Home / Articles / جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات

جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات

جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے خطرات دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں،یہ وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اس پر وقت رہتے اگر توجہ نہیں دی گئی تو یہ نہ صرف جنوبی ایشیا کو اقتصادی،معاشی اورسیاسی اعتبار سے کمزور کر دے گی بلکہ اس کے اثرات دنیا کے دیگر حصوں پر بھی مرتب ہوں گے۔اس لیے یہ مسئلہ وقت کا سب سے زیادہ غور طلب مسئلہ ہےاور اس پر جتنی جلدی توجہ دی جائے اور اس کے خاتمے کے لیے جس قدرموثر اور کار گر حکمت عملی وضع کی جائے وہ پورے خطے کے لیے مفید ہوگا۔حالانکہ اس سلسلے میں نہ صرف اس خطے کے لوگ ہی کوشاں  نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کی اور بالخصوص طاقتور ممالک کی نگا ہیں بھی لگی ہوئی ہیں ، کیونکہ عالم کاری اور صارفیت کے دور میں یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے کہ یہاں شانتی ہوتو اور بھی ممالک کو اس بڑے بازار سے فائدے ہوں گے۔اور خطے کو بھی یوروپی ممالک کی طرح اہمیت مل سکے ۔لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کا نیٹ ورک ہے کیونکہ انھوں نے نہ صرف جنوبی ایشا کو بلکہ ساری دنیا کو اپنے خوف و ہراس میں مبتلا کررکھا ہے ۔ ان کے دہشت گردانہ واقعات سے جہاں انسانیت کا نقصان عظیم ہوا ہے وہیں اقتصادی طور پر جنوبی ایشا کو زبردست نقصان ہوا ہے ۔اس خطے میں امن اسی وقت ہو سکتا ہے جب طالبان کا پورے طور پر صفا یا ہو جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان جس تنظیم کا نام ہے اس کے منشور میں سوائے بربادی اور تباہی کے کچھ نہیں جن مخصوص حالات میں ان کا فروغ ہوتا ہے وہ در اصل اشتعال اور جذباتی نعروں کا دور تھا ۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر انھوں نے اسے  جہاد سے جوڑ کر عوامی ہمدردی حاصل کر نے کی کوشش کی ، اور انھیں یہ ہمدردی ملی بھی ۔لیکن اب جیسے جیسے وقت گزر رہاہے ان کے کالے کارنامے سامنے آرہے ہیں اور اب لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ طالبان نے جہاد کے نام پر قتال کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ماضی کے وہ تلخ حقائق جو افغانستان میں سامنے آئے اور جو کچھ پاکستان میں ہوا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے وہ تنظیم جو اسلام کا نام لے کر پنپی اس نے اسلام مخالف کام کے سوا کچھ نہیں کیا ۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سینکڑوں لڑکیوں کے اسکولوں کو نذر آتش کیا اور عوام میں ایسا خوف پید ا کیا کہ والدین بچیوں کو اسکولوں میں بھیجنے سے ڈرنے لگے ۔ابھی سوات میں ان کے  خلاف آپریشن جاری ہے تب بھی ان کی ہمت و حوصلے کو دیکھیں کہ انھوں نے ان علاقوں سے ہٹ کر پشاور جیسے شہروں کو نشانہ بنایا اور وہاں بھی کئی اسکولوں کو بم اڑا دیا۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات اگر مان بھی لیں کہ وہ اسکو ل کے خلاف ہیں ، تو اس کا کیا جواز ہے کہ انھوں نے مولانا نعیمی کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ انھیں شہید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مدرسوں کے بھی خلاف ہیں ۔

طالبان جس کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان  تک محدود ہے ، یہ وہیں کی تنظیم ہے اور اسی ملک کی سیاست سے اسے سروکار ہے ۔لیکن سچائی یہ ہے کہ روز اول سے طالبان کو پاکستان کی سر زمین اپنی کارکردگی کے لیے میسر تھی ۔ اس نے یہاں تمام طرح کی سہولیات حاصل کیں اور کئی ذیلی تنظیموں سے روابط پید ا کیے ۔ان تنظیموں میں  لشکر طیبہ ، لشکر جھنگوی،حزب المجاہدین ، اور کئی دیگر تنظیموں سے مستقل رابطے رہے یہاں تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے بھی اس کے روابط کے ثبوت ملے ہیں پاکستان فوج میں بھی کئی ایسے اہم عہدوں پر فائز آفیسرز رہے ہیں جنھوں نے طالبان او ر دیگر جہادی تنظیموں کی مدد کی ہے  ۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے اور کئی ممالک ہیں جو ان کی خفیہ مدد کرتے ہیں ورنہ ان کے پاس اسلحوں کا اتنا بڑاذخیرہ کہاں سے آتا ؟ رہی بات پاکستان کی تو خود جنرل مشرف ، نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کا انھوں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بڑھاوا دیا ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کی سرزمین کو ہی طالبان نے تربیت کے لیے استعمال کیا ۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بے شمار تربیتی کیمپ قائم کیے گئے ۔ اس پر عالمی برادری نے اعتراض بھی کیا لیکن پاکستان کی کسی حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی طاقت بڑھانے کے بعد انھوں نے آہستہ آہستہ پاکستان پر قابض ہونے کی کوشش کی تو  امریکہ نے تمام بین الاقوامی اور سرحدی قوانین کو توڑ کر پاکستان میں قائم طالبان کے اڈوں پر فضائی حملے شروع کیے جو اب بھی جاری ہیں ۔ اس کے بعد مجبور ہوکر پاکستان پہلے تو ان سے سوات میں معاہدہ کیا اور جب بات نہیں بنی تو ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا ۔جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ پاکستان کی تاریخ میں نقل مکانی کا یہ سب سے بڑ ا المیہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک مہینے سے ان کے خلاف آپریشن جاری ہے مگر اب تک ان کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے اس کا مطلب یہ ہےکہ ان کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے جسے کبھی حکومت پاکستان نے تسلیم نہیں کیا ۔اگر ابتد ا میں ہی ان کے خلاف کاروائی ہوئی ہوتی تو شاید آج یہ تباہی و بربادی کا منظر سامنے نہیں آتا ۔ لیکن اب بھی حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سنجیدگی سے اپنے ملک کی ترقی کے لیے اور خطے میں امن بحالی کے لیے ان کے خلاف کاروائی کو سنجیدگی سے مکمل کرے ۔اور امریکہ کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ برسوں سے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ جاری ہے مگر اب تک امریکہ اس جنگ میں ناکام رہا ہے ۔آج بھی طالبان افغانستان میں موجود ہیں اور امریکہ کے لیے باعث پریشانی بھی ہیں ۔ اس لیے امریکہ کو بھی نئی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو بھی خلوص نیتی سے ان  کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے ۔کیونکہ خون خرابے اور دہشت سے نہ تو خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے ترقی ہوسکتی ہے ۔

 

 

             

 

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *