عصر حاضر کی تصویر کچھ اس طرح سے بن رہی ہے کہ انقلابات کی ایک لہر نے معاشرے پر یلغار کی ہوئی ہے ۔ عوام اس کے باوجود بھی کسی انقلابی اقدام کیلئے آمادہ نظر نہیں آ رہے ۔ اس کی جو وجہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو کسی بھی انقلابی لیڈر کے بیانات اور اس احساسات پر یقین نہیں ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹے ،فریبی ، مطلب پرست اور ابن الوقت ہیں ۔ ان کے دعوئوں میں اور حقیقت میں بہت فرق ہے ۔ ان کے بیانات سرآب یافتہ ہیں۔ یہ دکھاتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے ۔ یہ بتاتے کچھ ہیں اور تصویر کچھ اور ہے ۔ کشمیر اگر ان کی تندی بیانات سے آزاد ہوتا تو کشمیر سمیت آدھے ہندوستان کے ہم مالک ہوتے ۔ کشمیر کے نام پر انگلینڈ مکین سیاستدانوں کا جم غفیر کشمیر کیلئے تو شاید وہ نہیں کر پایا جو اپنی ذات کیلئے اور اپنے مفادات کیلئے کر گیا ۔ کشمیر کے وارث تو شاید بن نہ پائیں کیوں نہ اپنا کچھ سنوار جائیں ۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی لیکن پارٹی لیڈر کی شان میں گستاخی پر خون بہانے اور خون دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ عمران خان بھلے آدمی ہیں لوگوں کا خیال تھاکہ وہ کچھ تبدیلی لائیں گے۔ انہوں نے واقعی ہی تبدیلی کا دعوی سچ ثابت کر دیا ۔ انہوں نے سیاسی لٹیروں کو اپنی چھتری تلے پناہ دے کر فرشتوں کی تلاش متروک کر دی ۔ سیاسی لیڈروں کو اپنی پارٹی بدلنے کا نادر موقع فراہم کر کے انہوں نے اپنے انقلاب کو مکمل کر دیا ۔ انہوں نے انصاف کر دیا کہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کو ان کی پارٹیوں نے جو مقام نہیں دیا وہ انہیں دے کر تحریک انصاف کے قیام کے مقصد پورا کر دیا۔ شاہ محمود نے وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد ڈرون حملوں اور امریکہ کو بھی معاف کر دیا ۔ جاوید ہاشمی نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مصلحت کوشی سے نجات حاصل کر لی ۔ اب سب کو میاں نواز شریف کے خلاف کھل کر بولنے کا موقع اور پلیٹ فارم حاصل ہوگیا ہے ۔ میاں نواز شریف اس قوم کا مجرم ہو یا نہ لیکن ایسے مصلحت کوشوں کا ضرور ہے جن کی خواہشات اور مفادات کی راہ میں وہ حائل ہے ۔شاہ محمود کو بھی اب زرداری اور پیپلز پارٹی کے جرائم اور عوام دشمنی نظر نہیں آتی انہیں بھی صرف اپنی وزارت اعظمیٰ کیلئے جدوجہد کرنی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ہی یہ سیل لگائی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ میاں نوازشریف کے ہوتے ہوئے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ میاں نواز شریف کا الحاق کیسے اس صورت حال میں ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ بھی زرداری کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں اے این پی بھی شامل ہے ۔ ڈرون حملے اور ملک میں امن وامان کی صورت حال کا کون ذمہ دار ہے ۔ کیا نوازشریف کا یہ قصور ہے کہ اس نے ابھی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کیلئے فوج سے رابطہ استوار نہیں کیا۔ کیا نواز شریف کا یہ قصور ہے کہ اس نے ابھی امریکہ کے مطالبات کے سامنے اور اس کا مہرہ بننے سے ابھی تک انکار کیا ہوا ہے ۔ نواز شریف کیسے جمہوری طریقے سے روکے ۔ پارلیمنٹ میں زرداری کے خرید کردہ غلاموں سے کیسے عوام کے حق میں ووٹ لیا جائے اور صدائے احتجاج بلند کرائی جائے ۔ مولانا فضل الرحمن ، الطاف حسین اور ان کے حواری، اسفند یار ولی بمعہ اپنی رفقاء مشرف کی باقیات ق لیگ کے چوہدری سب ایک طرف ہیں ۔ نواز شریف ایک طرف عوام کیلئے صدا ئے احتجاج بلند کرتا بھی ہے تو میڈیا اس کی آواز کا ساتھ دینے کی بجائے بے وقت کی بانسری بجانے والے شیخ رشید اور پٹے ہوئے مہروں کی ہاہکار سے یہ صدا بھی دبا دیتا ہے ۔ بلوچستان حکومت کے بارے میں عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ وہ عوام کی خدمت کرنے میں ناکام ہو گئی۔ عدلیہ کا فیصلہ صاف نظر آتا ہے کہ مبنی بر
حقیقت ہے۔ سپیکر بلوچستا ن اسمبلی نے جب اس حقیقت کو تسلیم کیا تو جھوٹے سردار اس کے خلاف ایک ہو گئے ۔ حق کا ساتھ دینے کیلئے ایک ووٹ اور حق کی آواز کو دبانے کیلئے 47ووٹ ڈالے گئے ۔ کیسے بلوچوں اور بلوچستان کو حقوق مل سکتے ہیں۔ کیا اب بھی بلوچ پاکستان اور پنجاب کو مئورد الزام ٹھہرایں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو کیسے واضح کیا ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی اس کا یقین نہیں کرتا تو پھر یہ واضح ہے کہ وہ کسی کا خریدا ہو امہرہ اور اپنے مفادات اور خواہشات کا آسیر وغلام ہے ۔ سندھ ہو یا پنجاب سب کے ساتھ یہی معاملہ ہے ۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی لوگ ہیں ۔ یہ حقوق دینا ہی نہیں چاہتے تو پھر اس کیلئے فنڈز اور قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے ۔ سیاست کو سرمایہ کاری تو پہلے ہی قرار دیا جا چکا ہے لیکن زرداری دور میں زرداری جب مفادات کے حصول کیلئے ذات بدل کر سامنے آئے تو یہ واضح ہوا کہ ان کیلئے اقتدار کتنا قیمتی ہے اور اقدار کتنی غیر اہم ہے ۔ان قدروں کے حاملین سے عوام جانے کیسے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کر یں گے ۔ سیاست میں کس کس نے کیا کیا قربانی دی اور کس لیے دی اور اس احسان کا بدلہ وہ کس سے اور کتنا وصول کر چکے ہیں۔افکار مر گئے ، اجداد کی سنہری باتیں محو کر دی گئیں ۔ خود پرست اور خود نما زندہ کر دئیے گئے ۔ جالب مر گیا ، طالب زندہ ہے۔ ذاتیات کے مجسمے گھڑ کر ان کی پرستش کی روایت نے ایک قوم کو جو پاکستانی کہلاتی تھی قومیتوں ، گروہوں ، زبانوں ، قبیلوں اور مفادات میں تقسیم کر دیا ۔ آج یہ سب زندہ ہیں پاکستانی مر چکا ہے ۔ پاکستان اپاہج ہو گیا ہے ۔ اس کے دست و بازو برد ہو گئے ۔ اب ہیولہ باقی ہے روح غائب ہے ۔ ان مفاد پرستوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل میں حائل پاکستانیات کے اسباق کو سندھی ، بلوچی، پٹھان ، کشمیری ، مہاجر میں تبدیل کر دیا۔ ان کیلئے سرداری ، جاگیرداری، سرمایہ داری، صنعتکاری پاکستانیات سے بہت اہم ہے ۔ پاکستان ان کیلئے صرف اس لیے اہم ہے کہ یہ ان کی خواہشات کی تکمیل کا پلیٹ فارم ہے ۔ یہ اسے صرف اس لیے قائم دیکھنا نہیں چاہتے کہ انہیں پاکستان سے محبت ہے ۔ انہیں اس لیے اس کا تحفظ درکار ہے کہ اس میں ان کی اجارہ داریوں کیلئے جگہ ہے ۔ اسی لیے تو قرارداد مقاصد میں واضح طور پر احکامات الہیہ کے نفاذ کے شق ہونے کے آج تک اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ کیونکہ پھر مساوات برتنی پڑتی اور حق تلفی پر عدالت میں مدعی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ۔ پھر یہ خود کو دولت کے زور پر حلقہ کے عوام پر مسلط نہیں کر پاتے ۔ اسلام تو ان کی خواہشات کی راہ میں سب سے بڑ ا روڑا بن سکتا ہے ۔ اس لیے تو اسلامی نظام کے نفاذ پر انہیں کراہت ہوتی ہے ۔سب اسلام کو پاکستان کے نام کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر کے بھی ان کے دامن پر داغ لگانے سے قطعی گریز نہیںکرتے ۔ بھٹو تھوڑی سی پی کر بھی اسلامی سوشلزم کے دعویدار رہے ۔ بی بی آذان بجا کر بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئیں۔ اندھی عقیدتوں کے حاملین کو صرف نہ ملک سے کوئی غرض ہے ، نہ اسلام سے ،انہیں غرض ہے تو صرف کہ انہیں ان کے در سے ان عقیدتوں کے عوض انکم سپورٹ کارڈیا کچھ نقد ملا ۔ انہیں اس کے عوض تھانے کچہری میں ظالم ہونے ہونے ، جابر ہونے ، قابض ہونے ، مافیا ہونے کے باوجود پروٹوکول ملا ۔ یہ چہرے بدل کر یہ نعرے بدل کر ، یہ جماعتیں بدل کر ، یہ بہروپ بھر کر اسی طرح عوام کو بیوقو ف بناتے ہیں ۔ عوام وسعت نظری کی بجائے ذاتی مفادات اور خواہشات کو مدنظر رکھ کر ان کے ہاتھوں یرغمال بن رہتے ہیں۔ انقلاب کون لائے گا اور کیسے لائے گا۔ جھوٹے نعرے اور جھوٹ کی ترویج کیلئے کوشاں سے حق کی نوید سحر کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ۔