ذیشان احمد مصباحی
جزیہ : حقیقت سے افسانے تک
مدرسے کے ہمارے ناسمجھ بھائی اور اسلام کے احمق دوست طالبان گزشتہ دو عشروں سے اسلام، مسلمان ، شریعت، داڑھی اور تہذیب کے لیے آزار مسلسل بنے ہوئے ہیں – نہ جانے کس زہریلے سوتے سے انہو ں نے اپنی فکر کی آب یاری کر رکھی ہے کہ وہ اسلام اور شریعت اسلامی کے نفاذ کے نام پر ہر وہ عمل کرنے کے لیے تیار ہیں جس کی نظیر اسلام کے چودہ سو سالہ ماضی میں نہیں مل سکتی اور جس سے پوری دنیا میں اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف نفرت ،تعصب اور بدگمانی پیدا ہورہی ہے- اسلا م پسندی کے جنون میں ان کی ایسی حماقتوں کی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے جن کی مہنگی قیمت ان کے سمیت تمام مسلمانان عالم کو باربار چکانی پڑی ہے- گزشتہ دنوں ان کی ایک ایسی ہی حماقت میڈیا میں مشہور ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے مقبوضہ پاکستانی علاقوں میں بسنے والے سکھوں پر جزیہ نافذ کیا- ذرائع ابلاغ (اورک زئی ایجنسی وغیرہ)کے مطابق انہوں نے سکھوں سے 5 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا ، سکھوں نے جب اس کی ادائیگی سے انکار کیا تو طالبان نے بعض سکھوں کا اغوا کیا، ان کے گھر منہدم کیے ،بہتوں کوان کے گھروں سے نکال دیا ، ایسے 400 سکھوں کو حسن ابدال کے ایک گرودوارے میں پناہ گزیں ہونا پڑا-اس کے رد عمل میں سکھ کمیونٹی نے پنجاب ، یوپی اور کشمیر کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا اور طالبانیوں کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا -اس دوران میڈیا بھی حسب دستور اپنا کام کرتا رہا-
جزیہ دراصل ایک طرح کا اسلامی ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے لیے لیا جاتاہے-صاحب حیثیت مسلمانوں سے ڈھائی فیصد زکوٰة لی جاتی ہے اور عاقل، بالغ، صحت مند، توانا، آزاد غیر مسلم مردوں پر ان کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جزیہ لیا جاتا ہے – طالبان نے اس مسئلہ کو اٹھا کر اسلام اور مسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں کی- بلکہ پوری دنیا میں بھڑکائی جانے والی نفرت کی آگ کوایندھن فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیا- اس سلسلے میں ان کی نادانیاں حسب ذیل ہیں-
(1 )جزیہ غیر مسلموں سے ان کی جان ومال کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے ، طالبان کی جان و مال خود ہی محفوظ نہیں، وہ حالت جنگ ، بلکہ حالت بغاوت میں ہیں، ایسے میں انہیں جزیہ وصول کرنے کا حق کیسے مل سکتا ہے؟
(2 ) جزیہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے حکام لیتے ہیں- طالبان پاکستان کے حکمراں نہیں بلکہ ایک جنگجو گروپ ہیں-
(3 )آج دنیا کے تقریباً تمام غیر اسلامی ملکوں میں مسلمان مذہبی اقلیت کی حیثیت سے پر امن جی رہے ہیں- ایسے میں مسلم ریاستوں میں غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرنے کی بات براہ راست طور پر غیر مسلم ریاستوں کی مسلم اقلیت کے لیے مصائب کھڑا کرنا ہے- طالبانیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ جزیہ وصول کرکے دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے مصائب خرید رہے ہیں –
جزیہ کے دو قابل اعزاز پہلو
جزیہ کے دو قابل اعزاز پہلو ہیں – ایک اسلام کے حق میں اور دو سرا اسلامی ریاست کے غیر مسلم اقلیتوں کے حق میں- اسلام کے حق میں قابل اعزاز پہلو یہ ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت و سطوت کا ظہور ہوتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے معاوضہ دینا پڑے گا- اسلامی ریاست کے غیر مسلموں کے لیے قابل اعزاز پہلو یہ ہے کہ وہ معمولی رقم اسلامی ریاست کو دے کر (حکومت کو ٹیکس دینا کوئی معیوب یا قابل ذلت بات نہیں، کم سے کم اس جمہوری عہد میں یہ بات سمجھانے کی نہیں ہے) اپنی جان ومال کو مسلمانوں کی جان ومال کے برابر کرلیتے ہیں – انہیں تمام تر مذہبی ، سماجی، انسانی اور مساواتی حقوق مل جاتے ہیں- ان کا مقام اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلموں کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ : ” جس نے کسی ذمی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت د ی اس نے اللہ کو اذیت دی“ (طبرانی)”معاہدہ والے شخص پر جس نے ظلم کیا، یا اس کی حق تلفی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈال دیا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے دن اس شخص کی طرف سے مقدمہ لڑوں گا- “
(ابوداوٴد)
جزیہ کی حقیقت
قرآن مجید میں ہے: ” ان اہل کتاب سے جنگ کرو جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے ، جو دین حق پر قائم نہیں ہیں- یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں اور وہ حالت صغر ( Inferiority ) میں ہوں- “ (توبہ:۲۹)
غیر مسلموں سے جزیہ کے تحت معاہدہ کرلینے کے بعد ان کی جان محفوظ ہوجاتی ہے ، کیوں کہ قرآن مجید میں ہے کہ جب تک یہ جزیہ نہ دیں، اس وقت تک ان سے جنگ کرتے رہو اس لیے جزیہ ادا کرنے کے بعد مسلمان ان سے جنگ نہیں کریں گے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ان کی جان کی حفاظت کریں گے اور شر یعت میں مال اور عزت و آبرو کو جان کے تابع مانا گیا ہے، اس لیے اسلامی ریاست پر ان کی حفاظت بھی لازمی ہوگی-
مذکورہ آیت کے اندر یہ بھی ہے کہ جزیہ ادا کرنے والے حالت صغر (Inferiority ) میں ہوں، یعنی وہ ٹیکس دیں، کوئی انعام یا ہدیہ نہ دیں- آج بادشاہت کا دور ختم ہوگیا ہے- جمہوریت کی دنیا بھر میں بالادستی ہے- بادشاہی دور میں مسلمانوں کے لیے دوسرے ملکوں میں سفر کرنا یاوہاں اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنا یا اسلامی احکام پر عمل کرنا غایت درجہ مشکل تھا- وہ دوسرے ملکوں میں مظلومیت اور Inferiority کے شکار تھے- جمہوریت نے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مسلمانوں کو دنیا بھر میں مساوی شہریت کاحق دلادیا- ایسے میں دینی اخلاقی ، سیاسی اور عصری ضرورت بن گئی ہے کہ مسلمان اپنے اس حق کو قائم رکھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں بھی غیر مسلموں کو مساوی شہریت دیں- آج دنیا کے تمام ملکوں میں یہی رائج ہے- مگر افسوس کہ طالبانی دماغ دینی بصیرت اور عصری آگہی سے بالکل محروم ہے-
کیا جزیہ غیر مسلموں پر زیادتی ہے؟
انسان جس طرح جسمانی طور پر زمانے کے چند لمحوں اور روئے زمین کے بعض حصوں میں محدود ہوتا ہے وہ ذہنی طور پر بھی اتنے ہی زمانے اور خطے کا تجزیہ کرپاتا ہے – وہ ماضی کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور مستقبل سے بھی اسے خاص دلچسپی نہیں ہوتی- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محدود وقت اور ماحول میں جو چیز اسے اچھی لگتی ہے اسے ہی وہ اچھا سمجھتا ہے اور اس کے خلاف ہر چیز پر ناجائز و حرام ہونے کا عقلی فتویٰ دے ڈالتا ہے- موجودہ جمہوری عہد میں جی رہے بہت سے انسان اسی لیے جزیہ کو غلط سمجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ ٹیکس کا موجودہ تصور سب کے لیے یکساں ہے جب کہ بادشاہی دور میں ایسا نہیں تھا- بادشاہی دور میں بادشاہ کے مذہب کے خلاف عقیدہ رکھنے والے یا تو مارے جاتے یا غلام بنا کر رکھے جاتے- ا سلامی دور، بادشاہی دور اور جمہوری دور کے بیچ کا دور ہے اور دونوں سے متوازن ہے- اس نے دوسرے مذہب والوں کو قتل نہیں کیا یا غلام نہیں بنایا بلکہ ایک متعین ٹیکس مقرر کرکے مساوی مذہبی، سماجی، تجارتی شہریت دے دی اور جان ومال کی مکمل حفاظت کی ضمانت لے لی- اس طرح جزیہ غیر مسلموں پر ظلم نہیں بلکہ سراپا انصاف اور رحمت ہے- انصاف سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا ٹیکس مخصوص کرکے مسلمانوں کے بالمقابل انہیں کئی جہت سے آسانیاں فراہم کردی گئیں-
(1 ) زکوٰة تمام مالک نصاب مسلم مردوں اور عورتوں سے لی جائے گی جب کہ جزیہ صرف غیر مسلم مردوں سے لیاجائے گا عورتوں سے نہیں لیا جائے گا-
(2 )جزیہ اس سے وصول کیا جائے گا جو صحت مند ہو،جو ہمیشہ بیمار رہتا ہو، یعنی ایسا غیر مسلم جو جنگ کرہی نہیں سکتا اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا جبکہ زکوٰة کے اندر مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی رعایت نہیں ہے-
(3 )لنگڑے ، لولے، اندھے اور بہت بوڑھے شخص سے جزیہ نہیں لیا جائے گا جبکہ زکوٰة ایسے تمام مسلمانوں سے وصول کی جائے گی-
(4 ) زکوٰة ڈھائی فیصد کے ا عتبار سے ادا کرنی ہوتی ہے، دولت جتنی بڑھتی جائے گی زکوٰة کی رقم اسی فیصدی تناسب سے بڑھتی چلی جائے گی جبکہ جزیہ کے اندر ایسا نہیں ہے- اسلامی ریاست کے ذمیوں کو مالی حیثیت کے اعتبار سے تین خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ان کے لیے رقم متعین کردی گئی ہے وہ رقم بڑھ نہیں سکتی- اس تقسیم کی تفصیل میں علامہ کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ” اہل ذمہ تین قسم کے ہیں، غنی، متوسط اور فقیر- غنی کوایک سال میں 48 درہم (164.9664 گرام چاندی=تقریباً 48,00 روپے)متوسط کو 24 درہم (73.483 گرام چاندی =تقریباً 17,00 روپے )اور کام کاج کرنے والے عام آدمی کو12 درہم (36.4716 گرام چاندی= تقریباً 8,00 روپے)ادا کرنا ہوگا- (بدائع الصنائع)
جو شخص 200 درہم (612.36 گرام چاندی= تقریباً 14,000 روپے) کا مالک نہ ہو وہ فقیرہے اور جو 200 درہم کا مالک ہو وہ متوسط ہے اور جو چار ہزار درہم (1224.72 گرام چاندی = تقریباً 28,000 روپے)یا اس سے زاید کا مالک ہو وہ غنی ہے- اور ایک قول کے مطابق جو 10,000 درہم(3061.8 گرام چاندی= تقریباً 70,000 روپے)یا اس سے زائد کا مالک ہووہ غنی ہے-
(5 )اسلامی ریاست کا غیر مسلم اپنامخصوص ٹیکس ادا کرکے راحت پالیتا ہے جب کہ مسلمان کو معدنیات ، زرعی پیداوار، جانور، سونا چاندی اور کرنسی اور مال تجارت جیسی تمام چیزوں کی الگ الگ زکوٰة نکالنی پڑتی ہے- ان تفصیلات کو نظر میں رکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلامی ریاست میں جزیہ کا قانون غیر مسلموں پہ زیادتی ہے؟
حرف آخر
آج مسلم اہل علم نے یوروپی وامریکی ممالک کو دارالدعوہ، دار الامن اور پوری دنیا کو دار العہد قرار دیا ہے – بادشاہی دور کا خاتمہ ہوگیا ہے، ہر جگہ جمہوریت کی بالادستی ہے، طرفہ یہ کہ دنیا ایک عالمی گاوٴں کی شکل اختیار کرگئی ہے- اب جس ملک میں بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے اس سے ساری دنیا متاثر ہوتی ہے- عالمی رائے عامہ کو ہموار کیے بغیر، یا کم از کم بحث و نظر اور مکالمے سے تفہیم وتوضیح کی کوشش کیے بغیر، اپنی مقبوضہ ومغلوبہ زمین پر کوئی شخص/ حکمراں بھی من مانی کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا، سوائے اس کے کہ وہ جنونی ہو، نہ اسے اپنی جان ومال اور عزت نفس کی فکر ہو اور نہ دوسروں کی- ایسے میں اسلامی احکام اور شرعی اصطلاحات کے استعمال ونفاذ میں اعلیٰ بصیرت، دوربینی وحالات فہمی کی ضرورت ہے- مسلمانوں کو اسلام کی محبت کی دعا کرنی چاہیے- اسلام کے نفاذ کی تمنا کرنی چاہیے، مگر اس طور پر کہ اسلام کے حق میں راہیں ہموارہوں، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور صداقت پر مخالفین نے جو گرد جما رکھی ہے وہ صاف ہو- نہ کہ اس طور پر کہ اسلام کی راہیں مسدود تر ہوتی چلی جائیں اور دنیا کے ایک گوشے میں من چاہے اسلام کا نفاذ کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مصائب میں جھونک دیا جائے اور اسلام کے خلاف عالمی ذہنیت کو تیار کرنے کا نا خوشگوار فریضہ انجام دیا جائے-