Home / Socio-political / جنوبی ایشیا میں تفوق کی جنگ

جنوبی ایشیا میں تفوق کی جنگ

          عالمی سطح پر پہلے ممالک  اپنی شناخت اور تفوق کے لیے کوشاں رہتے تھے حالانکہ آج بھی دنیا کے ممالک اسی حوالے سےکوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کوشش ہو رہی ہے وہ یہ کہ کئی ممالک مل کر اپنی شناخت قائم کریں اور عالمی سطح پر  اقتصادی اور سیاسی طور پر ابھر کر سامنے آسکیں ۔ اس کوشش کے حوالے سے نشیب و فراز کی ایک طویل تاریخ بھی ہے مثلا ً  یو ایس ایس آر ( (USSR جو اب صرف روس بن کر رہ گیا ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے (USA) اب اکیلے  نئی اور بڑی  طاقت بن کر ابھرا ، اسی طرح یوروپی ممالک کی اتحاد بھی امریکہ کے بعد ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے ۔ دنیا میں سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے  اس کے منصوبے اثر انداز ہورہے ہیں۔ اسی طرح مسلم ممالک کا بھی ایک اتحادOIC ہے ۔ لیکن خود اس تنظیم پر اس کے ممبر ممالک کے اثرات کے بجائے امریکہ کے اثرات زیادہ ہیں ۔ ان کے فیصلے اور منصوبے دنیا پر  کم ہی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس پس منظر میں ایشا میں اب تک وکئی مضبوط اور موثر اتحا د  سامنے نہیں آیا ہے ۔ البتہ جنوب ایشیائی ممالک میں اپنے تفوق اور طاقت کو ثابت کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیٕں۔ اس میں چین کا نام سر فہرست ہے۔یہ بات اگرچہ صحیح ہے کہ چین ایشیائی ممالک میں اقتصادی طور پر بہت ترقی  کررہا ہے اسی مناسبت سے اس کی فوجی طاقت اور اسلحہ سازی کی صلاحیت بھی تیزئ سے بڑھ  رہی ہے۔  لیکن یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے کہ کوئی ملک اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھائے ۔ لیکن معیوب یہ ہےکہ کوئی ملک اپنی طاقت کے نشے میں کسی ملک کی سالمیت اور شناخت کو ٹھیس پہنچائے۔ چین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ ہندستان کے مقابلے کرتا رہا ہے اور ابھی بھی اسی میں کام میں مصروف ہے ۔ حالانکہ چین کی ان حرکتوں کو ہندستان نےانتہائی بر د باری اور تحمل کے ساتھ دیا ہے ۔ ابھی بھی ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں علاقائی ممالک کی کانفرنس کے موقع ہندستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے تحفطات سے آگاہ کر دیا ہے لیکن چین نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے ۔چین کبھی اروناچل پردیش کے حوالے سے  اور کبھی کشمیر اور  سر حدی حوالے سے بین الاقوامی  اصولوں کی خلاف ورزی کرتا رہاہے ۔ مگر چونکہ چین کے  ارداے  صاف نہیں ہے اور نیت میں کھوٹ ہے اس لیے وہ ایسا برتاو کر رہا ہے جیسے اس  اعتراضات کا کوئی اثر ہی نہیں پڑتا۔

          گذشتہ کئی برسوں سے چین پاکستان سے نزدیک آرہاہے ، یہ کسی بھی ملک کی اپنی  خارجہ پالیسی کا حصہ ہے وہ جو چاہے کوئی ملک اس پر معترض کیوں ہو ؟ لیکن اگر کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے کسی ملک پر آنچ آئے تو قابل اعتراض ہوتا ہے ۔ چین اور پاکستان  مل کر ہندستان کے ساتھ ایسی ہی شرارتیں کر رہے ہیں جو قابل اعتراض ہیں ۔پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ہندستان اس کا جانی دشمن ہے اس لیے اسے سبق سیکھانا چاہیے ، لیکن اس کے پاس  نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی صلاحیت ہے  اس لیے وہ چین کے ساتھ مل کر نئے نئے مسائل کھڑا  کر رہا ہے  خاص طور پر کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ۔ چین بھی چونکہ جنوبی ایشیا میں اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر کے تفوق  حاصل کرنے کی فکر میں ہے اس لیے کبھی گلگت اور بلتستان اور کبھی اروناچل پردیش اور اکثر لداخ کے علاقے میں سرحدی قوانین کی خلاف  ورزی کرتا رہاہے ۔ لیکن کبھی یہ سوال بھی تو اٹھے گا کہ آخر کب تک ؟ جب بات یہاں تک پہنچے گی تو پھر  پورے ایشیائی ممالک  کا امن و سکون تباہ ہوگا۔ اس لیے چین کو چاہیے کہ اپنی طاقت کے زعم میں منمانی نہ کرے ۔ حالانکہ کہ اس کے رویے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے منصوبے اورعزائم کچھ اور ہیں ۔ اسی لیے آج سے ایک سال قبل بھی  جب ہندستان  نے چین سے کہا تھا کہ وہ اپنی اس پالیسی کو تبدیل کر دے۔چین نے ہندستانی  درخواست پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ابھی تک اپنی پالیسی میں تبدیلی کا کوئی اشارہ دیا ہے۔نہ صرف اتنا ہی ہوا بلکہ گذشتہ سال چین نے حال میں کشمیر کے سوال پر نہ صرف اپنی پالیسی پر کافی زور دینا شروع کیا ہے بلکہ اس موقف میں بظاہر مزید سختی آئی ہے۔گزشتہ اگست میں اس نے ہندستانی  فوج کے ایک جنرل کو اس بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ کشمیر کے آپریشن کے بھی انچارج ہیں جو بقول اس کے ” ایک متنازعہ علاقہ ہے۔”ہندستان  نے بیجنگ کے اس فیصلے کے خلاف چینی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔ ہندستان  اور چین کے درمیان کئی امور پر سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چین ہندستان  کے زیرانتظام کشمیر کو مختلف مسئلہ مانتا ہے اس لیے وہ کشمیر کے شہریوں کو ان کے ہندستانی  پاسپورٹ پر ویزا دینے کے بجائے ایک علاحدہ کاغذ پر ویزا جاری کرتا ہے۔ بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا کشمیریوں کے لیے الگ نوعیت کا ویزا جاری کرنے کا سوال دونوں وزراء اعظم کی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہے تو ترجمان نے کہا ” جہاں تک ہندستانی  کشمیر یوں کو ویزا دینے کا سوال ہے تو ہماری پالیسی بدستور بر قرار ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔”لیکن وزارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ”چین کو یہ واضح طور پر بتایا جا چکا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور چین کو بلا لحاظ نسل و سکونت، سبھی کے لیے ایک جیسا ویزا جاری کرنا چاہئے۔” لیکن  چین اس ہفتے کی ملاقات کے بعد بھی اپنے موقف میں تبدیلی لانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے ۔

چین کی انھیں رویوں کو دیکھتے ہوئے ہندستانی  فوج کے سربراہ نے دلی میں ’ہندستانی  فوج، ابھرتے ہوئے رول اور ذمہ داریوں‘ کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کے دوران یہ باتیں کہیں۔ان کا کہنا تھا ’ہمارے لیے دو مسئلے ہیں، ایک پاکستان کی صورتحال کی وجہ سے جہاں حکمرانی کا فقدان ہے، جہاں کچھ دہشت گردوں کو ایک حد تک حمایت فراہم کی جارہی ہے اور جہاں داخلی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔‘چین بھی اقتصادی اور فوجی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے۔ اور گرچہ چین کے ساتھ اعتماد کو فروغ دینے کے لیے اقدمات پر عمل کیا جا رہا ہے، لیکن پھر بھی ہمارے اور چین کے درمیان سرحد پر تنازعہ ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کے ساتھ ساتھ اس کے ارادوں پر بھی نگاہ رکھی جانی چاہیے۔جنرل سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کو اس وقت تک تشویش رہے گی جب تک سرحد پار دہشت گردی کا انفراسٹرکچر برقرار ہے۔ساتھ ہی چین کے ذریعے شروع کیے گئے سرحدی تنازعے اور اب کشمیر جیسے سوال پر چین کے سخت موقف سے  ہندستان کو تشویش میں ہے۔ لیکن ہندستانی  قیادت نے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ، تحمل اور مصلحت کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔  اب اس پر نگاہیں کہ ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں علاقائی ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ہونے والے ملاقات میں چین کے وزیر اعظم نے ہندستان  کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ چین کے وزیر اعظم وین جیاباؤ نے رواں سال کےدوران ہی ہندستان  کا دورہ کریں گے۔اس موقعے چین کے وزیر وین جیا باؤ نے ہندستانی  وزیر اعظم منموہن سنگھ سے کہا ہے کہ دنیا میں اتنی وسعت موجود ہے کہ انڈیا اور چین دونوں ترقی کر سکیں۔ چین کی حکمران جماعت کے ترجمان اخبار چائنا ڈیلی نے اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وین جیاباؤ اس برس کے آخر تک ہندستان  کا دورہ کر سکتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق چینی وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی حیثیت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس لیے بھی یہ دورہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ  آئندہ مہینے کے اوائل میں صدر براک اوباما ہندوستان کے دورے پر آرہے ہیں امید  یہ بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ ہندوستانی قیادت سے بات چیت کا ایک اہم حصہ چین پر بھی مرکوز ہوگا۔ چین بھی اوباما کے نئی دلی کے دورے پر نظر مرکوز کیے ہوئے ہے۔حالانکہ اوباما کے دورے سے ہندستان کو قطعی یہ نہیں چاہتا کہ وہ چین کے مقابلے میں امریکہ  کو اثرو رسوخ کو استعمال کرے ۔ ہندستان  دنیا میں اپنی شناخت اور تفوق تو چاہتا ہے لیکن کسی ملک کی دلآزاری  کر کے نہیں بلکہ ہندستان  پورے خطے میں امن و سکون کیبحالی کے کوشش کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *