جگ ہنسائی
سمیع اللہ ملک ، لندن
ادھرراولپنڈی میں مقیم کسی شخص کے چہرے پرخوف اورتشویش کے وہ سائے دکھائی نہیں دیتے جوہزاروں میل دورقصرِسفید‘پینٹاگون اورسی آئی اے کے مکینوں کے چہروں سے ہویداہیں۔راولپنڈی میں گھومنے والاکوئی شخص ذرہ برابرمتفکرنہیں کہ ان کے گھروں سے چندکلومیٹردورکہوٹہ جیسے قصبے میںشہروں‘بستیوں‘ آبادیوںاورانسانوںکوآنِ واحدمیں صفحہ ہستی سے مٹادینے والا ایساایٹمی موادموجود ہے جس کوایٹمی موادکے کچھ نوسرباز‘چوریاکوئی گروہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کرچراکرلیجائے گا‘کیونکہ راجہ بازارکے کسی کونے میں ٹھیلا لگانے والا بھی جانتا ہے کہ یہ ایٹم بم کوئی چنے کی دال کی معمولی سی پلیٹ یاکوئی فریج میں لگی ہوئی پیپسی کی بوتل نہیں جسے کوئی دیوارپھلانگ کربغل میں دباکرنکل بھاگے گالیکن حیرت کی بات یہ ہے راولپنڈی کے اس سکون کے برعکس دنیاکی سب سے بڑی طاقت کادعویٰ کرنے والے واشنگٹن کے چہرے کی ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں؟امریکا میں پچھلے انتخابات میںصدارتی انتخاب کی دوڑمیں شریک ہلیری کلنٹن نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروںکے غیرمحفوظ ہونے اورانہیںامریکی تحویل میں لینے کاعندیہ دیا تھاجبکہ باراک اوبامہ کاعزم تھا کہ اگر اسامہ بن لادن کی پاکستان موجودگی کاپتہ چلاتوپاکستان پرحملہ کردیا جائے گا۔اب ہلری کلنٹن سیکرٹری خارجہ ہیں اورباراک اوبامہ امریکا کے صدر!
قصرسفید کی جنگی پالیسی ترتیب دینے والے ادارے پہلے جارج بش کومشورے دیتے تھے اوراب باراک اوبامہ ان کی پالیسیوں کی تکمیل میں کوشاں ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکاکے مشہورصحافی”باب وڈوارڈ“کی کتاب”اوبامہ کی جنگیں“(Obama’s War by Bob Woodward) افغانستان‘ عراق اورپاکستان میں جاری امریکی جنگوں کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے ۔اس کتاب کے تہلکہ خیزانکشافات میں پاکستان کاذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے اوراس امریکی صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کتاب اوبامہ کی ذاتی یادداشتوں‘مرتب دستاویزات‘میٹنگز کے نوٹس اورسرکردہ شخصیات کے ساتھ سینکڑوں گھنٹوں پرمحیط انٹرویوزکی بنیادپرمرتب کی گئی ہے۔اس کتاب کوپڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر امریکا پاکستان کواس ”وارآن ٹیرر“میں اپنا سب سے بڑااتحادی کہتا ہے لیکن درپردہ پاکستان کی تباہی کےلئے کیاخوفناک وہولناک منصوبے اس نے ترتیب دے رکھے ہیں۔
مصنف اپنی کتاب میں تحریرکرتا ہے”پاکستان میں جہاں ڈرون طیارے حملہ نہیں کرسکتے وہاں کس طرح کاروائی کی جائے؟اس کاایک حل یہ تھاکہ امریکی کمانڈوزپاکستانی سرحدعبورکرکے پاکستان کے اندرجاکرکاروائی کریں۔اس بہترین آئیڈیاکی منظوری کےلئے صدر بش نے ۳ستمبر2008ءکوخصوصی احکامات جاری کئے کہ پاکستان کی سرحدکے اندر”انگوراڈہ“وزیرستان میں زمینی حملے کے دوران امریکی کمانڈوزانتہائی تیزی کے ساتھ حملہ آورہوکراپنے ہدف القاعدہ اورطالبان کی اہم شخصیات کوہلاک کرکے تمام اہم دستاویزات وکمپیوٹرزکواٹھاکر واپس افغانستان آجائیں۔امریکیوں کویقین تھاکہ ان کمپیوٹرزاوردستاویزات میں ایسی معلومات ہونگی جن کی مددسے طالبان اورالقاعدہ کے اہم منصوبوںاورشخصیتوں کوبے نقاب کیاجاسکے گا۔اس منصوبے کےلئے انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ اوربہترین ہتھیاروں سے لیس۰۲امریکی کمانڈوزکامیابی سے اپنے ہدف تک پہنچ گئے تھے مگران کی بدقسمتی تھی کہ وہ دنیاکے ایک ایسے علاقے میں کاروائی کررہے تھے جہاں لوگ گولیوں اوربموں کی آوازسن کرخوفزدہ نہیں ہوتے اورنہ ہی اس جگہ سے دوربھاگتے ہیں بلکہ اپنے ہتھیاراٹھاکرفوراً اس طرف بھاگ کھڑے ہوتے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کیاہورہاہے“۔میک کونیل نے اوبامہ کوبتایاکہ”یہ آپریشن بری طرح ناکام رہا اوربھیانک خواب بن کررہ گیا“۔کونیل نے اوبامہ کے سامنے اعتراف کیاکہ”اس آپریشن کی منصوبہ بندی انتہائی ناقص تھی“ ۔اس طرح وزیرستان میں امریکی کمانڈوز کازمینی آپریشن مقامی قبائلیوں نے ناکام بنادیا۔
اس خطرناک منصوبے کی منظوری جارج بش نے اوبامہ کے صدرمنتخب ہونے سے صرف دوماہ قبل دی تھی اوراب ۶نومبر ۸۰۰۲ءکوشکاگومیں آسمان سے بات کرتی ہوئی ”کلوزینسکی فیڈرل بلڈنگ“میں امریکی نیوی کاریٹائرڈ وائس ایڈمرل میک کونیل ڈائریکٹرنیشنل انٹیلی جنس صدراوبامہ کواپنی پہلی بریفنگ میں اس خفیہ منصوبے کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔نیشنل انٹیلی جنس کاڈائریکٹرہی وہ واحد شخص ہوتا ہے جو پوری دنیامیں امریکی جاسوسی کے تمام خفیہ ایجنٹس اور ان کی کاروائی سے واقف ہوتا ہے۔امریکی صدر کونیشنل انٹیلی جنس کی زبان میں”سب سے پہلا گاہک“کہاجاتا ہے۔اس عمارت میں میک کونیل کے ہمراہ مائیکل جے موریل بھی موجودتھاجس نے نائین الیون کے بارے میںسب سے پہلی بریفنگ سابق صدرجارج بش کو دی تھی اوراب وہ سی آئی اے کے تجزیاتی ونگ کاسربراہ ہے۔اوبامہ کوپہلی بریفنگ دینے میں اس قدررازداری کاخیال رکھاگیاکہ اوبامہ کے ساتھ وائٹ ہاوس میںاہم ذمہ داریاں سنبھالنے والے افراد کوبھی اس بریفنگ میں آنے سے روک دیا گیا۔انہی میں سے ایک ”جان پوڈیسٹا“بھی تھاجس نے بل کلنٹن کے ساتھ بھی چیف آف سٹاف کے طور پرکام کیاتھااوراب اوبامہ کی ٹیم کااہم رکن ہے۔میک کونیل کوجب یہ بتایاگیاکہ صدراوبامہ کے ساتھ وائٹ ہاوس سے آئے ہوئے اہم افرادبھی اس بریفنگ میں شامل ہونگے تومیک کونیل نے ایک لمحے کےلئے رک کرسب کودیکھااورفوری طورپرصاف صاف کہہ دیا ”نہیں“۔صدربش نے اپنے دورمیں ایک قانون بنایاتھاکہ امریکادنیابھرجوکچھ کررہا ہے وہ کبھی بھی کسی غیر متعلقہ فرد کے کان میں نہیں پڑے گا،صرف منتخب لوگ ہی اس کام سے واقف ہونگے جو عراق افغانستان اورپاکستان کے علاوہ دنیابھرمیںدہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنے کےلئے کیاجارہا ہے۔
بریفنگ کے دوران امریکی صدرکوبتایاگیاکہ” عراق اورافغانستان سے امریکا کوکوئی خطرہ نہیںہے،اگروہ کچھ عرصہ پاکستانی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کریں گے توآخرکاران کودل کادورہ پڑجائے گا ،پاکستانی خفیہ ادارے کے کئی روپ ہیں۔اس وقت اصل خطرہ پاکستان سے ہے جس کی طویل سرحدافغانستان سے لگتی ہے اوراس کے پاس سوکے قریب ایٹم بم ہیںجودنیا کو تباہ کرنے کےلئے کافی ہیں،اسی لئے ہرڈرون حملے سے قبل پاکستان کوباقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے“۔میک کونیل نے اوبامہ کے سامنے یہ معاملہ بھی رکھاکہ پاکستان کے ساتھ معاملات کس طرح طے کئے جائیں کیونکہ افغانستان میں طالبان اورالقاعدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکاکا”بے ایمان اتحادی“ہے اور”پاکستانی جھوٹ پرزندگی گزاررہے ہیں“۔”وہاں باقاعدہ ایک دفترقائم ہے جوہماری جڑیں کھودرہا ہے“۔کونیل نے اپنی بریفنگ جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ”پاکستانی انٹیلی جنس کے چھ سات روپ ہیں‘ان میں کچھ کوسی آئی اے نے خریدکراپنابنالیا ہے مگر اس کاایک روپ وہ ہے جوطالبان اوردیگر جہادی جماعتوں کی ہرطرح سے مددکرتا ہے اورپیچھے کوئی سراغ بھی نہیں چھوڑتا “۔
لیکن ایک راز جوکبھی بھی میڈیامیں نہیں آسکا،وہ یہ تھاکہ” صدربش کی منظوری سے سی آئی اے نے ۰۰۰۳کمانڈوزپر مشتمل ایک غیرسرکاری خفیہ قاتل دستہ تیارکر رکھا ہے ،اس میں اکثرلوگ افغانستان سے لئے گئے ہیں۔ان تمام افرادکوانتہائی اعلیٰ قسم کی تربیت دیکرجدید ہتھیاروں سے لیس کیاگیا ہے اوران کاکوڈ نام ”سی ٹی پی ٹی“(CTPT) ہے۔ان لوگوں کاکام یہ ہے کہ افغانستان بھر میںطالبان اورالقاعدہ کے افرادکوڈھونڈیں‘گرفتارکریں یامارڈالیں۔اس ٹیم کے کمانڈودستے اکثرپاکستانی قبائلی علاقوں اوروزیرستان میں کاروائیاں کرتے رہتے ہیں“۔ قارئین!اس اعتراف کے بعدان خدشات کویقین کی حدتک تقویت ملتی ہے کہ قبائلی علاقوں کے مشیران کابے دریغ قتل اورگاہے بگاہے مساجداورجرگوں میں سفاکانہ خودکش حملوںکے پیچھے کون سے مکروہ ہاتھ تھے لیکن بغیرکسی تحقیق کے اس کی ذمہ داری کسی ایسے گروپ پرڈال کرخودکولوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھاگیا۔بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی فوج کے پاس ایک ایسا خفیہ منصوبہ ضرورتھاجسے سب سے زیادہ خفیہ منصوبہ قراردیاجاتا تھاکہ”اگرپاکستان سے تعلق رکھنے والا کوئی گروپ امریکایاامریکی شہریوں پرنائن الیون کی طرزکاحملہ کرتا ہے توامریکاکاکیاجواب ہوگا؟جواب یہ تھا کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے پاکستانی شہروںاوردیہاتوں میں ۰۵۱مقامات کی نشاندہی کررکھی ہے جن کے بارے میں یہ دعویٰ تھا کہ یہاں شدت پسندوں یاجہادیوں کے مبینہ کیمپ ہیں۔اگرکوئی دہشتگردگروپ حملہ کرتاہے توجوابی طورپر فوری پاکستان کے۰۵۱مقامات پربمباری کردی جائے۔
جب ممبئی حملے ہوئے تویہ منصوبہ زیرِ غورآیا۔امریکی انٹیلی جنس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اب ان میں سے کئی مقامات پرجہادیوںکے کیمپ نہیں رہے مگربش نے کہا‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ اب وہاں کون رہ رہا ہے ۔منصوبہ صرف دہشتگردوںکے کیمپوںکونشانہ بنانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ سادہ سی بات یہ ہے کہ پاکستان میں۰۵۱مقامات پرسفاکانہ بمباری کرکے سزادی جائے“۔ممبئی حملوں کے 48گھنٹوں کے اندراندریہ منصوبہ پھرتبدیل ہوگیاکہ سی آئی اے کے سربراہ ہیڈن کوانٹیلی جنس کے اداروں نے اپنی تحقیقات کے بعد مطلع کردیا کہ اس میں پاکستانی انٹیلی جنس کاکوئی ہاتھ نہیں‘اس طرح یہ معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ ٹل گیا ۔اگربالفرض اس تحقیق میں کوئی تاخیرہوجاتی یاجس طرح عراق کے ان مبینہ ایٹمی ہتھیاروں کوختم کرنے کےلئے پورے عراق پربمباری کرکے اس کونیست ونابو دکردیا گیا ہے توکیاآج عراق کی طرح پاکستان کی تباہی پربھی صرف افسوس(Sorry) کاایک جملہ کافی ہوتا!
لیکن اب امریکی خفیہ اداروں کوایک اورپریشانی لاحق ہوگئی ہے جس کاجواب کسی کے پاس نہیں۔تمام امریکی خفیہ اداروں کایہ کہنا ہے کہ ممبئی میں اتنے کم سرمائے اوروسائل میں اتنے خوفناک اورموثر حملے کوکس طرح ممکن بنایاگیا؟حملہ آوروں نے جدیدترین ٹیکنالوجی‘ہدف تک پہنچنے کےلئے دستیاب گلوبنگ پوزیشن اورتازہ ترین نقشوں کےلئے انٹرنیٹ سے گوگل ارتھ اورریمورٹ کنٹرول کومعمولی رقم کے عو ض کس مہارت کے ساتھ استعمال کیاہے۔اپنے رابطہ کاروں کے ساتھ سیٹلائٹ ٹیلیفون میں جو انتہائی پیچیدہ وائس اوورانٹرنیٹ پروٹوکول استعمال کی،وہ امریکی ریاست نیوجرسی میں رجسٹرڈتھی اس سے ان کی گفتگوکی جگہ کاپتالگانااگرناممکن نہیں تومشکل ترین ضرورتھااوراس طرح وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب رہے۔ایف بی آئی اورسی آئی اے اس بات پرششدر اورخوفزدہ تھے کہ ایک چھوٹے شدت پسندگروپ نے تھوڑے سے وسائل میں عام مارکیٹ میں دستیاب جدیدترین ٹیکنالوجی حاصل کرکے پورے ممبئی کویرغمال بنالیا‘اگرامریکا میں ایساکوئی حملہ ہواتووہ اسے کیسے روکیں گے؟
لیکن ہماری موجودہ حکومت کاممبئی حملوںپرکیاردعمل تھا‘وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ہمارے وزیراعظم نے گھبراہٹ اورپریشانی میں فوری طورپرآئی ایس آئی کے سربراہ کوبھارت بھیجنے کاوعدہ کرلیا جس سے اقوام عالم کویہ تاثرملاکہ یہ کاروائی شائدکسی پاکستانی ادارے کے ایماءپرکی گئی ہواوردووسری طرف اقوام متحدہ میں اپنے ہی مستقل مندوب کوپاکستان کی چند مذہبی اوردعوتی جماعتوں پرپابندی لگوانے کے احکام جاری کردیئے گئے اوراس پرمستزادیہ کہ اپنے بہترین دوست چین سے بھی اس قراردادکوویٹونہ کرنے کی درخواست کی گئی۔جماعت دعوة کے امیرحافظ سعید اوردیگرافرادکوگرفتارکرکے ان کے تمام دفاتر سیل کردیئے گئے ۔اعلیٰ عدالتوں کی مداخلت پر حکومت کواس معاملے پربھی ندامت کاسامناکرناپڑالیکن جگ ہنسائی سے پاکستان کے وقار کوجونقصان پہنچااس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
ہمارے ہاں میریٹ ہوٹل سے لیکر کراچی سی آئی ڈی کے دفاترتک خودکش حملوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ہمارے ارباب اختیارکواس بات کی جرات نہیں کہ وہ پاکستان کے اس خفیہ دشمن کانام عوام کوبتاسکیں۔ہرایسے خوفناک حملے کے فوری بعد میڈیا کے سامنے ہمارے وزیرداخلہ دودرجن سے زائد حفاظتی گارڈ کے جلومیں آکراپنے رٹے رٹائے بیان کے ساتھ قوم کے ساتھ ایک بہیمانہ مذاق کرکے قوم کومطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرکے دوبارہ اسی تنخواہ پرکام کرنے کےلئے اپنے آقاوں کی خدمت میں حاضرہوجاتے ہیں ۔لیکن یادرکھیں کہ اب عوام کی برداشت کی نسیں پھول کر پھٹنے کے قریب ہیں اوراب وہ وقت دورنہیں کہ تاریخ ایک مرتبہ اپنے آپ کودہرائے گی جہاں ظالموں کے سا تھ معاملہ ماورائے عدالت کیاجاتاہے !