ماہ مقدس میں تقدس کے سوا ہر چیز کی فراوانی کو دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ ہمارے زوال کو کیا چیز مانع ہے۔ زندگی میں ہر چیز کو ہم نے اپنے مفادات اور خواہشات کے تلووں میں روند کر انسانیت کی معراج کی تمنا کیونکر سوچی ہے۔انسانیت کو سسکتا دیکھنے کی تمنا میں ذات کی تشفی ڈھونڈنے والے مسیحا ئوں کے جھرمٹ میں تڑپتی انسانیت کو خلاصی کیلئے کیا کرنا چاہیے۔جس چیز سے ہمیں نفرت کرنے کا سبق دیا گیا اسے ہم گلے لگا کر محبت کے اسباق کی اصل میراث سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب چاہتے ہیں کہ نفرتو ں کے نصاب سے محبت و پیار کا سرچشمہ پھوٹ کر ہمیں سیرآب کرے ۔حق دینے کا تصور ناپید کر کے حق شناس ہونے کے دعوی کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ لینا دینا ہی زندگی میں اہم عنصر ہے۔ مادیت نے انسان کو اس حد تک گرا دیا ہے کہ اسے یہ بھی احساس نہیں کہ وہ خود بھی مادہ بن چکا ہے۔ خود پرستی میں خود فراموشی کے ایسے اسباق متعارف کرائے ہیں جن نے اقدارکوملیا میٹ کر کے نفسی اور بس نفسی کا پیروکار بنا دیا ۔رشتے محدود اور خود کو لا محدود گردانتے ہوئے کـلھم کی تفیسر اور گردان پرعمل پیرائی کاآغاز کردیا۔سیاست عبادت کا نام تھا اسے کاروبار بناکر اس میں سے ثواب کا حصول کس طرح ممکن بنا یا جا رہا ہے۔ انسانیت دوستی کے جتنے نعرے اور بینر اس وقت لگائے جا رہے ہیں اگراس تناسب میں انسان اور انسان دوستی کی مقدار کو دیکھا جائے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہ سب فریب ہے۔سیاستدان خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ سب کو دھوکا دے کر اپنا مطلب بر آور کر رہے ہیں۔ انسان دوستی کے نعروں کی آڑ میں شیطانیت کا رقص برپا کرنے والے پارسائی کے سرٹیفکیٹ کیلئے چیلے ساتھ رکھتے ہیں ۔ یہ چیلے ان محترم ہستیوں کی رحم دلی بندہ پروری اور انکی لیاقت وعظمت کے گیتوںکی مالا سے لبریز ہوتے ہیں۔میاں صاحبان کی حب الوطنی اور ان کے بے مثال کردار کی ضمانت کا احتیاج نہیں لیکن ایم کیو ایم کے ساتھ ان کی موجود ہ حالات میں معانقہ کاری کچھ بے موقعہ لگی۔ یا شاید ہمارے لیے بے موقع ہو صاحبان کیلئے موقع پرستی موقع شناسی ہو ۔ صدارتی انتخابات میںسے پیپلز پارٹی کا روٹھ جانا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ خود کو ہارتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ۔ میاں صاحب کو کیا ایسی پڑی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے نائن زیرو کے درشن پر مجبور ہو گئے ۔ کیا یہ کہانی حقیقت ھے کہ الطاف حسین نے عمران فاروق کے قاتل دو لڑکوں کے برطانیہ کے حوالہ نہ کرنے کے عوض میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا آرڈر کیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کہانی حقیقت کی غماز ہو ۔ عمران فاروق کے قاتل لڑکے اگر سرکاری ایجنسیوں کے پاس ہیں تو پھر حکومت کو کیا پڑی کہ وہ جھک جائے۔ ایسے میں تو عینک والے جن کی جان تو ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس سے کوئی بھی فریضہ سرانجام دلا سکتے ہیں۔ اگر چہ یہ کہانی اب سوشل میڈیا پر بہت عام ہو چکی ہے لیکن پھر بھی عمران فاروق کے قاتل اگر ایجنسیوں کے پاس ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کس کے مہرے ہیں تو پھر حکومت اور اداروں کی حب الوطنی بے مثل قرار دینے میں کیا حرج ہے۔تب ہی ہمیں بگلیہار ڈیم اور کشمیر کی آزادی جیسے چھوٹے موٹے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ ہمارے پاس توانائی کے بحران اور مہنگائی کے طوفان کے خلاف مزاحمت کی طاقت کہاں سے آئے گی۔ ایم کیو ایم سے معانقہ کرنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ آخر مسلم لیگ کو ایسی کیا آفت پڑی کہ وہ ایم کیو ایم کی ڈبوتی نائو کو سہارا دینے پر آمادہ ہوگئی۔ اپوزیشن تو ویسے ہی علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی مقیم ہے۔ پی پی پی اور تحریک انصاف کا اپنا اپنا امیدوار ہے ۔ پی پی پی یا تحریک انصاف کا امیدوار کسی صورت بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہا ۔ اگر ایم کیو ایم پی پی پی کے ساتھ مل بھی جائے تو ایسے میں ممکن نہیں کہ وہ ممنون حسین کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ صدارتی انتخاب میں یہ گدلا پن لانے کی آخر کیا وجہ ہے۔ سیاست کو آلودگی کے بغیر سیدھے طریق میں سرانجام دینے کی کوشش سے انحراف کی وجہ صرف ذاتی مفادات کے حصول کی خواہش اور وہ پوشیدہ ایجنڈ اہی ہو سکتا ہے جس نے پاکستان کو غلامی سے آزادی کے باوجود بھی آسیر بنا رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ کیا معاملات طے پائے ہیں جس کی بنیاد پر صدارتی انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے امیدوار کو سپورٹ کرے گی۔ بادی النظر میں تو سب سے اہم ایشو الطاف حسین ہے۔ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں جو پھندا گلے میں کس دیاگیا ہے اس سے خلاصی کی کوئی صورت نکالی جانے کی توقع ہے۔ دوسرا اہم ایشو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنا یا پھر آنے والے وقت میں صدر زرداری کیلئے سندھ اسمبلی کو استعمال کرنے سے روکنے کی سبیل قبل از وقت منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ظاہرمیں تو ایسی کوئی اہم وجہ نظر نہیں آرہی جس کو بنیاد بنا کر کہا جائے کہ میاں صاحب کیلئے نائن زیروکی زیارت بہت اہم اور وقت کی سیاسی بساط پر اہم چال ہے۔یہ چال ایم کیو ایم کی ہو سکتی ہے جو کہ بلیک میلنگ اور فلور کراسنگ کے ہر حربے کو اپنی سلامتی اور مفادات کیلئے ماضی میں استعمال کرتی رہی ہے۔سیاست میں چڑیا اڑے تو اسے شاہین کے اڑنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔صدارتی الیکشن کو موت و حیات کی جنگ بنانے سے میاں صاحب نے اپنے اس مئوقف کی نفی کر دی ہے جس میں وہ قوم کے درد کو اپنا درد قرار دیتے رہے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنے دور اقتدار کے آغاز سے ہی اپنے سفر کا آغاز ایسے طریقے سے کیا ہے جو کم از کم مسلم لیگی کارکنوں کیلئے انجانا ہے ۔اس وقت ملک ک
و کیا حالات درپیش ہیں اور اس کیلئے جس پیش بندی کی ضرورت ہے وہ مسلم لیگ کی موجود ہ پالیسی میں عنقا ہے۔توانائی کے بحران سے نپٹنے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی۔ ملک میں مہنگائی کاجو بحران ہے اس کو دور کرنے کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی ۔انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگ بڑھانے میں جس جلدی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی سمجھ سے بالا ہے۔ملک میں جاری قومی اتحاد کو پارا پارا کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں جن پر توجہ دینے کی بجائے نان ایشوز کو اجاگر کر کے ان کو اصلی مسائل قرار دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ابھی تک حکومت سازی کا مرحلہ مکمل نہیں ہو سکا پھر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کیا جاتا ۔ بلوچستان میں ایسے عناصر کو شہ دی جارہی ہے جو بلوچستان کے احساس محرومی کو پاکستان کی دوسری قومیتوں اورصوبوں سے ماخوذ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے عناصر کی بیخ کنی کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان کے الزامات کو حق قرار دیا جاتاہے ۔ ان کے اصلی چہرے سامنے لانے کی بجائے ان کی تعظیم کرنے اورکرانے پر مجبورکرنے سے انہیں اتنی شہ مل چکی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق پراور دیگر تمام پاکستانیوں کو مئورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ علیحدگی کے نعرے لگانے کے باوجود بھی اگر وہ باغی قرار نہیں دیے گئے تو پھر اس سے اگے اور کیا کہا جائے۔ان کے روابط دشمن ممالک کے ساتھ ثابت ہونے اور ان کی فنڈنگ ہونے کے باوجود بھی انہیں غدار قرار نہیں دیا جاتا ۔ان ایشوز کو دیکھنے کی بجائے صدارتی انتخابات میں الجھ جانا اور اس میں ملک کے مقتدر اداروں کواستعمال کرکے مزید بکھیڑے کھڑے کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آئی ہے لیکن وہ شہنشاہیت کی منزل پرگامزن ہو جاتی ہے۔ یہ سفر کب ختم ہو جائے اور کب اس میں موڑ آ جائے قبل اس کے اپنی سپیڈ پرکنٹرول کیا جائے ۔