ڈاکٹر خواجہ اکرام
دہشت گردوں کے نئے اہداف
اب ان بچے بھی محفوظ نہیں رہے
یوں تو پوری دنیا دہشت گروں کی کرتوں سے پریشان اور بد حال ہے ، ہر ملک اپنے اپنے طور پر اس کے انسداد کی کوششوں میں مصروف ہےبا وجود اس کے وہ تمام ممالک جن کو دہشت گردی کا سامنا ہے، وہاں کسی نہ کسی طرح دہشت گرد اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہورہے ہیں۔اس کی تازہ ترین ہندستان میں دہلی ہائی کورٹ کا دھماکہ ہے ۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں آئے دن ہونے والے دھماکے ہیں ۔ ظاہر ہے انتظامیہ کی کوشش تو ہوگی کہ اس طرح کے حادثات کو روک سکیں لیکن حیرت ہے کہ تمام کوششیں رائیگاں جار ہی ہیں۔اس لیے دہشت گردوں کے عزائم بھی بلند ہورہے ہیں اورع وہ نئے نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ان کے نئے حربے دیکھ کر مزید حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ انھیں انسانی جانیں لینے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔اور اب تو وہ پاکستان میں جس طرح کے حربے اختیار کر رہے ہیں وہ اور بھی دل دہلانے والا ہے ۔ اب تک پاکستان میں دہشت گردوں نے مسجد ، خانقاہ اور جنازے کے جلوس کو بھی نہیں چھوڑا ۔اس کے ساتھ انھوں نے بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو کبھی نہیں چھوڑا اکثر اسکولوں کو انھوں نے بم سے اڑایا اور کوشش کہ کہ بچوں کی تعلیم نہ ہوسکے ۔ ظاہر ہے اسکولوں کی تباہ کرنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
اب پاکستان میں دہشت گردوں نے معصوم بچوں کا اپنا نشانہ بنا نا شروع کیا ہے ۔ ابھی دہشت گردوں پر حالیہ تشدد کے واقعات کو لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے ان کے دل سیاہ ہوچکے ہیں کہ جو معصوم بچوٕ ں کو بھی اپنی دہشت کا نشانہ بنارہے ہیں۔اب تو پاکستان میں دہشت گردی کی کئی شکلیں آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔ عام طور پر دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی بھی طور سے دہشت گردوں کے اہداف نہیں ہوتے ۔ یعنی دہشت گردوں کا اصل نشانہ بازاروں اور شاہراہوں پر ہلاک ہونے والے لوگ نہیں ہوتے۔لیکن وہ ہمیشہ ایسی ہی جگہوں کو اپنا ہدف بناتے ہیں جہاں لوگوں کا اژدہام ہو تاکہ ان کے حملے یا خود کش دھماکوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوسکیں اور ان کی دہشت کا دائرہ بڑھ سکے ۔ اب اس کے لیے انھوں نے پاکستان میں اسکولی بچوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ابھی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواکے دارالحکومت پشاور میں پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نےا سکول کے بچوں کی ایک بس پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجےمیں پانچ بچے اور بس ڈرائیور ہلاک اور انیس بچے زخمی ہوگئے ہیں۔جس بس پر حملہ ہوا ہے وہ ایک پرائیوٹ اسکول کی بس ہے جو چھٹی کے بعد گاؤں کی طرف جا رہی تھی۔ اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے قبائلی علاقہ باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار سے تحریکِ طالبان پاکستان نے پچیس بچوں کو اغواء کر لیا تھا اور وہ ابھی تک طالبان کے پاس ہیں۔ یہ واقعہ عید کے دوسرے دن پیش آیا تھا۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ‘‘پاکستان اور افغانستان کے سرحد کے اوپر ایک سرسبز و شاداب پہاڑی سلسلے میں عیدالفطر کی خُوشی منانے والے درجنوں بچے غلطی سے افغان سرحد کے اس پار چلے گئے تھے۔ ان میں سے تیس بچوں کو طالبان نے پکڑ لیا ہے۔ غلطی سے سرحد پار کرنے والے بچوں میں کئی بچے بھاگ کر واپس آنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ افعان سرحد کے اوپر غاخخی پاس اور کگاہ پاس قدرتی طور پر بُہت خوبصورت پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس جگہ مانوند قبائل ہر خُوشی کے موقع پر اس پہاڑ پر سیر کے لیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس عید الفطر کے خوشی کے موقع پر بھی سینکڑوں بچے سیر کے لیے ان پہاڑوں پر گئے تھے۔ مُسلح شدت پسندوں نے جب ان کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تو ان میں بڑے عمر کے بچے بھاگ کر واپس پاکستان کے علاقے میں داخل ہوگئے۔’’ ان واقعات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو اپنی بات کہنے یا منوانے کے لیے کسی بھی طرح کے غیر انسانی سلوک کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے ۔ ذرا غور کریں کہ جو بچے اپنی آنکھوں کے سامنے آئے دن وحشیانہ حرکتوں کو دیکھ رہے ہیں ، ان کے ذہن و دل پر کیسے اثرات مترب ہوتے ہوں گے اور وہ اپنے ملک اور معاشرے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے ۔ اور اب جبکہ خود ان کے اسکول بسوں پر حملےکا سلسلہ چل پڑا ہے تو پاکستان کے معصوم بچے کن ذہنی تناو کے شکار ہوں گے ؟ یہ بہت بڑا نفسیانتی مسئلہ ہے اگر ابھی اس پر توجہ نہیں دی گئی تو جب یہی بچے بڑے ہوں گے تو ان کے ذہنی ساخت کس طرح ہوں گے یہ اپنے آپ میں پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے۔
***