Home / Socio-political / رمضان مبارک مہینہ ہے …لیکن ہم کتنا مبارک رکھتے ہیں

رمضان مبارک مہینہ ہے …لیکن ہم کتنا مبارک رکھتے ہیں

رمضان مبارک مہینہ ہے …لیکن ہم کتنا مبارک رکھتے ہیں

              عابد انور

                جب کسی قوم پرزوال آتا ہے تو اس کا اثر ہر شعبہ میں نمایاں ہوتا ہے۔ تمام سطحوں پرگراوٹ آجاتی ہے۔ اس کا چلناپھرنا، رہن سہن، میل و جول ، لین دین یہاں تک مذہب کے طور وطریقہ میں بھی زوال نظر آتاہے۔ وہ قوم مذہب کے لئے استعمال ہونے کے بجائے وہ مذہب کو اپنے لئے استعمال کرتی ہے۔ یہی حال آج مسلمانوں کا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب میںبہترین مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود وہ ہر طرح کے خرافات و سےئات میں مبتلا ہے۔ انہیں دنیا کی بہترین امت اور دوسروں کی رہنمائی کیلئے بھیجا گیاتھا وہ خود اپنا راستہ بھول کربھٹک رہاہے۔ایسی بات بھی نہیں ہے کہ انہیں کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے ۔ رہنمائی کے سارے اسباب موجود ہیں لیکن انہیں راہ راست پر چلنے کے بجائے بھٹکنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ مسلمانوں کو پوری دنیامیں عزت و وقارکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے لیکن آج وہ اپنی کرتوت کی وجہ سے ذلیل و خوار ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جتنی بھی بری چیزیں ہیں وہ سب مسلمانوں سے منسوب کی جاسکتی ہیں کیوںکہ آج ہمارے اعمال وافعال، کردار ، قول وفعل کچھ بھی اسلامی نہیں ہے۔ ہمیںبہترین اخلاقی کردار کا علمبردار بنایاگیا تھا آج ہم اخلاقی اعتبار سے کہیں بھی نہیں ہیں۔آج ہم سے کوئی کاروبار اورتجارت کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔دنیا کی تمام قوموںکی تہواروں سے ہمارا تہوار مہذب اور قابل احترام تھا دیگر کے اقوام کے افراد ہمارے تہواروں کی مثالیں دیا کرتے تھے کیوں کہ اس سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی تھی اور نہ ہی کسی کے کام میں خلل نہیں پڑتا تھا لیکن آج اس کی شناخت طوفان کی بدتمیزی سے ہے۔ چندمسلم نوجوانوںکی طوفان کی بدتمیزی سے برادران وطن سمجھتے ہیںکہ مسلمانوں کا کوئی تہوار ہے۔ عام شاہراہ پر جس قدر بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سے مسلمانوں کی عزت خاک میںمل رہی ہے۔ مسلمانوں کے بعض مذہبی شعار کا مذاق اڑایاجاتا ہے ۔ ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ اس کے لئے ہم کتنے ذمہ دار ہیں۔ ہم ایک اچھی چیز کو بری چیز میں بدلنے کیلئے کمربستہ کیوںرہتے ہیں۔ آج تو مسلمان صرف مذہبی جذبات و احساسات کا استحصال کرتے ہیں ہرعیب و کمی کو پوشیدہ رکھنے کے لئے مذہب کا بے دریغ استعمال کرتے ہیںجہاں کہیں بھی انہیں غلط کام کرنا ہوتا ہے فوراً مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور اس طرح اپنے مذہب کی بدنامی کا سبب بنتے ہیںاپنے غلط کاموں کے لئے مذہب کاکس طرح استعمال کرتے ہیںہم آپ آئے دن اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ کیوں دیکھا جاتا ہے؟ اسلام کے پیروکاروںنے کبھی دل کی گہرائیوںسے جائزہ یا محاسبہ کرنے کی کوشش کی ہے؟۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کا یہ نظریہ بغض و عناد غیر حقیقت پسندانہ دلائل کی بنیاد پر ہے لیکن ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ ہمارا سلوک انہیںکس طرح اسلام کا مذاق اڑانے پر اکساتا ہے یا ہم کس طرح اپنے مذہب کے استحصال کا موجب بنتے ہیں۔ ہم شب برات جیسی مقدس رات کو شب خرافات میں تبدیل کردیا ہے۔ اس دن مسلم نوجوان گول ٹوپی اور کرتا پائجامہ زیب تن کرکے سڑکوں پر دھینگا مستی اور اسٹنٹ کرتے نظر آتے ہیں اور اس طرح نہ صرف ٹریفک قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ دوسرے گاڑیاں چلانے والوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔اس طرح کئی نوجوان حادثہ کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ہم آخرایسا کیوں کرتے ہیں کیوں کہ مقدس رات کو مسلمانوں کی بدنامی کی رات میں تبدیل کردیتے ہیں۔

                اللہ تعالی نے رمضان مہینے میں بے شمار خصوصیات رکھی ہیں اور بے پنا ہ فضائل و خصائل عنایت کئے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میںہر عبادت کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایک فرض نماز ادا کرنے پر ستر فرض نماز کا ثواب ملتا ہے ۔ اس مہینے میں ایک رات ہے جسے بھی یہ نصیب ہوجائے اسے ایک ہزار مہینے کے برابر عبادت کرنے کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو کتنے انعامات سے نوازا ہے اس کا شمار بھی مشکل ہے اللہ نے جتنی مہربانیاں اسلام کے ماننے والوں پر کیں ہیں شاید ہی کسی دیگر امت پر کی ہو لیکن آج امت محمدیہ کے اعمال و اقوال، رہن سہن، گفت و شنید، معاشرتی طریقہ کار، لین دین، تجارت و صنعت، معاملات او ر دیگر چیزوں پر نظر ڈالیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہ اسلام کے پیروکار ہیں یا اس پیغمبر کے امت ہیں جنہوں نے اپنے اوپر کوڑا کرکٹ ڈالنے والی کو کوڑا ڈالتے ہوئے نہیںدیکھا تو بے چین ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے تو عیادت کے لئے چلے گئے اور اس اعلی اخلاق کا کیا اثر ہوا یہ تاریخ میں درج ہے اور اس طرح کے ہزاروں واقعات امت مسئلہ کے مدح خانے میںدرج ہیں مگر ہم نے ان سب کو ماضی کی داستانیں بنادی ہیںحال سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔رمضان المبارک ہمیں اخوت و مساوات کا درس دیتا ہے لیکن خود اپنا جائزہ لیں ہمارے اندر کتنی اخوت اور کتنا مساوات ہے۔ تمام مسلمانوں کو بھائی کہا گیا ہے اور ان کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی ہے لیکن ہم بھائیوں جیسا تو کیا ایک انسان کی طرح بھی پیش نہیںآتے۔ ہمارے اندر بھائی چارے کا جذبہ ماضی کی داستان پارینہ ہے۔ آج ہمیں اسی چیز سے سب سے زیادہ چڑھ ہے کیوں کہ ہر موقع پر اس کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ رمضان امن و مان رحم صلہ رحمی کی ترغیب دیتا ہے اور روزہ رکھ کرتحمل و بردبار ی آتی ہے لیکن حقیقت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جہاں اور جس دفتر ، جس جگہ دوچار مسلمان کام کرتے ہیں بلاوجہ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آخر ہم رمضان کے مہینہ میں اس کی روح کے خلاف ہی سارا کام کیوں کرتے ہیں۔

                رمضان کے مہینے میں تمام شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے لیکن بگڑے ہوئے مسلم نوجوان کے حرکات و سکنات شیطانوں کی کارکردگی کوبھی پھیکا کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں شب برات کی رات انڈیا گیٹ، پارلیمنٹ اسٹریٹ اوردیگر شاہراہوں پر جس طرح مسلم نوجوانوں نے طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اس سے یقینا سارے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا ہوگا۔ ایک عبادت کی رات اور خیرو برکت کی رات کو ہم نے لہو و لعب اور دوسروںکو پریشان کرنے میں گزار دیا۔ ان تمام لوگوں کو تکلیفیں پہنچائیں جو وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس قدر بے ہنگم طریقے سے گاڑیاںچلاتے ہیں اور اسٹنٹ کرتے ہیں کہ دوسروں کا چلنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ شیاطین کے یہ کام کرتے وقت ان کے سروں پر گول ٹوپییاں ضرور ہوتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے ماتھے پرکلنک لگنے میں آسانی ہو۔مسلمانو ںکے ساتھ کام کرنے والے بہت سے غیر مسلم حضرات نے شب برات کی پہچان سڑکوںپربائیکروں کی بدتمیز ی سے کی۔ جس طرح دیگر مذاہب کے لڑکے اپنے تہواروں کے موقع پر سڑکوں پر غنڈہ گردی کرتے ہیں اسی طرح اب مسلم بچے بھی کرنے لگے ہیں جو سراسر غیراسلامی ، غیر اخلاقی اور پاسداری کے خلاف ہے۔

                رمضان میں بھی یہی حال ہے صبح صبح گول ٹوپی لگاکر مسلم نوجوان اور بچے جنہیں اسکول ڈریس میں ہونا چاہئے یا کالج کے جانے کے کپڑے میں ملبوس ہونا چاہیے وہ ایک بائیک پر دو ، دو تین تین اور چار تک سوار ہوکر ٹولیوں میں سڑکوں پر اودھم مچاتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ وقت بچوں کے اسکول جانے کا ہوتا ہے لیکن انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے زد میں آجائے گا یا کسی کو اس حرکت سے پریشانی ہورہی ہے وہ خواتین کو اپنے بچوں کو اسکول بس تک چھوڑنے آتی ہیں انہیں کتنی پریشانیوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے کتنی ذہنی تکلیف سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔ ان بگڑے بائیک سواروں کا رخ اس طرف زیادہ ہوتا ہے جہاں لڑکیوں کا اسکول ہوتا ہے ۔سرکاری اسکولوں میں صبح کی شفٹ عام طور پر لڑکیوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے اس لئے یہ مسلم نوجوان مع گول ٹوپی کے اس راستے میں زیادہ اودھم مچاتے ہیں۔ کیا رمضان مسلم نوجوانوں کو یہی درس دیتا ہے؟۔ مسلم نوجوان اس قدر بگڑے ہوئے ہیں اور وہ بدتمیزی پر آمادہ نظر آتے ہیں کوئی انہیں روکنے کی ہمت نہیں کرتا کیوں کہ روکنے والا خود کو اکیلا پاتا ہے۔

                اسلام نے معاملات اور خرید و فروخت کے سلسلے میں تین پیمانے پر مقرر کئے ہیں اور اسی تین پیمانے کی وجہ سے اسلام کوزبردست فروغ حاصل ہوا خاص طور پر وسطی ایشیا کا خطہ جہاں باضابط اسلام کا کوئی داعی اسلام کا پیغام  لیکر نہیںپہنچا تھا ،مشرف بہ اسلام ہوا۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ جو سامان بھی فروخت کرتے اس میں تین خصوصیات ہوتی تھیں (۱) سامان کا معیار عمدہ ہوتا (۲) سامان کی قیمت مناسب ہوتی (۳) سامان کا ناپ تول صحیح ہوتا۔ اس خوبی کو دیکھ خطہ کا خطہ اسلام قبول کرنے لگا۔ آج ہم خود جائزہ لیں کہ کیا ہم ان تین اصولوںپر قائم ہیں؟۔ رمضان شروع ہوتے ہی ہم تمام اشیاء کی قیمتیں نہیں بڑھا دیتے ۔ ہم دیگر برادران وطن کی طرح ذخیرہ اندوزی اور عوام کا استحصال نہیں کرتے ۔ ہمارے رویے میںرمضان شروع ہوتے ہی تبدیلی نہیںآجاتی ۔مسلم دوکانداروں کارویہ کس قدر جارحانہ ہوجاتاہے۔ پھل فروٹ فروخت کرنے والوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ پھل خریدنے والوں پراحسان کر رہے ہوں۔ ہر چیز دوگنی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔یہ صرف رمضان ہی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی اورانسانی طور پر بھی غلط ہے۔ بات بات پر لڑنا جھگڑنا ہمارا شیوہ ہوتا ہے۔ گول ٹوپی اوڑھے ہمارے منہ سے مغلظات وارد ہوتے ہیں۔غصہ تو ہماری ناک پر رہتا ہے۔ رمضان میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہاں ہماری خالص آبادی نہیں ہے ہمارے ساتھ دوسرے مذہب کے لوگ بھی رہتے ہیں ہمیں سائرن یا لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنی چاہیے کیوںکہ ہمارا مقصد اطلاع فراہم کرنا ہے نہ کہ شور مچاکر کسی کو تکلیف پہنچانا۔ رمضان کے مبارک موقع پر جگہ جگہ سے لاؤڈ اسپیکر کی تیز آواز کے سلسلے میں تنازع ہوتا رہتا ہے۔ آج اطلاعاتی تکنالوجی اتنی ترقی کرگئی ہے کہ ہر شخص کو نماز کے اوقات اور دیگر مذہبی رسوم کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوتا ہے۔ ہر گھر میں موبائل فون، گھڑی موجود ہوتی ہے جس سے آدمی وقت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ حد سے سوا اور زیادہ دیر تک سائرن بجائے جاتے ہیں جو کسی طرح سے بھی مناسب نہیں ہے۔ لاؤڈ اسپیکر اور سائرن کا استعمال اتنا ہی کرنا چاہئے جتنے کی ضرورت ہو۔ اس سے ہم رمضان اور اسلام کے صحیح پیغام کو عام کرسکیں گے۔کچھ سال میرٹھ کے کنکر کھیڑہ علاقہ کے جیوری گاؤں میں لاؤڈ اسپیکر کے سلسلے میں دو فرقوں کے درمیان تنازع ہوگیا تھا۔ ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے مذہبی عالم کو اس سلسلے میں زدوکوب بھی کیامعاملہ اعلی حکام تک جا پہنچا۔ اس طرح کے واقعات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ہمارا مقصد اللہ کی رضامندی حاصل کرناہے دوسروںکوتکلیف پہچانا نہیں۔ اگر تھوڑی سی سمجھداری اور احتیاط سے کام لیں تو ہم اس طرح خرافات اور تنازعات سے بچ سکتے ہیں۔ ابھی ماہ رمضان کا آغاز ہے لیکن ابھی سے ملک کے مختلف حصوں سے تنازعات کی خبریں آنے لگی ہیں۔ رمضان ہمیں صبر و تحمل کا درس دیتا ہے۔ فسادی عناصر منظم سازش کے تحت اس موقع پر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں کیوں نہ ہم تحمل کا مظاہرہ کرکے اس سازش کو ناکام بنادیں۔ حالیہ دنوں میں جہاں جہاں بھی فساد ہوا ہے اکثریتی فرقہ کی طرف سے عمداًاشتعال دلانے کی کوشش کی گئی اور مسلمانوں ان کے دام میں آگئے جس کی قیمت جان و مال کے نقصان سے چکانی پڑی۔

                رمضان میں مسلمانوں کے اشتعال آنے کے وجوہات جہاں کئی ہیں وہیں ۔ مسلم علاقوں میں بنیادی سہولت کا فقدان بھی ہے۔متعصب افسران جان بوجھ کر مسلم علاقے میں رمضان کے موقع پر پانی بجلی کی سپلائی اور دیگر سہولتوں میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کے کسی بھی شہر کولے لیں جہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں وہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ رمضان کے موقع پر بنیادی سہولتوں کے فقدان کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے وہ کچھ آرام چاہتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا میں بیٹھنا چاہتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ ویسے سال کے گیاہ مہینے میں بجلی کی کمی ہوتی ہے تو زیادہ احساس نہیںہوتا ہے لیکن مسلمان رمضان کے مہینے میں اپنے علاقے میں تھوڑی صفائی ستھرائی چاہتا ہے جو افسران کی منفی سوچ کی وجہ سے نہیں ہوپاتی ۔ اس وقت پورا ہندوستان کا ہندوتو کے علمبردار فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے۔ جگہ جگہ فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔آسام اور یو پی میں حالات دھماکہ خیز ہیں۔ معمولی سے معمولی بات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں فرقہ پرست پارٹیوںکی جو شکست ہوئی ہے اس سے وہ پوری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور وہ اس کا بدلہ مسلمانوں سے لینا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال مرادآباد میں فسادیوں نے رمضان کے موقع پر کانوڑیوں کے رہ گزر کے سبب مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کئی جگہ اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے رمضان کا مہینہ بھی سکون کا نہیں رہا۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جس سے ان کے منصوبے کو ناکارہ بنایا جاسکے۔

                رمضان درحقیقت نفس کشی کا مہینہ ہے مگر ہمارے ہاں اسے سحری اور افطار کے وقت نفس کوخوب لذت فراہم کرنے کا مہینہ بنا لیا گیاہے۔ ہم صرف یہی سمجھتے ہیں کہ سحری سے لے کر افطار تک نہ کھا کر ہم نے رمضان کے مہینے پر بہت بڑ ا احسان کیا اور پھر بھوک سے پیدا ہونے والی وہ ساری کمی افطار اور سحر کے وقت پوری کر لیتے ہیں۔ فضول خرچی کی حد تو یہ ہے کہ اس مہینے میں وہ کھانے بھی بنائے جاتے ہیں جنہیں بعض اوقات پورے سال میں ایک دفعہ بھی نہیں بنایاجاتا۔ اس طر۔ح گھروں پر بلاوجہ اصراف کا بوجھ بڑھتا ہے جو پیسے غریبوں، مسکینوں ، بیواؤں اور ضرورت مندوں کی محتاجگی دور کرنے میں خرچ ہونے چاہئے تھے وہ صرف دکھاوا کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سادہ سحر و افطار کو اپنی عزت اور وقار کے منافی سمجھنا عام بات ہے۔سحری اس طرح مقوی غذا اور مہنگی غذا سے کی جاتی ہے شام (افطار) تو کیا صبح (سحری) تک بھوک نہ لگے۔ اس طرح روزہ کاجو مقصد ہے کہ دوسروں دکھ درد اور تکلیف کو احساس کرنایہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ کیا ہم کبھی غریبوں کی افطار کے لئے اس طرح کے اسراف سے کام لیتے ہیں ؟ یا کبھی کسی غریب کی افطار کے وقت انواع و اقسام کے کھانوں کی تراکیب کو استعمال کرتے ہیں ؟ یا دسترخوان کو پھل فروٹ اور طرح طرح کے کھانوں سے مزین کرتے ہیں؟کیا کبھی ہم نے اس پر غور و خوض کیا ہے کہ یہ غریب بھی اللہ تعالیٰ کا اتنا ہی پیارابندہ ہے جتنے کہ ہم؟ کیا کبھی کسی غریب کو صرف یہ سوچ کر افطار کرائی کہ یہ اللہ کا بندہ بھی اتنا ہی عزت کا حق دار ہے جتنے کہ ہمارے دوست اور رشتے دار؟۔ اس لئے ہم میںپورے رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور صلوۃ کی پابندی کے باوجود اس کی کوئی خصوصیت پیدا نہیں ہوتی اور رمضان ختم ہوتے ہی ہم وہ تمام خرافات کرنے لگتے ہیں جس کی ممانعت ہر موقع سے کی گئی ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے کو غیر مبارک کرنے میں ہم کسی طرح کی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ الزام تراشی میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کیا رمضان کا مہینہ تمام غلط کاموں کے لئے لائسنس کادرجہ رکھتاہے؟۔

                آج ہماری حالت دیگر اقوام سے بدتر ہے اور ہم ہر شعبہ میں ان کے مقابلے تحت الثری میں پہنچ چکے ہیں۔ عادات و اخلاق و کردار کے معاملے میں ہم کہیں نہیں ٹکتے۔ رمضان کے چارصفات میں سے ہمارے اندر ایک بھی صفت ہے؟ ہمیں دل کی گہرائیوں سے اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ صرف رمضان کے روزے رکھنے اور تمام زندگی اس کے برعکس کام کرنے سے ہمیںکچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دراصل رمضان ہماری ز ندگی کی ہر سال سروس کرتا ہے تاکہ اگلے سال تک ہم ان صفات کی پابندی دم خم کے ساتھ کرسکیں اور اپنی حیات کے کسی لمحے میں بھی اسلام کے زریں اصولوں کو  ترک نہ کریں۔ آئیے عہد کریں کہ ہم رمضان کے حقیقی معنوں کو عملی جامہ پہنائیں گے ، ہر اس چیز سے گریز کریں گے جو ہمیں اسلام منع کرتا ہے اور زندگی کے ہر معاملات میں اسلامی اصول و ضوابط کو ترجیح دیں گے تاکہ ہم اپنے اہل وطن کے لئے ایک نمونہ عمل بنیں ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے اسلاف ہوا کرتے تھے تاکہ آج بھی کوئی غیر مسلم کہہ سکے یہ مسلمان کا بچہ ہے جھوٹ نہیں بولے گا ، انصاف سے کام لے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہماری عزت ہو ، ہمارے حقوق کا احترام کیا جائے اور ہماری عظمت رفتہ واپس آئے تو ہمیں اپنے اعلی اخلاقی نمونے پیش کرنے ہوں گے اور ہمیں تمام معاملات میںشفافیت لانی ہوگی۔ہمیں اس نظریہ کو اخلاق سے بدلنا ہوگا کہ مسلمان معاملات میںبدتر ہیں۔

                 D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025

Mob. 9810372335,

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *