عباس ملک، پاکستان
ملک کو جس سنگین بحران کا سامنا ہے وہ معاشی اور سیاسی بحران سے سنگین ہے ۔اس وقت ملک کو میڈیا سے متعلق عوامی منتشرات کے بحران کا سامنا ہے ۔ملک کو خارجی اور داخلی طور پر مختلف مسائل ہمیشہ درپیش رہے ہیں ان میں میڈیا کا کردار پہلے بھی اہم تھا لیکن اب یہ کردار اہم ترین ہو چکا ہے ۔عوام زیادہ تر میڈیا پر بریکنگ نیوز کو الہامی خبر سے کم نہیں جانتے ۔میڈیا اب سیاسی خبروں کو اور سیاسی تبصروں کو عوامی موضوعات پر قدرے ترجیح دیتا ہے او راسے صفحہ اول پر جگہ دینے کی بجائے صفحہ دوئم کے لائق جا نا جاتا ہے ۔اس سے بھی میڈیا کی عوامی مزاج شناسی کی عکا سی ہوتی ہے ۔عوامیڈیا کے مدبرین و مفکرین کرام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پر فورا ایمان لا نا فرض جانتے ہیں۔ ایسے حالات میں میڈیا ان کی اگر مناسب راہنمائی نہ کرے تو وہ یقینا اپنے ادراک سے کا م لیتے ہوئے خود ہی فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں ۔صحافت کی کئی اقسام میں سے دو کا ذکر اس وقت کی مناسبت سے ضروری ہے اور وہ حکومتی اور اپوزیشن کی صحافت ہے ۔اصل صحافت قومی صحافت یا معاشرتی ادراکی صحافت ہی ہوتی ہے ۔پیٹ کی مجبوری اس سے اغراض برتنے اور اپنی ذمہ داری کو محدود کرنے پر آمادہ کر لیتی ہے ۔حکومتی صحافت حکومت کے دفاع اور اپوزیشن کی سیاست اس کی بنیادیں ہلانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے ۔ایسے میں معاشرہ اور ملک اگر تھوڑے بہت اگے پیچھے ہو جائیں تو دونوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پر بھی بغلیں بجاتے ہیں کہ دیکھا سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ انہیں اپنی پاور پر ناز ہوتا ہے اور باقی ان کیلئے کیلے کے چھلکے کی طرح ہوتے ہیں جسے وہ دوسروں کو پھسلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔حالات کیا ہیں ان کا معاشرتی اور ملکی ردعمل کیا ہوگا اسے دیکھے بغیر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنی ہی کہے جائیں گے اوربادشاہی کے امیدوار اپنا نالہ ء الاپے جائیں گے ۔صدر صاحب کو کیا ہوا اور صدر صاحب کی وجہ سے کیا ہوا دونوں سوال انتہائی اہم ہیں ۔صدر آئین کی رو سے وفاق کی علامت گردانے جاتے ہیں بیشک وہ وفاق کیلئے خطرہ ہی کیوں نہ بن جائیں انہیں اس عہدہ جلیلہ کی وجہ سے کئی طرح کے استثنا حاصل ہیں ۔اس میں ان پر براہ راست کوئی بھی قانونی کاروائی نہ ہوسکنا بھی شامل ہے ۔اگرچہ یہ استثنا اس معتبر عہدہ کو حاصل نہ ہو تو بھی ہر روز اسے عدالتی سمنوں کی تعمیل کرتے ہوئے گذارنی پڑے۔بہرحال یہ بات تو ضمنی کے طور پر لکھ دی ہے ورنہ حقیقت میں اس سے بھی اگے بات گریباں تک جا سکتی ہے ۔صدر ہو یا کوئی بھی اکابر اس کو ہمیشہ برے اور مخدوش حالات میں وطن سے دور جا کرعلاج کرانے میں ہی عافیت نظر آتی ہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اس ملک سے نکل کر اکابرین محفوظ ہو سکتے ہیں ۔جیسے مشرف صاحب اگر یہاں ہوتے تو کیا وہ عافیت سے ہوتے ۔میاں صاحب اگر ضد کرتے اور وطن پرستی کا مظاہرہ کرتے تو کیا فوج سے بغاوت کرنے کے جرم میں آج سلامت ہوتے ۔حالانکہ ایک آئینی وزیر اعظم کا تختہ الٹنے کے جرم میں مشرف صاحب کو مجرم قرار دیا جانا چاہیے تھا لیکن عدلیہ نے انہیں تو نہیں البتہ اس استحقاق کے حامل کو مجرم قرار دیکر جلا وطنی پر مجبور کر دیا ۔اس کا طعنہ آج بھی ہمارے مفکرین اور مدبرین حضرات بخصوص وبالعموم انہیں دیتے ہیں ۔حتاکہ ڈاکٹر بابر اعوان جیسے زیرک اور قانون کی اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے والے نے آئین کی طرف داری کی بجائے صرف بھاری طرف کو ہی دیکھا ۔صدر محترم کو کیا بیماری تھی وہ اب میڈیا پر آچکی ہے لیکن اب بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے اعلی ترین ہسپتالوں کو چھوڑ کر صدر صاحب کو ملک سے باہر علاج کیلئے بھجوانے کے لیے وزیر اعظم اور کا بینہ نے کیوں فیصلہ کیا ۔کیا انہیں اپنے ملک کے معالجین اور بالخصوص صدارتی معالجین پراعتماد نہیں ۔اگر ایسا ہے تو پھر وہ انہیں ساتھ ساتھ کیوں لیے پھر رہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ میمو ایشو پر حقانی صاحب کے منہ پر سچ آنے سے پہلے گوشہ عافیت میں پناہ لینے کو ترجیح دی گئی۔ حالات کو معمول پر آتے دیکھ کر محفوظ ہونے کا اشارہ پا کر اب صدارتی زبان نہ جو کہ غیر سیاسی ہوتی ہے نے وہی سیاسی لب ولہجہ اپنا شروع کر دیا ہے ۔چونکہ ہیلری صاحبہ نے بھی کلیرنس سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے کہ صدر صاحب وطن واپس جائیں گے اور مقتدر وزیر اعظم صاحب نے بھی اشارہ دے دیا کہ میں نے بھپرے عسکری طوفان کو بھی رام کر لیا ہے ۔ادھر این آر او کو فیصلہ بھی متوقع تھا تو اس سے بھی بلند فشار خون کا خطرہ تھا ۔ایسے گرم ماحول میں خون کے جم جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ ہیمرج کے امکانات ضرور بڑھ جاتے ہیں ۔ملک اور معاشرہ کس اذیت سے دوچار ہے ان حالات میں کوئی پاگل ہی سوچ سکتاہے اور ہمارے صدر محترم پاگل ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ آرٹیکل 6کے تحت کوئی پاگل اور دیوانہ اس عہدے کیلئے مجاز ہی نہیں ۔ ویسے بھی صدر صاحب کے حالات زندگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صاحب فراست اور موقع محل کے مطابق فیصلے کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ان کی زندگی کا آغاز اور اس عہدہ جلیلہ تک ان کی رسائی ان کی فراست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔صاحب فراست کبھی جان گنوانے کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ وہ سر سلامت ٹوپیاں ہزار کی منظق پر ایمان رکھتا ہے ۔سینٹ کے الیکشن کو زندگی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی سینٹ کے الیکشن کیلئے جان کو خطرہ میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ملک اور معاشرے سے محبت کے اسباق تو پاگل اور دیوانوں کے نصاب کا حصہ ہیں ۔ملک اور معاشرے کی خدمت کیلئے اپنے لیل و نہار کو قربان کرنا اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود کر دینا دیوانگی ہی تو ہے ۔ اسی لیے ہ] ]>