عابد انور
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں تمام شہریوں کو اظہار کی آزادی،کام کی آزادی، ادارہ قائم کرنے کی آزادی، اسے اپنے حساب سے چلانے کی آزادی اور دیگر حقوق حاصل ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی حقوق دئے گئے ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ صرف کاغذوں پر ہیں عملاًکسی حق کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اعلی سے ادنی سطح تک کے افسران نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے لئے کوئی فلاحی، تعلیمی، معاشی یا دیگر کام کئے جائیں۔ یہی حال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردارکی بحالی کے سلسلے میں تھا۔ فروغ انسانی وسائل کے وزیر کا رویہ اس ضمن میں بالکل معاندانہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جامعہ کا اقلیتی کردار بحال نہیں ہوسکتا کیوں کہ 1988 میں پارلیمنٹ میں منظور کردہ جامعہ ایکٹ میں اقلیتی کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اس ضمن میں1988میں کہیں سے وسیع پیمانے پر شور نہیں اٹھاتھا ایسا بھی نہیں تھا کہ مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جامعہ کے ساتھ کیا ہونے جارہاہے کچھ لوگوں نے آواز اٹھائی تھی ،جامعہ ٹیچر ایسوسی ایشن اور اعلی عہدوں پرفائز دیگر لوگوں کی توجہ اقلیتی کردار پر مبذول کرائی گئی تھی لیکن اس وقت جامعہ کے عہدیدار، اساتذہ اور ملازمین کی آنکھوں پر صرف ہرے ہرے نوٹ دکھائی دے رہے تھے ۔یہ لوگ تو صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مرکزی یونیورسٹی بنتے ہی ان کی تنخواہیں آسمان چھونے لگیں گی، ان کے دن پھر جائیں گے اسی لئے ان لوگوں نے جامعہ کے اقلیتی کردارکے تئیں ہونٹ سی لئے تھے۔ پارلیمنٹ میں جامعہ ایکٹ پاس ہوا اوراسی کے ساتھ جامعہ کا اقلیتی کردار بھی ختم ہوگیا۔اس کے بعد ایک دوسرے پر لعن طعن و تشنیع ، الزام اور جوابی الزام کا دورہ شروع ہوا۔ جس وقت جامعہ ایکٹ پاس ہوا تھا اس وقت جامعہ کے چانسلر موجودہ مرکزی وزیر قانون اور اقلیتی امور کے وزیر سلمان خورشید کے والد خورشید عالم خاں تھے، انہیں اقلیتی کردار ختم کرنے کاذمہ دار قرار دیا کاجاتا ہے۔ اس کے بعد گاہے بگاہے اقلیتی کی کردار بحالی کے لئے آواز اٹھتی رہی تھی۔ 2006میں معاملہ اس وقت سنگین شکل اختیار کرگیا جب وزارت فروغ انسانی وسائل کی طرف ایک سرکلر موصول ہوا جس میں دیگر یونیورسیٹیوں کی طرح جامعہ میں بھی ریزرویشن کے کوٹے کو نافذ کرنے کے لئے کہاگیا۔ اس وقت فروغ انسانی وسائل کے وزیر آنجہانی ارجن سنگھ تھے حالانکہ انہوں نے یقین دہانی کی تھی جامعہ کا اقلیتی کردار بحال کیا جائے گا ۔اس موقع پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا اور اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحسن کو ہٹانے کی تحریک چلائی گئی تھی لیکن چوں کہ وہ ارجن سنگھ کے کافی قریبی تھی اس لئے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔ذرائع کے مطابق پروفیسر مشیر الحسن بھی جامعہ کے اقلیتی کردار کے مخالف تھے اس لئے انہوں نے جامعہ کی لڑائی صحیح طور پر نہیں لڑی لیکن محبان جامعہ نے ہار نہیں مانی اور اپنی لڑائی جاری رکھتے ہوئے نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کے چیرمین جسٹس محمد سہیل احمد صدیقی کے روبرو اپنا مقدمہ پیش کردیا۔ جامعہ کے رجسٹرار ایس ایم افضل نے ایک حلف نامہ دائر کرکے اقلیتی کردار کی مخالفت کی تھی یہ الگ بات ہے کہ ہنگامے کے بعد اس کے رخ میں نرمی آگئی تھی اور انہوں نے اقلیتی کردار کی بحالی کے حق میں دوسرا حلف نامہ دائر کیا تھا ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام در اصل عدم تعاون تحریک کا نتیجہ تھا اس کے بانیان تحریک عدم تعاون کے سرخیل تھے ۔جہاں اس کا مقصد تعلیم تھا وہیں جنگ آزادی کے جیالوں کو پیدا کرنا بھی تھا ۔ ان کے بانیان میں تمام جنگ آزادی کی تحریک منسلک تھے سب نے جیل کی صعوبتیں اٹھائی تھیں۔ عدم تعاون تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے جس میں طلباء کی اچھی خاصی تعداد تھی تعلیم گاہ کا قیام ضروری تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے عدم تعاون تحریک میں حصہ لیتے ہوئے سرکاری اداروں میں تعلیم ترک کردی تھی اس لئے اس تحریک کے اعلی کارکنوں نے علی گڑھ میں 29 اکتوبر 1920 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی داغ بیل ڈالی تھی ․ مشہور مجاہدآزادی ، اسیر مالٹا، دارالعلوم دیوبند کے اولین طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسن ہاتھوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھااور 1925میں علی گڑھ سے اسے دہلی کے قرول باغ میں منتقل کردیاگیا تھا۔22نومبر 1922کو حکیم اجمل خاں کو چانسلر اور مولانا محمد علی جوہر کو وائس چانسلر مقرر کیاگیا۔یکم مارچ 1935 کو اوکھلا میں جامعہ کے نئے کیمپس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور 1936 میں جامعہ کو قرولباغ سے اوکھلا کے نئے کیمپس میں منتقل کردیاگیا۔ 4 جون 1939 کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کو سوسائٹی ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ کرایا گیا۔جامعہ کے بانیان میں مولانا محمد علی جوہر ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مہاتما گاندھی شامل ہیں۔فاؤنڈیشن کمیٹی میں اٹھارہ افراد کے نام شامل ہیں۔ 1962میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ دیا اسی کے ساتھ کئی نئے شعبے کھلنے کا آغاز ہوا۔ تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کے چندے سے مسلمانوں کے لئے قائم کی گئی تھی۔ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے چندے اس یونیورسٹی کو موصول ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کا آئین اس بات کی بات اجازت دیتا ہے کہ مسلمان اپنے لئے تعلیمی ادارے قائم کریں اور اپنے حساب سے چلائیں حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ہندوستانی آئین کے دفعات 29 اور 30 میں درج ہے ۔ جامعہ ہمیشہ سے ہی اقلیتی کردار کا حامل ادارہ رہا ہے۔ معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب 2006 میں مرکز کی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت نے ایک حکم جاری کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اپنے یہاں 27 فیصد اوبی سی کوٹہ نافذ کرنے کی ہدایت دی۔ جامعہ نے اس حکم کے خلاف نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں اپیل دائر کی۔ جامعہ میں پہلے کے ہی 22.5 فیصد نشستیں ایس سی / ایس ٹی 25 فیصد انٹرنل اور تین فیصد نشستیں معذور طلبا کے لیے مختص تھیں۔ اوبی سی کوٹہ لاگو کرنے سے یہ کوٹہ 50 فیصد سے بڑھ جاتا جو سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر حد سے زیادہ تھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے اس پہلو سے پردہ اٹھایا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو تمام شعبہ ہائے حیات میں ریزرویشن دینے کی سفارش پیش کی ہے۔رنگناتھ مشرا کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق آزاد ہند کے صرف 63 سال میں ہندوستان کی اس حکمراں قوم کا مقام ملک کے درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے مماثل ہوگیا ہے رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تمام طبقات میں اقل ترین یعنی 5.75 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 7.5 فیصد ہے ۔ گھرانوں کی جسامت 3.5 فیصد ، خواندگی کی سطح 59.1 فیصد ، گریجویشن سطح کے تعلیم یافتہ افراد 3.6 فیصد ہے جو اقل ترین ہے ۔ تغذیہ کی صورتحال بدترین ہے ۔ مسلمانوں کی صرف 23.76 فیصد تعداد پکے مکان رکھتی ہے جو ملک کی اقل ترین تعداد ہے جبکہ کچے مکان رکھنے والوں کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ یعنی 34.63 فیصد اور کرایہ کے مکانوں میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ملک بھر میں 43.74 فیصد ہے ۔ برقی و آبی سربراہی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولتیں صرف 22 فیصد مسلمانوں کو حاصل ہیں اور یہ اقل ترین تعداد ہے ۔ شہروں میں خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر تمام طبقات سے زیادہ یعنی 36.92 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 25 فیصد ہے ۔ اس طرح مسلمان جو ہندوستان پر 800 سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرچکے ہیں۔ آزادی کے بعد صرف 63 سال میں درج فہرست قبائل اور طبقات سے بھی زیادہ پسماندہ ہوچکے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی یونیورسٹی دینے کی مانگ طویل عرصہ سے جاری تھی لیکن جامعہ انتظامیہ (اعلی عہدیداران جو عموماً اپنا ضمیر فروخت کرکے اس عہدے پرآتے ہیں) کی دلچسپی جامعہ اقلیتی ادارہ کارتبہ دلانے میں کبھی نہیں رہی۔ 20 جنوری 2010کو ہزاروں تعداد میں طلبہ اور دیگر افراد احتجاج کرتے اور یہ سوال کرتے ہوئے نکلے کہ سینٹ اسٹیفن اور خالصہ کالج کو اقلیتی درجہ ہے تو جامعہ کو کیوں نہیں؟ یہ مظاہرین فیکلٹی آف انجیئنرنگ اینڈ ٹکنولوجی سے براہ اوکھلاہوتے ہوئے انصاری آڈیٹوریم تک مارچ کیا تھااور جامعہ ملیہ اسلامیہ کومسلم اقلیتی ادارہ قراردینے کا مطالبہ کیاتھا۔اس موقع پرجامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن (جے ٹی اے) کے صدر پروفیسر نصرت اللہ خان نے کہا ” یہ بالکل عیاں حقیقت ہے کہ جامعہ کو مسلمانوں نے قائم کیا یہ ادارہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے“۔ مگر یہ بڑی عجیب اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ایم ایچ آرڈی اوریوجی سی جامعہ کے اقلیتی کردار کے تعلق سے پیچیدگی پیدا کررہے ہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دہلی یونیورسٹی کے اسٹیفنس اور خالصہ کالج کو اقلیتی ادارے کی حیثیت حاصل ہے تو پھر جامعہ کو یہ حیثیت کیوں نہیں مل سکتی؟ او بی سی ریزرویشن پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم اس کے خلاف نہیں ہیں دراصل ہم اس کے حق میں ہیں۔ مگر ہم کیا سمجھیں وہی قانون‘ سینٹرل ایجوکیشنل (ریزرویشن ایڈمیشن) ایکٹ 2006 نے اقلیتی تعلیمی اداروں کو ان ریزرویشنز سے واضح طور پر مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے“۔ اس کے علاوہ اکیڈمک کاونسل اور ایکزیکیٹو کاونسل آف جامعہ دونوں نے اپنی قرارداد میں واضح طور پر دہرایا ہے کہ جامعہ مسلم مائناریٹی انسٹی ٹیوشن ہے۔ حتیٰ کہ سابق وزیر انسانی وسائل کی ترقی(ایچ آرڈی) ارجن سنگھ نے بھی بار بار اس کا اعتراف کیا ہے بعدازیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مختلف ایسوسی ایشنوں۔ جامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن (جے ٹی اے) جامعہ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (جے اوبی اے)‘ جامعہ ایڈمنسٹریٹو اسٹاف ایسوسی ایشن (جے ای ایس اے)‘ جامعہ اسکول ٹیچرس ایسوسی ایشن (جے ایس ٹی اے) شفیق الرحمان قدوائی ایسوسی ایشن (ایس آر کے اے) نے جامعہ کے وائس چانسلر کو ایک میمورنڈم پیش کرکے درخواست کی کہ اسے کورنگ لیٹر کے ساتھ صدر جمہوریہ کے پاس بھیجیں جو یونیورسٹی کے وزیٹر ہیں۔ ان کے علاوہ اسے وزیر اعظم ‘انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر اور اقلیتوں کے امور کے وزیرکو بھی پہنچوانے کی بھی درخواست کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ جامعہ ٹیچر ایسوسی ایشن (مقدمہ نمبر 1443-2006))، جامعہ اسٹوڈینٹس یونین (مقدمہ نمبر 891-2006)) اور جامعہ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (مقدمہ نمبر 1824-2006) نے نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن (قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ) کے روبرو اپنا مقدمہ پیش کیا ۔ ان سبھوں نے جامعہ کے وائس چانسلر، رجسٹرار ، وزارت فروغ انسانی وسائل اور وزات اقلیتی امور کو فریق بنایا۔ اس کمیشن نے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ اس نے تمام عوامل اورجامعہ کے اغراض و مقاصد کا بغورمطالعہ کیا اور 2006سے18 باران مقدمات کی سماعت کی اور اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی کمی نہ رہ جائے جس سے عدالت میں جاکر یہ مقدمہ الٹ جائے۔ اس کے بعد 22 فروری 2011 کو جب قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ کی سہ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادارہ ہے ۔ کمیشن کی سہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ کا اختتام ان جملوں سے کیا ”ہمیں یہ اعلان کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی مسلمانوں کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے قائم کی گئی تھی اور اس ادارہ نے کبھی بھی اپنا اقلیتی کردار نہیں کھویا تھا“۔ کمیشن نے اپنے 57صفحات پر مشتمل فیصلے میں ان تمام پہلووں کا ذکر کیا ہے کہ یونیورسٹی کن حالات میں قائم ہوئی ، اس کے کیا اغراض و مقاصد تھے اور کب یہ علی گڑھ سے دہلی میں منتقل ہوئی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو کل ہند کمیشن برائے اقلیتی تعلیم کی طرف سے اقلیتی درجہ تفویض کر دیا گیا ہے ۔کمیشن کے اس تاریخ ساز فیصلہ کی وجہ سے جامعہ کو اقلیتی کردار کا حامل یونیور سٹی کا درجہ مل گیا۔ اس میں مسلم طلباکے لئے پچاس فیصد نشستیں محفوظ ہوگئی ہیں ۔یہ ہندوستان کی پہلی مرکزی یونیورسٹی ہے جس کو یہ درجہ دیا گیا ہے۔کمیشن کے چیرمین جسٹس ایم ایس اے صدیقی کا کہنا تھاکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس ادارے کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی بہبود کیلئے عمل میں لایا گیا تھا اور اس ادارے نے کبھی بھی اپنی مسلم شناخت نہیں کھوئی۔جسٹس صدیقی کے بقول یہ یونیورسٹی ہندوستان کی واحد اقلیتی سینٹر یونیورسٹی کے طور پر منفرد کردار ادا کرے گی۔
جسٹس ایم سہیل احمد صدیقی کو اقلیتوں کے تعلیمی ادارے ،مشکلات اور تعلیمی معاملے میں شکایات کو رفع کرنے کیلئے مرکزی حکومت نے 2004 میں ایک ایکٹ منظور کرکے نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز یجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کا چیر مین مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل جسٹس سہیل صدیقی ۔ برکلے اسکول کٹک کے معاملہ فیصلہ دے چکے تھے ۔ یہ جولائی 2010 میں آیا تھا، اس فیصلے کو ایک نظیر کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ان دونوں معاملوں میں جسٹس صدیقی کی صدارت والے کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں تین بنیادی سوال قائم کئے۔ ادارہ کس نے قائم کیا، کس مقصد سے قائم کیا اور اس کا نظم و انتظام کس کے ہاتھوں میں رہا؟۔ یہ تینوں سوال کا جواب جامعہ کے حق میں تھا۔ مسلمانوں نے قائم کیا، مسلمانوں کے لئے قائم کیاگیا اور ابتداء سے اس کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جامعہ کے کچھ وائس چانسلر اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور مسلم طلباء کے لئے کام کرنے میں شرم محسوس کرتے رہے ہیں۔ جامعہ کی شناخت تہذیبی اور ثقافتی بھی ہے اور مسلم مسائل پر پروگرام بھی ہوتے آرہے ہیں لیکن کچھ وائس چانسلر برہمنی، صیہونی اور مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اور ہمیشہ آمادہ جنگ نظر آتے ہیں۔ جامعہ کا تعلیمی میلہ جو روز اول سے منعقد ہوتا چلا آرہا تھا اسے وائس چانسلر نجیب جنگ نے بند کروادیا۔ اس سے ان کی ذہنی تنگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا مقصد مسلم بچوں میں تعلیمی رجحان پیدا کرنا تھا یہاں مسلم بچے جہاں بہت ساری چیزوں سے لطف اندوز ہوتے تھے وہیں اپنے بزرگوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتے تھے۔ اس طرح یہ میلہ جہاں تفریح کا ذریعہ بنتا تھا وہیں علم کی ترغیب و تحصیل کا حوصلہ بھی دیتا تھا۔
مسلمانوں کو دفعہ 29 اور دفعہ 30 (۱) کے تحت مسلم ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔ مستقبل میں بھی یہ فیصلہ تعلیمی اداروں کے لئے نظیر کا کام کرے گا۔ کہ کس نے قائم کیا تھا، کس کے لئے قائم کیا تھا اور کون انتظام سنبھال رہا ہے اس لئے تعلیمی ادارہ قائم کرنے والے صاحبان اسے شقوں پر دھیان دیں اور اس کے حق میں دستاویزات اور ثبوت بھی اپنے پاس رکھیں۔ جب جامعہ کا اقلیتی کردار بحال کیا گیا تھا تو یہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ اب جامعہ کا معیار تعلیم ناقص ہوجائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ہندوستان کے ہزاروں ادارے میں ریزرویشن کا نظام نافذ ہے لیکن پسماندہ طبقات کے افراد کے آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی آر ایس اور سول سروسز کے دیگر کیڈروں میں چن کر آرہے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں آسکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے گھر نظام کو چست درست کیا جائے اور تعلیم کا ماحول پیدا کیا جائے۔ جامعہ ہمدرد ایک اقلیتی ادارہ ہے اور نیشنل ایسسمنٹ ایگری ڈیٹیشن کونسل (این اے اے سی) نے اس ادارہ کو ’اے‘ سرٹیفکیٹ دیا ہوا ہے جو بہت کم اداروں کو ملتا ہے اس لئے کسی بھی ادارہ کو اقلیتی کردار مل جانے سے اس کا تعلیمی معیار متاثر نہیں ہوتا۔ تعلیمی معیار خراب ہونے کے لئے دیگر عوامل ذمہ دار ہو سکتے ہیں لیکن اقلیتی کردار نہیں“۔ جامعہ کو سینچنے اور سنوارنے اور اس مقام تک پہنچانے جہاں مخیر حضرات کا تعاون حاصل تھا وہیں جامعہ کے اساتذہ کی بھی زبردست قربانی تھی۔ جامعہ کے اساتذہ نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی تحریک پر1939 میں ایک حلف نامے پر دستخط کئے جس میں عہد کیا گیا کہ وہ صرف 150/ روپیہ ماہانہ کی تنخواہ پر 20 سال تک خدمات انجام دیں گے۔ اس چیز کو جامعہ کے ذمہ داران ، اساتذہ اورطلباء کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہاں تک کہ مولانا عبیداللہ سندھی (1872-1944)نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی دعوت پر اسلامک اسٹڈیز کا شعبہ قائم کیا تھا جس کانام انہوں نے بیت الحکمتہ رکھا تھاجو شاہ ولی اللہ کے افکار پر مبنی تھا۔
جامعہ کا اقلیتی کردار بحال ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اس سلسلے میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ جامعہ اقلیتی کردار کے سلسلے میں انہوں نے ایک وفد سے کہا تھا کہ اس میں کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمارا کوئی معاملہ نہیں ہے جو کچھ وہ 1988 کا منظور شدہ جامعہ ایکٹ ہے اور اس میں اقلیتی کردار کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ جسٹس سہیل صدیقی اور دیگر حضرات نے اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچایا یقینا وہ زبردست مبارکباد کے لائق ہیں اور ان کے کام سراہے جانے کے قابل ہیں۔اسی کے ساتھ مسلمانوں کواس بھی جائزہ لینا چاہئے ان کا کون دوست ہے اور کون دشمن، دشمن صرف غیر مسلم افسران، وزراء اور حکومت کے اہلکار ہی نہیں ہیں بلکہ مسلم وزراء، نام نہاد سیکولر مسلم افسران، سیاسی لیڈر اور حاشیہ بردار ضمیر فروش پروفیسر اور دانشور حضرات بھی ہیں جو معمولی ذاتی مفاد کے لئے پوری قوم قعر مذلت میں دھکیلنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے دشمن انہی حضرات کا استعمال کرکے مسلمانوں کو تعلیمی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com