Home / Articles / دہشت کا ایک دِن

دہشت کا ایک دِن

افسانہ

از:۔۔ایم مبین

جب وہ گھر سےنکلا تو سب کچھ معمول کےمطابق چل رہاتھا ۔ بلڈنگ کا واچ مین اُسےدیکھ کر کھڑا ہوگیا اور اُس نےاُسےسلام کیا ۔ اُس نےسر کےاِشارےسےاُس کےسلام کا جواب دیا ۔ آگےبڑھا تو ایس ۔ ٹی ۔ ڈی میں بیٹھےساجد نےاُسےسلام کیا ، خلاف معمول اُس دِن اُس کےپی ۔ سی ۔ او پر بہت زیادہ بھیڑ تھی اور زیروکس نکالنےوالوں کی بھی قطار لگی تھی ۔ کلاسک آئیل ڈپو میں بیٹھےگڈو نےاُسےسلام کیا ۔ اُن کےسلام کا جواب دیتا جب وہ سیڑھیوں سےنیچےاُترا ۔ سامنےآلو پیاز والےدوکانداروں کی شناسا صورتیں دِکھائی دیں ۔ اور وہی رکشا ، ہاتھ گاڑی ، موٹر سائیکل ، اسکوٹروں کی ریل پیل اور اُن کےہارن کا شور اُن کےدرمیان سےراستہ بناتا وہ بڑی مشکل سےآگےبڑھا ۔ بسم اللہ چکن سینٹر پر چکن خریدنےکےلئےلوگوں کی قطار لگی تھی ۔ ایک تختی پر آج کا نرخ لکھا تھا۔ لٹکتی تختی ہوا کےساتھ گول گول گھوم رہی تھی ۔ اُس کےسامنےوالی چکن کی دُکان پر نرخ ایک روپیہ کم تھا ۔سدگرو ہوٹل کےباہر مٹھائی بنانےوالا پیاز کےبھجئےتل رہا تھا ۔ بڑےسےطباق میں وہ جلیبیاں ، وڑےاور آلو کےپکوڑےپہلےہی تل چکا تھا ۔ گلزار کولڈرنک میں اِکّا دُکّا گاہک بیٹھےمشروب کا مزہ لےرہےتھے۔ برف کی گاڑی آگئی تھی ‘ برف کی بڑی بڑی لادیاںاُس پر سےاُتاری جارہی تھیں ۔ برف لینےوالوں کی بھیڑ تھی ۔ جیسےہی کوئی گاہک برف کی قیمت ادا کرتا ، دو آدمی بڑی آہنی قینچی میں برف کی لادی پکڑ کر اُس کےرکشا میں رکھ آتے۔ ماموں ابوجی کی دوکان پر دُودھ لینےوالوں کی بھیڑ لگی تھی ۔ اُس کےسر پر دُودھ کےنرخ کی تختی ہوا سےگھوم رہی تھی ۔ ” ٣ روپیہ پاو

¿ ، ٠١ روپیہ کا ایک کلو ، تین روپیہ پاو

¿ ، دس روپیہ ایک کلو ۔“ ٹماٹر فروخت کرنےوالےزور زور سےآوازیں لگا رہےتھے۔ ” بھائی السلام وعلیکم ! “ آواز لگاتے، لگاتےانور اور شکیل نےحسب معمول اُسےسلام کیا ۔ سلام کا جواب دےکر خود کو بھیڑ کےدھکّوں اور نیچےکےکیچڑ سےبچاتا وہ آگےبڑھا ۔ رکشہ کی قطار میں کھڑےعزیز نےاُسےسلام کیا ۔ آگےبڑھا تو پولس اسٹیشن کےباہر کئی سپاہی کھڑےتھےاور ایک سپاہی اُنھیں اُن کی ڈیوٹی کا ایریا بتا رہا تھا ۔ ” نمسکار صاحب ! “ ایک کانسٹبل نےاُسےسلام کیا ۔ ” ارےپوتدار ! چلو ۔ “اُس نےجواب دیا ۔ ” نہیں آج میری ڈیوٹی نہیںہے‘ شاید کوئی دُوسرا سپاہی آئے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔ مرچی والوں کی دُکان کےپاس سےگذرتےہوئےاُسےکھانسی آگئی ۔ اُس نےکھانسی پر قابو پایا اور آگےبڑھا ۔ سنگم جویلرس کی دوکان بھی کھل گئی تھی ۔ راج دیپ ہوٹل کےکاو

¿نٹر پر بیٹھےسندیپ نےاُسےنمسکار کیا اور باہر پوری بھاجی بنانےوالےآدمی کو گالی دیتےہوئےاُسےجلد آرڈر کا مال بنانےکےلئےکہا ۔ سنیما کی گلی سےہوتا وہ پوسٹ آفس تک آیا ۔ پوسٹ آفس کےباہر منی آرڈر ، رجسٹر کرنےوالوں کی بھیڑ تھی ۔ سعیدی ہوٹل کےباہر دوچار آوارہ لڑکےبیٹھےآنےجانےوالوں کو چھیڑ رہےتھےاور آنےجانےوالی عورتوں اور لڑکیوں پر بھدےفقرےکس رہےتھے۔ اُن سب سےگذر کر وہ وقت پر آفس پہونچ گیا اور آفس کےکاموں میں لگ گیا۔ آفس میں اُس دِن زیادہ بھیڑ تھی ، کام کا لوڈ بھی زیادہ تھا ۔ایک ، ایک آدمی کو نپٹاتےہوئےکب دو تین گھنٹےگذر گئےپتا ہی نہیں چل سکا ۔اچانک اُس کےایک ساتھی موہن کو اُس کےبھائی کا فون آیا ۔ فون پر بات کرنےکےبعد جب اُس نےریسیور رکھا رکھا تو اُس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔ ” کیا بات ہے؟ “ اُس نےموہن سےپوچھا ۔ ” بھائی کا فون تھا ۔ ناکےپر کسی وکیل کو گولی ماردی گئی ہے۔ وہ جگہ پر ہی مرگیا ۔ شہر میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔ دوکانیں بند ہورہی ہیں ۔گڑ بڑ ہونےکا اندیشہ ہے‘اُس نےکہا ہےکہ میں آفس سےآجاو

¿ں ۔ “یہ بات سن کر اُس کےماتھےپر بھی شکنیں اُبھر آئیں ۔ اُس نےسوالیہ نظروں سےباس کی طرف دیکھا ۔ ” میں فون لگا کر تفصیلات معلوم کرتا ہوں ۔ “ کہتےہوئےباس نےریسیور اُٹھایا ۔ دو تین نمبر ڈائل کرکےجھلّا کر ریسیور رکھ دیا ۔ ” ٹیلی فون ڈیڈ ہوگیا ہے۔ “ تھوڑی دیر بعد پیون بھی واپس آگیا ۔ وہ کسی کام سےباہر گیا تھا ۔ ” کیا ہوا جادھو ؟ “اُس نےپوچھا ۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہےپورےشہر میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ کسی وکیل کو گولی مار دی گئی ہے۔ دوکانیں بند ہورہی ہیں ، لوگ اِدھر اُدھر بدحواسی سےبھاگ رہےہیں ۔ پتا چلا ہےکہ رکشا اور گاڑیوں پر پتھراو

¿ کیا جارہا ہے۔ میری آنکھوں کےسامنےچار پانچ کانچ پھوٹی رکشا آئی ۔ سب سےزیادہ لفڑا نذرانہ کی طرف ہے۔ “ ” نذرانہ ! “ یہ سنتےہی باس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑنےلگیں ۔ میری بیٹی اِس وقت وہاں ٹیوشن کےلئےگئی ہوگی ۔ اور وہ گھبرا کر پھر ریسیور اُٹھا کر ٹیلی فون ڈائل کرنےلگا ۔ اتفاق سےٹیلی فون لگ گیا ۔ ” مینا کہاں ہے؟ “ ٹیوشن کےلئےگئی ہے۔ ” ٹیوشن کا وقت تو ختم ہوگیا ‘ وہ ابھی تک واپس کیوں نہیں آئی ، سنا ہےاُس علاقےمیں بہت گڑبڑ چل رہی ہے؟ فوراً کسی کو بھیجو اور اُسےٹیوشن کلاس سےلےآو

¿ ۔ “ کہتےاُس نےٹیلی فون کا ریسیور رکھ دیا ۔ لیکن اُس کےچہرےپر تفکّر کی شکنیں تھیں ۔ اِس کےبعد اُس نےگھر ٹیلی فون لگا کر حالات معلوم کرنےکی کوشش کی تو ٹیلی فون ڈیڈ ہوچکا تھا ۔ آفس سےباہر جھانکا تو ساری دوکانیں بند ہوگئی تھیں ، سڑکیں سنسان ہوگئی تھیں ، سڑکوں پر کوئی سواری دِکھائی نہیں دیتی تھی ۔ لوگ دودو چار چار کی ٹولیاں بنا کر آپس میں باتیں کررہےتھے۔ ” کیا کیا جائے؟ “ اُس نےباس سےپوچھا ۔ ” آفس بند کردیا جائے۔ “ ” بالکل بند کردیا جائےجلدی سےباقی بچےکام نپٹا لیجئے۔ “ باس نےکہا اور پھر گھر فون لگانےکی کوشش کرنےلگا ۔ ” جادھو ! سامنےسےنسیم سےموبائیل لےکر آو

¿ ۔ شاید اُس سےرابطہ قائم ہوسکے۔ “ اُس نےپیون سےکہا ۔ جادھو نےموبائیل فون نہیں لایا ‘ خود نسیم موبائیل فون لےکر آگیا ۔ ”صاحب سارےٹیلی فون ڈیڈ ہوگئےہیں ‘ میں بھی کئی جگہ فون لگانےکی کوشش کررہا ہوں ، آپ کو کون سا نمبر لگانا ہے؟ “ باس نےنمبر بتایا نسیم نےنمبر لگانےکی کوشش کی مگر نمبر نہیں لگا ۔ ” لگتا ہےسارےشہر کےٹیلی فون بند کردئےگےہیں ۔ “ سب کام ختم کرنےمیں لگ گئے۔ اُس نےدوچار بار گھر فون لگانےکی کوشش کی اتفاق سےایک بار لگ گیا ۔ ” کیا صورتِ حال ہے؟ “ اُس نےپوچھا ۔ ”یہاں پر گڑبڑ ہے۔ ساری دُکانیں بند ہوگئی ہیں ۔ سڑک کی دونوں طرف ہزاروں افراد کی بھیڑ ہے‘ جو ایک دُوسرےکےخلاف نعرےبازی کر رہےہیں ، پتھراو

¿ بھی ہورہاہےمعاملہ کبھی بھی بگڑ سکتا ہے۔“ ” میں گھر آو

¿ں ؟ “ اُس نےپوچھا ۔” گھر آنےکی حماقت بھول کر بھی نہیں کرنا ۔ سارےراستےبند ہیں ، راستوں پر لوگوں کی بھیڑ ہےاور جوش میں بھری بھیڑ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی ہے۔ آپ جہاں ہیں وہیں رہیں ۔ جب حالات معمول پر آجائیں گےتو آجانا ۔ ورنہ آنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آفس کےآس پاس آپ کےبہت دوست ہیں ‘ کسی کےپاس بھی رُک جائیےاور مجھ سےرابطہ قائم رکھئے۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔ اُس نےریسیور نیچےرکھا ۔ آفس بند کرنےکی تیاری ہوگئی تھی ۔ موہن کا بھائی اسکوٹر لےکر آگیا تھا ۔ ” چلو میں چلتا ہوں ۔ “ ” سنو ۔ “ اُس نےکہا ۔ ” پرانےپل کےراستےنہیں جانا ‘اُدھر خطرہ ہے۔ “ ” نہیں میں پل کےراستےہی آو

¿ں گا ۔ “ موہن نےکہا ۔ صاحب اورجادھو بھی آفس بند کرکےجانےکی تیّاری کرہےتھے‘ اُن کےگھر آفس سےکافی قریب تھے۔ ” تم کیا کروگے؟ “ باس نےپوچھا ۔ ”بیوی کو فون کیا تھا ‘ وہ کہتی ہےمیں گھر واپس آنےکی حماقت نہ کروں ۔ سارےراستےبھیڑ سےبھرےہیں ‘ لوگوں کےہاتھوں میں ہتھیار ہے، پتھراو

¿ ہورہا ہے، راستےمیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں جن راستوں سےگذر کر گھر پہونچتا ہوں ‘ وہاں تو بہت زیادہ تناو

¿ ہےاور پھر اُن علاقوں کا ہر فرد مجھےپہچانتا ہے۔ ذرا سی گڑبڑی کی صورت میں میری جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ “ ” تو میرےگھر چلو ‘ جب حالات معمول پر آجائیں تو گھر چلےجانا ۔ “ باس بولا نہیں میں یہاں رُکتا ہوں ۔ اگر ضرورت پڑی تو آپ کےگھر آجاو

¿ں گا ۔ “ آفس بند کردیا گیا ۔ باس اور جادھو چلےگئے۔ وہ آفس کےسایےمیں کھڑا ہوگیا ۔ اُسی وقت سامنےسےمصطفیٰ آتا دِکھائی دیا ۔” مصطفیٰ کیا بات ہے؟ “ اُس نےپوچھا ” آپ کی طرف ہی آرہا تھا جاوید بھائی ! پورےشہر میں گڑبڑ چل رہی ہے۔ آپ کا گھر جانا ٹھیک نہیں ہے‘ چلئےمیرےگھر چلئے۔ رات میں بھی میرےگھر ہی رُک جانا ۔ میں نےبھابھی کو فون کیا تھا ۔ بھابھی نےکہا ہےکہ میں آپ کو گھر جانےنہ دوں ۔ اپنےگھر روک لوں ۔ وہاں بہت گڑبڑ ہے۔“ وہ باتیں کرتا مصطفیٰ کےساتھ اُس کےگھر چل دیا ۔ ” گڑبڑ شروع کیسےہوئی ؟ “ ” پتہ نہیں ! وہ وکیل شہر کےچوراہےسےہوتا کورٹ جارہا تھا ۔ اچانک دو موٹر سائیکل سواروں نےاُسےروک کر اُس کےسر میں گولی مار دی ‘ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔ ہوگی کوئی پرانی دُشمنی یا گینگ وار کا چکّر ۔وہ وکیل ویسےبھی اِس طرح کےکالےکارناموں میں ملوث تھا اور کافی بدنام تھا ۔ لیکن ایک سیاسی جماعت کےکیس کی پیروی بھی وہی کرتا تھا ۔ اِس لئےاس جماعت نےاسےسیاسی اور پھر فرقہ ورانہ رنگ دےدیا ۔ دوکانیں بند کرانےلگے۔ دوکانیں بند نہ کرنےوالےدوکانداروں کو مارتےپیٹتےاور اُن کی دوکانوں پر پتھراو

¿ کرتے۔ سامنےجو بھی رکشاآتی اُس کو روک کر اُس کےرکشا ڈرائیور کو مارتے، رکشاکی کانچ پھوڑ دیتے، اُسےاُلٹ کر آگ لگا دیتے۔ خاص طور پر داڑھی والےڈرائیورس کو نشانہ بناتے۔ “ غصےسےاُس نےاپنےہونٹ بھینچے۔ یہ بھی کوئی طریقہ ہے‘ معاملہ معمولی سا ہے۔ ذاتی دُشمنی یا کسی اور وجہ سےقتل ہوا ہوگا ۔ اُسےفوراً سیاسی اور فرقہ ورانہ رنگ دےکر شہر کا امن غارت کیا جائےاور شہریوں کی جان و مال سےکھیلا جائے۔ اُس نےمصطفیٰ کےگھر دوپہر کا کھانا کھایا ۔ اور دوبارہ گھر فون لگانےکی کوشش کی ‘ لیکن فون بند ہونےکی وجہ سےرابطہ قائم نہیں ہوسکا ۔ ایک گھنٹےبعد اچانک رابطہ قائم ہوگیا ۔ ” یہاں بہت گڑبڑ ہے۔ “ بیوی بتانےلگی ۔ ” ہم بلڈنگ کےٹیرس پر گئےتھے‘ آس پاس ہزاروں لوگ جمع ہیں ۔ وہ حملہ کرنےکی تیّاریوں میں ہیں ۔ سامنےوالی مسجد پر پتھراو

¿ ہورہا ہے۔ اسلامی ہوٹل پر پتھراو

¿ کیا گیا تھا اور اُسےلوٹنےکی کوشش کی گئی تھی ۔ لیکن اُس ہوٹل کی گلی میں ہزاروں لڑکےجمع ہوگئےتھے۔ اُنھوں نےجوابی پتھراو

¿ کیا تو حملہ آور بھاگ گئے۔ لیکن دونوں طرف سےسخت نعرےبازی جاری ہےاور پتھراو

¿ بھی ہورہا ہے۔ حالات کبھی بھی بگڑ سکتےہیں ۔ آپ اِس طرف آنےکی قطعی جماقت مت کیجئے۔

رات میں بھی مصطفیٰ کےگھر ہی رُک جائیے۔ “ ” دیکھو اگر بلڈنگ کو خطرہ محسوس ہوتو تم بچوں کو لےکر اپنےمیکےچلی جانا ۔ “ ”ویسےتو بلڈنگ کو خطرہ نہیں ہےلیکن جس طرح سامنےلوگ جمع ہیں ‘ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا کچھ ہوا تو میں اس سےپہلےہی بچوں کو لےکر میکےچلی جاو

¿ں گی ۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔ بیوی کا میکہ زیادہ دُور نہیں تھا اور وہ گھر سےنسبتاً محفوظ راستوں پر تھا ۔ اِس لئےاُسےاِس بات کا اطمینان تھا ۔ بیوی بچوں کو لےکر آرام سےمیکےپہونچ جائےگی جو کافی محفوظ علاقہ ہے۔ لیکن اپنےگھر کا کیا ؟ کچھ گڑبڑ ہوئی تو اُسےلٹنےاور جلنےسےکوئی نہیں روک سکتا ۔ اُنھیں وہ مکان لئےآٹھ مہینےبھی نہیں ہوئےتھے۔ ساری زندگی کی کمائی ، زیورات اور بینک کا قرض لگا کر اُنھوں نےوہ مکان لیا تھا اور دھیرےدھیرےاُس میں ضرورت کی ہر چیزسجایا تھا ۔ اگر وہ لوٹ لیا گیا یا جلا دیا گیا تو ؟ اُس کا دِل تیزی سےدھڑکنےلگا اور ماتھےپر پسینےکو بوندیں اُبھر آئیں ‘مصطفیٰ نےٹی وی لگایا ۔ ٹی وی کےہر چینل پر شہر میں ہونےوالےہنگاموں کی خبریں آرہی تھی ۔ شہر میں ایک وکیل کےقتل کےبعد ایک سیاسی پارٹی کےورکروں کا شہر میں ہنگامہ ، پتھرراو

¿ اور توڑ پھوڑ ۔ پہلےاُس وکیل کا تعلق اس سیاسی پارٹی سےاس حد تک بتایا گیا کہ وہ اس پارٹی ،جماعت ،کےکیسوں کی پیروی کرتا تھا ۔ پھر خبروں میں اُس وکیل کو اِس سیاسی جماعت کا ورکربتایا گیا ۔ اور آخر میں اُسےاسی سیاسی جماعت کا صدر بنادیا گیا ۔ ” ایک سیاسی جماعت کےصدر وکیل کےقتل کےبعد شہر میں سخت تناو

¿ ، پتھراو

¿ کی وارداتیں ، دُکانیں لوٹنے، چھرےبازی کی وارداتیں ۔ امول کاٹیکر نامی ایک شخص کو ایک ہجوم نےمار مار کر اَدھ مرا کردیا ۔ شری پروویژن نامی دوکان جلادی گئی ،مہادیو میڈیکل لوٹ لی گئی ۔ “ جیسی خبریں ہر چینل دینےلگا اور تناو

¿ اور تشدد میں اضافہ کرنےلگا ۔ حالات سنگین ہوتےجارہےتھے۔ اُس کا دِل ڈوب رہا تھا ۔ اُسےلگا شہر بارُود کا ڈھیر بن چکا ہےاور اب وہ پھٹا ہی چاہتا تھا ۔ آنکھوں کےسامنےگجرات کےفسادات کےواقعات اور خبریں گھوم رہی تھیں ۔ لوگوں کو زندہ جلایا جانا ، چن چن کر لوگوں کو مارنا ، اُن کی اِملاک تباہ و برباد کرنا ، اُن کےمکانوں ، عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنا ۔ اُسےایسا محسوس ہورہا تھا ‘ اگر ایسا ہی کچھ یہاں بھی شروع ہوگیا تو اس سےزیادہ خوفناک واقعات یہاں پیش آسکتےہیں ۔ ممکن ہےکچھ لوگ گجرات کا اِعادہ کرنا چاہیں تو کچھ گجرات کا بدلہ لینا چاہیں ۔ دونوں صورتوں میں جو کچھ ہوسکتاہےاس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اُس کا دِل ڈوبنےلگا اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔ کیا یہی ہمارا مقدر بن گیا ہے؟باہر لوگوں کی بھیڑ ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ جمع تھی ۔ ہر کوئی پلان بنا رہا تھا ۔ اگر فساد شروع ہوگیا تو کیا کیا جائے۔ کچھ بچاو

¿ کی ترکیبیں سوچ رہےتھے۔تو کچھ لوٹ مار کا پلان بنارہےتھے۔ تو کچھ جوابی کاروائی اور حملہ کی منصوبہ بندی کررہےتھے۔جو لوگ اس جگہ کو غیر محفوظ سمجھ رہےتھےوہ اس جگہ کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف جارہےتھے۔کچھ جگہوں پر پولس کانام و نشان بھی نہیں تھا اور کچھ جگہوں کو پولس چھاو

¿نی میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ایسا کچھ لوگوں کی حفاظت کےلئےکیا گیاتھا ۔ تو کچھ علاقوں کےلوگوں کو پوری طرح آزاد چھوڑ دیا گیا تھا ‘ وہ جو چاہےکرسکتےہیں ، اُن کو روکنےوالا کوئی نہیں ہے۔ تو کچھ علاقوں کو اِس طرح سیل کردیا گیا تھا کہ ان مقاموں پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہےاور وہ کچھ نہیں کرسکتےہیں ۔ شہر سےناخوش گوار واقعات کی خبریں آرہی تھیں ۔ ہر خبر کےبعد ایسا محسوں ہوتا تھا جیسےحالات سنگین سےسنگین ہوتےجارہےہیں ۔ تناو

¿ اور تشدد جاری ہے۔ اُس نےکئی بار گھر فون لگانےکی کوشش کی لیکن رابطہ قائم نہیں ہوسکا جس کی وجہ سےاُس کی تشویش بڑھتی جارہی تھی ۔بیوی گھر میں اکیلی ہے، اُسےمیکےجانےکےلئےکہا تھا ۔ پتا نہیں وہ میکےگئی بھی یا نہیں ‘ اُسےمیکےچلےجانا چاہیئے، لیکن وہ جائےگی نہیں ، اُس کی جان اُس کےگھر میں اٹکی ہے۔ اِتنی مشکلوں ،اور مصیبتوں سےاُنھوں نےاپنا گھر بنایا تھا ، گھر کی ایک ایک چیز میں اپنا خون پسینہ لگایا تھا ۔ گھر کی ہر اینٹ میں اُن کےارمان ، خواب چنےہوئےتھے۔ بھلا وہ اِس گھر کو چھوڑ کر جاسکتی ہے؟ اُسےڈر ہوگا کہ اُس کےسارےیہ ارمان ، خواب جلا کر راکھ نہ کردئےجائیں ۔ لیکن اگر وہ ایسا سوچ رہی ہوگی تو وہ بےوقوف ہےاگر وہ گھر میں رہی تو نہ گھر کو بچا سکےگی اور نہ اپنےآپ کو نہ اپنےبچوں کو ۔ایک اکیلی کمزور عورت بھلا کس طرح اپنےآپ کو بچا سکتی ہے۔ ہزاروں واقعات اس کےذہن میں گردِش کررہےتھے۔ ایسی عورتوں کو ہوس کا شکار بنا کر زندہ جلا دیا گیا بچوں کو سنگینوں اور ترشول سےچھید کر جلا دیا گیا ۔ ” نہیں ! “ بےساختہ اُس کےمنہ سےچیخ نکل گئی ۔ ” کیا ہوا ؟ “ مصطفیٰ نےچونک کر اُس سےپوچھا ۔ ” کچھ نہیں ‘ ایک بھیانک خواب دیکھ رہا تھا ۔ “ ” جاگتےہوئےبھی ؟ “ مصطفیٰ مسکرایا ۔ ” جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ بھیانک خواب سےبھی بدتر ہے۔ ایسےمیں جاگنا اور سوناسب برابر ہے۔ “ اُس نےکہا ۔مصطفیٰ اُس کی بات کو سمجھ نہیں سکا ۔شام کو اُس نےطےکیا کہ وہ تھوڑی دُور تک حالات کا جائزہ لےکر آئےگا ۔ مصطفیٰ نےاُسےایسا کرنےسےروکا کہ وہ گھر جانےکی حماقت بھری کوشش نےکرے۔ لیکن اُس نےاُسےیقین دِلایا کہ وہ گھر جانےکی کوشش نہیں کرےگا ۔ تھوڑی دُور گیا تو اُسےایک شناسا مل گیا ۔ ” جاوید بھائی ! گھر جانےکی آپ کوشش نہ کریں ۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔ آپ کا گھر جن راستوں پر ہےوہ خطروں سےبھرےہیں ‘ بہتر ہےکہ آپ رات یہاں ہی رُک جائیے۔ ویسےتو حالات معمول پر آگئےہیں لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا کب کیا ہوجائے۔ “ ” نہیں ! میں گھر جانا نہیں چاہتا ہوں بس یوں ہی تھوڑی دُور تک ٹہل کر واپس آجاو

¿ں گا ۔ “ ” ویسےاگر آپ محفوظ راستوں سےگھر جانا چاہیں تو جاسکتےہیں ۔ ان راستوں پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آئیےمیں آپ کو گھر چھوڑ دوں ۔ اُس نےموٹر سائیکل پر بٹھایا اور محفوظ راستوں سےوہ گذرنےلگے۔ ان راستوں اور محلوں سےگذرتےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےوہاں بہت کچھ ہوا ہے۔ سیاسی لیڈر اور بزرگ بھیڑ کو سمجھا کر روکنےکی کوشش کررہےتھے۔گھر کےقریب پہونچا تو پیچھےوالی گلی ہزاروں لوگوں سےبھری تھی ۔ جنھیں دو لیڈران سمجھا کر خود پر قابو رکھنےکےلئےکہہ رہےتھے۔ گھر آیا تو بیوی بھڑک اُٹھی ۔ ” اِتنا سمجھانےکےبعد بھی آپ نہیں مانے؟ جان خطرےمیں ڈال کر چلےآئے۔ “ ” نہیں ‘ ایک پہچان والا مل گیا تھا اُس نےمحفوظ راستوں سےموٹر سائیکل پر لاکر چھوڑا ۔“ رات تک حالات معمول پر آگئےتھے۔ یہ طےتھا رات دہشت اور تناو

¿میںگذرےگی ۔ لیکن دہشت کا ایک دِن تو بیت گیا تھا ۔

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *