آپ کو انتہائی اہم ادارہ کا ڈائریکٹر بنایا گیا ہے۔ عہدہ جتنا بڑا ہے، ذمہ داریاں بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
یقیناً عہدہ بڑا ہے اور وہ اس لیے کہ اردو کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے یہ واحد ادارہ ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ خود مختار ہے۔میرا خیال ہے کہ بر صغیر میں اس نوعیت کا یہ واحد ادارہ ہے اسی لیے اس عہدے کو بڑا کہا جاسکتا ہے۔ایسی صورت میں اگر یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ عہدہ بڑا نہیں ہے بلکہ یہاں اردو کے لیے کام کرنے کی گنجائشیں بہت ہیں اور مواقع بھی بہت ہیں ۔میں ذاتی طور پر یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اب تک جو کام میں نے انفرادی طور پر کیے ہیں اب اردو کے احباب ، دانشور، صحافی ، این جی اوز، ادارے اور مختلف سطحوٕ ں پر کام کرنے والوں کو جوڑ کر اردو کی ترقی کے لیے کام کرنے کا مجھے موقع ملا ہے ۔
چار اپریل کی دوپہر آپ نے جب اپنا عہدہ سنبھالا تو کون سا پہلا کام آپ کے ذہن میں آیا جسے آپ مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟
کام تو صرف ایک ہی ہے کہ ہر ممکنہ سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کوشش کی جائے ۔ میں نے پہلے دن ہی یہ سوچ لیا ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بزرگ ادیب وشاعر ، دانشور ، صحافی ، میڈیا گروپ اور اداروں کے مشوروں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے لوگوں کو جوڑنا ہے اور آفس میں ایک خوشگوار ورک کلچر پید اکرناہے کیونکہ ہمارے آفس کے افراد ہی ہمارے دست و باوزو ہیں ۔ قومی کونسل کے لیے یہ ایک سنہرا موقع اس لیے بھی ہے کہ ہمارے وائس چئیر مین پروفیسر وسیم بریلوی اردو کے فروغ کے لیے ایک ویژن رکھتے ہیں ، کونسل کے کاموں میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں اور بے لوث خدمات پیش کرتے ہیں ۔ اس ہم آہنگی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور کونسل کے کاموں کو مہمیز دی جاسکے۔
ہندوستان، خصوصاً دہلی میں اردو کی حالت زار سے سبھی واقف ہیں۔ اس کی بہتری کے لئے ’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘ (این سی پی یو ایل) کو کس طرح متحرک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
یہ ادارہ ہندستان گیر پیمانے پر کام کرتا ہے اس لیے دہلی بھی اس کی ترجیحات میں ہے حالانکہ دہلی میں خود ایک فعال ادارہ دہلی اردو اکادمی موجود میں جس کے وائس چیر مین پروفیسر اختر الواسع اس سلسلے میٕںٕ اکادمی کی جانب سے کوششیں کرتے رہے ہیں اورا کادمی کے بہت ہی ذہین، متحرک ، اردو تہذیب و ثقافت اور ادب سے محبت کرنے والے انیس اعظمی صاحب ہیں جو اس سلسے میں کافی تگ و دو کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی تنظیمیں اور ادارے اور میڈیا کے افراد بھی اس کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ اردو کونسل ان افراد اور تنظیموں کے ساتھ مل کر دہلی میں اردو کو اس کا مقام دلانے کے لیے کوشش کرے گی ساتھ ہی ہندستان کے ان صوبوں میں جہاں اردو بولنے والے موجود ہیں وہاں اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے بھی کام کرے گی ۔ غیر اردو علاقے میں بھی امکانات کی تلاش ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔
جن ریاستوں میں اردو کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے، ان کے لئے کوئی خاص منصوبہ تیار کیا جائے گا؟
یقیناً منصوبہ بنایا جائے گا ۔ ہم کونسل کے با وقار ممبران اور اردو سے محبت کرنے والوں سے مل کر اس سلسلے میں ان سے مشورے کریں گے اور ان کی رہنمائی میں کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کریں گے ۔ حکومت وقت نے بھی اردو کے حوالے سے جو کام کیے ہیں اور جو کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کو عملی جامہ پہنانے میں کونسل پیش پیش ہوگی۔
’این سی پی یو ایل‘ کے ویب سائٹ پر ’سنٹرل ایکٹس اِن اُردو‘ کالم کے تحت حج کمیٹی ایکٹ 2002 اور دوسرے ایکٹس کے جو اردو تراجم ہیں، ان میں متعدد غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس طرح کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جائے گا؟
اس سلسلے میں مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کیا غلطیاں ہیں ۔ لیکن آپ نے توجہ دلائی ہے تو میں فوری طور پر اس پر توجہ دوں گا چونکہ کسی ادارے سے اس طرح کی غلطیاں اگر راہ پاجاتی ہیں تو اچھا نہیں ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ این سی پی یو ایل ہو یا کوئی ادارہ کام کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں اور انسان سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں اور انسان ہی اس کی اصلاح بھی کرتا ہے ۔ اگر ایسا کچھ ہے تو ہمارے اسٹاف بہت لائق و فائق ہیں میں ان کی مدد سے جلد ہی اس کی اصلاح کر لوں گا ۔
’این سی پی یو ایل‘ ادارہ اردو کے فروغ کے لئے ہے لیکن افسوسناک امر ہے کہ اس کا ’اُردو ورژن‘ موجود نہیں۔ کیا اس سلسلے میں فوری اقدام کی ضرورت نہیں ہے؟
ماشاءاللہ آپ جدید ٹیکنالوجی کی اہمیتوں سے بخوبی واقف ہیں اور انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ پر سرگرم نظر آتے ہیں۔اور خو د آپ کا اپنا ذاتی ویب سائٹ بھی ہے جواردو یونی کوڈ میں ہے ۔ کیا اردو داں طبقہ کو اس سے جوڑنا آج کی اہم ضرورت ہے؟
یہ دستور ہے کہ آپ زمانے کے ساتھ ساتھ چلیں ۔ آج کا عہد ڈیجیٹيل تکنالوجی کا عہد ، اس سے بیگانگی نہیں برتی جاسکتی ۔ اردو کوتکنالوجی کے نئے وسائل سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اور میری کوشش ہوگی کہ اردو زبان اور ادب کو اس سے جوڑ کر اردو کی رسائی کو بڑھایا جائے۔
بطور این سی پی یو ایل ڈائریکٹر آپ کو کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے؟
بس صرف ایک کہ کس طرح اردو زبان اور ادب کی ترویج واشاعت کی جائے ۔
اردو کو روزگار سے جوڑنے کے لئے آپ کے ذہن میں کوئی خاکہ ہے؟ اگر ہے تو اس کی شکل کیا ہے؟
آج کا معاشرہ بہت پیچیدہ ہے اس لیے زندگی کے تمام شعبے طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ۔ روزگار کے مواقع بھی اب بہت سیدھے سادے نہیں رہے ۔کسی بھی سبجیکٹ میں صرف ڈگری حاصل کر لینا روزگار کی ضمانت نہیں فراہم کرتا ۔ آج تخصیص کا بھی دور ہے ۔ ان تمام صورت حال کو ذہن میں رکھ ماہرین سے صلاح و مشورے کے بعد کوئی صورت نکالی جائے گی۔ حالانکہ اس سمت میں بہت سے لوگ او ر ادارے کام کر رہے ہیں ۔ ان سب کے تجربات سے این سی پی یو ایل فائدہ اٹھائے گا ۔
دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف کاغذوں میں نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں این سی پی یو ایل کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟
این سی پی یو ایل کا اپنا ایک دائرہ کار ہے ، بہر صورت اسے ملحوظ رکھنا ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کے ہمراہ بھی مل کر کام کرے گی جو اس حوالے سے سر گرم ہیں۔
اُردو کی ترویج و اشاعت میں درپیش سب سے بڑا مسئلہ آپ کی نظر میں کیا ہے اور اس کا حل کس طرح نکل سکتا ہے؟
بنیاد ی سطح پر اردو کی تعلیم کے فقدان کے سبب اردو رسم خط جاننے والے کم ہورہے ہیں ۔ زبان بولنے والے تو ہیں لیکن رسم خط جاننے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ اس لیے ہماری نظر میں فی الوقت اردو رسم خط کی تعلیم و تدریس کا انتظام سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ بھی کئی مسائل جڑے ہوئے ہیں جن پر ماہرین سے تبادلہ خیالات کے بعد صلاح و مشورہ کر کے اشتراک سے متحدہ طور پر کام کرنے سے ہی اس طرح کے مسائل کا حل سامنے آسکتا ہے ۔ میری کوشش یہی ہوگی اور یہی سوچ کر میں اس منصب پر اردو کی خدمت کے لیے آیا ہوں۔