Home / Articles / پاکستانی سیاست کی کجرویاں

پاکستانی سیاست کی کجرویاں

 

            اسے اتفاق کہیں یا  صورت حال کی سنگینی کہ وقفے وقفے سے  پاکستانی سیاست  کی راہ سے گزرتے ہوئے  عہدہ  عالیہ پر متمکن  حکمرانوں نے خود اپنی سیاست اور جمہوریت  سے غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ۔ اس اظہار کیا ہے ۔ یہ اظہار درا صل  پاکستان کی کمزور جمہوریت  کی کی غماز ہے ۔ بات  صرف یوسف رضا گیلانی  کے بے اطمینانی کے اظہار پر ختم نہیں ہوتی  یہ سلسلہ  قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے ۔ کبھی کسی حکومت  کی کارکردگیوں سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس جمہوری ملک کا نظام کیا ہے ۔جس دور میں جیسا حکمراں رہا ہے وہاں  کی جمہوریت اسی کے زیر نگیں رہی ۔ سچائی یہی کہ پاکستان کی جمہوریت ہمیشہ پا بہ زنجیر رہی ہے۔یہاں جمہوریت کو کبھی کھلی ہو ا میں سانس لنیے کو موقع نہیں ملا ۔کیونکہ اگر کسی دور میں وزیر اعظم مضبوط رہا تو ایسا لگا کہ یہاں صدارتی نظام نہیں ہے  لیکن ایسا کم ہوا کہ کسی بھی دور میں پاکستان کی جہوریت میں کوئی وزیر اعظم بہت مضبوط رہا ہو۔ چند ناموں کو چھوڑ دیں تو پوری پاکستانی جمہوریت کی تاریخ یہ ہے کہ  ہمیشہ صدر ہی پاور فل رہا ہے۔ جب کہ پاکستانی جمہوریت اپنی نوعیت کے اعتبار سے  ایسا نہیں ہے ۔ زیادہ تراختیارات وزیر اعظم کے پاس ہونے چاہیے مگر گذشتہ دس برہ برسوں کی حالات پر نظر رکھیں تو معلوم ہو گا کہ  صدور پاکستان نے ہی کمان سنبھال رکھی ہے۔جنرل مشرف کا دور رہا ہو یا اب آصف زرداری کا دور ۔ تمام صدور نے ملک کو اپنا یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے۔جنرل مشرف کے دور کا ذکر اگر نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس دور کے بارے میں یہی جانا جاتا ہے کہ یہ  محض دکھاوے کے لیے جمہوریت تھی ورنہ حقیقتا اور اصلا یہ فوجہ حکومت  تھی ۔ لیکن آصف زرداری کے بارے میں کیا کہیں گے جو نہ تو فوجی عہدے پر کبھی رہے ہیں اور نہ ملک کی سیاست میں ان کی کوئی قربانی اور جانفشانی رہی ہے ۔ یہ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت نے انھیں  یہ عہدہ نعمت غیر مترقبہ کے طور پر عطا کیا ہے ۔ لیکن انھیں کیا ہو اکہ وہ بھی اس تخت شاہی پر بیٹھ کر ملک اور جمہوریت کو یرغمال بنانے کی فکر  میں لگے ہوئے ہیں ۔

            آصف زرداری  کی سیاسی بساط بہت کشادہ اور وسیع نہیں ہے ۔ بے نظیر کے بعد پی پی پی  انھیں ورثے میں ملی ، بڑی چالاکی سے انھوں نے محترمہ کی وصیت کے مطابق اپنے بیٹے کو  یہ وراثت سونپی اور خود اس کے ساربان بن گئے ۔ یہ ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی تھی ۔ ملک میں عام انتخابات میں بے نظیر سے ہمدردی اور ترحم کے جذبے نے  پی پی پی کو بڑی کامیابی دلائی اور نواز شریف کی تمام تحریکیں دھری کی دھری رہ گئیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ نواز شریف کی حمایت سے انھوں نے پی پی پی کی حکومت بنائی ۔ لیکن نواز شریف کے سیاسی تجربے سے انھیں کہیں نہ کہیں خوف تھا ۔ صرف نواز شریف سے ہی نہیں بلکہ بے نظیر کے سب سے قریبی وفادار کو بھی انھوں نے حکومت سے دور رکھ کر اپنے وفادار یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب کیا ۔اس سے عوام میں یہ تاثر دیا کہ آصف زرداری کو تخت و تاج سے کوئی  محبت نہیں اور نہ اس کی لالچ ہے ۔ کیونکہ بعض حلقوں میں یہ خبر بھی گرم تھی کہ وہ خود بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں ، لیکن ایسا نہ کر کے ایک مثبت پیغام پاکستان کے عوا م کے درمیان دیا۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے  وہ صدارت کے عہدہ عالیہ پر فائز ہوگئے۔ اس سے انھوں نے نواز شریف کی تمام سیاسی چالوں کو مات  دے دی ۔ اس کے بعد بتدریج یوسف رضا گیلانی کا قد چھوٹا ہوتا گیا۔

            یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یہ کہا جات اہے کہ وہ پڑھے لکھے اور سمجھدار شخص ہیں ۔ ان کے اندر سیاسی سمجھ بھی ہے لیکن وفاداری نبھانے کی خاطر انھیں بھی مہرہ بننا پڑا ۔ لیکن اب آہستہ آہستہ وہ اس تنگ  گھیرے سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے ایک سال قبل سے وہ کچھ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ موجودہ ملکی نظام سے خوش نہیں ہیں ۔جب پنجاب حکومت کو بر خواست کیا گیا تب بھی وہ ناخوش تھے اسی لیے ان کے بیانات اور آصف زرداری کے بیانات میں اس وقت صاف تضاد نظر آیا ۔ اور انھوں نے کئی بار نواز شریف کے متعلق باتیں کہہ کر اور ان سےملاقات کر کے یہ تاثر دیا کہ بہ حیثیت وزیر اعظم وہ کچھ ایسے اقدامات بھی کر سکتے ہیں جو صدر کے منشا کے خلاف ہوں ۔افتخار چوہدری  کی حمایت میں جلسے اور دھرنے کے وقت بھی یہ اختلافات دیکھنے کو ملے اور ابھی تو انھوں نے جو باتیں کی ہیں وہ  تو اس کے غماز ہیں کہ وہ ملک کے حالیہ نطام سے کسی بھی طرح خوش  نہیں ہیں ۔انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتویں کانووکیشن سے اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے36سال بعداُن تمام سیاسی مصالحتوںکے بتوں کو پاش پاش  کرتے ہوئے اِس حقیقت کابرملا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ملک کا موجودہ نظام صدارتی ہے نہ پارلیمانی بلکہ کھچڑی بنی ہوئی ہے ہم آئین میں ترامیم کرکے قائداعظم محمدعلی جناح اورقائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ کے مطابق پارلیمانی نظام قائم کریں گے۔اِس موقع پر انہوں نے اِس عزم اور خواہش کا بھی پوری طرح کھل کر اظہارکیاکہ 1973کے آئین پر عمل کیاجائے اور تمام ادارے آئنی حدود میںرہ کر کام کریںتوکوئی تصادم نہیں ہوگا اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ ملک میں 1973کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام ہوناچاہئے کیوں کہ آمریت کے دور میں اِس کی سمت تبدیل کردی گئی تھی اسی لئے اب ہماری کوشش تو یہی ہے کہ آئین کو اِس کی اصل روح کے عین مطابق بحال کیاجائے۔ ان  کا یہ خطاب  ایک بڑی تبدیلی کا اشاریہ ہے ، یا تو انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا یا وہ اس نظام میں تبدیلی لائیں گے ۔ بس یہی دو صورتیں ہیں اس کے علاوہ اس خطاب سے اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا ۔ویسے یوسف رضا گیلانی جو باتیں کہی ہیں وہ  حقیقت پر مبنی ہیں ۔ خود پاکستان کے ایک معروف کالم نگار روف عامر نے اپنے کالم  ’’پارلیمنٹ کی آزادی وقت کی اہم ضروت ‘‘ میں بھی اسی انداز سے پاکستان کے پارلیمانی نظام پر غیر اطمینانی کا اظہار  کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’پاکستان میں جرنیل سے جرنیل تک اور پیپلز سے لیگ تک کے ادوار کی تخت گردی اور صحرانوردی میں پارلیمنٹ کی کارکردگی کے سرناموں اور کامیابیوں کے گوشواروں کا غیر جانبدار تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھر سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ آئین کی حرمت.قانون کی ساخت و پرداخت اور جمہوری اوصاف کی دربانی کے لئے قائم کی جانے والی قومی اسمبلی نے آج تک نہ تو اپنی بالادستی منوانے کی کوشش کی اور نہ ہی وابستگان پارلیمنٹ نے اپنی زمہ داریوں سے انصاف کیا.اس پر مستزاد یہ کہ اسمبلیوں تک رسائی حاصل کرنے والے کھیون ہار اور نامی گرامی ممبران پارلیمنٹ پر اپنی جماعتوں کی غیر منصفانہ پابندیوں کا قہر برستا رہا..سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے برق رفتار ممبران کی سوچوں پر پہرے بٹھادیتے ہیں. ہماری تابندہ و درخشندہ پارلیمنٹ میں دوطرح کے گروھ اتھل پتھل مچائے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں.حکومتی کیمپ سے تعلق رکھنے والے اصحاب کیف تخت نشینوں کی مدح سرائی کرنے میں ساری توانیاں ضائع کر دیتے ہیں وہ سرکار کی آمرانہ پالیسیوں کا دفاع کرتے کرتے مدت پوری کر جاتے ہیں..لیکن وہ اصلاح کے لئے اپنی پارٹیوں کے خلاف مثبت تنقید کا ایک حرف بھی زبان پر لانے کی ہمت نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں پارٹی سربراہ کے ماتھے کی جبیں پر شکن پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے.اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے ایوان کو اکھاڑہ بنانے کا کوئی موقع نہیں کرتے.ستم بالائے ستم تو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کے فنکار قومی امور و عوامی خوشحالی کے لئے کی جانیوالی قانون سازی کی دلجوئی کرنے یا جنتا کے کسی کارنامے پر داد تحسین کے پھول برسانے کا ظرف تک نہیں رکھتے ہلہ گلا.احتجاج.غوغہ آرائی ایک دوسرے پر لچر قسم کے پراگندہ الزامات کی بوچھاڑ.لغویات کی بھرمار اور ریاکاری و عیاری کے دل فگار مناظر عالمی میڈیا میں ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہےکہ اس جگ ہنسائی سے ملک کو نجات مل سکتی ہے یا نہیں ؟ یا یوسف رضا گیلانی نے جو باتیں کہیں ہیں اس کا اثر خود ان پر مرتب ہوتا ہے یا ملک پر؟  ویسے خدا کرے یہ تبدیلی آئے تاکہ اس م

لک میں جمہوریت مضبوط ہوسکے۔

۰۰۰۰۰۰

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *