دہشت گردی کامسئلہ اور عالمی نقطہ نظر
دہشت گردی موجودہ زمانے کا سب سے بڑ ا مسئلہ ہے ،لیکن یہ کسی خاص ملک یا قوم کا مسئلہ نہیں ہے مگر جس انداز سے اس مسئلے کو دنیا کے سامنے رکھا جا رہاہے اُ س سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں دہشت گردی کی آڑ میں ہی پھل پھول رہی ہیں اسی لیے وہ لوگ جو دہشت گردی کو سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں وہی لوگ اس کو درِ پردہ زندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اُ ن کی دکانیں چلتی رہیں ۔اگر عالمی سطح پر اُن کوششوں کا جائزہ لیں جو اس کے انسداد کے حوالے سے کی جارہی ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مسئلہ تو اپنی جگہ پر ہے مگر اسے ختم کرنے اور جڑ سے مٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ،وہ خود ایک نئے مسئلے کو جنم دے رہی ہیں ۔ایک مشہور مصرعے :
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ،جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
کو اگرمعمولی تحریف کے ساتھ اس طرح پڑھیں کہ:
دہشت تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ،دہشت کیا مسئلوں کا حل دے گی
تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج دہشت کے نام پر ایک مختلف انداز کی دہشت گردی ہورہی ہے۔اس میں ممالک کے علاوہ عالمی میڈیا بھی شامل ہے۔دہشت گردی کا جو مفہوم عالمی بالخصوص مغربی میڈیا نے عوامی سطح پر عام کیاہے وہ سراسر غلط اورتعصب پر مبنی ہے تعصب اس لیے کہ اس لفظ کے اندر بھرے زہر اور نفرت کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا یاجا رہا ہے اسی لیے اس لفظ کا مفہوم اور اس کی تعبیر وتشریح بھی اس انداز سے کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔حالانکہ مسلمان بھی یہ مانتے ہیں کہ دہشت گردی کسی بھی طرح روا نہیں ہے یہاں تک کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی دہشت گردی کو کسی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دنیا کے تمام مسلمان اس معاملے میں یک زبان اور ہم خیال ہیں ۔اس لیے کہنا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دہشت کرنے والا کوئی بھی شخص کسی مذہب کا سچا پیرو کار بھی نہیں ہوسکتا۔مسلمانوں نے ہر طرح سے اس کی مخالفت کی ہے با وجود اس کے ابھی تک عالمی میڈیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور اسلام دہشت گردی کو ہوا نہیں دیتا ۔نتیجہ یہ ہے کہ عالمی میڈیا کے اس رویے سے وہ لوگ بھی جو دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں اب بد ظن ہو کر کنارہ کش ہو رہے ہیں ۔اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ دہشت گردی کی تعبیر و تشریح چاہے جس انداز سے کریں ،اس میں مذہب اور کسی قوم کو نشانہ بنانا سراسر غلط ہوگا۔
اس حوالے سے اکثر پاکستان کا نام لیا جاتاہے کہ وہاں کی تمام حکومتیں دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے اور وہی وہ ملک ہے جہاں دہشت گردتربیت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ بات کلی طور پر درست تو نہیں مگر اتنی تو سچائی ہے کہ اسلام کے ماننے والے ہی پاکستان میں اپنے حقو ق کو حاصل کرنے کے لیے دہشت اور انتہا پسندی کا سہارا لے رہے ہیں ۔لیکن پاکستان میں کوئی ایسی مذہبی شخصیت نہیں جو ان کی حمایت اسلامی قوانین کے مطابق کرتی ہو۔یا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں جو انھیں درست جانتا ہو۔ متفقہ طور پر علما نے دہشت گردی کے خلاف فتوےجاری کیے ہیں ۔مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جو یقیناشرمناک ہیں ۔جیسے جنازے کے قافلے پر حملہ ، مدرسے اور اسکول کی عمارت پر حملہ اور لال مسجد کا واقعہ یہ ایسے واقعات ہیں جو عالمی میڈیا کو اس اعتبار سے گمراہ کرتے ہیں کہ یہا ں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمام مسلمانوں کی ذہنیت سے قریب ہے۔لیکن ایسا بالکل نہیں ہے ۔پاکستان کی اکثریت اس کی مخالف ہے مگر بات یہ ہے کہ جو حکومت اس کی مذمت کرتی ہے وہی حکومت اسے پناہ بھی دیتی ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا کبھی عوام کو ڈرانے کے لیے اور کبھی امریکہ کو یہ بتانے کے لیے پاکستان میں دہشت گرد موجود ہیں انھیں ختم کرنا ضروری ہے ، یہ کہہ کر مشرف حکومت نے امریکہ سے مالی امداد طلب کی ہے۔جب یہ صورت حال ہوگی تو نہ تو اس ملک سے دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ پاکستان انسداد دہشت گردی میں صف اول میں کھڑے ہونے کا حق ادا کر سکتا ہے ۔اسی طرح پاکستان نے کشمیر کے معاملے کو اتنا جذباتی اور مذہبی بنا دیا ہے کہ اس سے دہشت گردی کو ہوا مل رہی ہے۔اگر آج کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا نظریہ بدل جائے تو بہت کچھ مسائل یوں ہی طے ہو سکتے ہیں ۔اور پڑوسی ملک سے امن و امان کے ساتھ دوستی کا سفر آگے بڑھ سکتاہے۔ ان تفصیلات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ پاکستان کی غلطیوں سے بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہے خاص طور پر مدارس اور مساجد کے تقدس کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اس سے دنیا کے تمام مسلمانوں کا کو دلی صدمہ پہنچا ہے۔ اس لیے آج بھی اگر پاکستان اپنی شبیہ بدل لے تو صورت حال میں بڑی خوش آئند تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔لیکن صرف پاکستان کو مثا ل میں پیش کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا بالکل مناسب نہیں ۔
عالمی میڈیانے دہشت گردی کو جس طرح ہوّابنارکھا ہے جیسے یہ صرف مسلمانوں کی پیدا کردہ مصیبت ہے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی کی ابتدا حکمرانوں سے ہوتی ہے۔ لیکن تشدد پر مبنی اقدامات اور احکامات کو نائن الیون سے پہلے نہ تو امریکہ اور نہ ماضی کے سُپر پاور روس نے اس طرح کے واقعات کو دہشت گردی کا نام دیا۔ افغانستان میں جب روس اپنی بر بریت کاثبوت دے رہا تھا تو کیاوہ دہشت گردی نہیں تھی ؟یا امریکہ ویتنام اور ہیرو شیما پر بم برسا رہا تھا تو کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی۔اگر ماضی کی بات نہ بھی کریں تو ابھی امریکہ اور اتحادی افواج عراق اور افغانستان میں جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے؟ بالکل ہے اور اس سے بڑی کوئی دہشت گرد ی ہوہی نہیں سکتی کہ کسی ملک پر قابض ہو جائیں اور عوام کے لیے عرصہ حیات تنگ کردیں۔لیکن آ ج کی میڈیا دہشت گردی کرنے والے کو دہشت گرد نہیں کہتی بلکہ جو دہشت گردی کے شکار اور مظلوم ہیں وہ دہشت گرد ہیں ۔دہشت گردی تو یہ ہے کہ کوئی اپنی ذاتی ،ملکی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کامنفی استعما ل اس طرح کرے کہ اخلاقی،قانونی اور آئینی اعتبار سے غلط ہو ۔
ہیلری کلنٹن نے اپنے انتخابی مہم کے دوران یہ کہا تھاکہ اگر میں منتخب ہوتی ہوں اور ایران نے اپنا جوہری پروگرام بند نہ کیا تو اُسے نیست و نابودکردوں گی۔ہیلری کلنٹن کا یہ بیان بھی سیاسی دہشت گردی پر مبنی تھا اورآج جو کچھ ایران کے ساتھ کیا جا رہا ہے کیاوہ سیاسی دہشت گردی کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی نہیں ہے؟ایران کے ساتھ جورویہ اپنا یا جارہاہے وہ رویہ کوریا کے ساتھ کیوں نہیں؟ لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اسرائیل جیسا ملک جو ایسے خطرناک اسلحے لیے بیٹھا ہے جو پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہیں ، یہ اسلحے کسی بھی وقت دنیا کی تباہی کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اسرائیل کا رویہ ایسا ہے جیسے پوری دنیا میںاس کی منمانی چلے گی۔ اس نے ترکی کے جہاز پرحملہ کیا مگر کسی نے اسرائیل پر پابندی کی بات کیوںنہیں کی ۔ وہ کھلے عام ایران کو تباہ کرنے کی بات کرتا ہے مگر نہ تو اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اورنہ ہی اس کے اسلحے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہاہے ۔ کیا اسرائیل کی یہ حرکتیں دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتیں؟ بالکل یہ ریاستی دہشت گردی کی کھلی مثال ہے مگر اس کی جانب امریکہ کی نگاہیں نہیں اٹھیں اور نہ عالمی سطح پر دہشت گردی ختم کرنے والے اسے دہشت گردی سمجھ رہے ہیں ۔ ایسے میں دنیا سے دہشت گردی ختم کرنا ناممکن اس لیے ہے کہ دہرے رویے سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم ناممکن ہے۔اور عالمی میڈیا بھی اس جانب نظر نہیں ڈالتا۔اس صورت حال میں دہشت گردی کا یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ طاقتور ممالک جو بھی کریں وہ دہشت گردی نہیں ہے لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام اگر اپنے حق کی آواز بھی بلندکریں یا وہ کام کریں جو امریکی اور مغربی ممالک کر رہے ہیں تو وہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کو یہ دُہرا پیمانہ اور حسب ضرورت اس کی تشریح کسی بھی طرح درست نہیں ہے ۔اس لیے عالمی میڈیا (جسے ہم امریکی میڈیا کہیں تو زیادہ درست ہے)جو بھی کہے اور جو بھی تشریح پیش کرے۔نہ تو کوئی تسلیم کرتا ہے اور نہ کرے گا کیونکہ یہ سب منصوبہ بند مفاہیم ہیں ۔
انسداد دہشت گردی کے لیے کوئی بھی مہم یا کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک دہشت گردی کو نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہے کیا؟معاملہ یہ ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جو مہم جاری ہے وہ صرف مسلمان اور مسلم ممالک کو نشانہ بنا کر کیا جارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ صف اول میں جو ملک کھڑا ہے وہ بھی مسلم ملک ہے۔ایک طرف وہ انسداد کی کوشش بھی کر رہاہے اور دوسری جانب اسے ہی دہشت گرد کہا جا رہاہے، یہ تو عالمی صورت حال ہے۔ملکی سطح پر اس سے بھی مایوس کُن صورت حال ہے۔کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو دہشت گردی ہے مگرمنی پور اور آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دہشت گردی نہیں ،یا تشدد پسند نکسلی تنظیمیں آئے دن جو خون خرابہ کر رہی ہیں اُ سے دہشت گردی نہیں کہا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ جب مہاراشٹرا میں نو نرمان سینا اور شیو سینا کھلے عام دہشت گردی مچاتے ہیں تواُسے دہشت گردی سے تعبیر کرنا تو دور کی بات ہے حکومت خود ہی سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔انتہا پسند ہندو تنظیمیں جو بھی فتنہ پھیلائیں وہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتاہے ۔سچائی پر پردہ ڈالنے اور ایک حقیقت کو دو آنکھوں سے دیکھنے کی جب یہ حالت ہو گی تو ملک میں بھی بنائے جانے والے تما م قوانین دہشت گردی کو جڑ سے نہیں ختم کر سکتے ۔اور نہ کوئی مہم کارگر ہو سکتی ہے۔ضرورت ہے کہ فتنہ پھیلانے والے تمام لوگوں کو بلا امتیاز مذہب و ملت دہشت گرد کہا جائے اور ایک ہی ترازو میں تو لا جائے۔
اگر واقعی پوری دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کے تما م لوگوں کو ایک نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔اُن کے انسانی اور بنیادی حقوق کی نگہبانی کرنی ہوگی اور ہر طرح کے استحصال سے دنیا کی تما م اقوام کو بچانا ہوگا۔تبھی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیاجاسکتا ہے۔اب اس پیمانے پر طاقتور ممالک اور اقتصادی طور پر مضبوط میڈیا کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ۔اگر ایسا ہوجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ عہد میں دہشت گردی اُتنا بڑ امسئلہ نہیں ہے جتنا کہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہاہے۔اسی غلط افواہ اورہنگامہ آرائی کے چلتے اصل دہشت گردتو بچ جاتے ہیں اور جو معصوم اور بے گناہ ہیں وہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کی تما م کوششیں غلط سمت میں جاری رہتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بالکل درست کہا کہ دہشت گردی کی صحیح تعریف پیش کی جانی چاہیے تاکہ گمرہی نہ ہو۔ ورنہ دنیا دنیا اسی طرح گمراہ رہے گیاور دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہو گی۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ دہشت گردی تو امریکہ اور اسرائیل کر رہا ہے اور شروع سے کر رہا ہے اور دنیا کو اس کی غلط تعریفیں اپنی میڈیا کے ذریعہ پیش کر کے بھٹکائے رکھا ہے۔
اب تو یہ مسئلہ اتنا الجھ چکا ہے کہ شائد ہی کوئی اس کی اصلیت کو سمجھے۔
امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لیے ہو سکتا ہے دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہو کیوں کہ یہ ترقی یافتہ ممالک اس عمل میں بری طرح ملوث بھی ہیں اسی لیے انکے لیے دنا کو گمراہی میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
لیکن ہند و پاک یا دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے تو اور بھی مسائل ہیں جو دہشت گردی سے زیادہ اہم ہیں۔
بےروزگاری، تعلیم، میڈیکل، غریبی، بھوک مری، وغیرہ مسائل تو ایسے ہیں جن کے حل کے بغیر کسی اور طرف دھیان کرنا ہی جرم ہے۔