غلام مصطفی رضوی
Cell.09325028586
اللہ کریم نے بندوں پر فضل فرمایا۔ کرم و انعام کی بارش نازل کی۔ قسم قسم کی نعمتیں اتاریں۔ پھر جانِ نعمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھیج کر اِتمامِ نعمت فرما دیا۔ وہ کرم فرمایا کہ اپنے آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت میں ہمیں کیا۔ ہم اپنے رب کے احسانات کا شکر کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ اس کی نعمتوں کا شمار کیسے کر سکتے ہیں۔ اس کے فضل و کرم کا احاطہ کیسے کر سکتے ہیں۔لیکن! اس کی تسبیح و تحلیل تو کر سکتے ہیں۔ اس کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ تو کر سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کو نیک راہ پر گام زن تو کر سکتے ہیں۔
کچھ راتیں ایسی ہیں جنھیں امت مسلمہ پر فضل و کرم کی ”صبح روشن“ کہیں تو بجا ہو۔ یہ راتیں ایسی ہیں جن میں مغفرت و انعام کے توشے تقسیم ہوتے ہیں۔ رحمتوں کی بادِ بہاری چلتی ہے۔ انعامات کے دروازے کھلتے ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کرم و عطاسے دامن بھرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رات ہے ”شبِ برأت“ یہ شبِ برأت بھی ہے شبِ نجات بھی، شبِ مغفرت بھی ہے شبِ نعمت بھی، شبِ برکت بھی ہے شبِ رحمت بھی۔ اس میں رب تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ دروازے کھلتے ہیں کہ صدق دل سے گناہوں پر ندامت کرنے والا ان رحمتوں سے بڑا حصہ پاتا ہے۔ سعادتوں سے نوازا جاتا ہے۔ نعمتوں سے مالا مال ہوتا ہے۔
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں گناہوں پر صدق دل سے ندامت و توبہ سے گناہوں سے رہائی و برأت کا پروانہ ملتا ہے۔ دوسرے مذاہب جو ان کے ماننے والوں کے ہاتھوں اپنی حقیقت کھو بیٹھے ہیں ان میں تصورِ گناہ غیر فطری ہے۔ کرسچین کو دیکھیں وہ ہفتہ بھر گناہ کرتے ہیں، اتوار کو چرچ جاتے ہیں، ان کے پروٹسٹنٹ کو رقم دے کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرواتے ہیں اس طرح مذہب بھی ان کے یہاں تجارت بن چکا ہے۔ پھر ان کے مذہبی پیشوا کو گواہ بنا کر توبہ جو ہوتی ہے اس میں بے آبروئی بھی ہوتی ہے اور استحصال بھی۔ پھر ہر اتوار کو ”توبہ“ اور ہفتہ بھر ”گناہ“ یہ معاملہ ایک مذہبی مذاق بن چکا ہے۔ اسلام نے توبہ و ندامت کابارگاہِ رب میں ہونا ایسا مخفی رکھا جسے ہم ستارالعیوب کا فضل کہیں۔ اس نے گناہوں کو بے پردہ نہ ہونے دیا۔ توبہ کا بھی معاملہ ایسا کہ سچی توبہ وہی ہے جو آئندہ گناہوں سے باز رکھے اس طرح صالح معاشرے کی تشکیل بھی آسان ہے۔
شبِ برأت در اصل ایک طرف انعامات کی رات ہے تو دوسری طرف گناہوں سے تائب ہونے والے کے لیے پروانہٴ نجات ہے۔یہ خود احتسابی کی رات ہے۔ یہ اعمال پر نظر ثانی کی رات ہے۔ یہ صالح فکر کی تشکیل کی رات ہے۔ یہ پاکیزہ خیالات کی تعمیر کی رات ہے۔ گریہ وزاری کی رات ہے۔ درسِ حیات ہے۔ سراپا برکات ہے۔ آئینہٴ اعمال ہے۔ گنجینہٴ آخرت ہے۔ خزینہٴ جنت ہے۔ عطائے ایزدی ہے۔ عنایتِ نبوی ہے۔ عمل کی کشتِ گل زار ہے۔ عقیدے کی جِلا کا مژدہ ہے۔ فکر کے درخشاں چہرے کا غازہ ہے۔
شبِ برأت کی آمد آمد ہے۔ اس مبارک موقع پر ایک دوسرے کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کریں۔ آپس میں کوئی اختلاف ہو تو دور کر لیں۔مجھے یہاں ایک نہایت اہم پیغام یاد آرہا ہے جو امام احمد رضامحدث بریلوی (۱۸۵۶ء-۱۹۲۱ء) نے تحریر فرمایا ہے۔ اس اصلاحی پیغام کو آپ بھی پڑھیں اور اپنی زندگی کے گلستاں میں بسا لیں تا کہ حیات کا ہر ذرہ مہک اٹھے، محدث بریلوی فرماتے ہیں:
”شب برأت قریب ہے۔ اس رات تمام بندوں کے اعمال حضرت عزت(جل جلالہ) میں پیش ہوتے ہیں۔ مولیٰ عزوجل بطفیل حضور پر نور شافع یوم النشور علیہ افضل الصلاة والسلام مسلمانوں کے ذنوب (گناہ) معاف فرماتا ہے۔ مگر چند ان میں وہ دو مسلمان جو باہم دنیوی وجہ سے رنجش رکھتے ہیں۔ فرماتا ہے ان کو رہنے دو۔ جب تک آپس میں صلح نہ کر لیں۔ لہٰذا اہل سنت کو چاہیے کہ حتی الوسع قبلِ غروبِ آفتاب ۱۴/شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کر دیں یا معاف کرا لیں کہ باذنہ تعالیٰ حقوق العباد سے صحائفِ اعمال خالی ہو کر بارگاہ عزت میں پیش ہوں، حقوق مولیٰ تعالیٰ کے لیے توبہٴ صادقہ (سچی توبہ) کافی ہے۔ اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہ۔ ایسی حالت میں باذنہ تعالیٰ ضرور اس شب میں امید مغفرتِ تامہ ہے بشرطے کہ صحتِ عقیدہ…“
بہر حال یہ فضل و کرمِ مولیٰ ہے کہ ہمارے اعمال کے نکھارنے کے لیے اور عقیدے کو سنوارنے کے لیے شبِ برأت جیسی مقدس رات عطا کی گئی، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس موقعے کا فائدہ اٹھائیں، نیک اعمال و عبادات کا اہتمام کریں، درود و سلام کی کثرت کریں، نوافل کا اہتمام کریں۔ ہاں یہ ملحوظ رہے کہ اگر ہمارے ذمہ قضا نمازیں باقی ہیں تو بجائے نوافل کی ادائیگی کے قضا نمازیں ادا کریں اور رب رحمن و رحیم سے امید رکھیں کہ وہ نوافل کا ثواب بھی اپنے فضل سے عطا فرمادے گا۔رب کی رضا کا سامان کریں، گھومنے پھرنے، غیبت چغلی، اور آوارگی میں یہ رات گزار دینا سخت محرومی ہے۔ اللہ کریم اپنے محبوب سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل ہمیں اس رات کے برکات و حسنات سے وافر حصہ عطا فرمائے اور ہمیں اپنی اصلاح کی سچی توفیق دے۔ آمین۔
###