سمیع اللہ ملک
ہاں بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے انسان…بہت کوشش، بہت تگ ودو…کس لیے؟ اس لیے کہ وہ سکون سے رہے، آرام سے رہے، محفوظ رہے۔ ناموری کا خواہش مند ہوتا ہے وہ…واہ، واہ سننا چاہتا ہے دادو تحسین کا طالب اور چہار دانگ عالم میں تشہیر…بس یہی ہے۔
سکون سے رہنا چاہتا ہے اور بے سکون ہوتا رہتا ہے۔آرام فوم کے گدوں پر سونے سے ملتا نہیں ہے، لاکھ توپ و تفنگ پاس ہو، اپنوں سے بھی ڈرتا رہتا ہے۔سائے سے بھی ڈرجانے والا۔ناموری کے شوق میں ایسی ایسی بے ہودہ حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں اُس سے کہ بس۔چہار جانب بچہ جمہورے واہ، واہ کرتے رہتے ہیں اور خلقِ خدا تھوتھو۔ دادوتحسین کے لیے نت نئے ڈرامے اور اداکاری…لیکن ذلت لکھ دی جاتی ہے۔ میں غلط کہہ گیا ہوں، اپنی ذلت و رسوائی کا سامان ساتھ لیے پھرتا ہے وہ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت کا گھوڑا اسے اپنے سموں تلے روندتا ہوا نکل جاتا ہے۔
سامان سو برس کا ہوتا ہے اور پل کی خبر نہیں ہوتی۔ اپنی انا کے بت پوجنے والا کب کسی کو خاطر میں لاتا ہے! بس ذرا سا اختلاف کیجیے تو چڑھ دوڑتا ہے اپنے لشکر کو لے کر،یہ جانتے بوجھتے بھی کہ لشکروں کو پرندوں کا جھنڈ کنکریاں مار کر کھائے ہوئے بھس میں بدل دیتا ہے۔ عبرت سرائے ہے یہ۔ لیکن نہیں مانتا وہ۔ وہ ناز کرتا ہے اپنے لشکر پر۔اور دنیائے فانی میں کوئی سدا نہیں جیتا۔ اپنے سینے پر سجے تمغے دیکھ کر نہال ہو جانے والے بھی تنہا اور لاچار ہوجاتے ہیں اس لیے کہ زندگی پر موت کا پہرا ہے اور موت کسی سے خائف نہیں ہوتی۔
ہاں وہ کسی چاردیواری، کسی پناہ گاہ، کسی قلعے، کسی نسب، کسی منصب و جلال، کسی لشکر کو نہیں مانتی، دبوچ لیتی ہے…اورپھر ایسا کہ سامان سو برس کا ہوتا ہے، جو دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ جسم کے پنجرے کو توڑ کر موت اچک لیتی ہے اس کی روح۔
موت تو خیرآتی ہے، موت سے پہلے بھی کبھی موت آجاتی ہے۔وہ موت اور بھی بے حس ہوتی ہے۔ ہاں اُس وقت جب زندگی خود بھی گناہو ں کی سزا دینے لگتی ہے۔ بے کلی، بے چینی، اضطراب، وحشت، تنہائی… کیا یہ سزا کم ہوتی ہے! سب کو تہہ تیغ کر کے آگے بڑھ جانے والا سوچتارہ جاتا ہے لیکن پھر وقت ہاتھ نہیں آتا۔
انہیں بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جنہیں کرپٹ کہتا ہے، نہیں آنے کی دھمکیاں دیتا ہے…اس لیے کہ اپنے رب کا غلام نہیں ہوتا وہ۔ وہ تو طاقتِ عارضی کا ادنیٰ غلام ہوتا ہے، اور جب ارضی خدااسے کہہ دیں پھر کیا مجال ہوتی ہے کہ انکار کردیا جائے! ہاں پھر برداشت کرنا پڑتا ہے جناب۔
کشمیرمیں جاری آزادی کی لہرنے ایک امیدپیداکررکھی ہے۔اس میں شک نہیں کہ بھارت اپنے عالمی استعماری دوستوں کے بل بوتے پربین الاقوامی صورتِ حال کوتبدیل کرنے کی اپنی سی کوشش کررہاہے اورعالمی استعمار کی پالیسیوں کے باعث اس تحریک کوسردکرنے کی کوششیں بھی جاری وساری ہیں لیکن اس کے باوجودمعاملات میں کوئی کمزوری پیدانہیں ہورہی بلکہ دن بدن حالات قابو سے باہرہوتے جارہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ امریکا اوراس کے اتحادیوں کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان پرشدیددباوٴ کے نتیجے میں مسئلہ کشمیرمتاثرضرورہواہے لیکن جوں جوں امریکا اوراس کے اتحادی افغانستان میں کمزورہورہے ہیں وہ واپسی کی راہ تلا ش کرنے میں دن رات کوشاں ہیں،کشمیر کی تحریک ِآزادی چلانے والے مرد، مجاہدسیدعلی گیلانی اوران کے ہمنوا وٴں کو پورایقین ہے کہ افغانستان سے ان بیرونی غاصبوں کی واپسی کے بعدحالات یکسربدل جائیں گے ۔
یہ مفروضہ بھی یقینا غلط ہے کہ تحریکِ آزادی کمزورہوگئی ہے اوراب رابطہ کاروں کی طے شدہ رپورٹ پرکشمیریوں کوکسی لالی پاپ پرراضی کرلیا جائے گااورکشمیریوں کی بے پناہ اوربے مثال قربانیوں کوکسی انجانی قبرمیں دفن کردیا جائے گا لیکن اب یہ اس لئے ممکن نہیں کہ ”شرائن بورڈ“اور”کشمیرچھوڑدو“کی حالیہ تحریکوں نے عسکری سے زیادہ عوامی رنگ اختیارکیا ہواہے۔ پچھلی چھ دہائیوں سے بھارتی جنتاکوبلا کسی ثبوت اورشواہد کے کشمیر میں جاری کسی بھی تحریک آزادی کی پشت پر پاکستان نظر آتا تھا لیکن اب جو تحریک اٹھی ہے اس کے پسِ پشت پرماضی کی تحریک اورقربانیوں کے اثرات کوبین الاقوامی طورپر بھی شدت سے تسلیم کیاجارہا ہے اورخود بھارت کے کئی انصاف پسند دانشور کشمیرپر ہونے والے مظالم پربھرپور احتجاج کررہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ کشمیرکاتحریکی پہلوپہلے سے کمزورنہیں بلکہ کئی گنامضبوط ہوکرابھراہے۔اس لئے میراوجدان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جونہی امریکا اوراس کے اتحادی افغانستان سے نکلیں گے کشمیرکی آزادی کوکوئی روک نہیں سکے گااوراگر اب اس معاملے کوطاقت کے بل بوتے پردبانے کی کوئی کوشش کی گئی تو بھارت کو کشمیر کے ساتھ بہت کچھ اورچھوڑنا پڑے گاجو یقینا بہت مہنگا سودہ ہوگا۔
کشمیرکی تحریکِ آزادی کودبانے کیلئے ایک اورخدشے کا اظہار بھی تواترکے ساتھ کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران مجاہدین ،دینی جماعتیں اورامریکاباہمی حلیف تھے مگر جونہی امریکا کے مقاصد حاصل ہوئے وہ حلیف سے حریف بن گیا،اس طرح مجاہدین امریکاکے آلہٴ کارکے طوراستعمال ہوئے اورامریکا اپنے مقاصد حاصل کرکے ان تمام مجاہدین کو تنہااورپاکستان پرایک خطرناک بوجھ ڈال کرفرارہوگیا۔ امریکا کی تاریخ سے جو واقف ہیں وہ اس بات سے باخبرہیں کہ امریکا اب تک دودرجن سے زائدملکوں میں جارحیت کا مرتکب ہوالیکن باوجوددنیاکی سپرپاورہونے کے اس کو ہرملک میں عوامی شکست سے دوچارہوناپڑا۔امریکاکچھ دیرکیلئے ضروروہاں اپنے من پسندایجنٹ حکمرانوں کی مددسے اپنی مرضی کے احکامات پرتعمیل کرواتارہالیکن بالآخراس کوشدیدجانی اورمالی نقصان کے بعدہزیمت سے دوچارہوکرنکلناپڑابلکہ ویتنام میں تو اس کے فوجیوں نے ہیلی کاپٹر سے لٹک کرراہِ فراراختیارکیا۔
کئی صاحبِ نظرتو اس بات کی پیش گوئی کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس صدی میں غلبہ عطافرماناہے۔پندرہویں صدی کے بالکل آغازہی میں روس افغانستان آیاتھا جس کی بناء پرافغان جہاد شروع ہوگیاتھا،امریکاکے روس کے خلاف اپنے مفادات تھے اوراس نے اپنے مفادات کے تحت حکومتوں سے ڈیل کی اورافغان جہادمیں اپنے مفادات کی تکمیل میں شامل ہوگیاتھامگروہ ایک پہلوتھالیکن مجاہدین نے جوقربانیاں اخلاص اورجذبے کے تحت دی ہیں انہیں یہ کہناکہ امریکا استعمال کرگیا․․․․․․․یہ ایسے چندلوگوں کی سوچ ہے جواب بھی اپنے مفادات امریکا کی دوستی میں تلاش کرتے ہیں اوروہ اس پہلو کوبھول جاتے ہیں کہ امریکاکے اپنے مفادات ہیں جس کی تکمیل میں وہ کبھی بھی کسی کی قربانی دینے سے گریزنہیں کرتا اوریہی وہ تلخ حقیقت ہے۔کشمیریوں کی قربانیاں بھی ضروررنگ لائیں گی اورتاریخ اس بات پرشاہدہے کہ اگر روس اورامریکا جیسی سپرطاقتیں افغانستان میں نہ ٹھہرسکیں تو پھر بھلا بھارت طاقت کے بل بوتے پرکشمیریوں کو کتنی دیرتک دباسکتا ہے جبکہ وہ خودان دونوں طاقتوں کے مقابلے میں کہیں کمزوراورناتواں ہے۔
یہ ہے دنیا جناب! سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ انسان کر ہی کیا سکتا ہے جناب! جواپنے رب پر بھروسہ کریں انہیں ملتا ہے سکون، انکار کی جرأت اور خوف سے نجات۔بندہ بشر ہے ہی کیا اپنے سائے سے بھی خوفزدہ۔
جی جناب! وقت کا گھوڑا انہیں اپنے سموں تلے روندتا ہوا چلا جاتا ہے اور پھر نعرہ بلند ہوتا ہے ”دیکھو جو مجھے دیدہٴ عبرت نگاہ ہو“۔
کچھ نہیں رہے گا جناب، کچھ بھی نہیں…بس نام رہے گا اللہ کا۔
کہاں سکندر، کہاں ہے دارا، جام کہاں ہے، جم کا
جن کی تیغ سے دیو بھی کانپیں، دل دہلے رستم کا
ان کی راکھ ملے نہ ڈھونڈے، دنیا کاگھر ہے غم کا
ہاشم، جان غنیمت جانو ، نہیں بھروسہ دم کا