Home / Socio-political / شاطرشکاری اورشکار

شاطرشکاری اورشکار

شاطرشکاری اورشکار
سمیع اللہ ملک

بہت ہی ذہین اور محنتی ہے وہ………..کتابوں کا کیڑا۔ موج بڑھے یا آندھی آئے اپنا دیا جلائے رکھتا ہے۔ لہو جما دینے والی سردی ہو برف باری ہو یا سانس دوبھر کردینے والی گرمی، اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ جس کام کا بیڑا اٹھالے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ ہر میدان میں سب سے آگے۔ آج تک پہلی پوزیشن لیتا رہا ہے۔ تقریر ہو یا مباحثہ وہ سب سے آگے ہوتا ہے۔ شوق بھی عجب سے ہیں۔ پہاڑوں پر جیپ دوڑانا شکار کھیلنا اور ذرا سکون سے ہو تو مچھلی پکڑنا ہے اس کا شغل میلہ۔ چندبرس پہلے میں جب اس کے گھر پہنچا تو وہ چشمِ ما روشن دلِ ماشاد تھا۔ وہی کیا اس کے سب گھر والے……….. بابا، ماما ،پھول اور چاند۔ دوسرا دن تھا کہ وہ اپنا سازو سامان لے کر جیپ میں بیٹھا اور پھر ہم دونوں ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پہنچے۔ اس نے مچھلی پکڑنے کا سامان نکالا۔ مجھے تو مچھلی پکڑنے کے فن سے بالکل آشنانہیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا، اس نے بہت پیار سے کھانے کی مختلف چیزیں نکالیں اور انہیں تیز سہ مونہے کانٹے میں پھنسانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تب اس نے مجھے بتایا تھا:
یہ تم نہیں جان پاؤگے۔ میں تو آج تک کچھ بھی نہیں جان پایا لیکن پھر بھی؟ یہ ہے مچھلی کا من بھاتاکھاجا، اسے دیکھ کر ہی تو وہ آگے بڑھتی ہے، اس کی خوشبو ہی اسے راغب کرتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو مچھلی کیوں پھنسے ،اور جب وہ منہ کھول کر اسے کھانے آتی ہے تو کانٹا اس کے حلق میں اٹک جاتا ہے اور ہمیں ڈور کی حرکت سے پتا چل جاتا ہے اور پھر ہم ڈور کو ایک جھٹکا دیتے ہیں اور سہ مونہا کانٹا مچھلی کے حلق میں پوری طرح پھنس جاتا ہے ہم اسے باہر نکال لیتے ہیں اور پھر یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ اس کا سالن بنائیں، فرائی کریں یا بیچ دیں۔ اچھا تو یہ ہے اصل بات……….. میں نے کہا۔
ہمارے بابے نے بھی یہی کہا تھا: دیکھو دنیائے فانی میں شکاری گھوم پھر رہے ہیں، کسی کا پیشہ ہے شکار اور کسی کا شوق ،کسی کا بس ویسے ہی ،حاصل وصول کچھ نہیں۔ دنیائے ناپائیدار میں بھی اسی طرح تیز نوکیلے سہ مونہے کانٹے لگائے بیٹھے ہیں شاطر شکاری اور ان کانٹوں پر بھی انسان کو لبھانے رجھانے پھنسانے کا چارہ لگا ہوا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کتنی خوبصورتی ہے، رعنائی ہے ،دل کشی ہے، دل داری ہے، خدمتِانسانیت ہے، درد ہے خلوص ہے اور اِس جیسے نجانے کتنے سہانے من موہنے الفاظ اور نادان ان کی طرف لپکتے ہیں اور پھنس جاتے ہیں۔ پھر شکاری انہیں کھینچ باہر لاتا ہے اور سہانا خواب چکناچور ہوجاتا ہے۔ حرص کا کانٹا مکرو فریب کا کانٹا جس پر شکاری بہت خوبصورت چارہ لگائے بیٹھے ہیںجیسے مچھلی سمجھتی ہے:
واہ واہ کتنا اچھا انسان ہے اتنی دور سے آیا ہے اور ہمارا من بھاتا کھاجا لایا ہے۔ اس جیسا ہمدرد تو کوئی نہیں غم خوارکوئی نہیں………اور منہ مار بیٹھتی ہے اور پھر اپنا انجام دیکھتی ہے۔ اسی طرح انسان بھی نادان انسان………..دنیاوی کانٹوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور پھر انجام………..!
بڑی جان جوکھوںاورقربانیوںکے بعدپاکستان میںعدلیہ کووہ مقام ملاجس کاخواب دیکھنابھی محال تھالیکن جنہیںیہ آزاردی ایک آنکھ نہیںبھاتی تھی وہ بھی مسلسل اس کی آزادی کوسلب کرنے کیلئے اپنی کوششوںمیںمصروف تھے اوربالآخرپہلاکاری وارسامنے آگیاکہ جناب چیف جسٹس کے بیٹے پربدعنوانی کاالزام لگاکرعدلیہ کومشکوک اورایسی آزمائش میں مبتلا کر دیا جائے کہ عوام بھی بوکھلااٹھے کہ اب وہ نصاف کیلئے کس کے درپرجائیں۔یقینا پاکستانی میڈیانے کسی کے اشارے پریہ کام کیاہوگالیکن اب وقت آگیاہے کہ اس کافوری ایسافیصلہ سامنے آجائے تاکہ عدلیہ پرعوام کابھرپوراعتمادایک دفعہ پھرروزِروشن کی طرح عیاںہوجائے۔قابل صدمبارک ہیںچیف جسٹس صاحب جنہوںنے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ان خبروں کا از خود نوٹس لیا تھا جن میں ان کے بیٹے ارسلان افتخار پر کاروباری شخصیت ملک ریاض سے کروڑوں روپے کا فائدہ حاصل کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔میڈیامیں اس واقعے کافوری نوٹس لیتے ہوئے اپنے بیٹے ڈاکٹرارسلان سمیت سب کوطلب کرلیاتاکہ دودھ اورپانی کوالگ کردیاجائے۔
ابھی یہ خبرسامنے آئی ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے پر بدعنوانی کے الزامات کے معاملے کی سماعت سے علیحدہ ہونے اور ایک خصوصی بینچ تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔جمعرات کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ایک مرتبہ پھر چیف جسٹس کی معاملہ سننے والے بینچ میں شمولیت پر اعتراض کیا جس کے بعد چیف جسٹس نے مختصر فیصلے میں کہا کہ یہ اعتراض بجا ہے اور وہ اس کیس کی سماعت سے الگ ہو رہے ہیں۔خیال رہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے خود اس معاملے کی سماعت کرنے پر اعتراضات کیے جا رہے تھے اور گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ججوں کے ضابط اخلاق کے آرٹیکل چار کے تحت انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب اس معاملے کی سماعت ایک خصوصی بینچ کرے گا جو جمعرات کو ہی دوپہر دو بجے سے اس کی سماعت شروع کرے گا۔
اس معاملے کے اہم کردار ملک ریاض دوسرے دن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکیل زاہد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ وہ علیل ہیں اور ایک ہفتے کے بعد ہی پیش ہو سکتے ہیں۔اس پر عدالت نے زاہد بخاری سے کہا کہ چونکہ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اپنے موکل کو مطلع کر دیں کہ وہ اس دوران کسی بھی قسم کا انٹرویو دینے یا معاملے پر رائے زنی سے گریز کریں۔سماعت کے دوران نجی ٹی وی کے صحافی اور ٹی وی میزبان کامران خان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس میں انہوں نے انہیں دکھائی گئی دستاویزات کی تفصیل بیان کی۔
یادرہے کہ زاہدبخاری وہی صاحب ہیںجواس سے پہلے ریمنڈڈیوس جیسے امریکی جاسوس کے وکیل صفائی تھے اوراس کے بعدملکی فوج کے خلاف ایک گھناؤنی سازش میموگیٹ سکینڈل میںحسین حقانی کے وکیل صفائی مقررہوئے اوراب ملک ریاض کے وکیل صفائی مقررہوئے ہیںجبکہ ملک ریاض کے ادارے نے عدالت کے روبرو اس معاملے سے قطعی لاتعلقی اورلاعلمی کااظہارکردیاہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ اگریہ واقعی عدالتِ عالیہ کے خلاف سازش کی گئی ہے تواس کے تانے بانے کہاںجاکرملتے ہیں۔کہیںایساتونہیںکہ عدالت کے حالیہ فیصلوں کے بعدیہ ساراڈرامہ تیارکیاگیاہے۔
ادھر ازخود نوٹس کے بارے میں منگل کو رات گئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار فقیر حسین کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ کئی ٹی وی ٹاک شوز میں عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کاروباری شخصیت ملک ریاض اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے درمیان کسی بزنس ڈیل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔پریس ریلیز کے مطابق ٹاک شوز میں کہا گیا کہ ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان کو تیس سے چالیس کروڑ روپے دیے اور ان کے غیر ملکی دوروں کو بھی سپانسر کیا۔پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے خبروں کے مطابق یہ عنایات ڈاکٹر ارسلان پر اس لیے کی گئیں تاکہ ان کے والد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری پر اثرانداز ہوکر ان کے دل میں ملک ریاض کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا جا سکے۔ ایسا کرنے کا مقصد ملک ریاض کے خلاف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات میں حمایت حاصل کرنا تھا۔
ڈاکٹر ارسلان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور سرکاری ملازم تھے لیکن ۲۰۰۹ء میں اپنے والد کی چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد اطلاعات کے مطابق انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دیدیا تھا۔
بس دعا یہی کرنی چاہیے کہ مالک ہم پر نگاہ رکھنا کبھی بد راہ نہ کرنا۔ دیکھ ہم تو نادان ہیں ،نادار ہیں کمزور ہیں کچھ بھی تو نہیں جانتے ہم، بس تو ہی ہم پر اپنا فضل کرنا اور ہمیں راہِ ہدایت پر رکھنا۔ ہمارا من چاہے نہ چاہے ہماری لگام تھامے رکھنا۔ مالک چیزوں کی اصلیت کو کھول دے۔ ہم نابینا ہیں ہمیں بینا کر،ہم نادان ہیں دانا بنادے۔ رب کا فضل ہی بچاسکتا ہے اور تو کوئی بھی نہیں بچاسکتا۔ دیکھئے ناں کتنی زبردست بات ہے’’ مومن کی بصیرت سے ڈرو وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ اسی لیے تو جناب اقبال نے فرمایا ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂمومن کا ہاتھ۔ کنول ہمیشہ کیچڑ میں کھلتا ہے بس یہ ہے اصل بات۔ مالک آپ پر اپنا فضل و کرم فرماتا رہے۔ راستہ دکھاتا رہے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا میرے رب کا۔

رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
وہ بات کہہ جسے دنیا بھی معتبر سمجھے تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *