Home / Socio-political / زمیں کو آسمان کہناپڑے گا

زمیں کو آسمان کہناپڑے گا

رواں ہفتے اتوار کو سورج کے طلوح ہونے سے قبل افغانستان کے صوبہ قندھار میں تعینات ایک امریکی فوجی نے مبینہ طور پر امریکی فوجی اڈے سے پانچ سو میٹر کے فاصلے پر دو دیہاتوں الکزئی اور نجیبان کے مکانوں میں داخل ہو کر مقامی افراد پر بڑی بے رحمی سے گولیاں چلاکر سولہ افرادکو ہلاک اور پانچ کو زخمی کردیا ۔ ہلاک ہونے والوں میں نو بچے شامل تھے اور چند کی لاشوں کو جلا بھی دیا گیا۔حملہ کرنے کے بعد یہ فوجی اپنے اڈے پر واپس چلا گیا جہاں اسے حراست میں لے لیا گیا۔افغانستان کے صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فوجی اتوار کو رات تین بجے اپنے اڈے سے باہر نکلا لیکن ایک عینی شاہد کے مطابق حملہ آور نے یہ حملہ تین بجے سے بھی ایک گھنٹہ پہلے کیا۔مقامی رہائشی عبدالباقی نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ اس نے رات کو گولیاں چلنے کی آواز سنی اور جب یہ واقعہ ہوا اس وقت ہم اپنے گھروں کے اندر تھے۔عبدالباقی کے مطابق وقفے وقفے سے گولیوں کے چلنے کی آواز سنائی دیتی رہی۔

اس بستی کے ایک مکیں عبدالصمدنے بی بی سی کے نمائندے کوبتایاکہ ظلم کی اس رات کو علاقے میں رہنے والے لوگوں پر حکومت کی جانب سے کرفیو لگا ہوا تھااورحکومت اور طالبان کی طرف سے یہ احکامات دیے گئے ہیں کہ رات کے وقت گھروں سے باہر زیادہ نہ نکلیں کیونکہ صوبہ قندھار میں پنجوائی کے فوجی اڈے کو شدت پسندوں اور بین الاقوامی فوجوں کے مابین لڑائی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔عبدالصمدنے مزید کہاکہ اس رات پہلے ہی شور تھا اور رات بارہ بجے کے قریب جہازوں کی آوازیں بھی سنائی دیں تاہم ایک اور ڈیرھ بجے کے لگ بھگ ہیلی کاپٹروں اور گولیوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ایک اور خاتون عینی شاہد نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس نے رات دو بجے گولیوں کے چلنے کی آواز سنی اور اسی دوران ایک بھونکتے کتے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔اگرچہ بہت سے دیگر مقامی افراد نے گولیوں کے چلنے کی آواز سنی لیکن ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے حملہ آور کو دیکھا۔

اطلاعات کے مطابق ایک پندرہ سالہ رفی اللہ نامی مقامی لڑکے نے افغانی صدر حامد کرزئی کوخودبتایا کہ ایک امریکی فوجی نے رات کو اس کے مکان میں داخل ہو تے ہی گولیاں چلانا شروع کردیں۔اس حملے میں لڑکے کی اپنی ایک ٹانگ پر بھی گولی لگی۔ایک اور عینی شاہد، بیس سالہ جان آغا نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اس کی اور اس کے والد کی آنکھ گولیوں کے چلنے سے کھلی اور اس کے والد نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے کی جونہی کوشش کی کہ اس کے والد یک دم زمین پر گر گئے۔گولیوں کی بوچھاڑنے ان کے گلے اور منہ کواڑاکررکھ دیااوراسی حملے میں جان آغا کی والدہ، بہن اور بھائی بھی ہلاک ہوگئے۔ جان آغا کا کہنا تھا کہ اس نے زمین پر لیٹ کر ناٹک کیا جیسے وہ بھی مارا گیا ہے۔اس کا مزید کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ امریکی فوجی اس کے گھر میں داخل ہوئے اور وہ کافی دیر تک ہمارے گھر میں رہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھاکہ کہیں میرے اس ناٹک کاان کوپتہ نہ چلے وگرنہ وہ مجھے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔

اتوار کو اس واقعے کے بعد نامہ نگاروں نے ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں سے بات چیت کی۔ایک صمد خان نامی شخص نے رائٹرز کو روتے ہوئے بتایا کہ اس حملے میں ان کے بچوں اور پوتوں سمیت گیارہ رشتہ دار ہلاک ہو گئے۔ صمد خان، جو اس واقعے کے دوران گاوٴں میں نہیں تھے، کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی لاشوں پر کیمیکل پھینک کر انہیں آگ لگا دی گئی ہے۔متعلقہ تصاویر میں سے کم از کم ایک تصویر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک بچے کی لاش جلی ہوئی ہے۔ تصاویر کو دیکھ کر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کئی افراد کو ماتھے پر صرف ایک گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ایک تصویر میں لال اور سبز کپڑوں میں ایک چھوٹی بچی کے ماتھے میں گولی کی وجہ سے سوراخ ہے۔

افغان پارلیمان نے امریکی فوجی کے ہاتھوں سولہ افغان شہریوں کی ہلاکت کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ ملزم امریکی فوجی پر افغان عدالت میں عوامی مقدمہ چلایا جائے۔افغان صدر نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ امریکی حکام نے افغانستان میں تعینات افواج کو متنبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف جوابی کارروائی ہو سکتی ہے۔قرارداد میں ان ہلاکتوں کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کے خلاف افغان عوام کا پیمانہٴ صبر لبریز ہوگیا ہے اورکوئی بعیدنہیں کہ انتقامی کاروائیوں میں شدیداضافہ ہوجائے ۔افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کا یہ واقعہ امریکہ کے ساتھ اس سٹریٹیجک معاہدے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے جس کا مقصد امریکہ کو افغانستان میں ۲۰۱۴ء کے بعد اپنی کچھ فوج رکھنے کی اجازت دینا ہے۔

افغان پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم امریکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ذمہ داران کو سزا ملے گی اور ان پر افغانستان میں عوامی مقدمہ چلایا جائے۔۔امریکی صدر براک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کو فون کر کے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔فائرنگ کرنے والے امریکی فوجی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ امریکی سارجنٹ ہے اور امریکی فوج کے مطابق امریکی سپاہی فائرنگ کرنے کے بعد فوجی اڈے میں واپس آ گیا جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ کا ذمہ دار امریکی فوجی قندھار میں زیرِ حراست ہے ۔خبر رساں ایجنسی اے پی نے امریکی حکام کی بابت بتایا کہ زیرِ حراست سپاہی کی نشاندہی نہیں کی گئی تاہم ان کا کہنا ہے کہ متعلقہ سپاہی کا تعلق امریکی ریاست واشنگٹن کی لیوس میکارڈ بیس سے ہے۔

حکام کے مطابق امریکی فوجی شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں۔ حکام کے مطابق واقعہ کا ذمہ دار امریکی فوجی اس سے پہلے عراق میں تین بار خدمات انجام دے چکا ہے اور اسے افغانستان میں پہلی بار تعینات کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ افغانستان میں ہونے والی یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب گزشتہ ماہ ہی کابل میں قرآن کے نسخے جلائے جانے کے بعد امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا تھا۔اگرچہ امریکی حکام نے قرآن جلائے جانے کے واقعہ پر معذرت کی تھی تاہم وہ افغانستان میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے میں ناکام رہے تھے۔ ان مظاہروں میں چھ امریکیوں سمیت کم سے کم تیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کابل میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار بلال سروی کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ نے کابل اور واشنگٹن کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو ابتر کر دیا ہے۔نامہ نگار کے مطابق طالبان کے اعلان انتقام نے صدر حامد کرزئی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔افغانستان میں ناراض قبائل نے امریکہ کی جانب سے افغان شہریوں کے گھروں میں رات کے چھاپوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اورقبائلیوں نے انصاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا موٴقف ہے کہ امریکہ کی معافی کوئی معنی نہیں رکھتی۔دوسری جانب کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ایک بیان میں امریکی سفارت خانے نے امریکی فوجیوں کے خلاف ممکنہ حملے کی تنبیہ جاری کی ہے۔سفارت خانے نے اپنے سٹاف کی نقل و حرکت کو مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے تک محدود کرنے کو کہا ہے۔

ادھر طالبان نے اسے امریکیوں کی ایک وحشیانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے ان ہلاکتوں کا بدلہ لینے کااعلان کیا ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ ا ب امریکاکااونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے جب کہ اس خطے میں کوئی بھی امریکاکا ساتھ دینے کوتیارنہیں!آخرامریکااوراس کے اتحادیوں کواپنے فوجیوں کے تابوت واپس لے جانے کیلئے کوئی راہداری بھی تودرکارہوگی؟

یہ ا نسانوں کی بستی ہے، یہاں پر خموشی کو زباں کہنا پڑے گا

چنو گے پستیاں خود پر تو اک دن ،زمیں کو آسمان کہناپڑے گا

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *