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بغیر کسی اِنکار کے دونوں قول کو اپنی آخری کتاب کاحصہ بنا دیاہے، تو اس سے شریعت میں دونوں کے نفاذ کا اِشارہ ملتا ہے۔ بلکہ موحدین کے قول کا جب قولِ مشرکین سے موازنہ کیا جائے تو اہل توحید کی بات مدح کا فائدہ دے رہی ہے؛ کیوں کہ مشرکین کی بات تشکیک آمیز تھی، جب کہ اہل توحید کی قطعی اور حتمی۔ اور ان کی مراد کوئی عام یادگار عمارت نہیں بلکہ مسجد تھی۔
امام رازی اپنی تفسیر میں ’لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْْہِم مَّسْجِداً‘کے تحت فرماتے ہیں:’تاکہ ہم اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت وبندگی اِختیار کریں، اور اس مسجد کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی برکت سے اصحابِ کہف کے آثار(رہتی دنیا تک) باقی رہیں گے‘۔
علامہ شہاب خفاجی اپنے حاشیہ تفسیربیضاوی میں فرماتے ہیں:’اس آیت کریمہ نے صالحین کی قبروں پرمسجدیں تعمیرکرنے کی واضح دلیل فراہم کردی‘۔
سنة رسول اللّٰہ : سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اس کا ثبوت حضرت ابوبصیررضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے امام عبدالرزاق نے معمرسے، ابن اسحق نے اپنی سیرت میں، اور موسیٰ بن عقبہ نے اپنی مغازی میں نقل کیا ہے- یاد رہے کہ امامانِ مالک، شافعی اوراحمد رضی اللہ عنہم کی شہادت کے مطابق یہ مغازی کی سب سے مستندکتاب ہے- ان تینوں نے یہ روایت امام زہری سے لی ہے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، وہ مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم رضی اللہ عنہم سے کہ حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی تدفین ابوجندل بن سہیل بن عمرو کے ہاتھوں عمل میں آئی، اور انھوں نے تین سو صحابہ کرام کی موجودگی میں ساحل سمندر سے لگے اُن کی قبر پر ایک مسجدکی تعمیر بھی کردی‘۔ یہ صحیح الاسناد روایت ہے، اس کے سارے امام ثقہ ہیں۔ اَب ظاہر ہے ایسا عظیم الشان کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخفی تو نہ رکھا گیا ہوگا؛ مگرایسا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس قبرکو مسجد سے نکالنے یا اس کی کھدائی کا حکم جاری فرمایا ہو۔
مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ ’مسجد خیف کے اندر(۷۰) سترنبیوں کی قبریں ہیں‘۔ اس کی تخریج امام بزار، اور طبرانی نے اپنی کتاب معجم کبیر میں کی۔ حافظ ابن حجر ’مختصرزوائد البزار‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
آثارواَخبار سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام اورآپ کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا خانہٴ کعبہ کے حطیم میں مدفون ہیں۔ مستندمورخین نے اس کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے، اور علماے سیرت مثلاً ابن اسحق نے اپنی سیرت، ابن طبری نے اپنی تاریخ، سہیلی نے روض الانف، ابن جوزی نے منتظم، ابن اثیرنے کامل، ذہبی نے تاریخ الاسلام،اور ابن کثیرنے البدایہ والنہایہ میں اسی پر اعتماد کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے مورخین نے اپنی اپنی کتب میں یہ روایت درج کی ہے؛ لیکن غورطلب اَمریہ ہے کہ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن قبروں کو اپنی جگہ برقرار رکھا۔ انھیں ان کی جگہوں سے ہٹانے، یا کھدائی کرکے مسجد خیف یامسجدحرام سے باہر نکلوانے کاکوئی عمل (اپنی حیاتِ طیبہ میں) نہیں فرمایا!۔
عمل صحابہ : صحابہ کرام کے عمل سے اس کا ثبوت وہ صحیح روایت ہے جسے امام مالک نے اپنی ’موطا‘ میں نقل کیا ہے کہ جس وقت سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی توجاے تدفین کے تعلق سے صحابہ کرام کے درمیان اِختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: منبر نبوی کے پاس ، بعض نے کہا: بقیع میں؛ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے :
ما دفن نبی قط الا فی مکانہ الذی توفی فیہ ۔
یعنی ہر نبی کی تدفین ٹھیک اُسی جگہ عمل میں آئی جہاں اس نے وفات پائی۔
چنانچہ (حجرہٴ عائشہ میں جہاں آپ نے چشم مبارک بندکی تھی) قبرکھودی گئی۔ اور یہ بات طے ہے کہ منبر‘مسجد کا حصہ ہوتاہے؛ لیکن اُس وقت کسی صحابی نے اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ ہاں! ابوبکررضی اللہ عنہ نے اس رائے سے صرف اِس بنیاد پر اتفاق نہیں کیا کہ ان کے پاس ایک دوسراحکم نبی موجود تھاکہ آپ کی تدفین وہیں عمل میں آئے جہاں روحِ مبارک پروازکرے۔ اس طرح حجرہٴ عائشہ میں آپ کو دفن کردیاگیاجو مسجد سے بالکل ملاہواہے اور جہاں مسلمان نمازیں اَدا کیا کرتے ہیں۔ اوربالکل یہی صورت ہمارے زمانے میں بھی ہے کہ جہاں اولیاوصالحین کے حجرے تھے ان سے متصل مسجدبنادی گئی۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’مسجدکے اندر ہوناصرف قبرنبی کی خصوصیت ہے‘ ؛ مگر یہ درست نہیں، اور اس کی حیثیت دعویٰ بلادلیل کی سی ہے؛ کیوں کہ اس حجرہٴ عائشہ میں نہ صرف تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں بلکہ ساتھ ہی ابوبکرصدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی مدفون ہیں جس میں وہ رہتی تھیں، اوراپنی پنج وقتہ ونفلی نمازیں پڑھتی تھیں؛ توگویامسجد کے اندرقبرکے جائزہونے پر صحابہ کرام کا اِجماع ہوگیا۔
اِجماعی اورعملی طور پر اُمت محمدیہ اِسی پر کاربند ہے، اور علماے اُمت اس پرمتفق ہیں کہ سلفاً وخلفاً اہل اسلام کا مسجد نبوی ، اور اُن مساجدمیں -جن میں قبریں موجود ہیں- نماز پڑھنابلااِنکار جائز ہے۔ اور یہ کوئی آج کے علماکا عمل نہیں بلکہ مدینہ منورہ کے اُن سات فقہا کے زمانے سے چلاآرہا ہے جنھوں نے ۸۸ھ میں متفقہ طورپر حجرہٴ رسول کومسجد نبوی میں شامل کرلیا تھا۔ یہ کام حضرت عمر بن عبد العزیزعلیہ الرحمہ کے مدینہ کی گورنری کے عہد میں ولید بن عبدالملک کے حکم پرعمل میں آیا۔ اس دور کے علماوفقہا میں سے کسی نے اس پر کوئی اختلاف نہیں کیا، سوائے سعید بن مسیب کے۔ اور اِن کا اعتراض بھی اس لیے نہیں تھا کہ وہ ایسی مساجد میں نماز کو حرام سمجھتے تھے جن میں قبریں ہوں؛ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حجراتِ نبوی کو اُن کی اپنی اصل حالت پرباقی دیکھنا چاہتے تھے؛ تاکہ اہل اسلام کو اُن سے عبرت پذیری حاصل ہو، اور وہ اسے دیکھ کر اپنے اندر زہد،اوردنیا بیزاری پیدا کریں، اورانھیں کچھ اندازہ ہوسکیں کہ پیارے آقا رحمت سراپا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے مبارک دن کس طرح اور کہاں گزارے ہیں!۔
رہی بات صحیحین میں مروی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اُس حدیث کی کہ تاجدارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
لعن اللّٰہ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور أنبیائہم مساجدَ ۔
یعنی یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنارکھاہے۔
تویاد رہے کہ مساجد‘ مسجد کی جمع ہے، اور اس کے اندر مصدرِمیمی ہے، جس میں زمان ومکان اورحدث پردلالت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تویہاں قبروں کومساجدبنانے کا معنی یہ ہے کہ بروجہ تعظیم اُن قبروں کے سجدے کیے جائیں اور ان کی عبادت شروع ہوجائے، جس طرح کہ مشرکین کا بتوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ اس کی تائید ’طبقاتِ ابن سعد‘ میں موجود ایک دوسری صحیح روایت سے بھی ہوتی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
اللہم لا تجعل قبری وثنا، لعن اللّٰہ قوما اتخذوا قبور انبیائہم مساجد ۔
یعنی اے اللہ!میری قبرکوبت پرستی کی نحوست سے پاک رکھنا۔ خدا کی ان لوگوں پرلعنت پڑے جنھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
تو اس حدیث میں یہ ٹکڑا ’لعن اللہ قوما‘ دراصل ’جعل القبروثنا‘کابیان واقع ہواہے۔ حدیث کا مفادیہ ہے کہ اے اللہ! میری قبر کو بت نہ ہونے دینا کہ جس کے سجدے کیے جائیں اور جس کی عبادت کی جائے،جس طرح کہ کچھ لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کوسجدے کیے ہیں۔
امام بیضاوی فرماتے ہیں: جب یہودونصاریٰ اپنے انبیا کی تعظیم وتکریم میں اس حد تک بڑھ گئے کہ ان کی قبروں کوسجدے کرنے لگے،اورانھیں اپنا قبلہ بناکر نماز میں ان کی طرف توجہ کرنے لگے،اور انھیں بالکل بت ہی بنالیا، تو ان پر اللہ کی پھٹکار نازل ہوئی، اور اہل اسلام کو ایسے عمل سے سختی سے منع کر دیا گیا؛ لیکن کسی نیک ہستی کے پڑوس میں مسجد بنانا، یااُن کے مقبرے میں نماز اَدا کرنا اس مقصد سے کہ اُن کے روحانی فیوض وبرکات حاصل ہوں -نہ کہ بروجہ تعظیم وتوجہ- تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مدفن مسجدحرام میں ٹھیک حطیم کے اندر ہے، پھر وہ مسجد دنیا کی افضل ترین جگہ ہے ، حتیٰ کہ ہرمصلّی حالت نماز میں اسی کی طرف اپنے رخ کومتوجہ رکھتاہے۔ صرف ایسے قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے جہاں قبریں کھلی ہوئی ہوں کہ کہ اس میں نجاست ہوتی ہے۔
(لہٰذا ایسے صریح اور روشن دلائل وشواہد سے صرفِ نظر کرکے) کسی مزار کو اس کی اپنی جگہ سے ہٹانا، یامسجد کے اندر سے کھدائی کرکے اسے باہرکردینا، خصوصاً ایسی قبروں کوجواَولیاوصالحین اور شہداوعلماکی طرف منسوب ہیں، یا اس کے نشانات کو محوکرنااور اوپرکے حصے کو منہدم کرکے اسے زمین کے برابر کردینا -یہ سارے اعمال خواہ کسی بھی صورت کے تحت ہوں- شرعاً حرام ہیں، اورگناہِ کبیرہ میں شامل ہیں؛ کیوں کہ اس میں عام مردوں کی بے حرمتی، اوراہل اللہ وصالحین کے حق میں بے ادبی ہے۔ اور انھیں کی شانِ اعلیٰ نشان میں کہاگیاتھا کہ جس نے اُن کو تکلیف واَذیت دی وہ خود کواللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار رکھے۔ اور اُن کے تعلق سے ہمیں توبس اِتناہی حکم ہے کہ خواہ وہ زندہ ہوں یامردہ ہرحال میں اُن کی تعظیم وتوقیر اورعزت وتکریم کی جائے۔
لہٰذا ہم دنیا جہان کے مسلمانوں سے عموماً اورممالک اِسلامیہ کے علما وفضلا، اَئمہ ومشائخ، اور ذمہ دارانِ اوقاف وغیرہ سے خصوصاً یہ دینی درخواست اور ضروری اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی شیطانی کوششوں اور بے سر وپاسرگرمیوں کو ناکام بنانے اور جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں پورے شدومد کے ساتھ اپنا مذہبی کردار اور فرضِ منصبی اَدا کریں۔
یہ لوگ شرق وغرب کے کونے کونے میں جاکر اُن اولیا و صالحین کی قبروں کومسمار کردینا چاہتے ہیں جسے خوش عقیدہ مسلمانوں نے اپنے اَدوار میں تعمیرکیا، اور جس کا آغاز خود ان کے مقدس نبی علیہ السلام کے روضہٴ اقدس سے ہوتاہے۔ اور جسے صحابہٴ کرام نے بھی اپنے دور میں برتاہے: جیسے جدہ کے ساحل پرمقبرہٴ ابوبصیررضی اللہ عنہ… سرزمین مصر پر اہل بیت عظام مثلاً امام حسین، سیدہ زینب، اورسیدہ نفیسہ کے مقبرے، نیز برگزیدہ اَئمہ مذاہب مثلاً امام شافعی، اورلیث بن سعد کی قبریں… بغداد میں امام اعظم ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل، نیزاولیا وصالحین مثلاً شیخ عبد القادر جیلانی حنبلی کے مزارات… یوں ہی مصرمیں ابوالحسن شاذلی، لیبیا میں عبد السلام اسمرکے مقابر… اساطین اُمت اور محدثین کرام میں بخاریٰ کے اندر امام بخاری، مصر میں ابن ہشام انصاری، امام عینی، قسطلانی، اورسیدی احمد دردیروغیرہ،ایسے اکابرواسلاف کے اسماے گرامی کی ایک لمبی فہرست ہے۔ (اُن لوگوں کے بقول) یہ سب شرک کے اَڈے اور مشرکین کے اعمال ہیں۔ اور جس وقت مسلمان یہ عمل بجا لاتے ہیں تووہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی نحوست میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انبیاوصالحین سے توسل، ان کے مزارات ومکانات کی تعظیم وتوقیر بت پرستی اورشرک وبدعت کے زمرے میں آتی ہے؛حالاں کہ اُمت اِسلامیہ نسلاً بعد نسل صدیوں سے ان پرعمل پیراچلی آرہی ہے۔
یہ لوگ مسلمانوں کوکافروفاسق اور بدعتی بنانے میں اہل خوارج سے کسی طور کم نہیں بلکہ دوقدم آگے بڑھ کر اُمت اسلامیہ کی تہذیب و ثقافت اور اس کے مجد و شرف کا جنازہ اُٹھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی دیرینہ تمنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے علمی، ثقافتی، اورتاریخی آثار وباقیات کونوچ نوچ کرنابود کرڈالیں؛ تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے اِحساس کی چنگاری بھی بجھ جائے، اور ان کے لوحِ ذہن پر یہ نقش ہوجائے کہ ان کے اَسلاف گمراہ وگمراہ گر، فاسق وفاجر، بت پرست،غیر اللہ کی پرستش کرنے والے،اورغیر شعوری طورپرشرک سے آلودہ تھے۔ (گویا ع: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے)
ان لوگوں کویہ سب کچھ کرگزرنے کی جسارت وجرأت صرف اپنی بیمارسوچ،اورعلمی ناپختگی کے باعث ہوئی ؛کیوں کہ درحقیقت وہ آیات واحادیث جوغیر اللہ کی پرستش کرنے والے مشرکین کی بابت نازل ہوئی تھیں ان لوگوں نے اسے اُن اہل توحید مسلمانوں پر چسپاں کرنا شروع کردیاجن کے دل اللہ ورسول کی محبت سے آباد اوراولیاوصالحین کی عقیدت سے پرنور ہیں،اور جو (بحکم شرع) زندہ ومردہ بہرصورت اُن اہل اللہ کی تعظیم وتکریم بجالاتے ہیں۔
یقینا یہ سب خوارج کی بولیاں ہیں۔ نام بدلاہواہے مگر کام ہوبہووہی ہے کہ وہ لوگ بھی مشرکین کے بارے میں نزول شدہ آیات کوقصداًاہل اسلام پرفٹ کرکے ( اپنی ابلیسی سوچ کی تسکین کا سامان کرتے تھے، اور اُمت میں افتراق وانتشار کوہوادیتے تھے)۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے حوالے سے خوارج کا وصف بیان کرتے ہوئے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے، یوں ہی امام طبری نے بھی ’تہذیب الآثار‘ میں اسے سندصحیح کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اس لیے دنیا جہان کے مسلمانوں کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ اس دین سوز دعوت وتبلیغ کے آگے ناقابل شکن دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں، ان سرکشوں کی سرکشی پر بند باندھیں، اوران کی بغاوت کی آگ کو ٹھنڈی کریں؛ ورنہ ہمارے اولیا وصالحین کے مزارات، ساداتِ کرام کے مقابر، اساطین اُمت، اور علماوشہداے ملت کے مقاماتِ مقدسہ بازیچہ اطفال بن کر رہ جائیں گی، اور یہ فاسق ومنافق لوگ بے سروپابہانے تراش کرشیطان کے اِشارہٴ اَبرو پر وہ کچھ کرڈالیں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مصرکے بعض اولیا وصالحین کے مقاماتِ مقدسہ پر اس نوپید جماعت کی سورشیں بپا ہونے کے بعد ’مجمع البحوث الاسلامیہ‘ اپنی غیرتِ دینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری شدو مد کے ساتھ نہ صرف یہ فتویٰ جاری کرتی ہے بلکہ اُمت کے ذمہ داروں سے پرزور اپیل بھی کرتی ہے کہ وہ اس کھلے چیلنج کا مقابلہ کریں، انھیں سختی سے روکیں، اور یہ یقین رکھیں کہ اُن لوگوں کے یہ سارے تصرفات شرعاًحرام بھی ہیں او ر عرفاً وقانوناً جرم بھی۔
جیسا کہ حال ہی میں مصرکے وزارتِ اوقاف سے یہ بیان شائع ہوچکا ہے کہ ’بدقسمتی سے ہمارے دور میں گھناؤنی ذہنیت رکھنے والا ایک ایسا گروہ نکل آیا ہے (جودین کی تعبیر وتشریح من چاہی کرتاہے) اُن کا مقصد لوگوں کوراہِ ہدایت سے ہٹانے کے سوا کچھ نہیں، انھیں علم کی ہواتک نہیں لگی، وہ اہل اللہ پربڑی جرأ ت وبے باکی دکھاتے ہیں،اور ان کے مزارات کو نذرِ آتش کرنے اور مسمار کردینے ہی کو عین توحید سمجھتے ہیں۔ مگر درحقیقت انھوں نے یہ روِش اپنا کر اللہ ورسول کے غضب کو مول لیا ہے، اورمسلمانانِ عالم کو عموماً اور اہل مصرکو خصوصاً دلی رنج واَذیت پہنچایا ہے۔ حالاں کہ ہردور کے علماے اعلام کا اِجماع چلا آرہا ہے کہ صالحین کی قبروں کی بے حرمتی،اُن کی مسماری یاکسی بھی طورسے ان کی بے ادبی شریعتِ اسلامیہ کی روح کے منافی ہے۔ جو بھی ایسا کرتاہے سمجھیں وہ زمین میں فتنے فساد جگاتاہے، اور قوم وملک کے اَمن وسکون کو غارت کرتاہے‘۔
لہٰذا شہرلیبیاوغیرہ ، اور دیگر اسلامی ملکوں کے اَرباب حل وعقد اوربااَثرورسوخ شخصیات کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ اِس فتنے کا سد باب کریں، اور ایسے منحوس ہاتھوں کو اولیا وصالحین کے مزارات تک پہنچنے سے پہلے ہی مروڑ کے رکھ دیں؛ کیوں کہ اولیاے اُمت کے لیے اُن کے دل میں کوئی احترام وعقیدت کا کوئی شوشہ باقی نہیں رہا۔ -اللہ بس باقی ہوس-
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
امانة الفتوی
محمد وسام خضر، محمد شلبی، عبد اللّٰہ عجمی حسن، علی عمرفاروق، محمد العاشور
۲۴/۱۰/۲۰۱۱ء