Home / Articles / سمر قند شہر اولیاء و صوفیاء

سمر قند شہر اولیاء و صوفیاء

سمر قند  شہر اولیاء و صوفیاء 

تاشقند کے بعد میری خواہش تھی کہ بلکہ ہندستان سے ہی ارادہ تھا کہ ددو دن کے لیے ہی سہی مگر  سمر قند اوربخارا  ضرور جانا ہے ۔ دہلی سے   ہی میں  نے اپنی میزبان ڈاکٹر محیا عبد الرحمانوا سے گزارش کی تھی کہ وہ کسی طرح میرے سفر کا انتظام کریں ۔ انھوں نے ڈاکٹر لولا مکتوبہ صاحبہ سے  ذکر کیا اور انھو ں نے بڑی محبت سے اس سفر کا انتظام کیا ۔ ڈاکٹر لولا مکتوبہ  صاحبہ کا  شکریہ لفظوں میں ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نےیکم مئی سے چار مئی تک ، چار دن کا  پلان   اس طرح مرتب کیا کہ کلاسیں بھی ناغہ نہیں ہوئیں ۔  یہ سفر کافی آرام دہ اور آسان اس لیے ہوا کہ انھوں نے اپنےدو  طالب علم  جناب شاہ رخ اور احمد کو اس سفر میں میرے ساتھ کیا ۔ احمد صاحب کی اپنی کارتھی اور وہ اسی علاقے

سے تھے ۔دوپہر کی کلاس ختم ہوتے ہی لولاصاحبہ ہمیں  اپنے ان دو طالب علموں کے ساتھ تاشقند کے ایک مشہور ریسٹورینٹ ’ ریحان ‘ لے گئیں اور پُر تکلف  ظہرانے کے بعد  ہمیں  سمر قند کے لیے روانہ کیا ۔ یہ طالب علم تیسری جماعت کے تھے ۔ جب ان کے ہم جماعتوں کو معلوم ہو اکہ ہم سمر قند اور بخارا جارہے ہیں تو دو طالبہ بھی  ساتھ جانے  کو تیار  تھیں ، لولا صاحبہ چونکہ طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح رکھتی ہیں اس لیے ان بچوں نے بھی اسی طرح ضد کی ، مگر ممکن  نہیں تھا اس  لیے وہ دلبرداشتہ ضرور ہوئیں لیکن لولا صاحبہ نے ان  کی دلجوئی  کی ۔ خیر ہم تقریباً  دوبجے تاشقند سے  سمر قند کے لیے روانہ ہوئے ۔ سمر قند کی  دوری  تین سو کیلو میٹر کی ہے ۔تاشقند سے سمر قند جانے والی شاہرہ آگے چل کر شاہراہ ریشم ( سلک روٹ ) سے مل جاتی ہے ۔یہ بہت ہی شاندار سڑک ہے اسی لیے یہ دوری ساڑھے تین گھنٹے میں طے  ہوجاتی ہے ۔ شہر سے نکل کر جب ہم  کھلے راستے میں آئے تو  دیکھا کہ سڑک کے دونوں کناروں  میں تاحد نگاہ    زرعی فارم یعنی کھیتیوں کا ایک سلسلہ ہے جوانتہائی سر سبز و شادب  تھیں ۔سڑک کے کناروں پر  کہیں  چیری ، کہیں پستہ ، کہیں اسٹابیری ، کہیں خوبانی کے  باغات تھے تو کہیں دور درو تک گندم کی فصلیں لگی ہوئی تھیں اور کہیں سبزیاں تو کہیں کھیرے کی کھیتی ہورہی تھی ۔ ان کھیتوں میں  مرد اور عورتیں کام کرتی دیکھائی دے رہی تھیں  ۔ چونکہ یہ اسٹابیری کا موسم تھا اس لیے اکثر جگہوں پر عورتیں  باغ سے تازہ   اسٹابیری توڑ  کر بیچتی ہوئی نظر آئیں ۔ یہ بڑا خوبصورت نظارہ تھا  دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ نے اس سرزمین کو کتنا زرخیز اور سر سبز و شاداب بنایا ہے ۔ جب یہ سر زمین اتنی خوبصورت لگ رہی ہے تو جنت کتنی خوبصورت ہوگی ۔کچھ ہی دور ی طے کی  تھی جناب شاہ رخ  نے بتایا کہ سر ہم شاہراہ ریشم پر آچکے ہیں  اور اب اسی پر چلتے ہوئے سمر قند اور بخارا  کا سفر کریں گے ۔ میں کچھ دیر کے لیے ماضی کی  تاریخ  میں  کھو گیا کہ یہ وہی صدیوں پُرانی شاہراہ ہے جس پر کتنے قافلوں اور کتنے حاکموں نے سفر کیا ہے اور کیا کیا تاریخیں رقم کی ہیں ۔ ہم بڑے آرام سے کا ر میں بیٹھے ان نظاروں سے محظوظ ہورہے تھے کہ ’جزاک‘ کی وادی  پہنچ گئے ۔ نشیب و فراز اور سر سبزو شاداب اس وادی کا نظارہ بڑا دلفریب تھا  فراز کی جانب سفر کرتے ہوئے  پہاڑ کے دامن میں بسی بستیوں کو دیکھ رہا تھا اور ان پر رشک کر رہا تھاکہ اللہ نے ان لوگوں  کو کس قدر خوبصورت دنیا عطا کی ہے ۔  جیسے ہی ہم فرازکی جانب آئے تو دریائے ’ سنگ زار ‘  کے پیچ و تاب نظر آئے جو اس کے خطے کے حسن میں مزید اضافہ  کررہے تھے ۔کچھ دور تک اس سنگ زار کے کنارے سفر کرتے رہے اور آخر کار سمر قند کی سر حدیں شروع ہوگئیں ۔ دل مضطرب تھا اور اشتیاق  کا عالم یہ تھا کہ سورج غروب ہونے سے قبل ہم سمر قند پہنچ جائیں کیونکہ ہم نے تاشقند میں ہی یہ طے کیا تھا کہ شہر جانے سے قبل ہمیں امام بخاری رحمة اللہ علیہ   کے مزار مقدس پر حاضری دینی ہے ۔

امام بخاری کمپلکس

  امام بخاری کمپلیکس  چونکہ سمر قند شہر سے    تقریباً پچیس کیلو میٹر آگے ہے ۔ وہاں سے ہمیں واپس سمر قند آنا تھا ۔شاہ رخ اور احمد صاحبان میرےاشتیاق کو شاید بھانپ گئے تھے اس لیے وہ بغیر کہیں رکے سیدھے امام بخاری  کمپلکس   لے کر پہنچے ۔ ابھی عصر کی نماز میں  کافی وقت تھا ۔ گاڑی اسی احاطے میں بنی پارکنگ میں کھڑی کی گئی۔ یہاں سے   گنبد نظر آرہے تھے    میں نے دل دل میں امام بخاری کی بارگاہ میں سلام عقیدت پیش کیا ۔ مزار کی جانب  جو اندرونی سڑک تھی اس کے دونوں جانب  دکانیں  لگی ہوئی تھیں ۔ کچھ دیر تو مجھے ہندستان جیسا لگا کیونکہ یہاں کی دکانیں بھی زیادہ تر  تبرکات کی د کانیں تھیں بس فرق یہ   تھا کہ یہاں پھول اور چادر   کی دکانیں نہیں تھیں ۔ خیر ہم مین

دروازے تک پہنچ گئے جہاں کئی زبانوں میں بورڈ لگے ہوئے تھے  جن میں زیارت کے آدب لکھے ہوئے تھے ۔ ہم نے غور سے پڑھا جس   میں خاص  طور پر لباس اور آداب زیارت  سے متعلق ہدایات تھیں ۔ دروازے پر اندر جانے کے لیے ٹکٹ  لینے  کے لیے کھڑکی تھی جہاں سے ہم نے ٹکٹ لیے ۔ غیر ملکیوں  کے لیے کچھ زیادہ رقم دینی ہوتی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے کم ، زیادہ تر زیارت گاہوں پر مقامی  افراد کے لیےداخلہ مفت ہے ۔ خیر سیکورٹی چیک کے بعد اندر داخل ہوئے ۔  یہ بہت بڑا احاطہ  ہے  کچھ دوری  پر عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ وضوخانے اور طہارت خانے بنے ہوئے تھے ۔ ہم وضو کر کے  ایک بڑے گیٹ سے اندر داخل  ہوئے ۔ سامنے امام بخاری کا رووضہ نظر آیا ۔ ہم نے تصویروں میں پہلے دیکھ رکھا تھا اب  اپنی اصل آنکھوں سے  دیکھ رہا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرارہا تھا کہ اپنے محبوب بندے کی بارگاہ میں  آنے کا شرف بخشا ۔ یہ عمارت چاروں طرف  سے   الگ الگ  عمارات  کا حصہ ہے سامنے دو سو میٹر کی دوری پر امام بخاری کا مزار اور گنبد ہے دائیں جانب  وسیع و عریض مسجد ہے اوربائیں طرف  میوزیم ہے ۔ امام بخاری کا مزار اندورونی حصے میں ہے باہر سے جو مزار دیکھائی دیتا  ہے وہ دراصل ایک علامت کے طور پر ہے اسی کے نیچے اصل مزار ہے جہاں سب کو جانے کی اجازت نہیں ، زائرین سامنے جاکر گنبد کے نیچے بنے مزار  کے قریب جاکر  فاتحہ  پڑھتے  ہیں ۔ اس  کے تین طرف دالان نما  عمارت بنی ہے جہاں زائرین  کے لیے  تلاوت یا  فاتحہ  پڑھنے  کی   جگہ بنی ہوئی ہے ۔ازبکستان کی خاص بات یہ ہے کہ ہر مزار کے پاس اس طرح کی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں حکومت کی جانب سے خدام متعین ہیں ۔ زائرین  عام طور پر مزار کے قریب  سلام کر کے گزرتے ہیں اور اس جگہ اجتماعی فاتحہ پڑھتے ہیں ۔  یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔  جب جگہ پُر ہوجاتی ہے تو خادم   قرآن کی  تلاوت کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں ، اس کے فوراً بعد دوسرا  گروپ آجاتا ہے ۔ یہ انتظام بہت اچھا لگا ۔ میں بھی اجتماعی دعا میں شریک ہوا ۔ اس کے بعد ان  خادم سے فارسی زبان میں بات کی ، مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھی کہ سمر قند اور بخارا میں کچھ لوگ فارسی زبان جانتے ہیں  خاص طور پر جو تاجکی نسل کے ہیں ۔ اس لیے میں نے قیاساً فارسی میں بات کی اتفاق تھا کہ وہ  فارسی جانتے تھے میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا ہم  اندرونی حصے میں جاسکتے ہیں جہاں مزار واقع ہے ۔ وہ تو پہلے مجھے  حیرت سے دیکھنے لگے پھر پوچھا کہاں سے ہیں میں نے دہلی  کا ذکر کیا تو وہ ایک بیرونی مہمان سمجھ کر  بڑے اخلاق سے پیش آئے  اور کہا یوں تو اجازت نہیں ، آپ چاہیں تو جاسکتے ہیں مگر ابھی ممکن نہیں کیونکہ لوگوں کا اژدہام ہے یا تو مغرب کے  فوراً بعد یا فجر کے وقت تشریف لائیں ۔ میرا دل چاہا کہ مغرب تک رک جائیں مگر ہمارے ساتھی کا خیال آیا کیونکہ دو گھنٹے یہاں رکنا ان کے لیے ممکن نہ تھا ۔ ابھی با ت ہوہی رہی تھی کہ عصر کی اذان ہونے لگی ہم مسجد کی جانب چلے ۔ یہ بہت خوبصورت مسجد تھی اندر گنبد پر دیدہ زیب  نقش و نگار بنے تھے ۔مسجد کے امام کو دیکھا جو خاص  صوفیانہ لباس   پہنے  ہوئے تھے ان  کے چہرے پر ایک خاص طرح کی نورانیت تھی ۔  جماعت سے نماز پڑھی  سلام کے  بعد وہ د انھوں نے  مقتدیوں کی جانب رخ  کر کے  پہلے کچھ وظیفے پڑھے اس کے بعد دعا کی  میں اٹھنے ہی والا تھا کہ مؤذن صاحب  ان کے مصلے کے  پاس  پہنچے اور انھوں نے بآواز بلند کچھ آیتیں اور وظائف کا ورد کیا اس کے بعد دوبارہ دعا ہوئی ۔ اب  میں اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا لیکن دیکھا کہ سب ابھی بھی مصلی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو میں بھی بیٹھ گیا ۔ امام صاحب نے پھر کچھ وظائف   کا ورد کیا اس کے بعد تیسری دفعہ دعا ہوئی تب لوگ  اٹھے ۔ کچھ لوگو ں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا ، میں نے بھی    اگلی صف کے مصلیوں سے مصافحہ کیا ۔ مسجد کے باہر آتے ہی سامنے ایک حوض تھا جس کے کنارے   فوارے لگے ہوئے تھے ، بہت سے  مردوں اور عورتوں کو دیکھا کہ وہ اس سے پانی  پی رہے ہیں ۔ شاید متبرک مقام سمجھ کر ایسا کر رہے تھے ، مجھے بھی پیاس لگی تھی سو میں نے بھی جھجھکتے  ہوئے  پانی پیا  لیکن پانی کا مزہ بہت اچھا تھا ۔ اس کے بعد دوبارہ  امام  بخاری کے مزار پر سلام کے لیے حاضر ہوا اس کے بعد قرآن میوزیم  جو اسی احاطے میں واقع ہے اس کی زیارت کر کے باہر آئے۔

IMG_7116 IMG_7085 IMG_7078 IMG_7128 IMG_7122 IMG_7120 IMG_7132 IMG_7148

سمر قند  میں مختصر قیام 

لولا صاحبہ نے سمر قند میں پروفیسر جمعہ صاحب کو فون کر کے میری آمد کی اطلاع دی تھی اور یہ زحمت بھی کہ وہ ہمارا سرقند میں خیال رکھیں ۔شہر پہنچ کر شاہ رخ صاحب نے ان سے بات کی شہر میں کسی  جگہ ملنے کو کہا ، کچھ دیر میں ان سے ملاقات ہوئی وہ بڑے خلوص او ر اخلاق سے ملے پھر ساتھ آنے کو کہا ان کے ساتھ ہم ایک ہوٹل پہنچے جہاں انھوں نے ہمارے لیے ایک کمرہ بُک کرا رکھا تھا ۔ کمرے کو دیکھنے کے بعد لگا کہ اس کا کرایہ بہت ہوگا مگر یہ توقع سے بھی بہت کم تھا ۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر پروفیسر جمعہ کو رخصت کیا ۔ اس ہوٹل  سے قریب ہی تقریباً تما م اہم مقامات تھے ۔ سامان رکھ کر ہم بازار سیاب جو صدیوں پرانا بازار ہے یہ  بازا ر سلک روٹ کی وجہ سے صدیوں پہلے یہاں بنا تھا ۔ سلک روٹ کو کئی اعتبار سے اہمیت ہے یہ قدیم تہذیبوں کی ترقی اور جدید دنیا  کی ترقی کا اشاریہ سمجھا جاتا ہے ۔ دائرة المعارف  کے مطابق ”عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کوایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین،مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گزر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔یہ تمام راستے وادی فرغانہ میں خوقند کے مقام پر ملتے ہیں اور مغرب میں صحرائے کراکم سے مرو کی جانب جاری رہتے ہیں اور جہاں جلد ہی جنوبی راستہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ایک راستہ آمو دریا کے ساتھ شمال مغرب کی جانب مڑ جاتا ہے جو شاہراہ ریشم پر تجارت کے مراکز بخارا اور سمرقندکو استراخان اور جزیرہ نما کریمیا سے ملاتا ہے۔ یہی راستہ بحیرہ اسود، بحیرہ مرمرہ سے بلقان اور وینس تک جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ بحیرہ قزوین اور قفقاز کو عبور کر کے جارجیا سے بحیرہ اسود اور پھر قسطنطنیہ تک پہنچتا ہے۔شاہراہ ریشم کا جنوبی حصہ شمالی ہند سے ہوتا ہوا ترکستان اور خراسان سے ہوتا ہوا بین النہرین اور اناطولیہ پہنچتا ہے۔ یہ راستہ جنوبی چین سے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے برہم پترا اور گنگا کے میدانوں سے ہوتا ہوا بنارس کے مقام پر جی ٹی روڈ میں شامل ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ شمالی پاکستان اور کوہ ہندو کش کو عبور کر کے مرو کے قریب شمالی راستے میں شامل ہو جاتا ہے۔بعد ازاں یہ راستہ عین مغرب کی سمت اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور شمالی ایران سے صحرائے شام عبور کرتا ہوا لیونتمیں داخل ہوتا ہے۔ یہاں سے بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے ذریعے سامان تجارت اٹلی لے جایا جاتا تھا جبکہ شمال میں ترکی اور جنوب میں شمالی افریقہ کی جانب زمینی قافلے بھی نکلتے تھے۔‘‘( بحوالہ :آزاد دائرة المعارف)  اسی سلک روٹپر واقع یہ قدیم’ بازا رسیاب ‘کے نام سے  جانا جاتا ہے اب اس میں  کچھ تبدیلی آگئی ہے لیکن جگہ وہی ہے ، اسی کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی ۔ سامنے  ہی  سڑک کی دوسری جانب صدر ازبکستا ن اسلام کریمفوف  کا مقبرہ اور اسی سے متصل مسجد خضر     تھی جو کافی  بلندی پر واقع ہے ۔ چونکہ یہ  چھوٹی  پہاڑی  کا سلسلہ ہے ۔ہم نے  اندر جانے کا  ارادہ کیا مگر گیٹ بند ہوچکا تھا اس لیے سڑک کی دوسری جانب اندر  جاتی ہوئی سڑک کی طرف چل پڑے دور سے  ہی  امیر تیمور   کے عہد کی   جامع مسجد  جو بی بی خانم مسجد کے نام سے مشہور ہے کے  نیلے گنبد و مینار نظر آئے اور دوسری جانب  بی بی خانم کا مقبرہ ۔ شام  کے وقت اس  کانظارہ بڑا دلفریب تھا ۔مینار کی بلندی اور گنبد کی جلوہ  ریزی اس  ملک  کی شاندار ماضی کی داستان سنارہی تھی  ۔ہم نے ٹکٹ لیا اور جامع مسجد میں داخل ہوئے ۔ دائرة المعارف  کے مطابق ’’بی بی خانم مسجد ازبکستان کی مشہور تاریخی مسجد ہے جو 14 ویں صدی کے عظیم فاتح امیر تیمور نے اپنی اہلیہ سے موسوم کی تھی۔تیمور نے 1399ء میں ہندوستان کی فتح کے بعد اپنے نئے دار الحکومت سمرقند میں ایک عظیم مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس مسجد کا گنبد 40 میٹر اور داخلی راستہ 35 میٹر بلند ہے۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق بی بی خانم مسجد امیر تیمور کی بیویوں میں سے ایک نے اس وقت تعمیر کروائی تھی جب وہ جنگ پر نکلے ہوئے تھے۔یہ مسجد انیسویں صدی میں زلزلے میں تباہ ہو گئی تھی جو بعد میں 1970 کی دہائی میں بحال کی گئی۔اس مسجد کی تعمیر 1399ء میں شروع اور 1404ء میں مکمل ہوئی۔ ‘‘سڑک کی  دوسری جانب  بی بی خانم کا مقبرہ ہے جس میں امیر تیمور کی دو بیویوں اور ا ب کی خاص خادمہ کی قبریں ہیں ۔ اسی  سڑک سے ایک  کیلومیٹر کی دوری پر  سمر قند کی مشہور عمارت  ریگستاناسکوائر میں  مسجدو مدرسہ ہے ۔ چونکہ رات ہوچکی  تھی اس لیے ریگستان جانے کا پروگرام ملتوی کیا ۔

اس کے بعد احمد اور شاہ رخ کے ساتھ سمر قند شہر   کار سے ہی گھومتے رہے ۔ کچھ دیر بعد احمد صاحب نے ایک ریسٹورینٹ کے سامنے کار روکی اور کہا یہیں کھانا کھائیں گے ، یہ بہت  بڑا ریسٹورینٹ  تھا جو سیاحوں سے بھرا پڑا تھا ۔  ہمیں باہر ہی  سائبان میں بیٹھنے کو جگہ  ملی ۔  رات ہوچکی تھی اور خنکی بڑھ گئی تھی  دیکھا کہ جو بھی  سیاح سائبان  میں لگی کرسیوں پر بیٹھ رہے تھے ان کے لیے ویٹر پہلے  کمبل نما چادر لاکر ان کو بڑے اہتمام سے اوڑھا رہے تھے ۔اس کے بعد کھانے کا آڈر لیتے ۔ یہاں کے کھانے بہت مشہور ہیں اسی لیے زیادہ تر سیاح یہاں کھانے کے لیے آتے ہیں ۔ کھانے کے بعد ہم   ہوٹل پہنچے اور آرام کیا ۔ احمد صاحب کسی دوست کے یہاں چلے گئے ،  میں اور شاہ رخ ایک ساتھ رکے ۔

سمرقند

شاہ زندہ

صبح طے شدہ وقت پر ہم تیار  ہوئے  پہلے ہم شاہ زندہ کمپلکس  پہنچے ۔سمر قند میں شاہ زندہ کا احاطہ بہت وسیع و عریض علاقے میں  پھیلا ہوا ہے۔ یہ حضرت قثم بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کی نسبت سے’ شاہ زندہ ‘کہلاتا ہے۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں یہاں آئے۔ مشرق وسطیٰ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لیےسب سے پہلے آپ کی ہی آمد ہوئی۔ آپ نے عمر کے آخری حصے تک دین کی تبلیغ کی اور یہیں شہادت پائی۔ آ پ کے حوالے سے بہت مشہور ہے کہ اس وقت کے حاکم وقت نے آپ کو قید کرنے اور پھانسی کا حکم دیا تو جب سپاہی قریب آئے تو یہ اپنے حجرے سے باہر نکلے اور حجرے کےقریب ہی ایک کنواں بنوایا تھا جس سے لوگ سیراب ہوتے تھےجو نشیب میں واقع تھا، اس کنویں کی جانب اترے اس کے بعد پھر نظر نہیں آئے ، اسی لیے انہیں شاہ زندہ کہا جاتا ہے۔اس احاطے میں ان کا کوئی مقبرہ نہیں ہے بلکہ عبادت کرنے کا حجرہ اوراسی کے ساتھ منسلک مسجد ہے جہاں لوگ جاتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ وہ کنوان بھی موجود ہے لیکن عام لوگوں کو بتایا نہیں جاتا اوراسے ڈھک دیا گیاہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر حضرت خضر  علیہ  السلام   تشریف لائے اور انھوں نے حضرت قثم  کے  روپوش ہونے میں رہبری کی ۔( واللہ اعلم بالصواب ) اسی لیے اس احاطے سے کچھ دوری پر جو مسجد واقع ہے اسے مسجد خضر کہتے ہیں ۔

اس احاطے میں سینکڑوں قبریں ہیں یہاں تیمور کے حکم سے بہت سےمقبرے گنبدوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں ۔ یہ سڑک کے کنارے سے پہاڑ کی بلندی کی جانب ہے اسی لیے حضرت قثم بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کا حجرہ سب سے بالائی حصے میں ہے ۔ اس پر جانے والی سیڑھیوں کے حوالے سے مشہور ہے کہ اوپر جاتے وقت یہ 36 سیڑھیاں ہوتی ہیں اور اترتے وقت 37 سیڑھیاں ۔ میں نے بھی کوشش کی کہ گنا جاسکے مگر ممکن نہ ہوسکا۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ نہیں کہا جاسکتا مگر یہ بات یہاں بہت مشہور ہے ۔

IMG_7215 IMG_7211 IMG_7209 IMG_7205 IMG_7204

مسجد خضر

شاہ زندہ  سے  سے متصل  ہی مسجد خضر ہے ۔ یہ دونوں مقامات بلندی پر واقع ہیں یہ چھوٹی پہاڑی  تھی۔   دونوں عمارتوں کے  درمیان  اس چھوٹی پہاڑی پر قدیم  قبرستان  ہے ۔ ویسے ازبکستان میں  زیادہ تر  قبرستان چھوٹی  پہاڑیوں پر ہی ہیں ۔ خیر بلندی کی طرف   جاتے ہوئے  اور عمارت کی کئی سیڑھیوں کو طے کرنے کے بعد ہم اس کمپلکس  کے اندر داخل ہوئے ۔  بائیں جانب مسجد خضر   ہے ۔ روایت ہے کہ  یہاں اسلا م کی آمد سے قبل  بت خانہ تھا جسے منہدم کر کے مسجد بنائی کئی ہے ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے تھے ان کی تشریف آوری کا سبب یہ  بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت قثم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  سزائے موت سنائی گئی تھی تو  حضرت خضر نے ہی  اللہ کے حکم سے ان کی  روپوشی میں  مدد کی تھی۔ اسی لیے اس مسجد کا نام شروع سے ہی مسجد خضر ہے ۔  یہ مسجد بہت بڑی نہیں ہے لیکن مسجد  کی آخری دیوار کے دونوں جانب دو چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام یہاں عبادت کرتے تھے ۔ ان میں ایک حجرے میں ایک عصا رکھا ہوا ہے روایت یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت  حضرت خضر کا یہ عصا کہیں گم ہوگیا تھا بعد میں تاشقند میں مقیم ایک  خاتون جو اپنے وقت کی ولیہ تھیں ، ان  کے خواب  میں حضرت خضر نے اس عصا کی نشاند ہی کی ۔  اس خواب کے بعد وہ  سمر قند آئیں ، ان کی نشاندہی پر یہ عصا کہیں زمین کے اندر موجود تھا اس کی بازیافت ہوئی ۔ ( واللہ   اعلم بالصواب ) ۔ اسی لیے یہ مسجد حضرت خضر  کے نام سے موسوم ہے ۔ بڑی تعداد میں زائرین یہاں آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں ، اب  بھی  دونوں حجرے موجود ہیں جو ایک عورتوں کے  لیے اور دوسرا مردوں کی عبادت کے لیے مخصوص کر  دیا گیا ہے ۔ اللہ نے  اس مسجد کی زیارت کی مجھے توفیق  دی  ۔ دو رکعت نفل اد اکر کے  اسی سے متصل سابق صدر ازبکستان اسلام کریموف کے مزار کے پاس گیا جہا ں تصویر لینے کی سخت ممانعت تھی ۔ یہاں ایک وسیع احاطے میں ہر جگہ کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ زائرین آتے اور اپنی جگہ لیتے ، جب ساری جگہیں پُر ہوجاتیں   تو اسی قاعدے کے مطابق اجتماعی فاتحہ خوانی ہوتی ۔

IMG_7256

   ریگستان  اسکوائر

  مسجد خضر سے نشیب میں سڑک کی دوسری جانب چل کر اس سڑک پر پہنچے جہاں  بی بی خانم مسجد واقع ہے یہی سڑک ریگستان کو جاتی ہے اکثرلوگ پیدل ہی جارہے تھے ۔ ہمیں دوری کا اندازہ تھا اس لیے بیٹری  والی گاڑی سے وہاں تک  پہنچے۔ریگستان کا لفظ سننے اور پڑھنے  میں کچھ اور تصور قائم ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل جدا گانہ تھا ۔ ایک وسیع و عریض میدان  کے تینوں جانب بلند و بالا اور شاندار  مسجد و مدرسہ کی عمارتیں  واقع ہیں ۔ یہ کمپلکس  ازبکستا ن کی ایک شناخت بھی ہے ۔اسے ریگستان اسکوائر بھی کہتے ہیں ۔ لیکن عام زبان میں یہ ریگستان کے نام سے ہی جانا جاتا ہے ۔ اس میدان میں تین الگ الگ عمارتین ہیں ۔

دائیں  جانب’’ مدرسہ الغ بیگ ‘‘سامنے ’’مدرسہ  شیر دار ‘‘ اور  درمیان میں ’’مسجد طلا کاری ‘‘ ہے ۔ مدرسہ الغ بیگ  1417 میں   تعمیر ہوا اس میں پچاس کمرے ہیں ۔  ہر کمرے میں دو طالب علم  رہتے تھے ، دن میں یہی درسگاہ میں تبدیل ہوجاتا تھا ۔  یہ اس وقت کی سب سے عظیم  دانشگاہ تھی  یہاں جدید  مذہبی تعلیم کے علاوہ اس کے وقت کے مروجہ علوم و فنون کی تعلیم ہوتی تھی  اس عہد کے عظیم شاعر، فلسفی، ماہر فلکیات اور دانشوروں کا تعلق اسی مدرسے سے تھا اسی لیے اس کو اس عہد کا عظیم سائنسی  درسگاہ کا درجہ حاصل تھا ۔شیر دار مدرسہ1619 میں سمر قند کے مشہور سیاست داں شیر دارخان نے بنوایا ۔اس مدرسے کے بڑے دروازے پر شیر کا نشان بنا ہوا ہے ۔طلا کاری مدرسہ و مسجد بھی اسی کی تعمیر  کردہ ہے جس کی تعمیر  1646میں شروع ہوئی  اور 1660میں مکمل ہوئی   ۔اس مسجد   کے  محراب   اور گنبد میں خالص سونے سے نقاشی کی گئی ہے اسی لیے اسے طلا کاری کہا  جاتا ہے۔ اسے احاطے میں ایک باغ بھی ہے جو انوا ع و اقسام کے پھولوں کی وجہ سے مشہور تھا ۔اس احاطے میں داخل ہوں توآنکھیں خیرہ رہ جاتی ہیں کہ اس زمانے میں اتنی عظم الشان عمارتیں  کیسے بنوائی گئی ہوں گے ۔ اب تو ا ن مدرسوں کے کمرے  دکانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور اب یہ خالصتاً سیاحی مرکز بن گیا ہے ۔ یہاں موجود دکانیں ازبکستان کی صنعت کاری  سے متعلق ہیں جدید طرز بازار نہیں ہے ۔اس کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں اوریہ اب عالمی ورثے میں شما ر ہوتا ہے ۔

IMG_7322 IMG_7293IMG_7341 IMG_7339 IMG_7325

  امیر تیمور کا مقبرہ

  ازبکستان  کو امیر تیمور نے بہت کچھ دیا اس کے عہد میں جتنی عمارتیں بنی ہیں شاید اور کسی حکمراں کے عہد میں نہیں بنیں۔   تیمور کا شمار دنیا کے عظیم فاتحوں میں ہوتا ہے  ۔سمر قند میں واقع امیر تیمور کا مقبرہ بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہے ۔اسی طرز کے گنبد و مینار  بنے ہوئے ہیں لیکن اندرونی گنبد پر جو نقش و نگار ہیں وہ حیرت زدہ کرتے ہیں ۔ سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں سےنقش و نگار  بنائے گئے ہیں ۔ اس  میں امیر تیمور کے علاو ہ اس کے خاندان کے افراد کی قبریں  موجود ہیں ۔

IMG_7194

اللہ کے نبی حضرت دانیال علیہ السلام کے مزار مبارک پر

سمرقند کے بیرون شہر پہاڑی پر یہ مقام واقع ہے۔اس کے نیچے خوبصورت نہر بہہ رہی ہے۔ اس کے قریب ہی ایک چشمہ ہے جو  مستقل جاری ہے، یہ چشمہ بھی لوگوں کی عقیدت کی جگہ ہے ہر زیارت کرنے والے اس کا پانی پیتے ہیں، اس پانی کو شفا مانتے ہیں۔ مسلم، عیسائی اور یہودی تینوں اقوام حضرت دانیال کو اپنا نبی مانتے ہیں اسی لیے مسلمانوں کے علاوہ وہ بھی بڑی تعداد میں زیارت کے لیے آتے ہیں۔حضرت دانیال کی قبر انور کے بارے میں اختلاف ہے.۔ میں خود مصر کے قدیم شہر اسکندریہ میں حضرت دانیال کے مزار پر حاضری دے چکا ہوں۔ وہاں ان کی قبر مبارک کے ساتھ حضرت لقمان کی بھی قبر ہےلیکن سمرقند میں ان کی قبر کی لمبائی سترہ میٹر ہے۔

  حضرت دانیال کی قبر  لمبائی سترہ میٹر کیوں ہے ؟ اس کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ بادشاہ کے حکم سے اتنی لمبی قبر بنائی کیونکہ   عیسائی. یہودی سب عقیدت کرتے تھے اور کچھ لوگ پوجنے بھی لگے تو بادشاہ نے کسی اور جگہ سے منتقل کر کے قبر یہاں بنوائی اور لمبائی اتنی رکھی تاکہ کسی کو اصل قبر کس جگہ ہے اس کا علم نہ ہوسکے۔ حضرت دانیال کی قبر مبارک کے حوالے سے ایران کے علاقہ شوش میں بھی  دعوی کیا جاتا ہے۔

حضرت دانیال علیہ السلام کے مزار مبارک کے پائین میں واقع یہ وہ چشمہ ہے جس کے متلعق مشہور ہے کہ اس پانی میں شفا ہے اسی لیے یہاں ہر وقت ہجوم رہتا ہے اور بلا امتیاز مذہب و ملت لوگ اس پانی کو پیتے پیتے ہیں اور بوتلوں میں بھر کر بھی لے جاتے ہیں۔مزار مبارک پہاڑ ی کی بلندی پر ہے اور یہ چشمہ اسی کے نیچے کچھ دوری پر جاری ہے۔

IMG_7398 IMG_7394 IMG_7406

About admin

Check Also

اسلوبیاتی مطالعہ کی جہتیں اور رشید احمد صدیقی کی تحریریں

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہر ویونیورسٹی ، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *