Home / Socio-political / کیوں نہ یوں کیا جائے

کیوں نہ یوں کیا جائے

                         

کیوں نہ یوں کیا جائے
          عباس ملک

 اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا ادارہ اسلامی شریعت کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔اس کے دائرہ کار میں اسلامی قوانین سے متصادم قوانین کی نشاندہی شامل ہے۔ اسی طرز کا ایسا ادارہ بنایا جائے جو اسلامی شریعت سے متضاد رسومات و عقائد کی نشاندہی کرے ۔انہیں بحث وتمحیص کے بعد معاشرے سے دور کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قانون سازی کی جائے ۔یہ ایسے ہی ہو جیسے قادیانی کو  غیر مسلم قرار دینے کیلئے کی گئی ۔ ہر طبقہ فکر کے عالم اپنے موقف کا دفاع قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر آ کر کریں ۔اگر وہ ثابت کر پائیں تو درست اور اگر وہ ثابت نہ کرپائیں تو اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے ۔ قومی اسمبلی تمام مکتبہ فکر سے قطعہ نظر سب کو پابند کرے کہ وہ جلسے اور جلوس سیاسی اورمذہبی مخصوص مقامات کے اندر ادا کریں۔ ملک وقوم کی سلامتی اور امن وامان کے ساتھ یکجہتی کو مدنظر رکھ کر مذہبی اور سیاسی اکابرین کو اس پر دل وجان سے عمل کرنا چاہیے۔ ہمارے علما اکرام میں حق بات کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے ۔ انہیں خود رسول پاک ﷺ کے دین انور سے ایسی تمام بدعات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر کے حق ولائیت ادا کرنے میں تامل کیوں ہے۔ایسی رسومات جو اسلامی شریعت اور اسلامی تعلیمات سے واسطہ نہیںرکھتی کو غلط کہنا یا انہیں مناسب خیال نہ کرنے میں ذاتی ونفسانی خواہشات کے سوا کیا امر مانع ہو گا۔

 دین کی اجارہ داری سرکار دو عالم ﷺ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ شریعت کے دیئے ہوئے سکیچ میں اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے رنگ بھرنے والوں کو سرکار کی نوید پر غور کرنا چاہیے۔ سرکار دو عالم صاحب معراج کی ذات کی توصیف اور ان کی ذات کے اختیارات کے حوالے سے بحث کرنے والے لوگ اعلیٰ کبھی نہیں ہوسکتے ۔ یہ اعلیٰ کام نہیں بلکہ سطحی سوچ کے علمبردار ہیں۔ ان کی سطحی سوچ انہیں اکساتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو بلند کرنے کیلئے سرکار کی ذات کو استعمال کریں۔ بلند کرنا ہے تو سرکارکے بتائے ہوئے رستے پر چل کر خود اور خودی کو بلند کرو ۔ دیکھو کیسے سر بلند ہوتے ہو۔

ذاتی مفادات کیلئے دین کو استعمال کرنے کی بجائے سرکار کی امت کو یکجا کرنے کیلئے دین انور کو استعمال کرنے میں آخر کیوں طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ خوف آتا ہے کہ اس طرح تو سب مساوی ہو جائیں گے۔ مساوی سب نہیں ہوتے یہ قائدہ ہے۔ برتری تقویٰ کی بنیاد پر حاصل رہتی اور رہی ہے کہ سرکار کا بیان اور واضح طور پر قرآن پاک میں آیت نص موجود ہے ۔ برتری کا قائم کرنے کیلئے تقوی کیوں اختیار نہیں کیا جاتا ۔ تکیہ پر پر بھروسہ کر کے اسلامی شریعت سے آنکھیں پھیر لینے میں ذاتی آسانی کا رستہ تلاش کر لیا گیا۔ بزرگوں کی ریاضتوں کی کمائی سے دین کی خدمت سرانجام نہیں دی جاسکتی ۔اس کیلئے ذاتی کاوش و سعی کی ضرورت ہے۔ اگر بزرگوں کی ریاضت کافی ہوتی تو پھر سرکار دو عالم ﷺ اور ان کے اصحاب کے بعد کسی اور ریاضت کی ضرورت شاید تاقیامت نہ ہوتی۔

ذات کو ابھارنے کیلئے ذات کے سہارے کھڑے شریعت کے قلعے میں مفادات کے اتنے شگاف ہیں جہاں سے نفاق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اسلام کی خدمت میں ذات کا کوئی عمل نہیں بلکہ یہ ذات پاک کی پیروی اور نام کی سربلندی کامشن ہے ۔ اسے محدود کرنے سے لازمی ہے کہ مشن ومقاصد اور اس کے نتائج بھی محدود ہی ہونگے ۔اس کا فائدہ محدود کمیونٹی لیکن اس کے نقصانات لامحدود اور معاشرے کیلئے انتہائی زہر آلودہونگے۔ دین ایک شخص یا محدود کمیونٹی کیلئے رائج نہیں ہوا بلکہ کل انسانیت کیلئے ہے۔ جب اسے ذاتیات کا پراہن اوڑھا دیا جائے تو اس سے مستفید ہونے والے بھی محدود ہی ہونگے ۔

اسلام کو اپنی میراث اور اس پر اپنی عمل داری قائم کرنے کی بجائے نافع کل بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بیشک علم علما کی میراث ہے لیکن علما اجارہ داری کی بجائے اس عام فہم بنانے پر توجہ کیوں نہیں دیتے ۔زندگی کے عام مسائل اور فروعی مسائل کو متفقہ بہ مسائل قرار دے کر ایک فورم سے ان سے برآت کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا ۔ قرآن پاک میں احکامات موجود ہیں اور ان کی عملی تفسیر سرکار دوعالم ﷺ کی حیات انور میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر کچھ اعمال واضح نہیں ہو ئے تو اکابرخلفا راشدہ اصحابہ کرام کی زندگیوں میں ان کا عکس تلاش کیا جا سکتا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد کوئی ایسا مسلہ رہ جاتا ہے جو عام معاشرتی زندگی میں فیصلہ کن رہ جائے ۔ ذاتیات اور نفس کو مارنے کی ضرورت ہے اور علماء اکرام کا انا کے خول سے باہر آنا مقصودہے ۔

 علما ء جس طرح آ کر بعدا ز قرون اولیٰ کی روایات کی ترویج اور ان کی سپورٹ کیلئے متحرک ہوتے ہیں اگر وہ یہی طرزفکر وعمل اسے کے خاتمے کیلئے اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام میں داخل مشرکانہ اور ہندئوانہ رسوم کا قلعہ قمع نہ ہو جائے۔ اولیا ء اکرام نے تبلیغ دین کیلئے کچھ طریقے استعمال کیے تھے لیکن وہ مشرکانہ معاشرے کی ضروریات کے پیش نظر رکھ کر انہیں متوجہ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کیلئے وقتی حربے تھے ۔ ان کا مستقل اسلامی شریعت کے ساتھ الحاق بھی بگاڑ کا سبب ہے ۔

 حنفی بریلوی مکتبہ فکر کا تقلید کار اور پیروکار ہونے کے ناتے اکابرین سے یہ سوال ہے کہ سجدہ تحریمی جو کہ پیر حضرات کیلئے جائز قرار دیا جا رہا ہے کس طرح جائز قرار دیا گیا۔ عرس کے نام پر جو کچھ ہوتا کیا وہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسی طرح پیری فقیری کی آڑ میں جو زائد امور داخل از اسلام کیے گئے ہیں ان کی تطہیر کیوں نہیں کی جاتی ۔ ہر خاص وعا م تعویذاور جھاڑ پھونک اور رزق واولاد شفاء اور حیات تقسیم کرنے میں مصروف کارہے۔ کلمہ گو ایک آواز ہو کر کلمہ تو پڑھ نہیں سکتے ان میں اور کس بات پر اتحاد ویکجہتی آ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر سرکار کے بارے میں دیوبندمکتبہ فکر اپنے قیاس و آرا سے گریز کرے تو کیا اس سے اسلام کی تبلیغ اور ملت اسلامیہ کی یکجہتی میں اضافہ نہیں ہوگا۔کفر وشرک کے فتویٰ اگر قادیانی گروہ کے خلاف اجتماعی طور پر آ سکتے ہیں تو کیا اکثریت کے خوف سے ایسی جمیعت جو اسلامی عقائد کے مخالف ہو کو عقائد کو اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے خلاف اسلام قرار دینے میں مصلحت کوشی کیوں اختیار کی جاتی ہے۔ دنیا میں ہندو کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی کروڑوں ہیں اگر انہیں اسلامی تعلیمات سے متضاد عقائد پر کافر اور مشرک قرار دیا جاتا ہے تو کلمہ پڑھ کر اسلامی شریعت سے انحراف کرنے والے کے خلاف اقدام اٹھانے میں مصلحت کیوں ۔اسلام مصلحتوں کا آسیر کیوں بنایا گیا ۔ اسے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع سے منسوب کرنے کی بجائے ذاتیات تک محدود کرنے والے کیا خود کو داعی اسلام اور محب مصطفی قراردینے میں کس حد تک صادق ہیں ۔ کیا وہ خود کو صادق اور آمین قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *