نورین علی حق
سیر ، تواریخ اور بزرگوں کی سوانح عمریاں جب بھی میں لے کر مطالعہ کی میز پر بیٹھا تو یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ آخر مورخین و مصنفین اپنی بات اصل ہدف سے کیوں نہیں شروع کرتے خواہ مخواہ قاری کو سینکڑوں صفحات اصل مطالعہ سے پہلے پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس کا جواب تو ذہن دینے سے قاصر رہتا تھا لیکن بادل نخواستہ رسمی قرآن خوانی کی محفل میں شریک ضرورہو جاتا تھا اور ادھر ادھر کر کے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتاتھا ۔ امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سر ہندی نقشبندی رحمة اللہ علیہ( ۹۷۱ھ/۱۰۳۴ھ) کو جب پڑھنا شروع کیا تو وہاں بھی مجھے ایسا ہی محسوس ہوا کہ مصنفین و مورخین نور و ظلمات کو یکجا کر نے پر تلے ہیں حالاں کہ حضرت مجدد کی سوانح اور خدمات کا احاطہ کرنا چاہئے ،عہد اکبری سو سو دو دو سو صفحات پر پسرا پڑا ہے ۔ جب عہد اکبر ی سے نکل کر حضرت کی بار گاہ میں پہنچا اور امام ربانی کی سوانح اور خدمات کو پڑھنا شروع کیا تو دل و دماغ کے بند دریچے وا ہو نے لگے اوراخیر تک پہنچتے پہنچتے یہ ادراک ہوگیاکہ عہد اکبری کو بیان کیے بغیر حضرت امام ربانی کی تجدید دین واحیائے شریعت کا دائرہ کار نامکمل اور ادھورا رہتا۔ غالبا اسلوب کا یہ ڈھب دنیا وی مصنفین کو آسمانی کتاب سے ملا ہے ۔ جہاں اللہ تبارک و تعالی اپنے پیغمبروں کے حالات، ان کی امتوں کی کیفیات ، یہود و نصاری اورمشرکین وکفار عرب کی سازشوں کو واشگاف کرتے ہوئے با رہا قرآن مجید میں دومتضاد کیفیات اور راہوں کو بتانے کے لیے دو متضاد الفاظ(نور وظلمات) کا استعمال کیا ہے ۔
عہد اکبری تک اکابربزرگان چشتیہ کا زمانہ گزر چکا تھا ۔ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کو قفاکی سزا کے بعد تقریباً آٹھ اہم بزرگان چشت نے جنوب کی سر زمین کو زینت بخشی تھی ۔ شمال کے حکومتی مراکز ان بزرگوں سے تقریباً خالی تھے ۔ ہر دور میں اکابر چشتیہ مملکت و سلطنت سے علاحدگی کے قائل تھے ،اب ہزاروں میل کی دوریاں بھی اختیار کرنے لگے تھے۔ سلطنت و اقتدار کے قرب میں ابنائے زمانہ اور علمائے سو خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ یوں تو اکبر کا ابتدائی زمانہ ایک خوش عقیدہ مسلمان کی حیثیت سے گزرا ،وہ بزرگان دین کے مزارات کا قصد کرتا تھا ، سجادہ نشینوں کی بارگاہوں میں نذرانے پیش کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ سلیم چشتی رحمة اللہ علیہ کی دعا سے شہزادہ سلیم المعروف جہانگیر کی پیدائش ہوئی اور اس نے اپنی منت پوری کرنے آگرہ سے اجمیر شریف کا پا پیادہ سفر کیا ۔ اپنے استاذ صدر الصدور شیخ عبدلنبی کی جوتیاں بھی کئی بار سیدھی کیں ۔ عبادت و ریاضت اور تسبیح و تحلیل میں بھی انہماک کا پتہ چلتا ہے ۔البتہ امتداد وقت کے ساتھ اس کا مزاج بدلتا رہا ۔ علما کی آپسی رنجشوں ، برہمن گھرانوں سے رشتہ ازدواج ، نصرانی و آتش پرست اور ہندو پنڈتوں سے اس کے روابط نے اسے بد دین و ملحد بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ اس نے سیاسی مصالح اور ملک کی اکثریت کورام کرنے کے لیے بہت سارے فیصلے کیے تھے، انہی فیصلوں نے اس کی آخرت تباہ کر دی بلکہ ہندوستان میں ایک متوازی دین’ دین الہیہ‘ کے قیام پر بھی ابھارا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مسلم گھر میں پیدا ہونے والے بادشاہ کے ذریعہ اسلام کا مذاق اڑایا گیا ،اس دور کے بعض علما بھی اپنی ذاتی خلش مٹانے اور دل میں بھڑکنے والے انتقامی جذبے کی نذر پورے اسلام کوکر دیا ، محضر نامہ کی ترتیب و تدوین بھی شیخ مبارک نے کر دی تاکہ انہیں بادشاہ وقت کا تقرب حاصل ہو سکے ۔ بر صغیر کے معروف محقق پروفیسر محمدمسعود احمد مجددی رقم طراز ہیں ۔
”لیکن زہد و رع کے باوجود اس نے ہندو عورتوں سے شادیا ں بھی کی تھیں شاید سیاسی مصالح کی بنا پر۔ چنانچہ ۹۷۰ھ میں جب اکبر اجمیر شریف گیا اور خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ (۶۳۳ھ) کے آستانے پر حاضری دے کر واپس ہوا توجے پور میں راجہ بہادر مل نے غالباً اظہاروفاداری کے طور پر اپنی صاحب زادی پیش کی جو غیر شرعی نکاح کے بعدحرم میں داخل کر لی گئی ۔ انہی سیاسی مصالح کی بنا پراکبر نے ۹۷۲ھ میں جزیہ بھی معاف کر دیا جو بہت بعدمیں دور عالم گیری میں۰ ۱۰۹ھ میں دوبارہ نافذ کیا گیا “(سیرت مجدد الف ثانی۱۲۰)
اس اقتباس سے نہ صرف اکبر کی جہالت کا انداز ہوتا ہے کہ اس نے غیر شرعی نکاح کے ذریعہ جودھا کو حرم میں داخل کیا بلکہ یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ برہمن زادی کے اثرات اکبر پر اس قدر مرتب ہوئے کہ اس نے سال دو سال میں ہی جزیہ معاف کر دیا یعنی جودھا کی اکبر سے شادی نہ صرف اظہار وفاداری کے لیے کی گئی تھی بلکہ اس شادی کا مقصد ایک امی بادشاہ کے دل سے اسلام کی عظمت نکال کر حکومتی سطح سے برہمنیت کا غلبہ بھی تھا ۔یہاں تک کہ عہد اکبری میں ایک ایسا دوربھی آیا جب ملا عبد القادر بدایونی کویہ لکھنا پڑاکہ ”دختران راجہائے عظیم ہند نے بادشاہ کے کان بھرے کہ اس نے ملاؤں کوایسا سر چڑھا لیا کہ وہ منشائے سلطانی کی بھی پروا نہیں کرتے۔“ (منتخب التواریخ جلد سوم۸۳)
ہندو گھرانوں سے رشتہ داریوں کے اثرات کو مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نے عمدہ پیرا یہ میں بیان کیاہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام مخالف اعمال کی انجام دہی میں خواتین خانہ کا بڑا رول تھا ۔
”اکبرکے لیے ایک بڑی آزمائش کی بات اور اسلام سے اس کے مزاج کے منحرف ہونے کا ایک قوی سبب یہ تھا کہ اس نے استحکام سلطنت کے لیے راجپوت راجاؤں کے ساتھ رشتے ناطے کیے اور ان کا اعلی ترین مناصب پر تقرر کیا اور ان کا پورا اعتماد حاصل کرنے اور ان کو شیر و شکر کرنے کے لیے بہت سے ایسے کام کیے جو اس سے پیشرو سلاطین نے ابھی تک نہیں کیے تھے مثلا ذبح گاؤکی ممانعت ، آفتاب کے رخ بیٹھ کر جھروکا درشن ، ڈاڑھی منڈوانا ، بھدرا کروانا ، قشقہ لگوانا، ہندو رانیوں کے ساتھ مل کر تمام ہندوانہ رسموں میں حصہ لینا ، ان ہندو رانیوں کااور ان کے واسطہ اور رشتہ سے ان کے بھائیوں اور عزیزوں کا اکبر پر خاصا اثر تھا ، او ریہ بالکل قدرتی بات تھی کہ دین کے ایوان میں سب سے پہلا تزلزل جو واقع ہوا وہ اسی تعلق کا نتیجہ تھا ۔“(تاریخ دعوت و عزیمت چہارم۱۰۷)
ہر زمانے کے علمائے سو اپنے ذاتی مفاد کواہمیت دیتے ہیں ۔ جیسا کہ آج بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن جب ہم عہد اکبری کے علما پر نظرڈالتے ہیں تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس وقت کے علما کے حالات آج سے کچھ بہتر نہیں تھے ۔ اس دور میں بھی تجہیل و تکفیر کا بازار گرم تھا ۔ اپنے مفاد کی خاطر دامن اسلام کو داغدار کرنے کا انہیں کوئی قلق نہ تھا ۔ گو کہ اکبر اپنے ابتدائی زمانہ میں بقول ملا عبد القادر بدایونی علما کو غزالی و رازی سے بہتر سمجھتا تھا لیکن ان کی یہ سخیف حرکتیں دیکھیں تو علمائے سلف کو بھی انہیں پر قیاس کر کے سرے سے علما ہی کا منکر ہو گیا ۔ بھرے دربار میں اکبرکو ملا عبد القادر بدایونی سے یہ بھی کہنا پڑا کہ علما میں سے جو دربار کی عزت و ناموس پا مال کریں انہیں باہر نکال دیاجائے ۔ ایک طرف سازشیں کر کے علما نے شیخ مبارک نا گوری کو دربار بدر کرایا تو دوسری جانب مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطانپوری اور صدر الصدور شیخ عبدالنبی آپس میں رقیب و حریف بن گئے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر در بار میں چیختے چلاتے تھے ۔ اس دور کے حالات کی نازکی اور علما کی آپسی چپقلش کو بیسویں صدی کے مورخ و سوانح نگار مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی زبانی سنئے:
” اس کے علاوہ مصیبت یہ پیش آئی کہ مخدوم الملک اور شیخ عبد النبی دونوں ایک دوسرے کے حریف و رقیب ہو گئے ،مخدوم الملک شیخ عبد النبی کو الزام دیتے تھے اورشیخ عبد لنبی مخدوم کی تجہیل و تکفیر کرتے تھے اور ان کے حامی ایک دوسرے کے صف آرابن جاتے تھے ۔ مخدوم الملک اور صدر الصدور شیخ عبد النبی کے حالات سے ( اگر وہ بالکل اسی طرح ہیں جو تاریخ میں آئے ہیں) اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات علم و حکمت دینی اور تہذیب اخلاق و تزکیہ نفس کسی لحاظ سے اس نازک زمانہ (عہد اکبری) اور اس اہم اورپیچیدہ ماحلو (دربار اکبری) میں دین کی صحیح نمائندگی اور نیابت رسل کے کام کے لیے موزوں نہ تھے ۔“(تاریخ دعوت و عزیمت چہارم۹۵)
علما ئے سو کے غلط رویے ، ان کی آپسی چپقلش اور رنجشیں دوسری طرف حرم میں داخل خواتین کا اسرار اوراپنوں کو قریب کرنے اور اعلی منصب پر مقرر کرنے کی فکر نے آہستہ آہستہ علما کو اکبر سے اوراکبر کواسلام سے دور کر دیا ۔اب اسے سورج کی پرستش ، غیر شرعی رسوم و آداب ، قشقہ لگانے اور جنیو پہننے میں مزہ آنے لگا،جس کے خواہاں بہت سے درباری تھے ۔ ان میں خود شیخ مبارک نا گوری اور ان کے دونوں ملحد ساز صاحبزادگان والا شان شامل ہیں۔ پہلے محضر نامہ اور پھر دین الہیہ کا قیام عمل میں آیا اورآگے ڈاکٹر محمد باقر کا یہ بیان سنئے۔
”ابو الفضل نے اکبر کے مذہبی عقائد میں اچھاخاصا دخل پیداکیا چنانچہ جب اکبر نے ۹۸۲ھ /۱۵۷۵ء میں فتح پور سیکری میں مذہبی علما کے مباحثے سننے کے لیے عبادت خانہ قائم کیا تو ابو الفضل علما کے ان باہمی مباحثوں میں شریک ہوتا اور ہمیشہ اکبر کے عقائد کی طرف داری کرتا ، یہاں تک کہ اس نے اکبرکو یہ سمجھایا کہ مذہب کے متعلق اس کے نظریات معاصر علما سے کہیں افضل اور بر تر ہیں اور ۱۵۷۹ ء میں دربار شاہی سے ایک محضر جاری کیا، اس کی رو سے مذہبی علما کے اختلافات نپٹانے کے لیے آخری حکم اکبر کو بنادیاگیا ، عبادت خانہ کے مناظروں کے رمیان ہی میں اکبر کو ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کا شوق چرایا ، اور اس نے ۱۵۸۲ ء میں دین الہی کی بنیاد رکھی اسے ابو الفضل نے بھی قبول کیا۔“(اردو دائر معارفاسلامیہ جلد ۸۸۹۱۔۸۹۰)
یہ تصور بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک جاہل کو عالم سے علمیت اور تفقہ دین کی سند مل جائے تو وہ کیاگل کھلائے گا ۔ ہوا یہی کہ تینوں باپ بیٹوں نے مفروضہ دین الٰہی پر ایمان لایا اور یہ سلسلہ چل نکلا۔اس دین میں جوئے ، سود، شراب اورلحم خنزیر کوحلال کردیا گیا وار رسم ختنہ، ذبیحہ گاؤ، قانون نکاح، تدفین و تکفین کو حرام یا ا ن کے قوانین میں ترمیم کردی گئی ۔ آتش پرستی ، آفتاب پرستی ، گنگا جل کے استعمال ، تصویر کشی ، سجدہ تعظیمی پر اصرار ہوگیا ۔اب دربار کا عام رواج اور رجحان دین اسلام کی تحقیر ، تاریخ ہجری سے تنفر، مقام نبوت کی اہانت، اسراو معراج کا استہزا ہوگیا ۔ حد تو یہ تھی کہ دیوان خانہ میں نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ اس نے اپنے زمانہ میں لاالہ الاللہ اکبر خلیفة اللہ کاکلمہ بھی ایجاد کر لیاتھا ۔ آخری ایام میں اکبر کی دین اسلام کی طرف واپسی کے حوالہ سے بعض مورخین کے درمیان اختلاف ہے مگر حضرت شیخ عبدلحق محدث دہلوی رحمةاللہ علیہ کے تعزیت نامہ ، پروفیسر مسعود احمد کا ان اختلافات پر نتائج کا اخذ اورمولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی کی تحقیق کے مطابق وہ ملحد ہی اس دنیا سے ۱۰۱۴ ھ میں واصل جہنم ہوا۔/کٹ ٹو
نیا منظر نامہ
عہد اکبری میں حضرت سر ہندی/ترک ادب ،حرف گستاخانہ
سوال یہ اٹھتا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی اپنی عمرکے ۴۳/ سال عہد اکبری میں گزارے تو اس درمیان وہ سامنے کیوں نہیں آئے؟ اس کا سب سے پہلا اور آسان جواب تو وہ ہے جو حضرت مجدد کے زیادہ تر سوانح نگار دیتے رہے ہیں کہ ۴۳سالہ مدت آپ کی مختلف تیاریوں میں گزری۔یہ بھی قرین قیاس ہے ۔ لیکن اس کا جواب یہ بھی دیاجا سکتا ہے کہ دین الہی کی تشکیل اور اکبرکی بے راہ روی گو کہ مہلک مرض کی طرح تھی مگر آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ وہ زیادہ تر اکبر آباد اوردہلی تک محدود تھی ۔ چونکہ نماز کے حوالہ سے جہاں بھی مورخین لکھتے ہیں وہ وہی لکھتے ہیں کہ دیوان میں نماز کی عام اجازت نہیں تھی ،اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر آشوب دورمیں بھی آشفتگان راہ محبوبی تھے جو دربار میں بھی نماز ادا کرتے تھے ۔ اکبر کے بادشاہ وقت ہونے کے باوجوداس کے معاشرے پر وہ اثرات نہ تھے جو اس سے قبل کے صوفیہ کے تھے چونکہ تمام تر خرابیوں کے باوجود اسلامی رنگ پوری طرح معاشرہ سے ناپید اورنا بود نہیں ہوئے تھے ۔ البتہ ابنائے وقت اس کے چشم و ابرو کے اشاروں پر رقص کناں تھے بلکہ اس سے بھی کچھ زیاد آگے بڑھ گئے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت مجدداور اس دور کے سیاسی حالات پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ آشکار ہو تا ہے کہ اس۴۳/ سالہ مدت دراز میں دست غیبی حضرت مجدد کو سنوار رہاتھااور آئندہ آنے والے حالات کو صبر و ضبط کرنے کا ان کے قلب اطہر میں یاراپیدا کیا جا رہاتھا اور یہی سب سے اہم دلیل ہے چونکہ خود ان کے شیخ نے حضرت مجدد سے جن شفقتوں ، عقیدتوں اورمحبتوں کااظہار کیا ہے وہ کہیں نہ کہیں یہ چغلی ضرور کھا جاتے ہیں کہ ان حالات سے حضرت مجدد کی توجہ کو کاٹ کر یکسوئی ، ذکر الہی اور شیخ کے مریدوں یعنی اپنے پیر بھائیوں کی تطہیر کرائی جا رہی ہے ۔ ورنہ حضرت مجدد ایسے بھی خاموش طبیعت کے نہ تھے کہ وہ بالکل خاموش بیٹھتے ۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس پر آشوب دورمیں جس مصلحت کی ضرورت تھی اسے حضرت مجدد نے اختیار کیا اور قرآنی اسلوب دعوت کو اختیارکیا ۔ بصورت دیگر استاذ اکبر شیخ عبد النبی اکبر کے جھانپڑ سے لہولہان ہو کر یہ بھی کہہ اٹھے تھے کہ” چھری کیوں نہیں چلا دیتے؟“
اس اقتباس کو غور سے پڑھیں اور حضرت مجدد کی دور اکبری کی ۴۳/ سالہ مدت پر غور کریں یقینا آپ کا ضمیر کچھ کہے گا۔
”اب ”عبادت خانہ“ کی محفلوں میں مسلمان علما کے ساتھ پرتگیزپادری ، پارسی دستور اور جین سادھو بھی شریک ہوگئے تھے اور ان میں سے پرتگیز پادری اسلام اور بانی اسلام کے خلاف نہایت نا گوار باتیں کہتے ۔ اس لیے ملک میں دربار کی نئی روش کے خلاف بڑی بے چینی پھیل گئی ۔ آئین دربار میں بھی ایک دو ایسی جدتیں ہوئیں جن سے یہ بدگمانیاں اور بڑھ گئیں اور جونپور کے قاضی القضاة ملا محمد یزدی نے علی الاعلان فتوی دیا کہ بادشاہ بدمذہب ہوگیا ہے ۔ اس پر جہاد واجب ہے ۔دربار میں قطب الدین خان کو کہ اور شہباز خاں کنبوہ نے بڑی جرات سے بادشاہ کو سمجھایا لیکن حکومت اور اقتدار کا نشہ برا ہوتا ہے ، اکبر اور بگڑا ۔ قطب الدین خاں اور شہباز خاں کو برا بھلا کہا اور ملا محمد یزدی اور معز الملک وغیرہ کوایک بہانے سے بلا بھیجا جب وہ آگرہ سے دس کوس پر فیروز آباد پہنچے تو حکم بھیجا کہ ان دونوں کو الگ کر کے دریائے جون کے راستے گوالیار پہنچا دو ،جہاں مجرمان سلطنت کا جیل خانہ تھا ۔ پھر حکم ہوا کہ ان کا خاتمہ کر دو ، چنانچہ پہرے داروں نے دونوں کو ایک ٹوٹی ہوئی کشتی میں ڈالا تھوڑی دور آگے جا کر گرداب کی گود میں دفن کر دیا ۔ کچھ عرصہ بعد قاضی یعقوب بھی بلائے گئے اور انہیں اور دوسرے علما کوجن پر شبہ تھاایک ایک کر کے عدم کے تہہ خانے میں بھیج دیا۔“(رود کوثر۵۹۔۶۰)
فتوی بازی کا نتیجہ بھی آپ پڑھ چکے۔یہ مولویانہ فتوی بازی تھی ،جس سے کوئی شخص بیزار تو ہوسکتا ہے اپنے کیے کا احتساب نہیں کرسکتا اور اس طرح کی فتوی بازی اس قرآنی حکم کے خلاف بھی ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی کو فرعون کے پاس دین اللہ کی دعوت لے کر جانے سے پہلے دیاتھا ۔
ایک اقتباس یہ بھی پڑھتے چلیں کہ معاصرجذباتی اسلامی اسکالر راشد شاذ کیا کہتے ہیں ۔انہوں نے حضرت مجدد کی کامیابیوں کے بیان کے بعد چار ناکامیاں بھی شمار کرائی ہیں ۔میں یہاں صرف دو شقیں اپنے مطلب کی لے رہاہوں تاکہ اس کے حوالہ سے آگے بھی گفتگو کی جاسکے ۔
”ثانیا کارکنان کی تربیت غیر حرکی اور صوفیانہ قالب میں کی گئی ،ایسی تربیت بادشاہ وقت کے سامنے حق گوئی کی جرات تو پیدا کرسکتی ہے اور اسے ابوبکر وعمر کے سے نظام کے قیام کی دعوت بھی دے سکتی ہے لیکن خود سالک میں ابوبکر اور عمر جیسا statesmanمدبر اور حکمراں بننے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتی ۔ثالثا شاہی نظام جس کے غیر اسلامی ہونے کا خیال مسلمانوں کے ذہن سے محو ہوگیا تھا اور مسلم حکمراں کی موجودگی جو غیرشعوری طور پر خلافت کی متبادل تسلیم کرلی گئی تھی ،ان سے کوئی تعرض نہ کیا گیا ۔خود شیخ کو اس بات کا خیال کم ہی آیا کہ غیر اسلامی نظام حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ منہاج النبوة پر خلافت قائم کرنے کی کوشش کریں ۔“ (غلبہ اسلام ۲۷۔۲۸)
شق ثانی انتہائی بچکانہ اور شق ثالث جذباتی، غیر معقولانہ اور نتائج سے بے پروا اور آئندہ کی کامیابیوں سے روکنے والی ہے ۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضرات شیخین یقینی طو رپر عدیم المثال خلیفة المسلمین تھے لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ انہیں زمین مسطح اورہموار کر کے دی گئی تھی اورخلافت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ وں میں تھی ۔ کفار ومشرکین کی شکست و ریختکا عرصہ طویل نہیں ہوا تھا اور اس وقت تک مدینہ کی گلیاں نقوش قدم اور خوشبوئے بدن کو محسوس کررہی تھیں اور یہاں سلطنت کے اونٹ کو بدکنے پر ابنائے وقت نے مجبور کیا تھا ۔ پھر یہ کہ صوفیہ کاپہلا ایجنڈہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد سے یہی رہاتھا کہ ہم حکومت کی اصلاح کریں گے ، حکومت نہیں کریں گے ۔ جس کے اثرات آپ حضرت مجدد سے پہلے بھی محسوس کر سکتے ہیں اوراسی ایجنڈہ کانتیجہ بعد کو شاہ جہاں اوراورنگ زیب عالمگیرکی شکل میں نمودار ہوا ۔ میرے خیال میں اساتذہ کی تربیت ،والد سے حصول سلوک کے بعد حضرت خواجہ باقی باللہ کی با رگاہ میں جانا غالبا منشائے خدا وندی تھی کہ پیمانہ کو لبالب کردیا جائے تاکہ بعد کو یہ پیمانہ نہ چھلکے اور اس سے پیغمبر انہ کام لیا جائے ۔
جہاں تک تیسرے شق کی بات ہے ،وہ معاصر کسی ایک تحریک کا پہلا ایجنڈہ ہے اور اس کامقصد قیام ہی غیر اسلامی نظام حکومت کواکھاڑکر منہاج النبوة پر خلافت کا قیام ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تحریک کا قیام ہندوستان کی آزادی کے بعد ہوا ۔ یعنی اس تحریک نے آزاد اور جمہوری ہندوستان میں آنکھیں کھولیں یہاں مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دینی پڑ رہی ہے کہ وہ تحریک اپنے تما م ایجنڈوں میں تقریبا ۹۹/ فیصد نا کام ہے ۔ البتہ بے شمار نوجوان جیلوں کی سلاخو ں کے پیچھے یا اس طرح کے نعروں سے متاثر ہر کر عدم آباد کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں ۔ جبکہ کہ محترم راشد شاذ حضرت مجدد کو بادشاہی زمانہ میں تعرض کی دعوت دے رہے رہیں ۔ اب آگے یہ سوچنے کی ضرورت شاذصاحب کو ہے کہ اگر حضرت مجدد انہی کی طرح سوچتے اور اس پر عمل کرتے تو خود مجدد صاحب بچتے ؟ اگر وہ نہیں بچتے تو صالح مشیران سلطنت جہانگیر کہاں سے آتے؟ جب حکومت او ر مقتدر اعلی کی اصلاح کا فریضہ انجام نہیں دیا جاتا تو شاہجہاں اور اورنگ زیب بھی نہیں ہوتے اور وہ نہیں ہوتے تو کیا ہندوستان دوبارہ خواجہ سے پہلے کا ہندوستان نہیں ہوجاتا اوراگر ایسا ہوتا تو خود راشد شاذ آج اسلامی اسکالر ہوتے ؟
خیر قرآنی اصول دعوت و تبلیغ اور صوفیانہ ضبط کے ساتھ اس دور میں بھی حضرت مجدد کوشش کر رہے تھے ۔ ابو الفضل اور فیضی سے ان کی ملاقاتوں کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بادشاہی حکم کی تعمیل نہیں کی اور روزہ رکھا اور ابو الفضل کے اسرار پر اس کاہاتھ بھی جھٹک دیا ۔ آپ نے فیضی کو اسواطع الالہام ( غیر منقوط تفسیر) کی تصنیف میں تعاون بھی کیا ۔ جس سے فیضی ششدر رہ گیا ۔ زمانہ کے مزاج کو سمجھا ، رائج الوقت حربہ سے خود کو لیس کیا ۔ ابو الفضل و فیضی کی جس سحر نگارانشا پردازی کا طوطی بول رہاتھا ، خود کو اس خصوصیت سے بھی لیس کیا ، البتہ دعائے نیم شبی،آہ سحر گاہی چونکہ ابو الفضل و فیضی کے یہاں معدوم ہے اور حضرت مجدد اس سے آراستہ و
مزین ہیں ،اس لیے ان کی انشا پر دازیوں پر وقت کی گرد پڑ گئی اور مجدد صاحب کی انشا پر دازی بقائے دوام اختیار کر گئی ۔حضرت مجدد کی انشا پر دازی کے اثرات دیکھئے ۔حضرت مجدد دربار اکبری کے اہم رکن خان اعظم کے نام ایک مکتوب میں عہد اکبری میں اسلام کی زبوں حالی کا اس طرح نقشہ کھینچتے ہیں۔
”مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے ۔الاسلام بداء غریباوسیعودکما بدأ،فطوبی للغرباء۔اسلام کی بے بسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کفار کھلم کھلا اسلام پر لعن طعن کرتے اور مسلمانوں کو برا بھلاکہتے ہیں ، کافرانہ احکام بے تحاشا جاری کیے جا رہے ہیں اور ان احکام کے ماننے والوں کی کوچہ و بازار میں خوب خوب تعریف کی جا رہی ہے ،مسلمانوں کو احکام اسلامیہ کے اجرا سے منع کر دیاگیا ہے اورشریعت اسلام کی اشاعت کرنے والا مذموم و مطعون ہے ۔
پری نہفتہ رخ و دیو در کرشمہ و ناز
بسو خت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است
(ترجمہ: پری نے تو اپنا چہرہ چھپا لیا ہے اور دیو ناز و نخرے پر تلا ہواہے ۔ یہ کیا تماشہ ہے ؟ عقل حیرت سے جلی جاتی ہے ۔)
سبحا ن اللہ و بحمدہ ! کہا گیا ہے کہ شریعت زیر شمشیر ہے اور شریعت کی رونق و صفا باد شاہوں کے دم سے ہے ۔( یہاں تو) معامہ بر عکس ہو گیا ہے ، حیف صد حیف! افسوس صد افسوس! آج تمہارے وجود کو ہم غنیمت سمجھتے ہیں اور کمزور اور شکست خوردہ مقابلے میں تمہارے سوا کسی کو مد مقابل اور حریف نہیں جانتے ، حق تعالی تمہارا حامی و مدد گار ہو ۔
داد یم تراز گنج مقصود نشان
گرما نرسیدیم تو شاید برسی“
(مکتوبات شریف، دفتر اول ، حصہ دوم مکتوب نمبر ۶۵۔ نقل از سیرت مجدد الف ثانی، پروفیسر محمد مسعود احمد)
پورے حالات پر غور کرنے سے اندازة ہوتا ہے کہ عہد اکبری میں حضرت مجدد آئندہ کے معرکہ کو سر کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے اورمصلحت کے ساتھ اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ بھی کر رہے تھے اور ان اسباب کا بھی پتہ لگا رہے تھے جن کی وجہ سے افرا تفری پھیلی تھی اوراس کے علاج کے لیے تیارہو رہے تھے۔/کٹ ٹوڈزالو/حضرت مجدد اوراہل اسلام کو گرداب سے باہر لانے کا عمل
اکبر کی موت کے بعد حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک میں تیزی آگئی اور جو کام اب تک خانقاہ میں باریاب ہونے والے عقیدت مندوں ،مریدوں اور پیر بھائیوں کے درمیان ہوتا رہاتھا وہ اب اراکین و امرائے سلطنت کے درمیان بھی ہونے لگا ۔ یہی وہ وقت بھی تھا جب دین کی دعوت کامیاب ہو تی ۔ شیخ فرید اور ان کے دیگر ہم نوا نے جہانگیر کی تخت نشینی میں تعاون کیا تھا ،جس کااحساس جہانگیر کو تھا یہی وجہ ہے کہ شیخ فرید اور ان کے دیگر ہم نوا اس کی بارگاہ میں مقبول تھے ۔ ان ہی اہم امرا سے حضرت مجدد نے خط و کتابت کا آغاز کیا ، ان میں سید بھی تھے اور دیگر بھی ۔ حضرت کے خطوط کے مطالعہ سے یہ اندازة کرنامشکل نہیں ہے کہ حضرت مجدد انسانی فطرتوں سے بخوبی واقف ہیں اورکلمواالناس علی قدر عقولہمکے تحت بات کرتے ہیں ۔ ان خطوط میں با رہا حضرت مجدد نے شیخ فرید کی ساداتیت کا واسطہ دیا ہے اور ان کے آباواجداد کے دین کی صیانت کے لئے انہیں انگیز بھی کیا ہے ۔ لیکن کہیں بھی حضرت مجدد خط لکھتے ہوئے نہ خود جذباتی ہوتے ہیں اور نہ اپنے عقیدت مندوں کو جذباتی بناتے ہیں ۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ حضرت مجدد کا وقت کی نبض پر ہاتھ ہے اور وہ ہر شخصکے لیے اس کے مرض کے مطابق دوا تشخیص کر رہے ہیں ۔ ان عقیدت مند درباریوں میں نواب سید مرتضی عرف شیخ فرید(م۱۰۲۵ھ) خان اعظم مرزا کو کہ (م۱۰۳۳ھ) خان جہاں لودھی (م۱۰۴۰ھ) صدر جہاں پہانوی(م۱۰۲۷ھ) لالہ بیگ جہانگیری ، عبد الرحیم خان خاناں(م۱۰۳۶) قلیج خاں اند جانی اکبری(م۱۰۲۳ھ) خواجہ جہاں (م۱۰۲۹ھ) مرزا داراب ابن خان خاناں جہانگیری(م۱۰۳۴ھ) اور شرف الدین حسین بدخشی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات میں بھی خصوصی طورپر شیخ فرید کو مخاطب کرتے ہیں اور دور اکبری میں اسلام کے زوال کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ یہی وہ وقت ہے جب اسلام کا زوال عروج میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ ان خطوط کا ایک ایک لفظ نگاہوں سے ہوتے ہوئے دل تک اتر جاتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام و مسلمان کی صورت حال پر حضرت مجددکتنے غمزدہ اورمضمحل ہیں ۔ بار بار بادشاہ کو سمجھانے اور بات کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے اگر حضرت مجدد بادشاہ کو سمجھانے اور تلقین و ارشاد کی خود پیش رفت کرتے تو بہت ممکن ہے کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا اور وہ بھی گزشتہ گمراہیوں پر مصر ہو جاتا ۔ حضرت مجدد نے خود اس کے ہم جلیسوں سے اس کی تالیف قلب کرائی۔حضرت مجدد اپنے خطوط میں اکبرکا ذکر اشارة و کنایة کرتے ہیں اوراسے عہد گزشتہ سے یادکرتے ہیں تاکہ وہ خطوط اگر جہانگیر کے ہاتھ لگ بھی جائیں تب بھی اس کی دل آزادی نہ ہو۔ اس سلسلہ کا معروف مکتوب نمبر۴۷دفتر اول ہے ۔ خطوط کو پورا پورا نقل کرنا یہاں ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے ان خطوط کے بعض اقتباس پر اکتفا کیا جائے گا ۔ مکتوب نمبر ۴۷/ میں پہلے شیخ فرید کو اپنے آبا اور سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر ثابت قدم رہنے کی دعا دیتے ہیں اور لکھتے ہیں ۔
”بادشاہ کو عالم سے وہی نسبت ہے جو دل کو بدن سے ہے ۔ اگر دل صحیح و صالح ہے تو بدن بھی صحیح و صالح ہوگا اور اگر وہ فاسد ہے تو بدن بھی فاسد ہوگا ۔ بادشاہ کا صلاح عالم کا صلاح ہے اور اس کا فساد عالم کا فساد ہے “۔
عہد ماضی کی یاد دلاتے ہوئے چند سطروں کے بعد رقم طراز ہیں ” آج جب کہ اسلام کے غلبہ و اقبال سے جو چیزمانع تھی ،اس کے دور ہو جانے اور بادشاہ اسلام کے سر یرآرائے سلطنت ہونے کا مژدہ خاص و عام کے کانوں تک پہنچا ہے ۔اہل اسلام نے اپنے ذمہ ضروری سمجھا کہ وہ بادشاہ کے ممد ومعاون بنیں اور شریعت کی ترویج اور ملت کی تقویت کا راستہ دکھائیں ، یہ امداد و تقویت خواہ زبان سے میسر آئے خواہ ہاتھ سے ۔“
تمہید کے بعد اصل مقصد کی طرف حضرت مجدد کس انداز میں آتے ہیں ملاحظہ کریں۔
اگر کوئی شخص اس کا ر خیر (اعانت دین) میں اعانت دین کی استطاعت رکھتا ہے ، اگر اس میں کوتاہی سے کام لیتا ہے اور کار خانہ اسلام میں فتورواقع ہوتا ہے وہ کوتاہی کرنے والا بھی قابل شکایت ہوگا ، اس بنا پریہ حقیر اور قلیل البضاعت بھی چاہتا ہے کہ وہ سلطنت اسلام کی مدد کرنے والوں کے جرگہ میں شامل ہو اور اپنی بساط بھر ہاتھ پاؤں مارے کہمن کثر سواد قوم فہومنہم کیا عجب ہے کہ اس بے استطاعت کو اس عالی جماعت میں شامل کرلے ، وہ اپنی مثال اس ضعیفہ کی طرح سمجھتا ہے جس نے کچھ رسیاں بٹ کر خود کو خریداران یوسف کے سلک میں منسلک کرنا چاہا تھا ، امید ہے کہ جلد ہی یہ فقیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا ، آپ سے اس کی توقع ہے کہ چوں کہ آپ کو بادشاہ کا قرب خاص حاصل ہے اور ان باتوں کے گوش گزار کرنے کے مواقع میسر ہیں ، خلوت و جلوت میں شریعت محمدی کی ترویج کی کوشش کریں گے اور مسلمانو ں کو اس غربت و بے کسی سے نکالیں گے “۔(مکتوب ۴۷/دفتر اول)
شیخ سید فریدکو ایک دوسرے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔
” اس وقت غریب اہل اسلام جو اس گرداب میں گرفتار ہیں ، نجات کی امید اہل بیت ہی کے سفینہ سے لگائے ہوئے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مثل اہل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبہا نجا و من تخلف عنہا ہلک(مشکوة عن ابی زراز مسند احمد) ہمت عالی کو اس مقصد عالی پر مرکوز کر دیں کہ یہ سعادت عظمی ہاتھ آئے ،اللہ کی عنایت سے ہر طرح کا جاہ و جلال اور عظمت و شوکت آپ کو میسر ہے ، اس شرف ذاتی (سیادت خاندانی) کے ساتھ اگر یہ سعادت بھی شامل ہو جائے تو سب سعادتوں سے بازی لے جائیں ، یہ حقیر اسی طرح کی باتوں کے عرض و معروض کے لیے جن کا مقصد تائید و ترویج شریعت ہے ، آپ کی خدمت میں آنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔“(مکتوب ۵۱/دفتر اول)
مکتوب ۸۱/دفتر اول میں لالہ بیگ کو لکھتے ہیں ۔
”ابتدائے بادشاہت میں اگر مسلمانی رواج پا جائے اور مسلمان کچھ عزت پیدا کر لیں فبہا اور اگر عیاذا باللہ سبحانہ اس معاملہ میں تو قف ہوا تو معاملہ مسلمانوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا الغیاث الغیاث ثم الغیاث الغیاثدیکھئے کون صاحب اقبال اس سعادت سے سر فراز ہوتا ہے اور کون سا شہباز اس دولت کو حاصل کرتا ہے ۔ ذالک فضل اللہ یو تیہ من یشاء و اللہ ذوالفضل العظیم۔“
امیر صدر جہاں کو ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔
”یقین ہے کہ مقتدائے اسلام،سادات عظام ، علماے کرام ، خفیہ و علانیہ دین متین کی ترقی و تقویت اور اس صراط مستقیم کی تکمیل میں مشغول ہوں گے ،یہ بے سر سامان اس معاملہ میں کیا دراز نفسی سے کام لے ۔“( مکتوب ۱۹۴/دفتر اول)
یہ عہد جہانگیر ی کے ابتدائی زمانہ کے مکتوبات کے چنداقتباسات ہیں ۔ انہی مضامین کے بے شمار مکتوبات ہیں جنہیں حضرت مجدد نے وقتا ًفوقتاً در باریوں اور امراکے نام لکھا ہے ۔خط و کتابت کا یہ سلسلہ جاری تھا اور حضرت کی مقبولیت میں اضافہ روز افزوں تھاکہ حضرت مجدد نے ۱۰۲۶ھ میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے اپنے مریدوں و خلفاکو انہی کے علاقوں میں دعوت دین پر مامور فرمایا جس کاعوام و خواص اور آپ کی مقبولیت کے علاوہ سلسلہ نقشبندیہ و خلفاو مریدین کی مقبولیت پر مثبت اثر ہوا اور آپ روز بہ روز مرجع خلائق ہوتے چلے گئے (تفصیل کے لئے تاریخ دعوت و عزیمت ، جلد چہارم باب چہار م ملاحظہ ہو)
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے مسلکی مخالفین حرکت میں آ گئے اور بادشاہ کا کان بھرنا شرو ع کر دیا ۔ اس سلسلہ میں مختلف مصنفین نے مختلف وجوہ کا اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ قرین قیاس یہ دلیل معلو م ہوتی ہے کہ بادشاہ اور آپ کے مسلکی مخالفین کو خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ آپ بغاوت نہ کر دیں ۔ بالآخر آپ کے مکتوبات کاسہارالے کر آپ کو سر ہند سے دربارمیں طلب کیا گیا اور آپ نے شہزادہ خرم شاہ جہاں کے اصرار کے باوجود بادشاہ کو سجدہ تعظیمی سے انکارکر دیا۔ ان تمام حالات کے مطالعہ سے ایک بات تو کھل کر سامنے آہی جاتی ہے کہ حضرت مجدد کے دربار میں پہنچنے سے قبل ہی سارے منصوبے تیار کر لیے گئے تھے اور اسی بنا پر شہزادہ خرم نے بھی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے افضل خاں اورمفتی عبد الرحمان کو بعض کتب فقہیہ کے ساتھ آپ کے پاس بھیجا تھا تاکہ آپ سجدہٴ تعظیمی سے انکار کر کے مصائب میں گرفتار نہ ہوں لیکن حضرت مجدد نے اس پیش کش کو رخصت کہتے ہوئے سجدہٴ تعظیمی سے انکار کر دیا اور عزیمت پر ثابت قدم رہے،جس کی پاداش میں بادشاہ نے ا ٓپ کو قلعہ گوالیار میں قید کرا دیا ۔ قلعہ گوالیارمیں دور نظر بندی کے سن کے حوالہ سے آپ کے مورخین و سوانح نگار میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے ۔پروفیسرمسعود احمد مجددی دور نظر بندی ۱۰۲۷ھ تا ۱۰۲۸ھ بتاتے ہیں ،مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی اور پروفیسر محمد فرمان، مصنف حیات مجدد توزک جہانگیری کو پیش نظر رکھ کر ۱۰۲۸ھ تا ۱۰۲۹ھ کا واقعہ بتاتے ہیں ۔ فی الوقت مجھے اس بحث میں الجھنا نہیں چوں کہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حضرت مجدد اس واقعہ کو عملی و فکری اعتبار سے کس انداز میں لیتے ہیں ۔ ایک مفصل خط میں میر محمد نعمان کولکھتے ہیں ۔
”پوشیدہ نہ رہے کہ جب تک اللہ تعالی کی عنایت سے اس عنایت نے حق تعالی کے جلال و غضب کی صورت میں تجلی نہ فرمائی اور قید خانے کے قفس میں قید نہ ہوا ۔ تب تک ایمان شہودی کے تنگ کوچے سے کلی طورپرنہ نکلا ۔ اور ظلال وخیال ومثال کے کوچوں میں سر گرداں رہا۔ ایمان بالغیب کی شاہراہ میں مطلق العنان ہو کر نہ دور اور حضور سے غیب کے ساتھ اور عین سے علم کے ساتھ اور شہود سے استدلال کے ساتھ کامل طور پرنہ ملا اور ذوق کامل اور وجدان بالغ کے ساتھ دوسروں کے ہنر کوعیب اور ان کے عیب کو ہنر نہ معلوم کیا ۔“( حیات مجدد ۹۱)۔کٹ ٹو
عہد جہانگیر کے مظالم اور حضرت مجدد کاطریقہ احیائے شریعت
حالانکہ جہانگیر نے حضرت مجدد کو صرف گرفتار ہی نہیں کیاتھا آپ کے مال و اسباب ، کتابوں اورجائداد کو بھی نقصان پہنچایا تھا ۔ اس کے باوجود حضرت مجدد کا گرفتاری کو عنایت قرار دینا آپ کے مجدد اور صاحب عزیمت ہونے کی بڑی دلیل ہے ۔ گرفتاری کے بعد جہاں گیر نے آپ کو بہ جبر اپنی معیت میں ساڑھے تین سال تک رکھا۔ اس سلسلہ میں بھی عقیدت مند مصنفین اور غیر جانبدار مصنفین کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ وہ اس وجہ سے ہے کہ جہاں گیر نے توزک میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے انہیں خود مختار بنا دیا اور کہا کہ آپ چاہیں تو سر ہند چلے جائیں اور چاہیں تو میری معیت میں رہیں۔ شیخ نے میری معیت اختیار کی ۔ بس یہی بات عقیدت مندوں کو لگ گئی اور وہ دور پابندی کو ہتک سمجھ کرجہانگیر کے وکیل بن گئے ۔ اس معاملہ میں پروفیسر محمد مسعود احمد مجدد ی اور پروفیسر محمد فرمان کی رائے درست ہے کہ ”یہ بات بھی جہانگیر کی اور کئی باتوں کی جھوٹ سے لبریز اورمغلیہ اور مغلیہ حکمت عملی کا ایک شاہ کار ہے ۔“( حیات مجدد۵۳)
میرے پیش نظراس وقت اپنے قارئین کو اس مقام تک پہنچانا ہے جہاں وہ حضرت مجدد کے طریقہ احیائے شریعت کو سمجھ لیں اور یہ بھی سمجھ لیں کہ ان جانکاہ واقعات کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت مجدد کے وجود کے کسی گوشہ میں پوشیدہ دعوت دین کی خواہش کی تکمیل کی ہے ۔ یہاں میں ایک طویل مکتوب ۴۳/ دفتر سوم نقل کروں گا،جسے حضرت مجد نے دور پابندی کے دوران اپنے صاحبزادگان والا شان کو تحریر فرمایا ہے ۔
”اس طرف کے حالات بہت اچھے ہیں ، موقع شکر کا ہے ۔ عجیب و غریب صحبتیں گزاری جا رہی ہیں ، اللہ کی عنایت سے اپنی ان ساری گفتگوؤں میں دینی امور اوراسلامی اصول کے متعلق بال برابر کسی قسم کی نرمی یا سستی کا اظہار نہیں ہوا ، وہی باتیں جو خاص مجلسوں اور خلوت میں بیان کی جاتی تھیں ،ان معرکوں میں بھی حق تعالی کی توفیق سے وہی بیان ہو رہی ہیں ، اگر میں کسی ایک مجلس کا بھی حال لکھوں تو اس کے لیے ایک دفتر چاہئے ، خصوصا آج کی رات جو رمضان کی ۱۷/تاریخ ہے پیغمبروں(علیہم الصلواةوالتسلیمات) کی بعثت اور یہ کہ ’عقل‘(زندگی کے تمام مسائل کے لیے ) مستقل اور کافی نہیں ہے اور آخرت عذاب و ثواب پر ایمان لانے ، حق تعالی کے دیدار اور خاتم الرسل (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ختم نبوت اور ہر صدی کے مجدد اور خلفاے راشدین کی پیروی (رضی اللہ عنہم) اور تراویح کامسنون ہونا، تناسخ کا باطل ہونا،جن اور جنیوں کا ذکران کے عذاب و ثواب کا مسئلہ اوراسی قسم کی بہت سی باتوں کا ذکر رہا ، (بادشاہ) نے خوبی و حسن کے ساتھ سنا ،اس سلسلہ میں اقطاب و ابدال و اوتاد اوران کی خصوصیتیں مثلا یہ ہیں ۔ ان باتوں کا بھی ذکر آیا خدا وند تعالی کاشکر ہے کہ (بادشاہ) ایک حال میں رہے اور کسی قسم کا کوئی تغیر جو بر ہمی پر دلالت کرے) اس کا اظہار نہ ہوا ، شاید ان ملاقاتوں میں حق تعالی کی مصلحتیں ہوں اور اس کے اسرار ان میں پوشیدہ ہوں ، شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بات کی طرف راہنمائی فرمائی ہم اس راہ کو پا نہیں سکتے ، اگر حق تعالی راہ نہ دکھاتا ، بلا شبہ ہمارے رب کے پیغمبر ”حق “ کے ساتھ آئے ۔“(مکتوب۴۳/دفتر سوم)
ان مکاتیب پر غائر انہ نظر ڈالنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت مجدد ایک طرف احتساب ذات کر رہے ہیں تو دوسری طرف دینی امور اور دعوت دین کی ادائیگی پر شاداں و فرحاں بھی ہیں ۔ اس طرح مختلف حالات وکیفیات اور مصائب سے گزر کرحضرت مجدد نے تجدید دین کا کارنامہ انجام دیا ۔ بعض سوانح نگار ومورخین اور خود توزک جہاں گیری میں جہاں گیر اپنی مے نوشی کا ذکر کرتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امور دین کی انجام دہی میں اس دورمیں نمایاں تبدیلیاں آئی تھیں۔ مثلا اس نے قلعہ کانگڑہ میں مسجد تعمیر کرائی ،اکبر کے زمانہ میں گاؤں کشی پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اسے ختم کر دیا ۔ جہاں گیر کے زمانہ میں مساجد تعمیر ہوئیں یہ بالکل الگ بات ہے کہ جہاں گیر خود کو نہ بدل سکا ۔ قطعی طور پر میں خود کو جہاں گیر کے وکیل کے طور پر پیش نہیں کرنا
چاہتا البتہ اس کے مزاج میں جو بتدریج تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں وہ امرا کے نام حضرت مجدد کے ذریعہ لکھے گئے مکتوبات اور حضرت مجدد کی ساڑھے تین سالہ معیت کی مرہون منت تھیں۔
ان حالات میں حضرت مجدد کے فیصلے کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر حضرت مجدد بغاوت کرتے تو بعدمیں پھر کبھی شاہ جہاں ،اور نگ زیب پیدا نہیں ہوتے ، اگرحضرت مجدد بذات خودبادشاہی تقرب کے خواہاں ہوتے توان کی وہ قدر و قیمت نہیں ہوتی جو عوام کے دلوں پر آج بھی سکہ رائج الوقت ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں گیر ذاتی طور پر تا مرگ نہیں سدھرا اور نہ ہی وہ حضرت مجدد کا مرید ہے ۔مگر یہ ایک حقیقت واقعہ ہے کہ جہاں گیر کے دور میں عہد اکبری کی خرافات، بد عات ، ارتدادات ، غیر شرعی و غیر اسلامی امور پر اصرار ، اسلام و پیغمبر اسلام کے مضحکہ اور استہزا پر روک لگ گئی اور حضرت مجدد کی بتدریج ، مستحکم ، مضبوط اور توانا سعی رنگ لائی اور ایک بار پھر اسلام کی طرف مائل بادشاہ شاہ جہاں اوراورنگ زیب سریر آرائے سلطنت ہند ہوئے ۔ حضرت مجدد کا انتقال تو ۱۰۳۴ھجری میں سر ہندمیں ہوا لیکن حضرت نے اپنے بعد بھی اپنے خلفا مریدین ، متوسلین اورصاحب زادگان کو صراط مستقیم دے کر گئے جس پر گامزن رہ کر انہوں نے حضرت مجدد کے مشن کو آگے بڑھایا اور بعد میں ان کی کوششوں کے اثرات بھی بآسانی محسوس کیے جا سکتے ہیں کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں سجدہٴ تعظیمی بادشاہ ہی حکم پرختم کر دیاگیا۔ یہ بھی سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگوں کا ہی فیض تھا کہ مثالیں دینے والوں نے اورنگ زیب کی مثال حضرت عمر بن عبد العزیز سے دے ڈالی ، گو کہ اس میں بھی مبالغہ آرائی کا شائبہ موجود ہے اور یہ بھی محترم علماے کرام کی کرم فرمائی ہے ۔/فیڈ آؤٹ
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اس مضمون میں راقم دربار سے باہر نہیں نکل سکا ہے اور نہ ہی وحدة الوجود اور وحدة الشہود ، رد بدعات اور دیگر کوششوں اور خدمات کا میں نے احاطہ کیا ہے ۔ میرے خیال میں حضرت مجددکی سب سے بڑی خدمت ارتداد اکبری کا خاتمہ ہے ، وحدة الوجود اور وحدة الشہود کی گرما گرم بحث آج بھی موضوع بحث ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔ رد بد عات کا عمل ہر زمانہ میں جاری و ساری رہا ہے مگر ہم جب ہندوستانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو عہد اکبری سے زیادہ پرآشوب زمانہ ہمیں نظر نہیں آتا ، پوری ہندوستانی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ تھا جسے حضرت مجدد
نے اپنی عزیمت سے پاش پاش کردیا ۔ اسے ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں جس اسلام کی شجر کاری حضرت خواجہ اور ان کے رفقا نے کی تھی اور امتداد زمانہ کے ساتھ وہ تناور درخت ہوگیا تھا یہاں تک کہ اس میں غیر ضروری شاخیں بھی نکل آئی تھیں اس کی تزئین اور چھنٹائی حضرت مجدد کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ اس لیے یہ کام حضرت مجدد کی خدمات میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔ جہاں تک وحدة الوجود اور وحدة الشہود کی بحث کا معاملہ ہے تو میں اس ادق بحث میں شمولیت کے لائق خود کو نہیں سمجھتا ۔ حضرت مجدد کی وہ جاں فشانیاں جنہیں انہوں نے ۱۰۲۷ھجری سے ۱۰۳۴ھجری تک جھیلی ہیں ، ان کے مثبت نتائج نسلا بعد نسل ظاہر ہوتے رہے ہیں۔
***