Home / Socio-political / سیاسیات اور عوام

سیاسیات اور عوام

    عباس ملک

سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑ کر ایک دوسرے کوشکست دے کر عوام کی نمائیندہ اسمبلی میں جگہ بناتی ہیں ۔ہر سیاسی جماعت کا اپنا منشور اپنا جھنڈا اور اپنے لیڈر ہیں ۔عوام ہر سیاسی جماعت کو اس کے منشور کی بنیاد پر ہی پر کھ کر اپنی نمائندگی کا اعزاز دیتی ہے۔ ایک طرح کا منشور رکھنے والے دو مختلف جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان جب انتخابی معرکہ ہوتاہے تو میرے مطابق عوام اس لیڈر کو منتخب کرتے ہیں جس پر ان کا غالب گمان ویقین ہوتا ہے کہ یہ ہماری نمائیندگی کا حق ادا کرے گا ۔عوا م کے یہی منتخب کردہ نمائیندے اسمبلی میں بیٹھ کر عوام کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔یہی چھاتی اور شملہ اونچا کر کے خود کو عوامی نمایندہ کہلانے اور اس کا استحقاق استعمال کرنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں ۔سیاست میں دو مختلف سیاسی جماعتیں دو مختلف منشور کی حامل ہوتی ہیں اب ان میں سے قریب ترین نکات پر یکجا ہونے والی جماعتوں میں اتحاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک دوسرے کے متضاد منشور کے حاملین کاا تحاد وسیع تر قومی مفاد کی آڑ میں ایک کیسے ہو جاتا ہے ۔ایک سیکولر جماعت کے راہنماﺅں کیلئے دینی جماعت کے راہنماﺅں کے دل میں محبت کا جذبہ کیسے پیدا ہو جاتا ہے ۔دین کی بات کرنے والے اور دین کو ایک طرف رکھ کر صرف مادیت کی بات کرنے والے اگر یکجا ہو جائیں تو یہی کہا جا سکتاہے کہ یہ سیکولرازم کی فتح ہے ۔ایک لسانی گروہ جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہر حربہ استعمال کر سکتاہے کو اگر ایک ایسی سیاسی جامعت اپنے ہاں پناہ دیتی ہے جو وفاق کی زنجیر ہونے کی دعویدار ہے تو پھر اس سے یہی نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی قباحت آڑے نہیں آئے گی کہ ملک گیر جماعت کے لبادے میں یہ بھی لسانی اور صوبائی عصبیت کے ہی علمبردار ہیں ۔ذرا سی ا ونچ نیچ پر خود کو اپنی مخصوص لسانی اور گروہی کمین گاہوں کی طرف پناہ کیلئے پسپا کرنے کی پالیسی کے حاملین سے یہ کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ وفاق کی خاطر وفا ،قربانی یاایثار کا ثبوت دیں گے ۔جن کیلئے قائد عوام لکھا جاتا اور بولا جاتا ہے لیکن ان کی موت کو سندھ کے بیٹے کی موت قرار دیا جاتا ہے ۔بی بی کیلئے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ بھی ذرا سی بات پر فورا سندھ نکال کر لہرانا شروع کر دیتی ہے ۔بلوچ ،سندھی ،پنجابی یا پٹھان ان ہی میںسے ہمارے مقتدر راہنما سیاست کے شاہ سوار بننے اور اب بھی ہیں ۔اس وقت بھی ملک کے اعلی انتظامی عہدوں پر ہر صوبے ،ہر زبان ،ہر نسل ،کے لوگ بیٹھے ہیں اور ان کی جیبوں میں ایک ہی پاکستانی شناختی کارڈہوتا ہے۔ یہ کارڈ جیب میں رکھنے کیلئے کتنا تردد،اہتمام اور فخر کیا جاتا ہے ۔اس وقت تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ قومی شناخت کے حصول کا متمنی نہیں بلکہ صرف علاقائی ڈومیسائل کو ہی اعزا ز جانتا ہے ۔سیاسی جماعتوں نے قومیت کی مضبوط زنجیر کی کڑیوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر کے اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب ان کے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔کس نے صوبوں کو ان کے حقوق مہیا نہیں کیے اور کون بلوچستان ،سندھ ،جنوبی پنجاب اور خیبر پی کے کے لوگوں کی پسماندگی کا ذمہ دار ہے۔جمہوری تاریخ میں وزیر اعظم و صدور کن صوبوں کے تھے اور مارشل لا لگانے والے جرنیل کن صوبوں اور زبانوں کے بولنے والے تھے ۔سب سامنے کی تاریخ ہے اورسب جانتے ہیں کہ سیاستدان ہی اس کے ذمہ دارہیں ۔سیاستدان اپنے مفادات کے حصول کیلئے خود ہی مظلولم اور خود ہی ظالم بن جاتے ہیں ۔ایک دوسرے پر الیکشن کے دوران الزامات ثابت کرنے والے اگر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں تو وجہ صرف مفادات ہیں ۔ق لیگ قاتل تھی تو آج مظلوم کیسے ہو ئی۔جب نواز شریف سے اقتدار چھینا گیا تو یہی مسلم لیگ ن کہلاتے تھے۔اپنے لیڈر کو جلا وطن ہوتا دیکھ کر انہوں نے مشرف کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اقتدار کا کھیل کھیلا ۔وزیر اعظم بنے اور اور وزیر اعلی بن کر وردی میں ڈکٹیٹر کو صدر منتخب کر کے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ مارا ۔لوگ تو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انکے سیاست میں ہوتے کوئی بھی آئین یا سیاسی اخلاقیات کی بات بھی کیسے کر سکتا ہے ۔وہ جو کل تک انہیں بی بی کا قاتل قرار دیتے رہے آج ان کیلئے چشم براہ کیوں ہیں ۔صرف اقتدار کی ہوس مجبور کر رہی ہے ۔ورنہ شہید بی بی کی روح بھی اس عمل قبیح سے تڑپ اٹھی ہو گی ۔ان کے نا م پر اقتدار اور دنیا کی دولت سمیٹنے والے کتنے ان کو دل سے عقیدت اور پیار کرتے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خواہ باری طے پائی تھی یا میاں بردران کی معائداتی مجبوریاں تھیں لیکن ایک عام کارکن کا اس میں کیا قصور ہے ۔ان دونوں جماعتوں کو عوام نے بھاری مینڈیٹ سے نمائیندگی کیلئے منتخب کیا لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے انہوں نے عوام کو ہر دم قربانی کا بکرا ہی قاار دیکر ان سے خون طلب کیا ۔کبھی تیل ،کبھی گیس ،کبھی آٹا ،کبھی چینی کبھی بجلی تو کبھی اشیا خورد و نوش میں اضافے کی صورت میں ہر دم عوام ہی کو قربانی کیلئے مجبور کیا جاتا رہا۔ مجبور کرنے والے اپنی مجبوریاں بتاتے ہیں لیکن اپوزیشن کو کیا مجبوری ہے کہ وہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر عوام کو صبر اوراستقامت کی تلقین کیے جارہی ہے ۔حکومت کی مجبوری تو اقتدار ہے لیکن اپوزیشن بھی تو اقتدارمیں شامل ہے ۔جی ہاں وہ مرکز میں تو اپوزیشن صوبے میں حکومت کر رہی ہے ۔مرکز والے صوبے کیطرف دیکھیں تو مرکز کے اقتدار کی کرسی ہلنا شروع ہو جاتی ہے ۔کیا یہی سیاست اور یہی سیاسی اخلاقیات کی معراج ہے ۔اسی کا نام جمہوریت اور اس کی ترویج کیلئے عوام کو قربانیوں کی تعلیم دی ] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *