Home / Socio-political / دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک

دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک

دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک

سمیع اللہ ملک

چین کی ابھرتی ہوئی فوجی اور معاشی طاقت جو مستقبل میںامریکا اوریورپ کیلئے ایک مشکل معاشی چیلنج بن رہی ہے، اس نے امریکا اور اس کے تمام حواری یورپی یونین کی نیندیں حرام کررکھی ہیں جس کے تدارک کیلئے کئی زیر زمین منصوبوں پر بڑی سرعت کے ساتھ عمل جاری ہے ۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سنٹرل ایشیا کا صدر دروازہ بناکرایسی جغرافیائی اہمیت عطا فرمائی ہے جس کی بنائ پر امریکا اور اس کے اتحادی اس جغرافیائی اہمیت کو اپنے مفاد کیلئے ہر قیمت پراستعمال کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس کیلئے انتہائی ناگزیر اقدامات کا ایسا گھناؤنا جال بچھا دیا گیاہے جس سے خاکم بدہن پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔ چین اورپاکستان کو ملانے والی شاہراہِ ریشم نے جہاں پاکستان کی اہمیت دو چند کردی ہے وہاں بلو چستان کا گرم پانیوں والا طویل ساحل اورچین کی مدد سے بنائی گئی گوادر کی ڈیپ سی پورٹ جس سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دنیا کی معاشی قوت چین کے ہاتھ میں چلے جانے کا شدید خدشہ ہے اور تیسری طرف دنیا کو دیکھنے والی اونچی آنکھ یعنی ’’ کے ٹو‘‘ چوٹی جسے دنیا ’’ورلڈ روف‘‘﴿دنیا کی چھت﴾ کہتی ہے جس پر میزائل سسٹم لگا کر دنیا کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، بھی پاکستان کی حدود میں موجود ہے۔

مگر بد قسمتی سے پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومتیںہمیشہ امریکا کی آشیرآباد سے بنتی اور ٹوٹتی ہیں اوراپنے مفاد کیلئے جمہوریت کی شب وروز تعریف کرنے والا امریکا اور اس کے اتحادی جہاں فوجی ڈکٹیٹروں کو خوش آمدید کہتے ہیں وہاں این آراو کی چھتری تلے موجودہ حکومت کی سرپرستی میں بھی پیش پیش ہیں۔پاکستان کی ساری قوم ،پارلیمنٹ،دفاعی کمیٹی اور اے پی سی نیٹو سپلائی کے خلاف تھی لیکن کراچی کی لسانی جماعت ایم کیو ایم کے رہنما نے اچانک امریکی بحری بیڑے کا پاکستان کے ساحلی علاقوںکی طرف پیش قدمی کا ہوا کھڑا کرکے ساری قوم کو تشویش میں مبتلا کر دیااور اسی اعلان کی آڑ میں نیٹو سپلائی کھولنے سے پہلے اچانک ایک دن پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے اعلان کر دیا کہ دنیا کے ۸۴ ممالک سے دشمنی مول نہیں لے سکتے اور کچھ حاصل کئے بغیر امریکی خوشنودی کیلئے حکومت نے نیٹو سپلائی کھول دی ۔اگر دشمنی مول نہیں لے سکتے تھے تو پھرپہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟اب ایم کیو ایم کراچی میں اورعوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت امریکا سے دوستی نبھاتے ہوئے نیٹو سپلائی کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں اورامریکی کنٹینرز اور آئل ٹینکرزکو عوامی ردِ عمل سے بچانے کیلئے بھاری سیکورٹی میں محفوظ مقامات پر پہنچانے کا کام جاری و ساری ہے ۔

امریکی اشارے پرپاکستان کے معاشی حب کراچی کے امن و امان کو تباہ کر دیاگیاہے جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ تو درکنارخود پاکستانی سرمایہ کاربنگلہ دیش، ملائشیااورسنگاپورمیں تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں ۔ امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ایم کیو ایم نے اے پی سی منعقد کرنے کی جاں توڑ کو شش کی لیکن محب وطن جماعتوں نے اسے مسترد کردیا۔پیپلز پارٹی کی اجازت سے امریکی سفارت کاروں نے گلگت اور بلتستان کے حساس علاقوں جہاں شیعہ اور سنی فسادات کروائے جا رہے ہیں،کا و دورہ کیا ہے۔ مقامی این جی اوز،قوم پرستوں، صحافیوں اور تاجروں سے ملاقاتیں کیں اور امریکی وفدچین کا اثرو رسوخ معلوم کرنے میں مصروف رہا۔امریکی سفارت کاروں کی گلگت اور بلتستان میںبڑھتی دلچسپی پر پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے امریکی حکام کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔

سفارت خانے نے محکمہ داخلہ کو نظرانداز کرکے گلگت و بلتستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد کی سیکورٹی کیلئے براہِ راست آئی جی گلگت و بلتستان حسین اصغر سے رابطہ کیا۔امریکی وفد نے خصوصی طور پربالادرستان نیشنل فرنٹ کے سرگرم قوم پرستوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا جہاں انہوں نے موجودہ حکومت کے خلاف بے بنیادشکایات کا انبارلگا دیاکہ چترال،کوہستان اور لداخ کوسازش کے تحت اس علاقے سے الگ کردیا گیا ہے،گلگت بلتستان کا سارا بجٹ کرپشن کی نظر ہورہاہے،یہاں سے جانے والے پانیوں سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کے باوجودخطہ بیس گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔فرنٹ کے رہنماؤں نے دیامیر بھاشا ڈیم نہ بننے دینے اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیکر پاکستان کا حصہ نہ ماننے کا اعلان کیا جس کے بعدامریکی وفد نے کچھ یقین دہانیوں کے ساتھ انہیں بھاشا ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے اکسایا۔

دراصل امریکی وفد کادورۂ خطے میں جاری گریٹ گیم کا حصہ تھا جہاں امریکی وفد یہ معلوم کرنے گیا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کیلئے اپنی ایجنٹوں کو جو رقوم فراہم کی گئی تھیں وہ صحیح معنوں میں درکار مقاصد کیلئے استعمال ہوئی کہ نہیں۔ پاکستان کے حساس اداروں نے امریکی وفدکا صوبائی انتظامیہ کو اعتماد میں لئے بغیر اس پراسراردورے پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے علاقے میںہونے والے فسادات میں سی آئی اے اور موساد کے ملوث ہونے کے واضح شواہد کی طرف اشارہ بھی کیاہے ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل گلگت بلتستان سے وابستہ ہے، معلوم نہیں کہ امریکی پٹھوپاکستانی حکمرانوں نے امریکیوں کو ایسے نازک موقعے پراس علاقے کا دورہ کرنے سے منع کیوں نہیں کیا؟ یہ امریکی غلامی نہیں تو اور کیا ہے؟کچھ سال پہلے ایک امریکی نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھاکہ سی آئی اے نے پاکستان کے اندر دس ہزار سے زائد خفیہ اہلکار داخل کئے ہیں جومسلمانوں کی طرح داڑھی اور لباس میں ملبوس پاکستان کے اندراپنی کاروائیاں سرانجام دیتے ہیں۔قومی میڈیا نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک خبر میں ایک حکومتی مراسلے کے حوالے سے جو وزارتِ داخلہ نے چاروں صوبوںکے نام لکھا تھا ،اس میں ایک امریکی اسٹیوداڈی نامی شخص کاانکشاف کیا تھاکہ جو لمبی داڑھی میں شلوار قمیض میں ملبوس ایٹمی امور میں ماہر اور گوادر میں دلچسپی لے رہاہے ۔کیا یہ ان لوگوںمیں سے تو نہیں جس کی مذکورہ کتاب میں نشاندہی کی گئی ہے؟

دو امریکی مصنفین ڈی پی گریڈ اور مارک امینڈر نے اپنی نئی کتاب ﴿دی کمانڈ،صدر کی خفیہ فوج﴾ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی وزارتِ دفاع نے آزاد کشمیر میں ۵۰۰۲ئ کے زلزلے کے فوری بعدجوائنٹ اسپیشل آپریشنز﴿جے ایس پی﴾ کے ارکان کو امدادی کاروائیوں کی آڑ میں آزاد کشمیر میں داخل کردیا تھا۔ اس موقع پر جے ایس پی کے متعدد اہل کار پاکستان میں غائب ہو گئے تھے جن کا مقصد پاک فوج اور خفیہ اداروں میں دراندازی کرنااور پاکستان کے جو ہری پروگرام کے بارے میں اطلاعات جمع کرنا تھا۔دوسرا مقصد پاکستان میں مخبروں کا جال بچھانا تھا کہ اس حوالے سے القاعدہ کی نشاندہی بھی کر سکیں۔۱۱۰۲ئ میں پاک امریکا کشیدگی کے دنوںمیں ان تمام افراد کو واپس بلا لیا گیا۔

میڈیا میں رپورٹ آئی کہ محمد رشید نامی بھارتی مصنف نے اپنی کتاب ’’پاکستان آن دی برنک۔ امریکا ،پاکستان اورافغانستان کا مستقبل‘‘میں کہا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے مقابل اور اوجھل ایک اور خفیہ ایجنسی قائم کرنے کا منصوبہ تھا تاہم دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھنے کے باعث عمل نہ ہوسکا،اس منصوبے کو صدراوبامہ کو پیش کیا گیاتھا جسے قبول بھی کر لیا گیا تھا۔ امریکی فوج ۴ہزارسے ۸ہزار فوجیوں کو بھیجنے کی منظوری چاہتی تھی۔ایک تجزیہ نگار کے مطابق امریکا نے سائبر ہتھیار کا استعمال شروع کیاہے ۔امریکا نے مسلمانوںکا مذہب سے لگاؤ ختم کرنے کیلئے سائبر ہتھیار کے نام سے ایک ایسی ویکسین تیار کر لی ہے جو انسانی دماغ کے اس حصے کو ناکارہ بنا دیتی ہے جس میں مذہبی رحجانات کی آبیاری ہوتی ہے۔منصوبہ یہ ہے کہ پولیو،ہپاٹائٹس یا کسی اورموذی مرض کی ویکسی نیشن کی آڑ میں اسلامی دنیا کی یوتھ کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کام کیلئے ان کے پروردہ این جی اوزکی خدمات حاصل کی جائیں گی جیسے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی نے ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نامی بین الاقوامی این جی اوکو ملا کر اسامہ بن لادن کی جاسوسی کی تھی۔کیا پاکستان کے قبائل کے اندرحالیہ ویکسین مہم اس سلسلے کی کوئی کوشش تو نہیں ہے؟

مغربی دنیااور خصوصاً امریکاکی پروپیگنڈہ مہم نے مسلمانوں کو زیر کرنے کیلئے اپنا مدمقابل بنالیا ہے اور اس پر گرفت حاصل کرنے کیلئے ایسے طریقے ایجاد کئے جارہے ہیںجس کی کوئی مذہب یا معاشرہ اجازت نہیں دیتا،مسلمانوںکو بدنام کرنے کیلئے انتہا پسند،دہشتگرد،جنونی ،غیر مہذب اور خونخوار کی اصطلاحات گھڑ ی گئیں جبکہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔امریکا خودسب سے بڑا خونخوار ہے ،اس نے ہیرو شیما اور ناگاساکی جاپان پردنیا کے پہلے اورآخری ایٹم بم برساکر اپنے منہ پرجوتاریخی کالک لگائی ہے وہ عمر بھراس کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہونا چاہئے تھی لیکن کمبوڈیا،سوڈان،لیبیاکے بعداب عراق،افغانستان میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہاہے۔ پاکستانی میڈیا کو فنڈنگ کے ذریعے یوتھ کو اسلام سے دور کرنے کیلئے فحاشی،عریانی اور ناچ گانے کو فروغ دے رہاہے۔ اپنے مفادات کے حصول کیلئے مسلم ممالک میں اپنے زرخرید سیاسی رہنماؤں کواستعمال کرکے ایران اور عراق کو دس سالہ جنگ میں جھونک کرتباہ وبرباد کردیا،انہوں نے کویت اور عراق کے درمیان جنگ شروع کروائی اور دونوں کی معیشت کو تباہ وبرباد کردیا۔عراق کاہوا کھڑاکرکے سعودی عرب کے اندراپنی افواج کیلئے جگہ بنائی ۔آج وہاں امریکا کی فوج موجود ہے۔کیا یہ امریکی عزائم مکہ اور مدینہ کے خلاف کی جانے والی پلاننگ تو نہیں ہے؟یہ بات تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ اوبامہ نے اپنے پہلے صدارتی انتخابی مہم میںحج کے دوران مسلمانوں پر بم گرانے کی دہمکی دی تھی۔اسامہ بن لادن کایہی قصور تھا کہ وہ اپنے ملک اور دیگر اسلامی ممالک سے امریکی فوجوں کو نکالنے کی بات کرتا تھا،اسی لئے امریکا نے اسے اپنا نمبرون دشمن قراردے دیا تھا ۔ ﴿جاری ہے﴾

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *