بالآخروہی ہواجس کاخدشہ کئی ماہ پہلے میں نے اپنے کئی ایک کالم میں کیاتھااورجہاں میرے کئی قارئین نے اس تجزیہ پراپنی حیرت کااظہارکیاتھاوہاں کئی افرادنے اسے ایک مفروضہ قراردیتے ہوئے تنقیدکانشانہ بھی بنایاتھا۔مجھے توقع نہیں تھی کہ میرے تجزیہ کی تصدیق اس سرعت کے ساتھ ہوجائے گی ۔پچھلے ہفتے برطانیہ نے قازقستان کے ساتھ نہ صرف افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء اوراپنے اسلحے کیلئے راہداری کے ایک معاہدے پردستخط کئے ہیں بلکہ اس راہدای کے عوض ابتدائی طورپرایک سوملین پاوٴنڈکی خطیررقم کی جلدادائیگی کااعلان بھی کیاہے۔برطانیہ قازقستان سے ملحق افغانستان کے صوبہ بلخ میں واقع مزارشریف سے اپنی تین ہزارفوجی گاڑیاں،تیرہ ہزاراسلحہ کنٹینرزاور ہزاروں فوجیوں کو افغانستان سے بذریعہ ایئرلفٹ لاکروہاں سے بذریعہ ٹرین یوکرائین بندرگاہ کیوسے یورپی راستے واپس برطانیہ لاناچاہتے ہیں۔اس معاہدے کے بعدامریکانہ صرف افغانستان میں تنہاہوتاجارہاہے بلکہ اس نے افغانستان میں اپنے دوسرے اتحادیوں سے درخواست کرناشروع کردی ہے کہ وہ برطانیہ کو۲۰۱۴ء تک روکنے کی کوشش کریں تاکہ ۲۰۱۴ء کے بعدافغانستان سے امریکی انخلاء کے اعلان کوعملی جامہ پہنایا جاسکے۔
یہی وجہ ہے کہ صدراوبامہ نے خصوصی دعوت پربرطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کوامریکاآنے کی دعوت دی۔ڈیوڈکیمرون اپنے امریکاکے دورے پرجونہی واشنگٹن پہنچے توصدراوبامہ کے ساتھ ایئرفورس ون(صدرکے زیراستعمال ہوائی جہاز)پرریاست اوہایوچلے گئے۔وہ پہلے غیرملکی رہنماء ہیں جنہوں نے ایئرفورس ون میں امریکی صدرکے ساتھ سفرکیا۔دونوں رہنماوٴں نے ملاقات کے بعدایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جہاں صدراوبامہ نے اس بات کی تردید کی کہ افغانستان میں حالیہ پرتشددواقعات کے بعداتحادی فوجیوں کوانخلاء کے طے شدہ نظام الاوقات سے پہلے واپس بلایاجاسکتاہے اورانہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی نیٹوفورسزآئندہ سال سے افغانستان میں معاون کاکردارادا کریں گی اور۲۰۱۴ء میں سیکورٹی کی مکمل ذمہ داریاں افغان فوج سنبھال لے گی لیکن برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے افغان جنگ کے مکمل خاتمے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اس کے عوام یہ جانناچاہتے ہیں کہ ہماری فوج واپس گھرکب آرہی ہے جووہاں ایک طویل عرصے سے موجودہے۔صاف دل سے کہوں توبرطانوی عوام ،ہمارے فوجی اورافغان حکومت یہی چاہتے ہیں کہ افغان عوام ملک کی خودنگہبانی کریں ۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ یہ ایک بہترین جمہوریت نہیں ہوگی اوروہاں ترقی کے حوالے سے بے پناہ مسائل ہونگے۔
۱فغانستان میں جوں جوں موسم بہارقریب آرہاہے امریکااوراس کے حواریوں کی پریشانی میں اضافہ ہوتاجارہاہے اوراب جہاں میڈیاکے سامنے افغانستان سے انخلاء کے بارے میں برطانیہ اورامریکا کے اختلاف کھل کرسامنے آگئے ہیں وہاں افغانستان کے اندرمزاحمت کاروں کیلئے یہ فیصلہ کن سال قراردیاجارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ فرانس کے بعدامریکا کے ہرقدم کی تائیدکرنے والابرطانیہ بھی امریکاسے نالاں نظرآتاہے ۔دراصل برطانوی حکام کواس بات پرشدیدغصہ ہے کہ افغانستان سے لیکرعراق،پاکستان،ایران،سوڈان اور دیگرممالک کے حوالے سے جوبھی پالیسیاں امریکانے اپنے مفادمیں بنائیں ،برطانیہ نے امریکاکامکمل ساتھ دیالیکن طالبان کے ساتھ مذاکرات کاوقت آیاتوامریکانے نہ صرف برطانیہ کولاعلم رکھابلکہ اس کے ساتھ مشورہ تک نہیں کیاحالانکہ افغانستان میں امریکاکے بعدسب سے زیادہ فوجی برطانیہ ہی کے ہلاک ہوئے ہیں اورسب سے زیادہ نقصان بھی برطانیہ ہی کواٹھاناپڑاہے لیکن امریکانے برطانیہ کواس قابل بھی نہیں سمجھاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں برطانیہ کوبھی شامل کرلے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان سے برطانوی فوج کے انخلاء کے بعدامریکاکوسب سے بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ جنوب مشرقی افغانستان کے دواہم صوبوں جنہیں طالبان کاگڑھ بلکہ قندھاراورکابل پرقبضے کادروازہ سمجھاجاتاہے یعنی ہلمنداورزابل،وہاں برطانوی فوج اس وقت طالبان کے مدمقابل ہے جبکہ افغانستان میں مبینہ طورپرفرانس،جرمنی، پولینڈاوردیگراتحادی ممالک کی افواج تعمیری کاموں کے دوران طالبان کے مقامی کمانڈروں کوپیسے دیکران سے حملے نہ کرنے کی درخواستیں کرتے ہیں جبکہ امریکاکے بعدبرطانیہ واحدملک ہے جوطالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔برطانوی انخلاء کے سبب ارزگان،زابل امریکاکے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ امریکانے پہلے ہی اعلان کررکھاہے کہ جولائی ۲۰۱۲ء سے قبل تقریباًبیس ہزارفوجیوں کانکالے گاجبکہ تیس ہزارفوجیوں کواگلے سال افغانستان سے نکالاجائے گا،اسی لئے امریکاکومشرقی،وسطی اوردارلحکومت کابل سمیت قندھارکی حفاظت کیلئے جوفوجی درکارہونگے،اس میں شدیدکمی ہوجائے گی جواس کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف بگرام میں قرآن جلانے اورحالیہ ایک امریکی سارجنٹ کی بہیمانہ کاروائی میں نہتے سولہ بے گناہ افغانوں کی ہلاکت کے بعدامریکاکے خلاف نفرت میں شدیداضافہ ہوگیاہے اورقصرسفیدکافرعون اورپینٹاگون جان گئے ہیں کہ امریکی فوجیوں کوموسم گرمامیں شدیدمشکلات کاسامناکرناپڑے گا۔برطانیہ نے قازقستان کے راستے انخلاء کواس لئے ترجیح دی ہے کہ پاکستان کے راستے سے ان کے فوجی سازوسامان پرطالبان کی جانب سے حملوں کاخدشہ ہے ۔بگرام میں قرآن کریم کی بے حرمتی اورحالیہ امریکی سارجنٹ کی ظالمانہ کاروائی کے واقعات نے یورپی اتحادی ممالک کوفرارکیلئے بہانہ فراہم کردیاہے بلکہ جنگ سے بیزاراتحادیوں میں بھی اختلاف کھل کرسامنے آگئے ہیں جس کی وجہ سے امریکا ایک عجیب مشکل اورپریشانی میں مبتلاہوگیاہے۔اسی لئے یورپی ممالک نے برطانیہ کے اس اقدام پرنہ صرف خاموشی اختیارکرلی ہے بلکہ اندرونِ خانہ یورپی حکام اس بات پرسخت برہم ہیں کہ امریکاخودتوطالبان سے مذاکرات کرتاہے توانہیں خاطرمیں نہیں لاتالیکن امریکی فوجیوں کی جانب سے منظرعام پرآنے والے واقعات کے بعدخمیازہ انہیں بھگتنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انہیں شدیدجانی نقصان بھی اٹھاناپڑتاہے اورہوسکتاہے کہ آئندہ موسم گرمامیں اتحادی افواج کے خلاف ایسی مزاحمت شروع ہوجائے جوگزشتہ دس سالوں میں بھی نہ ہوئی ہوکیونکہ ان دوواقعات کے بعدطالبان کی حمائت میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے بلکہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں بھی اضافہ ہوگیاہے اورافیون کے کاشتکاراور اسمگلربھی امریکی فوج کے خلاف میدان میںآ سکتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدارآنے سے افیون ایک باربھرختم ہوجائے گی،اسی لئے وہ اس سال سے بھرپورفائدہ اٹھاناچاہتے ہیں۔
امریکانے اس تناظرمیں ان حالات کودیکھتے ہوئے افغانستان پردباوٴڈالناشراع کردیاہے کہ وہ شکاگوکانفرنس میں جواس سال گرمیوں میں ہورہی ہے اوریہی سال امریکامیں صدارتی انتخابات کابھی ہے ،اس لئے وہ افغانستان سے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط چاہتاہے تاہم افغان صدرحامدکرزئی نے پچھلے ہفتے ایک بارپھریہ اعادہ کیاہے کہ جب تک افغانستان کے اندراتحادی افواج رات کی تاریکی میں چھاپے مارنابندنہیں کرتیں اوربگرام سمیت دیگرجیلوں کوافغان حکومت کے حوالے نہیں کیاجاتا،اس وقت تک وہ معاہدے پردستخط نہیں کریں گے کیونکہ ملک کے جیدعلماء،دیگرعمائدین اورقبائلی رہنماوٴں کاان دوواقعات کے بعدان پرشدیددباوٴ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک بگرام اوردیگرجیل خانوں کا انتظام امریکیوں سے واپس نہیں لیاجاتااس طرح کے واقعات دوبارہ رونماہوسکتے ہیں اوراگراب کہیں ایسے کسی ایک واقعہ کااعادہ ہوگیاتوافغانستان کے اندر افغانوں کاقتل عام شروع ہوجائے گاجس کوافغان عوام قطعاً برداشت نہیں کریں گے اوراس سے افغانستان ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گاجس سے نکلنااس کے بس میں نہیں ہوگا ۔
اس لئے اب یہ بہت ضروری ہوگیاہے کہ بگرام جیل سمیت ملک کی تمام جیلوں کاانتظام وانصرام مقامی افغان حکومت کے سپردکردیا جائے جبکہ رات کے وقت اتحادی افواج کے چھاپوں سے بھی افغانستان میں بھونچال آسکتاہے کیونکہ چادراورچاردیواری کی حفاظت افغان روایات کااہم حصہ ہے اورافغان قوم صدیوں سے اپنی روایات پرکاربندہے تاہم اس طرح کے چھاپوں سے افغان قوم میں بہت تشویش پائی جاتی ہے،اسی لئے کسی بھی ا سٹرٹیجک معاہدے سے قبل امریکاسے یہ شرائط منوانابہت ضروری ہے۔ادھرامریکاکویہ خدشہ ہے کہ اگراسٹرٹیجک معاہدے پرفوری دستخط نہ ہوئے تواس سال ہوسکتاہے کہ مزاحمت کاراس قابل ہوجائیں کہ وہ افغان حکومت کواس معاہدے سے روک دیں اورمعاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکاکودوبارہ افغانستان کے اندرمداخلت یاپنے مفادات کے تحفظ کے نام پرقیام اوربحرہٴ عرب سے فوری طورپرافغانستان کے اندراپنی افواج کواتارنے کا قانونی جوازختم ہوجائے گاجس سے ایران اورچین کوفائدہ پہنچ سکتاہے اس لئے امریکاہرصورت میں افغانستان کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط چاہتاہے جبکہ حامدکرزئی کے پاس افغان قوم میں اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کوسہارادینے کیلئے اس سے بہترکوئی وقت نہیں،اسی لے افغان صدراس موقع کوہاتھ سے کھونانہیں چاہتے۔
امریکانے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کرزئی کوشامل نہ کرکے ایک اوربہت بڑی غلطی کی ہے جبکہ اب بھی کرزئی امریکاکیلئے کارآمدہے تاہم افغانستان کے اندرامریکااوراس کے اتحادیوں کے درمیان فیصلہ کن مرحلہ اس سال شروع ہوسکتاہے اورمزاحمت اپنی شدت کے ساتھ امریکااورنیٹوفورسزکیلئے وبالِ جان بن سکتی ہے۔افغانستان سے نکلناآسان بھی نہیں کیونکہ افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات براہِ راست پاکستان اورایران پرپڑسکتے ہیں اورافغانستان کودیکھتے ہوئے ایران کے خلاف ممکنہ کاروائی میں اتحادی امریکاکاساتھ نہیں دیں گے کیونکہ پھرافغانستان سے پوری دنیاکے مزاحمت کارامریکاکے پیچھے ایران کارخ کریں گے ،اس لئے امریکاکواس بات کااحساس ہے کہ افغانستان میں ناکامی یا افغانستان کوخانہ جنگی کے رحم وکرم پرچھوڑکے جانااس کے اپنے مفادمیں نہیں۔
دوسری جانب امریکااورجرمنی کے وزرائے دفاع بدھ کو غیراعلانیہ دورے پرافغانستان پہنچ گئے ۔امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈپریس نے انکشاف کیاکہ جونہی امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹاکاطیارہ جنوبی افغانستان میں برطانوی ایئرفیلڈپراتراتواس پرممکنہ طورپرایک ٹرک کے ذریعے حملے کی کوشش کی گئی جوناکام رہی۔پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جان کروبی نے بتایاکہ ایک افغان شخص نے ایئرفیلڈ پرکھڑاٹرک چوری کرکے لیون پنیٹاکے طیارے کی طرف دوڑادیاجوقریب ہی رن وے پرلینڈنگ کرچکاتھاتاہم ٹرک بے قابو ہو کر طیارے کے پاس پہنچنے سے قبل ہی راستے کی ایک رکاوٹ سے ٹکراکرالٹ گیااوراس میں سوارڈرائیورکے کپڑوں میںآ گ لگ گئی۔فوری طورپرمعلوم نہیں ہوسکاکہ اس شخص کے ذہن میں کیاتھااوراس نے کس کے ایماء پریہ حرکت کی۔
ادھرہلمندمیں لیون پنیٹاکے امریکی فوجیوں سے خطاب کے دوران پہلی مرتبہ اس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے میںآ ئی جب خطاب سننے والے تمام امریکیوں کوغیرمسلح کرکے نہتا کر دیاگیا۔امریکی وزیردفاع لیون پنیٹاکے ہلمندکے دورے کے دوران سڑک کے کنارے نصب ایک بم دہماکے میں کم ازکم آٹھ شہری ہلاک ہوگئے اورقندھارمیں موٹرسائیکل بم دہماکے کے نتیجے میں افغان انٹیلی جنس اہل کار ہلاک اوردوزخمی ہوگئے۔جرمن وزیردفاع نے افغان ہم منصب عبدالرحیم وردگ اورحامدکرزئی سے ملاقاتوں کے بعدافغانستان سے جلدانخلاء کاعندیہ دیاہے۔
وریں اثناء ایک غیرملکی خبرایجنسی نے انسانی حقوق سے متعلق ایک این جی او”سوک“کے حوالے سے ایک خبردی ہے کہ برطانوی اورامریکی افواج کے نزدیک ایک افغان شہری کی جان کی قیمت کم ازکم ۲۱۰ڈالرسے لیکر۲۵۰۰ڈالرتک ہے ۔این جی اوکی حالیہ تحقیق کے حوالے سے افغانستان میں اگراتحادی فوجی کسی خاندان کے فردکاخون بہادیں توبہتریہی ہے کہ مداوے کے طورپررقم دینے والاملک برطانیہ یاامریکاکی بجائے جرمنی یااٹلی ہوناچاہئے۔متاثرہ خاندان کوبرطانیہ ۲۱۰سے سات ہزارڈالر، جبکہ جرمنی۲۵ہزارڈالرتک ادا کرتا ہے ۔امریکاکی جانب سے ۲۵سوڈالر سے زائدرقم ادانہیں کی جاتی۔خبرایجنسی کے مطابق طالبان کے خلاف کاروائیوں کے دوران اتحادی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے افغان شہریوں کی ہلاکتیں مغربی ممالک اورافغان حکومت کے درمیان تنازعے کی بڑی وجہ بنی ہوئی ہیں اوراب چندروزقبل ایک امریکی سارجنٹ کے ہاتھوں سولہ افرادکے بہیمانہ قتل کے بعد افغانستان میں امریکاکے خلاف نفرت عروج تک پہنچ گئی ہے اورامریکانے فوری طورپراپنے اس فوجی کوافغانستان سے باہرکہیں منتقل کردیاہے۔ ادھردوسری طرف طالبان نے امریکاکے ساتھ مجوزہ مذاکرات مکمل طورپرختم کرنے کااعلان کردیاہے۔ لگتایوں ہے کہ قصرسفیدکے فرعون کو اپنے اگلے انتخابات میں فتح کیلئے پاکستان سے نئی شرائط پر معاہدے کیلئے آمادہ ہوناپڑے گا۔اب دیکھنایہ ہے کہ پاکستان اس صورتحال میں ملکی مفادکیلئے کیاشرائط تجویزکرتاہے؟
عدل وانصاف کسی حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود ہی گناہوں کی سزا دیتی ہے
****