Home / Socio-political / نرم ویزا پالیسی اور پاکستان

نرم ویزا پالیسی اور پاکستان

نرم ویزا پالیسی اور پاکستان

بھارت اور پاکستان بیتی باتیں بھول کر تجارت میں ایک دوسرے سے استفادہ حاصل کرنے اور اپنے تعلقات بہتر بنانے کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں تاہم دونوں اطراف کے عوام اپنے پیاروں سے ملنے او ان کے ساتھ چار پل بتانے کو اب بھی بیتاب ہیں۔

آصف علی زرداری کی بھارت آمد اور ان کی طرف سے ویزا کے حصول میں دشواریوں کو آسان بنانے کی یقین دہانی کو عوام نے نہ صرف سراہا بلکہ دونوں اطراف کے عوام کی آنکھوں میں اپنے عزیزوں سے ملنے کے خواب پھر سے ٹمٹمانے لگے۔ لوگوں کو امید تھی کہ مئی میں ہونے والے مذاکرات میں نرم ویزا کے امور طے پا جائیں گے لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے رویے نے ایک بار پھر اس موضوع کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔  یہ بات اور بھی دلچسپ ہے کہ دونوں فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں اس معاہدے پر دستخط کرنے چاہیئں لیکن پھر بھی معاہدہ جوں کا توں رہا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کی سیاسی انتظامیہ بھارت کے ساتھ نئے تجارتی رشتے کو اہمیت تو دے رہی ہے لیکن حکومت کچھ قوتوں کی جانب سے خائف بھی ہے ۔ وہ قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوں کیونکہ یہ ان کے مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔

 بر صغیر میں آج بھی ایک طبقہ دونوں ملکوں کے درمیان کی رنجشوں کو ہوا دے کر اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور وہی طبقہ دونوں ممالک کے مثبت تجارتی اور عوامی رشتوں کے خلاف بھی ہے۔  وہ قوتیں درمیان میں کشمیر جیسے کا مسئلہ لے کر آجاتی ہیں لیکن یقین جانیں اگر کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہو جائے تو بھی وہ بھارت کے خلاف کوئی نہ کوئی الزام تراش ہی لینگے۔  ان کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ “امن کی آشا” جیسی کوششیں کیوں ہو رہی ہیں اور بھارت کو پسندیدہ ملک کیوں قرار دیا گیا۔  اور تو اور اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے لوگ میڈیا میں “پسندیدہ ملک” کی تعریف بھی کچھ عجیب سی ہی بیان کرتے ہیں۔ اس وقت جب بھارت اور پاکستان کے عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری جیسی بیماریوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے  دونوں ممالک سے برآمد ہونے والی چیزیں اگر براہ راست دوسرے ملک میں بھیجی جائیں تو ان کی قیمتوں پر کافی فرق پڑے گا اور یہ عمل مہنگائی سے بلبلاتی عوام کے زخموں پر مرحم کی مانند ہوگا۔ ویزا کی فراہمی اگر آسان ہوگی تو ان کے درمیان غلط فہمیاں دور ہونگی اور حکومت تعلقات کو استوار کرنے میں جن قوتوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کر رہی ہے ان مزاحمتوں کی شدت میں نمایاں کمی آئیگی۔  ان باتوں کو اگر حکومت پاکستان سامنے رکھے اور غور کرے تو نرم ویزا کے معاہدے پر ستخط کرنا آسان ہو جائے گا اور عوام کو بھی اس موضوع پر اپنی بات سمجھائی جا سکتی ہے۔ اب اس بات کا دار و مدار حکومت  پاکستان پر ہے کہ وہ واقعی بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو ایک نئے اور مثبت دور میں لے جانا چاہتی ہے یا نہیں۔

About admin

Check Also

فرینکفرٹ میں بین الاقوامی سیمنار و مشاعرہ

حیدر طباطبائی کی یاد میں بین الاقوامی سیمنار اور مشاعرہ گوئٹے کی سرزمین جرمنی سے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *