روس کے ٹکڑے ہوجانے کے بعدپینٹاگون کوکسی ایک ایسے دشمن کی ضرورت تھی جس کے وجودسے امریکاکی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اورامریکی ورلڈآرڈرکے مطابق ساری دنیاپرامریکی حکومت کاخواب بھی شرمندہٴ تعبیرہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکانے اسلام اورمسلمانوں کواپنااگلاہدف قراردیتے ہوئے مسلمانوں اوردہشت گردی کویکجاکرکے اپنی کاروائیوں کاآغازکردیا ۔جب سے نائن الیون کافسادشروع ہواہے تب سے اس خطے کوساری دنیامیں ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ پینٹاگون کے شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے قصرِ سفید نے ایک انتہائی غلط اطلاع پرعراق پرفوج کشی کردی اورصدیوں کی تاریخ کے امین ملک کوکھنڈرات میں تبدیل کردیااورایک غیرسرکاری اطلاع کے مطابق (۱۴۵۵۵۹۰)بے گناہ عراقیوں کوشہید،(۴۸۰۱)امریکیوں اور(۳۰۱۱)اتحادی فوجیوں کومروانے کے ساتھ ساتھ نوکھرب ڈالرکے نقصان کے بعد غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اپنابوریابسترگول کرناپڑااوراب پچھلے گیارہ سالوں سے لاکھوں افغانیوں کاتورابورابنانے اورچھ کھرب ڈالرسے زائد اس جنگ میں جھونک دیئے جانے کے باوجود وہاں بھی خاک چاٹنے پرمجبورہوگیاہے۔
امریکی جارحیت کے مقابلے میں وہاں کے لوگوں نے جب مزاحمت شروع کی توامریکانے فوری طورپران ممالک کے ہمسایہ ممالک پربھی دباوٴ بڑھاناشروع کردیاجس کیلئے پاکستان کے کمانڈوپرویزمشرف کو اپنی ناجائزحکومت کوبچانے کیلئے امریکاکے سامنے سرنگوں ہوناپڑالیکن ان تمام کاروائیوں کے باوجودامریکاکے خلاف مزاحمت کاایسا سلسلہ چل نکلاجس نے نہ صرف امریکابلکہ اس کے اتحادیوں کوایسے معاشی خسارے میں مبتلاکردیاکہ اب امریکاسمیت تمام اتحادی اس کمبل سے جان چھڑانے کیلئے بیتاب نظرآرہے ہیں۔ انہی دنوں میں پاکستان پردباوٴ بڑھانے کیلئے ایک نئی اصطلاح”نان اسٹیٹ ایکٹر“متعارف ہوئی اورامریکانے ان تمام جماعتوں اورگروہوں کواس میں شامل کردیاجوامریکاکی اس ظالمانہ جارحیت میں نہ صرف اس کاساتھ دینے سے گریزاں ہیں بلکہ کھلاکھلاامریکااوراس کے اتحادیوں کے مظالم کے خلاف آواز بلندکرنااپناملی اورقومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ اپنے آقاوٴں کوخوش کرنے کی خاطرباوجودشدیدسیاسی مخالفت کے جنرل پرویزمشرف اور بے نظیربھٹو اس امرپریک زباں تھے کہ پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرزکا رول بڑھتاجارہاہے اور نان اسٹیٹ ایکٹرزخطرہ بنتے جارہے ہیں۔ دونوں ہی انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور ملک کے لیے خطرہ قراردیتے تھے۔ نقطہ نظرمیں فرق ہوسکتاہے، سمجھ کا ہیرپھیر ہوسکتا ہے لیکن دونوں میں اتفاق رائے پرکوئی اختلاف نہیں تھااورموجودہ حکومت بھی اسی فارمولے کوتھامے چل رہی ہے۔ اس موٴقف پر میں نے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھاکہ اس ملک میں سماجی بہبودکا کام جوحکومت کی ذمہ داری ہے نان اسٹیٹ ایکٹرز نے بڑے احسن طریقے سے سنبھالاہواہے،تعلیم علاج معالجہ غربت کاخاتمہ سیلاب زلزلہ وغیرہ کی صورت میں نان اسٹیٹ ایکٹرزہی سب سے آگے ہیں حتیٰ کہ جہادجیساسرفروشی کامعاملہ بھی نان اسٹیٹ ایکٹرز کر رہے ہیں تو پھر حکومت بھی نان اسٹیٹ ایکٹرزہی کو دے دی جائے کہ ان کاٹریک ریکارڈہرمعاملے میں قابل رشک ہے۔
اب امریکانے پاکستان پرمزیددباوٴبڑھانے کیلئے اپنے مفادات کی خاطربھارت کوخوش کرنے کیلئے پاکستان کے ایک بہت بڑے نان اسٹیٹ ایکٹرحافظ محمدسعیدکی گرفتاری پرایک غیرمعمولی انعام مقرر کرکے اپنے اگلے پروگرام کی تکمیل کیلئے ایک واضح پیغام جاری کردیاہے اوراب ایک مرتبہ پھرپینٹاگون قصرسفیدسے ایک اورفاش غلطی کروانے کامرتکب ہواہے کہ شکاگوکانفرنس سے قبل بڑی عجلت میں اوبامہ نے افغانستان پہنچ کر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جسے شکاگوکانفرنس کے موقع پر ہونا تھا ۔ نیٹوسپلائی کی بندش نے امریکااوراس کے اتحادیوں کوفی الحال ایک ایسی الجھن میں مبتلاکردیاہے کہ جس کوسلجھانے کیلئے پینٹاگون سے مسلسل غلطیوں کاصدورہورہاہے ۔امریکاکی نظر میں طالبان جواس خطے کے سب سے بڑے نان اسٹیٹ ایکٹرہیں اوربڑی تگ ودواورمحنت کے بعدان سے مذاکرات شروع ہونے کی امید بنی تھی لیکن اس حالیہ معاہدے نے کئی سال کی محنت کونہ صرف غارت کردیاہے بلکہ طالبان نے بہت جلدقطرمیں اپنادفتربندکرنے کاعندیہ دے دیاہے اوراسی طرح پاکستان کوبھی اس معاملے سے بزور شمشیر اپنا ہمنو ا بنانے کی غلطی دہرائی جارہی ہے کہ پاکستان پرشدیدترین مالی دباوٴبڑھاکراپنی مرضی کے فیصلے پرمہرثبت کروالی جائے جس کیلئے امریکانے اب پاکستان میں اپنی حمائت بڑھانے اورپاکستانی قوم کوانجانے خوف میں مبتلاکرنے کیلئے پاکستانی میڈیامیں ایک خصوصی گروہ کوخریدنے کیلئے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں۔یوں لگتاہے کہ پاکستان کے ایک چینل نے گویاامریکاسے معاہدہ کرلیاہے کہ جوکام پاکستان کی کوئی حکومت نہیں کرسکی اب میڈیاکے توسط سے وہ کرکے دکھائیں گے اورامریکی خزانے سے مستفیذہونے کیلئے میاں بیوی توایک ہی چینل سے اب دن رات میڈیامیں جمہوریت کے تحفظ کے نام پر نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ملکی انٹیلی جنس کوبرابھلا کہتے ہوئے امریکابہادرکاکام سرانجام دے رہے ہیں اور جبکہ امریکامیں پینٹاگون بھی تووہی کرداراداکررہاہے لیکن میڈیاکے انہی جغادریوں کوان کے بارے میں کبھی بھی کچھ کہنے کی جرأت نہیں ہوتی۔
لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک بہت بڑے نان اسٹیٹ ایکٹرحافظ محمدسعیدسے درجنوں صحافیوں نے ملاقات کی جہاں موضوع یہ تھا کہ ہم سب مل کر پاکستان کا دفاع کیسے کریں؟ حافظ اسعید کا صحافیوں سے سوال تھا کہ بتائیں دفاع پاکستان کے لیے کیاکیاکرسکتے ہیں؟ مختلف مشورے سامنے آئے لیکن ایک سوال تین مرتبہ اٹھا، اس کا تسلی بخش بلکہ جواب کی سطح کا جواب نہیں مل سکا۔ شایدحاضرین بھی اس حوالے سے لاجواب تھے اور سوال تھا کہ ملکی سرحدوں کی جوہولناک صورتحال حافظ سعید پیش کررہے تھے ،بھارتی فوجی تیاریوں کی جوکیفیت بیان کررہے تھے،پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی عمل دخل کا جو حوالہ دے رہے تھے ،اس کی روشنی میں سوال تھا کہ کیا ملکی دفاع کے ذمہ داران اس صورتحال سے واقف نہیں؟
لوٹ پھیرکرپھریہی سوال سامنے آیا کہ کیا ملکی دفاع کے ذمہ داران اس صورتحال سے واقف ہونے کے باوجود آنکھیں بندکیے ہوئے ہیں اور جب اس کا بھی جواب نہیں آیا تو یہ سوال بھی آگیا کہ کیا قومی دفاع کے ذمہ داران ناکام ہوگئے ہیں؟ لیکن ان سب حوالوں سے سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ حافظ سعید بھی کھل کر یہ نہیں کہہ سکے کہ دفاع پاکستان کے ذمہ داران ناکام ہیں، نااہل ہیں یا لاعلم ہیں لیکن اس بات پر ان کا اصرارتھا کہ ہم تو اپناکردار اداکریں گے۔ ان کاکہناتھا اور اس امرپر حاضرین کی بڑی تعداد متفق تھی کہ موجودہ حکمران ملک کو بھارت کا بھی غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایٹمی پروگرام اور ملک کے وسائل خطرے میں ہیں۔ پانی بھارت کے قبضے میں، پاکستانی مصنوعات بھارت کی وجہ سے خطرے میں ہیں اور اب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے والی بھی موجودہ حکومت ہی ہے تو اس کا راستہ روکنے کے لیے ہمیں اپناکردار اداکرنا ہوگا۔
حافظ سعید کا یہ خیال بھی سب کے خیالات سے مطابقت رکھتاتھا کہ بھارت کو صرف چین کے سامنے کھڑاکرنے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کا ناطقہ بندکرنے کے لیے بھی آگے لایاجارہاہے اور اس سب کے پیچھے امریکا ہے لہذا افغانستان کی صورتحال، کشمیرکی صورتحال اورپاک ایران کشیدگی سب کے پیچھے امریکا ہے، اس کی پیش قدمی روکنی ہوگی۔ اسی لیے دفاع پاکستان کونسل نے ملک بھرمیں عوامی بیداری پیداکردی ہے۔ حافظ سعیدکی دردمندی سے کسی کو انکارنہیں تقریبا ہرپاکستانی کسی نہ کسی حوالے سے فکرمند ہے کہ پاکستان کا کیا ہو گا ؟ اس ملک میں غیرملکی عمل دخل اس حدتک بڑھ گیاہے کے باہرسے آکرآدمی ہمارے لوگوں کو اسلحہ کے ذریعہ قتل کرتاہے اور وی آئی پی طریقے سے ملک سے نکل جاتاہے۔ ایبٹ آباد میں غیرملکی طیارے ہیلی کاپٹرزوغیرہ کارروائی کرتے ہیں اورہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مہران بیس پر حملہ ہوتاہے اور نشانہ صرف بحری قوت کا وہ حصہ بنتاہے جو بھارت کے خلاف استعمال ہوسکتاہے ۔
لیکن اس سوال کا بھی جواب لوگ تلاش کررہے تھے کہ پاکستان میں غیرملکی عمل دخل کے اہم سبب جنرل پرویزکے قریبی ساتھی دفاع پاکستان کونسل میں کیاکررہے ہیں۔ جنرل ضیا ء کے صاحبزادے اعجازالحق اور جنرل پرویزکے نفس ناطقہ شیخ رشید احمد بھی دفاع پاکستان کونسل میں ہیں اورنیٹوسپلائی کی اجازت دیتے وقت بھی وہ حکمرانوں کے ساتھ تھے ،اب نیٹو سپلائی روکنے کے حق میں ہیں ۔آخرکیاوجہ ہے کہ وہی لوگ اس صف میں بھی ہیں جن کی وجہ سے دفاع پاکستان کونسل کی ضرورت پڑگئی؟ ایک سوال اوربھی ہے کہ کہیں دفاع پاکستان کونسل صرف پیپلزپارٹی کی حکومت گرانے تک کام کرے گی یا اس سے آگے بھی کوئی ایجنڈا ہے ؟ کیامستقبل میں دفاع کونسل کوکسی سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کے امکان موجودہیں؟ بہرحال اس بات پربھی شرکاء متفق تھے کہ حافظ سعید اور ان کے ساتھ موجود اسلامی جماعتیں اسلام آباد پہنچیں، جب تک وہ اسلام آباد نہیں پہنچیں گی ملک پر اسی طرح کے لوگ حکمران رہیں گے۔ لہذا اگر یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا تو یہاں اسلام ہی نافذ ہونا چاہیے اور یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں اسلامی نظام بھی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہی نافذ کریں گے جس سے نہ صرف امریکی ڈالروں پرپلنے والے بلکہ امریکاکے ساتھ ساتھ بھارت بھی خوفزدہ ہے کہ اگرافغانستان میں امن قائم ہوگیاتویہ جہادی اپنے کشمیری بھائیوں کوبھارتی ظلم واستبدادسے نجات دلوانے کیلئے کشمیرکارخ کریں گے اوریہ امن کی آشا کاڈرامہ بیچ بازارغرق ہوجائے گا ۔
***