سروں کی فصل
کو ئی سوچ سکتا تھا کہ چند سال پہلے عا لمی عدا لت ا نصا ف میں ظا لموں اور ڈکٹےٹروں کو کٹہرے میں ےوں کھڑا کیا جا ئے گا کہ فرد جرم کے جواب میں ان کے پاس صفا ئی کےلئے نہ تو کو ئی گو ا ہ ہو گا اور نہ ہی وہ خود ا پنے اوپر لگنے والے ا لز مات کی تسلی بخش صفا ئی دے سکےں گے۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ عا لمی عدا لت ا نصا ف کے کٹہرے میں بو سنیا کا ایک جا برڈکٹےٹرما ر کو وچ شےطان صفت ظا لم پریہ بھیا نک اور خونچکا ں فرد جرم عا ئد کی گئی کہ اس نے وژگراڈنا می شہر کے وسط میں سٹی ہال سے چند گز دور ایک مسجد کو ڈائنا میٹ لگا کر اڑا دیا تھا جہاں ان گنت مسلمان جو اللہ کے گھر میں پناہ لئے ہو ئے تھے اس مسجدکے اندر ہی دفن ہو گئے۔ جا برڈکٹیٹرما ر کو وچ نے صفا ئی میں یہ استدلال دیا کہ اس قصبے میں پا رکوں کی بہت کمی ہے اور مسجد کےونکہ پارک پر قبضہ کر کے بنا ئی گئی تھی اس لئے دوبا رہ پا رک کی غرض سے اس مسجد کو منہدم کیا گیا تھا۔ما ر کو وچ کے مظالم کا نگراں صدر مےلا وسوچ عا لمی عدا لت ا نصا ف میںاسی مسجد کی تبا ہی کا جواب دےنے لگا تو اس نے ایک عجےب الزام لگایا کہ مسجد میں مقیم مسلما ن مسجد کے مینا روں سے گو لہ با رود بر ساتے اور مشین گنوں کا بے درےغ استعمال کر تے تھے اس لئے اس مسجد کو تباہ کرنا پڑا۔عدالت کے ایک جج نے جب یہ پوچھا ‘اگر اےسا تھا تو کو ئی گو لی یا بم آس پاس کی عمارت کو کےوں نہیں لگا۔مےلا وسوچ کا رنگ فق ہو گیا ‘اسے اےسے سوال کی قطعاً توقع نہ تھی کہ تا رےخ اپنے ساتھ ثبوت لئے پھر تی ہے۔اس کے بعد فرد جرم میں عائد تما م الزامات ‘ ظلم زیادتی‘قتل و غارت‘لوٹ مار یا آتش زنی اور بے شمار مسلمان خو ا تےن کی عصمت دری کے با رے میں اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ مےرے کما نڈروں نے کیا ہے ۔وہ بہت خود مختار ہو گئے تھے اور خود ہی اےسے فےصلے کر تے تھے۔ عا لمی عدا لت ا نصا ف نے اےسے میں مےلاوسوچ پر ایک اےسی فرد جرم عائد کی جو تا رےخ میں ہر آمر‘ڈکٹےٹر‘ظالم اور فرعون پر اس لمحے عا ئد کی جا تی ہے جب وہ اپنے احتساب سے ڈر کر‘اپنے انجام کے خوف سے سارا ملبہ اپنے ما تحتوں پر ڈال دےتا ہے اور خود کو پاک صاف بے گناہ اور معصو م ثا بت کر نے کی کو شش کرتا ہے۔
عا لمی عدا لت ا نصا ف نے پو چھا ”جب تمہا رے یہ کما نڈر بے گنا ہ لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے تو تمہےں اس کا علم بھی ہوا تھااور ابھی تم نے عدالت کے سا منے اس کا اعتراف بھی کیا ہے تو اس بات کا جواب دو کہ تم نے ان کو ا نصاف کے کٹہرے میں کھڑا کےوں نہےں کیااور ان کو سزا کےوں نہےں دی؟عدا لت نے اسےJoint Criminal Enterprise” “”مشترکہ مجرمانہ گٹھ جو“ڑ قرار دیا ور اسے ظالم کو سزا نہ د ےنے پر جرم کا شرےک کار ٹھہرا یا۔ صدےوں کا یہ ا صول عا لمی عدا لت ا نصا ف کے دروازے پرقا نو نی ا عتبار کا درجہ حا صل کر گیا۔یہی اصول تھا جس کی کسو ٹی پر ےزےد بن معاویہ ا پنی تقا رےر میں لا کھ صفا ئیاں دےنے کے با وجود سےد نا امام حسےن ؓ کے نا حق خون کا ذمہ دار ٹھہرا‘کےونکہ قا تلین حسےنؓ اسی کے دور میں دندناتے پھرتے رہے اور سب جا نتے ہیں کہ با لآخر ان سے امام حسےنؓ کا انتقام مختار ثقفی نے لیا تھا۔
یہی وہ اصول ہے جو دنیا کے ہر آمر‘ڈکٹےٹر‘ظالم اور فرعون کو اس کے دور میں ہو نے والے قتل‘لوٹ مار‘تشدد اور سیاسی اموات کا ذمہ دار ٹھہر اتا ہے اور یہی وہ مشترکہ مجر ما نہ گٹھ جوڑ ہے جو کسی ظا لم کو بھا گنے کا با عزت را ستہ نہیں دےتا۔یہی وہ کسوٹی ہے جو بتا تی ہے کہ اگر قتل کرنے والے ‘ظلم کر نے والے ‘تشدد روا رکھنے والے اور انسا نی جا نوں سے کھےلنے والے کسی دور میں سرفراز تھے‘اعلیٰ عہدوں پر برا جمان تھے یا ہیں مگر ابھی تک کسی وجہ سے ان پر فرد جرم عا ئد نہےںکی گئی لےکن ایک دن ان کو اسی طرح عدالت کے کٹہرے میںکھڑا ہو نا پڑے گاچا ہے ا ن کو سروں پر قصر سفےد کے فرعون کا سایہ ہو‘چا ہے ان کو وقت کے نمرود نے لندن میں پناہ دے رکھی ہو ۔یہ کےسے ممکن ہے کہ ہزاروں بے گناہوں کی لا شےں بند بوری میں ڈال کر سر عام سڑکوں پر ڈال دی جا ئیں‘نوجوان بے گناہ بچوں کے لا شے نا قابل شنا خت حالت میںان کے ورثاءکو اس تحرےر کے ساتھ ملیں کہ”جو قا ئد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے“۔جو پا رٹی کے فاشزم کے خلاف ز بان کھولے تو اس کے جسم میں ڈرل مشین کے سا تھ سو راخ کر کے اس کی زبان ہمےشہ کےلئے خا موش کر دی جائے۔اےسا ہی عمل مےلاوسوچ کے کارندوں نے بھی کیا تھا۔ا نہوں نے بھی زندہ انسان کے جسم میں مےخےں ٹھونک کر مسجد کی دےوار کے سا تھ صلےب کی شکل میں لٹکا دیا تھا۔ان تمام مقدمات کی تفاصےل میں اس قدر مماثلت د ےکھ کر آنکھےں پھٹی کی پھٹی رہ جا تی ہےں کہ ا نسان اس قدر وحشی اور ظا لم بھی ہو سکتا ہے۔
مےلاوسوچ کے کارندے مظلوم لو گوں کوہانک کر کسی گہرے دریا کے پل پر لےجا کر دھکا دے دےتے یا پھر گولی ما ر کر لاش کو دریا برد کر دےتے ۔ اےسا ہی عمل کرا چی میں ایک لسانی جما عت (فاشرم منشور رکھنے والی جماعت جس کے ہر رکن کو ا پنے قائد سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے )نے با ربار دہرا کر ا پنے ظلم کی اےسی دھاک بٹھائی تھی کہ کراچی کے بے شمار صنعت کا روں نے وہاں سے اپنے بڑے بڑے کاروبار کو سمےٹ کر اپنا سرمایہ کرا چی سے نکال لیا تھاکےونکہ وہ بھا ری بھتہ دےنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔کرا چی شہر کے ما تھے پر اس لسانی جماعت کے ہا تھوں شہےد ہونے والے بے شمار لوگوں میں حکےم محمد سعےد شہےد اور صلاح الدےن شہےد کا خون نا حق اس لسانی اور بھتہ خورجماعت کے قا ئد کے ما تھے پرہمےشہ ایک کلنک کا ٹےکہ بن کرتا رےخ کے سیاہ اوراق میں محفوظ ہو گیاہے ۔
اب ایک دفعہ پھرملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کردیا ہے اورملک کی دوسیاسی جماعتیں جو مرکز اورصوبہ سندھ میں ایک دوسرے کی حلیف بھی ہیں‘کو موردِ الزام ٹھرایا جا رہا ہے لےکن ان تمام مظالم بھری تارےخ میںمجھے ایک بھی اےسا واقعہ نہیں مل سکا جو ظلم و تشدد‘وحشت اور درندگی میں لال مسجد اور جامعہ حفضہ کی گرد کو بھی پہنچ سکتا ہوجہاں ان تمام معصوم بے گناہ ےتےم بچےوں کو اس طرح خوفزدہ حالت میں اکٹھا کرکے بموں سے اس بے دردی کے سا تھ اڑا دیا گیا ہو کہ جب ان شہداءکی لا شیں سمیٹی جا رہی تھیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی ہوئی ملیں۔جن کی بجلی ‘پانی اور خوراک کی تمام سپلائی کئی روز پہلے بند کر دی جائے۔اےسا ہی تو ےزےد کی افواج کے سپہ سالار ابن زیاد نے کیا تھالےکن ان تمام مظالم کی داستانوں میں کہیں بھی ثبوت مٹانے کےلئے سفےد فاسفورس استعمال نہیں کیا گیا۔اےسا واقعہ تو دنیا کے سب سے بڑے ظالم ملک اسرائیل کے چا لےس سا لہ دور میں بھی نہیں پےش آیا کہ ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ حفاظت کا راستہ ما نگتا ہو تو اچانک اس کی ماں کا خون آلود لاشہ اس کی گود میں آگراہو‘اور پھر ا چانک چاروں طرف سے بموں کی گھن گرج میں چےخوں‘آہوں سسکےوں کی اےسی صدا بلند ہو جو آج بھی ان فضاوں میں ان ظا لموں کا پےچھا کر رہی ہوں۔
اے مرے دوست ذرا دےکھ میں ہا را تو نہیں
مرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ
روس کے شہر با سلان میں دو سو بچوں کو جب ےرغمال بنایا گیا تو روس کی فوج سخت ایکشن پر تلی ہوئی تھی لےکن پےوٹن کی آنکھوں سے نےند غائب چکی تھی۔پورا روس جاگ رہا تھا۔بچوں کے مرنے پر روس میں تےن دن کا سرکاری سوگ منایا گیا اور اس صحافی کو اخبار سے نکال دیا گیا جو سخت ایکشن پر اکساتا تھا۔تمام کاروائی کے انچارج اور افسران کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیالےکن لال مسجد اور جا معہ حفضہ کے آ پر ےشن کر نے وا لو ں میں اتنی سی انسانی حمےت اور رحم کی جھلک بھی د کھائی نہیں دی بلکہ یہاں تو وزارت عظمیٰ میں بر ا جمان شوکت عزےز اپنی فےملی کے ساتھ اسلام آباد کے بلےو اےریا میںقلفی کھا نے چلا گیا اور دوسرا سفاک اےوان صدر میں‘ قصر سفےد میں بےٹھے فرعون کے احکام کو بجا لاتا رہا۔
اس سا نحے کو گزرے ہوئے کوئی زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی‘پتہ نہیں مجھے کےوں ان معصوم پاکےزہ ارواح کی چےخوں کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔پانچ دن پا نی کے بغےر جولائی کے مہےنے میںکر بلا کے شہےدوں کے نقش قدم پر چل کر شہادت کا جام نوش کرنے کا منظر آنکھوں کے سا منے جھلکتا ہے۔بس ایک سوال سوچتا ہوں کہ اگر اس مجرمانہ گٹھ جوڑ کا اصول وضع کر دیا جائے‘عالمی عدالت ا نصاف کی کرسی سج جائے تو کیا ہوگا؟جس نے آخری وقت تک محفوظ راستہ دےنے سے ان معصوم عورتوں ‘بچوں اور نما زےوں کو انکار کر دیا تھالیکن زرداری حکومت نے اسے گارڈ آف آنر پیش کرتے ہوئے محفوظ راستہ فراہم کرکے اپنے گٹھ جوڑکا عملی ثبوت دیا ۔ہاں یہ الگ بات ہے وہ بغےر و کےل کے‘بغےر فرد جرم کے اور بغےر کسی مقدمے کے مارے گئے۔مگر یہاں وکےل بھی ملے گا‘فرد جرم بھی لگے گی‘مقدمہ بھی چلے گا‘صفا ئی کا موقع بھی ملے گا۔زبان پر تالہ لگا دیا جائے گا‘سب سے پہلے بائیں ران گواہی دے گی اور پھر آہستہ آہستہ اپنے جسم کے تما م اعضاءجب گوا ہی دے چکے تو آخر میں زبان کو بو لنے کی اجازت ملے گی تو پہلا جملہ منہ سے یہ نکلے گا کہ ”ہائے تم سب نے مےرے خلاف گواہی دے ڈالی حا لانکہ میں تو ساری عمر تمہاری خدمت میں جتا رہا۔“
جو قومیں اس طرح کے” مشترکہ مجر ما نہ گٹھ جوڑ“پر عدا لتیں نہیں بٹھاتیں‘انصاف نہیںکر تیںوہاں تو ا بےن کی تحرےک کی صورت میں مختار ثقفی ضرور اٹھتا ہے او ر تا رےخ کا وہ منظر کتنا خوفناک ہے کہ اسی دربار میں ایک روز چبوترے پر ابن زیاد کا سر عبرت کے طور پر لا کر رکھا جاتا ہے۔ نجانے کےوں ماہ نومبر ۱۷۹۱ءکا یہ واقعہ قلم کی نوک پر آگیاجب جنر ل ےحےیٰ خان ا پنے اقتدار کے آخری دنوں میں لاہور گورنر ہاوس میںکسی کام کے سلسلے میں آئے تھے ۔جنرل عتےق الرحمان اس وقت گورنر تھے۔ گورنر ہاو س کے باہر جنر ل ےحےیٰ خان کے خلا ف ایک بھر پور جلوس غصے میں ہا ئے ہا ئے‘اوئے اوئے اور دوسرے نعرے بلند آواز میں لگا رہے تھے۔ان نعروں کی آوازیں گورنر ہاو س کی د ےوا ریں عبور کرکے سبزہ زار تک پہنچ رہی تھیں۔ جنر ل ےحےیٰ خان نے بڑے غصے سے پو چھا ”عتےق! یہ کیا چا ہتے ہیں؟“جنرل عتےق الرحمان جو حا لات سے بری طرح چڑ چکے تھے اور وقت کی نبض پر ان کا صحےح ہا تھ تھا‘ انہوں نے دا ئیں با ئیں دےکھ کر فو ری طو ر پر وہ تا رےخی فقرہ کہا جو جنر ل ےحےیٰ خان کے سا تھ ہمےشہ کےلئے چپک گیا ”سر یہ لوگ آپ کا سر ما نگتے ہیں“۔ جنر ل ےحےیٰ خان اپنے ما تحت سے اےسے جواب کی ہر گز توقع نہیں رکھتے تھے۔ا نہوں نے جنرل عتےق الرحمان کو انتہا ئی گھور کر دےکھااور غصے سے با ہر جا نے لگے۔جنر ل ےحےیٰ خان جب دروازے کے پاس پہنچے تو جنرل عتےق الرحمان تےزی سے سا منے آئے ‘ ایک اورتا رےخی فقرہ کہا‘”جنرل صاحب ! میں تا رےخ کا کےڑا ہوں‘میں نے تا رےخ میں پڑھا ہے آج تک کوئی آمر ا قتدار سے عزت اور توقےر سے رخصت نہیںہوا ‘مےرا خیال ہے کہ آپ بھی عزت کے ساتھ نہیں جا ئیں گے لےکن اس کے با وجود مےری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا اور ہمارا سر بچا ئیں‘عزت کے ساتھ استعفیٰ دے دیں‘ یہ ملک بھی بچ جا ئے گا اور ہم بھی“۔مےرا خیال ہے اگر تمام فو جی ڈکٹےٹر یہ فقرہ لکھ کر ا پنی مےز پر لگا لےتے تو آج پا کستان کی تا رےخ بالکل مختلف ہو تی جو جنرل عتےق الرحمان نے جنر ل ےحےیٰ خان سے کہا تھا۔
سا ری قوم کا خیال ہے کہ صدر زرداری کو ہما رے سروں کی سلا متی کےلئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے میںاب ایک لمحے کی تا خےر بھی نہیںکر نی چا ہئے کےونکہ اگر صدر صاحب آپ نے عہدے کی قربا نی نہ دی تو پو را ملک قربان گاہ بن جائے گا اور ہر شخص ا پنا ا پنا سر ہتھےلی پر ر کھ کر اس قربان گاہ کا طواف کر رہا ہوگا۔اس وقت ہم تا رےخ کی اس گلی کی نکڑ پر کھڑے ہیں جہاں سخت اندھےرے میں سر وں کی بہت بڑی فصل کٹنے کےلئے تیار کھڑی ہے۔
میں موجودہ وزےر اعظم ےوسف رضا گےلانی کو یاد دلانا چا ہتا ہوںکہ صرف چارسال پہلے ا نہوں نے اڈیالہ جےل راولپنڈی میں دوران اسےری ایک کتاب تحرےر کی تھی‘وہ اپنی اس کتاب”چاہ ےوسف سے صدا“ کا صفحہ نمبر ۲۶۲ ضرور پڑھ لیں جہاں انہوں نے لکھا ہے کہ بلوچستان اور وزےرستان کے مسئلے کی صحیح تشخےص کر کے فو جی آپرےشن بلا تا خےر بند کئے جا ئیں۔ اب وہ وزےر اعظم بن کر سرحد میں فوجی آپرےشن کو بہت ضروری سمجھ رہے ہیں۔بہتر ہو گا کہ وہ قصر سفےد میں بےٹھے فرعون کے احکام کی اندھا دھند تعمیل کی بجا ئے مسئلے کی صحیح تشخےص کےلئے پا ر لیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پر عملدرآمدکو یقینی بنائیں۔اپنے ہا تھوں سے لکھی ہو ئی کتاب کو تو مت بھولیں۔اس تا ثر کو بھی زا ئل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اٹھارویں ترمیم کے باوجودایک بے بس کٹھ پتلی کی طرح پس پر دہ زرداری کے ہا تھوں میں نا چ رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے اور مزےد تا خےر کے تو ہم بالکل متحمل ہی نہیں ہو سکتے ۔ہمیں بالخصوص ا مر ےکہ اوربا لعموم اس کے اتحادی (نےٹو) ممالک پر وا ضح کر دےنا چا ہئے کہ ان کے آ ئند ہ مجوزہ پروگرام کے کتنے مضر نتا ئج نکل سکتے ہیں ۔اس مجوزہ پروگرام کے نتےجے میں اس قدر خود کش حملہ آور پےدا ہونگے کہ تا رےخ میں اس کی مثال بڑے خوفناک منا ظر کے ساتھ پڑھی جا ئے گی۔اس خطے میں دنیا کے امن کو تباہ کرنے کا اصل ذمہ دار قصر سفےد میں بےٹھا فرعون اور دےگر ۰۴ ممالک کی ۰۷ ہزر ا فواج کی موجودگی ہے۔افغانستان میں روس کے سفےر ضمےر کابلوف کا کہنا ہے کہ قصر سفےد میں بےٹھا فرعون اور دےگر ۰۴ ممالک۰۷ ہزر ا فواج فغانستان کے ا ندر امن قا ئم کرنے کےلئے نہیں آئیں بلکہ پو ر ے خطہ میں با لا دستی قا ئم کرنے کا منصوبہ لےکر آئی ہیں۔
افغانستان میں پہلی د فعہ روس نواز‘اےران نواز اور پا کستان کی حا می سمجھی جا نے والی طا قتوں میں ایک غےر ا علا نیہ ا تحاد بن ر ہا ہے۔اس ا تحادکا سب سے زیا دہ نقصان ا مرےکہ اور اس کے ا تحادی قوتوں کے سا تھ سا تھ پا کستان کو ہو گا۔جو نہی افغانستان میںخطرات بڑھیں گے پا کستان پر اتنا ہی د باو بڑ ھتا جا ئے گا۔اس لئے پا کستان میں مضبوط سیاسی قیادت کا ہو نا بہت ضروری ہو گیا ہے جو قصر سفےد کے فرعون اور اس کے حوا رےوں کو ا نہی کے ممالک میں جا ری اور سا ری جمہو ری قواعد و ضوا بط کے حقےقی ا صولوں کا حوالہ دےکر پا کستانی عوا م کے جذ بات سے آگا ہ کر سکے کہ یہ آپ کی جنگ ہے اور آپ خود اس کا خمیازہ بھگتیں۔ہم آپ کے امن کی خا طر مز ےد ا پنا امن کےوں دا و پرلگائیں؟
اس دبا و کا مقا بلہ کر نے کےلئے ہمیں سیا ست دانوں کی نہیں بلکہ اےسے لےڈر کی ضرورت ہے جو صرف پا کستانی عوام کے مفادات کو مد نظر رکھے ‘ا ےسا لےڈر جس کا پہلا اور آخری ٹھکا نہ پا کستان ہوجو سب فےصلے پا کستان میں بےٹھ کر کرے ،نہ ہی اپنے آقاو ں سے اپنے اقتدار کے استحکام کےلئے مددطلب کرے اور نہ ہی لندن میں بےٹھے کسی بھتہ خور کے سا منے مجر موں کی طرح گر دن جھکا کر اس کی وسا طت سے بےرونی آقا و ں کی جی حضو ری کرے۔ ہمیں کا غذ کی نا و میں بےٹھے لےڈروں سے کسی طوفان کا مقا بلہ کر نے کی ا مےد نہیں رکھنی چا ہئے۔ہمیں آج سے ہی اےسے لےڈر کی تلاش شروع کر دےنی چا ہئے جو اس مشکل گھڑی میں اس قوم کا نجات د ہندہ بن سکے ۔ا گر ہمارا عزم مضبوط اور اپنے اللہ پر ےقےن کا مل ہو جا ئے تو یہ منزل اب بھی اےسی دور نہیں۔
سجنو بس نام رہے گا مےرے رب کا جس کو فنا نہیں!
آواز دے کے دےکھ لو شا ئدوہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
بروزجمعرات۰۳ صفر الحرام۲۳۴۱ھ۳ فروری۱۱۰۲ء
لندن