Home / Socio-political / جموں و کشمیر میں درپردہ جنگ کو جاری رکھنے کی آئی ایس آئی کی کوشش

جموں و کشمیر میں درپردہ جنگ کو جاری رکھنے کی آئی ایس آئی کی کوشش

پاک مقبوضہ کشمیر سے دو افراد کی اچانک گمشدگی کے واقعہ نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر میں درپردہ جنگ کو اپنی پوری حمایت دے رہا ہے۔ماضی کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول سے ملحق پاک مقبوضہ کشمیر کی نیلم وادی کو ہندوستانی سرحد میں در اندازی کرنے کے اڈّہ کے طور پر ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے تعاون سے وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی عام طور پر چند نوجوانوں کو گمراہ کرکے پہلے انھیں دہشت گردی کی ٹریننگ دیتی ہے، اس کے بعد ان دہشت گردوں کو نیلم وادی میں جمع کیا جاتا ہے، تاکہ موقع ملنے پر انھیں ہندوستانی ریاست جموں کشمیر میں داخل کرایا جاسکے اور پھر خون کی ہولیاں کھیلی جائیں۔ اس کے لیے پاکستانی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پہلے اکثر پاک مقبوضہ کشمیر کے مقامی باشندوں سے بھی مدد حاصل کیا کرتی تھیں۔ چونکہ یہاں کے باشندے مشکل ترین پہاڑی اور جنگلی راستوں سے پوری طرح واقف ہوا کرتے تھے، لہٰذا دراندازوں کی لائن آف کنٹرول تک رہنمائی کرنے کے لیے ان کا استعمال بطور گائڈ کیا جاتا تھا۔ اس کام کے لیے پاکستانی ایجنسیاں انھیں کافی رقم بھی ادا کرتی تھیں۔ لیکن بعد میں حالات کے معمول آنے پر ان مقامی باشندوں نے گائڈ کا کام چھوڑ دیا کیوں کہ افغانستان اور پاکستان کے دیگر محاذ پر وہاں کی فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے ایسے بہت کم دہشت گرد بچے تھے جو ہندوستان میں دراندازی کے لیے نیلم وادی کا رخ کریں۔ صورت حال کے بدلنے کی وجہ سے پاک مقبوضہ کشمیر کے باشندے بھی راحت محسوس کر رہے تھے، کیوں کہ دراندازی کی کوششوں کے دوران ہندوستانی فوج کی طرف سے اکثر ان کے علاقوں میں گولہ باری ہوا کرتی تھی۔ 

لیکن حالیہ واقعہ اس لیے چونکا دینے والا ہے کیوں کہ پاکستانی ایجنسیاں ایک بار پھر پاک مقبوضہ کشمیر کے باشندوں سے وہی پرانا کام لینا چاہتی ہیں، اور ان کے منع کرنے پر انھیں زبردستی اغوا کرکے اس کام پر مامور کر رہی ہیں۔ حال ہی میں اغوا کیے گئے افراد کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس سے تعلق رکھنے والے چند اہل کاروں نے ان لوگوں کا اغوا گذشتہ 25 مئی کو نیلم وادی کے فلکان گاوں میں واقع ان کے گھر سے کیا ہے، کیوں کہ یہ لوگ پہلے گائڈ کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ اس کہانی سے 720 کلومیٹر لمبی لائن آف کنٹرول سے ملحق علاقوں میں رہنے والے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن ایسا پہلی بار ہے جب یہاں کے مقامی باشندے اپنے دل کی بات بتانے میں کوئی خوف و خطر محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب فلکان گاوں کے باشندوں نے اش مقام سے مظفر آباد کو جانے والی سڑک کو جام کردیا۔ اس سڑک پر ہونے والی آمد ورفت کو روکنے کا فیصلہ انھوں نے تب کیا جب مقامی انتظامیہ نے یہاں کے دو مقامی باشندوں کی گم شدگی کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا، حالانکہ انھوں نے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 10 جون تک اس گم شدگی کا پتہ لگالیں گے۔ احتجاج کرنے والے لوگوں نے اس سڑک کو تبھی آزاد کیا جب مقامی اسسٹنٹ کمشنر اور سینئر پولس اہل کاروں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملہ کی تفتیش اگلے ایک ہفتہ کے اندر مکمل کر لیں گے۔ لیکن مقامی باشندوں نے جاتے جاتے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر پولس والے اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتے اور گم شدہ افراد کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں، یا اگر وہ مر چکے ہیں، تو ان کی لاشیں اگر انھیں نہیں سونپتے ہیں، تو وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کر دیں گے۔

 

 

فلکان گاوں سے اغوا کیے گئے دونوں افراد کا نام محمد اقبال اور محمد سلیم ہے اور یہ دونوں اب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ پہلے کبھی یہ نیلم وادی میں گائڈ کا کام کیا کرتے تھے اور جنگجووں کو سرحد پار کرانے میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ محمد اقبال کی بیوی، زلفن بی بی جو پانچ بچوں کی ماں ہے، نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار کو بتایا کہ ”ایجنسی (یہاں کے مقامی باشندے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو ’ایجنسی‘ کہہ کر پکارتے ہیں) کے دو لوگ 25 مئی کو ہمارے گھر آئے تھے اور انھوں نے میرے شوہر، محمد اقبال کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن میرے شوہر نے ان سے کہا کہ وہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھ کی روشنی بھی کمزور ہو چکی ہے، لہٰذا وہ ان مشکل ترین پہاڑی علاقوں میں نہیں جا سکتے جہاں وہ پہلے جایا کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے ہمیں دھمکی دی کہ اگر ہمارے شوہر ایسا نہیں کرتے ہیں تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بعد میں شام کے وقت یہی اہل کار ایک بار پھر ہمارے گھر آئے اور انھوں نے ہمیں اطلاع دی کہ میرے شوہر لائن آف کنٹرول کی طرف گئے تھے اور تب سے انھوں نے ان سے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا ہے۔“ 

 

ایک دوسری خاتون، تسلیم بی بی نے بھی اپنے شوہر، محمد سلیم کے بارے میں ایسی ہی کہانی سنائی جسے آئی ایس آئی کے یہی دونوں اہل کار گھر سے لے کر گئے تھے۔ بقول تسلیم بی بی، ”وہ چاہتے تھے کہ ہمارے شوہر مجاہدین (جنگجووں) کو (ہندوستانی) سرحد تک لے کر جائیں۔“ 

 

اقبال اور سلیم کا واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب 2 جون کو نیلم وادی کے فلکان گاوں کے باشندوں نے اش مقام سے مظفرباد تک جانے والی سڑک کو بند کردیا۔ یہاں کے باشندوں نے مقامی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملہ کی پولس انکوائری کرائیں، لیکن سیکورٹی ایجنسیوں پر یہاں کی پولس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس بات سے یہاں کے باشندے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ دراندازی کی ان کوششوں کی وجہ سے ہی اس علاقہ میں ہندوستانی مسلح افواج کی جانب سے اکثر گولہ باری بھی ہوا کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس کے اہل کاروں نے ان دونوں افراد کا اغوا آخر کیوں کیا؟ 

 

اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے ان اہل کاروں کو جنگجووں کے گروپ کو ہندوستانی کشمیر تک پہنچانے کے لیے بھاری رقم ادا کی جاتی ہے، لہٰذا وہ اس کام میں مقامی باشندوں کی مدد اس لیے لیتے ہیں کیوں کہ وہ یہاں کے مشکل ترین راستوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں، اس کے لیے وہ انھیں تھوڑی بہت رقم بھی پیشگی کے طور پر دے دیتے ہیں لیکن بعد میں پوری رقم دینے سے مکر جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ 2004 میں جب پاکستان نے جنگجووں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی تو گائڈ اور پورٹر کا کام کرنے والے یہاں کے بہت سے مقامی باشندے دوسرے پیشوں میں لگ گئے تھے اور وہ دوبارہ اس کام میں واپس لوٹنا نہیں چاہتے تھے۔ لہٰذا آئی ایس آئی کے اہل کار اب ان کا اغوا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ان سے یہ کام زبردستی کرایا جاسکے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر جنگجو چونکہ غیر کشمیری ہوتے ہیں ، لہٰذا انھیں کسی ایسے آدمی کی مدد درکار ہوتی ہے جو انھیں بحفاظت لائن آف کنٹرول کے اُس پار پہنچا سکے۔ 1990 کے عشرے میں لائن آف کنٹرول سے ملحق مقبوضہ کشمیر کے سیکڑوں گاوں کی گزر بسر کا ذریعہ گائڈ اور پورٹر کے پیشہ سے حاصل ہونے والی آمدنی ہوا کرتی تھی۔یہ آمدنی مئی اور ستمبر کے مہینوں میں اچھی خاصی ہو جایا کرتی تھی کیوں کہ انہی مہینوں میں جنگجو سرحد پار کرکے ہندوستانی ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہونے کی زیادہ تر کوشش کیا کرتے تھے۔ لیکن انھیں کافی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا کیو ںکہ ہندوستانی مسلح افواج دراندازوں کو سرحد کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے اکثر نیلم وادی کے ان گاوں میں گولہ باری کیا کرتی تھی، جس سے ان کی دکانیں، مکانات، سڑکیں، صحت اور تعلیم سے متعلق بنیادی ڈھانچے تباہ ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن نومبر 2003 میں یہاں کے مقامی باشندوں نے اس وقت راحت کی سانس لی جب ہندوستان اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کردیا اور امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ جنگ بندی اب بھی قائم ہے، لیکن 2008 کے بعد سے پاک مقبوضہ کشمیر سے اس قسم کی کئی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے ہند مخالف سرگرمیاں پھر سے تیز کر دی ہیں۔ ان خبروں کی تصدیق مئی 2009 میں اس وقت ہوگئی جب نیلم وادی میں واقع بملا کے پہاڑی علاقوں میں پہاڑ ٹوٹنے کے سبب 12 افراد کی موت ہوگئی۔ بعد میں سرکاری ذرائع سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ مرنے والے تمام لوگ جنگجووں کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو سرحد پار کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول کی طرف جا رہے تھے۔ جون 2009 میں بی بی سی اردو سروس نے بھی پولس کی ایک خفیہ رپورٹ کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ جنگجوو¿ں نے ایک بار پھر پاک مقبوضہ کشمیر میں اپنے مراکز کھولنے شروع کر دیے ہیں۔ اس کی واضح مثال اگست 2008 میں پاک مقبوضہ کشمیر کے مقامی باشندوں کے ذریعے اش مقام میں نکالی جانے والی احتجاجی ریلی تھی جس کے ذریعے وہ پاکستانی حکومت پر یہ دباو بنانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر ان کے علاقوں میں جنگجوو¿ں کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوتی ہیں تو ہندوستان کی جانب سے گولہ باری کا سلسلہ پھر شروع ہو جائے گا جس سے ایک بار پھر انھیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ فلکان گاوں کے باشندوں کے ذریعے 2 اور 10 جون کو احتجاج کرنے کا نیا واقعہ ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں جموں و کشمیر میں درپردہ جنگ کو جاری رکھنا چاہتی ہیں جو ہندوستانی حکومت کے لیے واقعی تشویش کا باعث ہے۔ 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *