پاکستان اور ہندستان کے اخبارت میں آئے دن طالبان کے حوالے سے اس طرح کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں کہ کہیں سوات کے معاہے سے طالبان خود سر نہ ہوجائیں اور سوات کے بعد دیگر علاقوں پر بھی اس طرح قابض ہونے کی کوشش مہ کریں ۔ صحافیوں کے ان خد شات کے درمیان مسلم لیگ(ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کا یہ بیان کہ ‘‘ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اورطالبان سوات کے ساتھ متنازعہ امن معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی طالبان سوات کے بعد دیگر علاقوں پر بھی کنٹرول چاہتے ہیں، عسکر یت پسندی سے نمٹنے کیلئے اعتدال پسندطالبان سے مزاکرات ہونے چاہیں‘‘ نواز شریف صاحب نے اس بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ اس کا حل طاقت کا استعمال نہیں ۔بالکل درست لیکن اگر عسکری طاقت نہیں تو سیاسی طاقت کی ضرورت تو پڑے گی ! کیا اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہو کر کوئی لائحہ ٴ عمل طے کر پائیں گی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو یقیناً سوات کے بعد دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کی کوششیں کی جائیں گی، سوال یہ نہیں ہے کہ شریعہ لا درست ہے یا نہیں ؟ یون بھی شریعت کے معاملے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ کیونکہ شریعت کا قانون سب سے اولیٰ ہے ۔لیکن بات اس کے نفاذ کی ہے اور یہ معاملہ طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے ۔ ایک ہی خطے میں دو قانون کیسے چل سکتا ہے ؟ اور جس طرح سے ابھی ایک خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ساری دنیا میں اس کی مخالفت ہوئی اور پردے کے حامیوں نے ہی سر عام ایک لڑکی کو بے پردہ کیا اس کا جواز کیا ہے ؟ یہ بھی تو سوچنا پڑےگا۔ اس کے علاوہ اگر شریعہ لا لانا ہے تو اس کے لیے بھی سنجیدگی اور متانت سے کام ہو سکتا ہے ۔لیکن جس انداز سے سوات میں صوفی محمد صاحب اور سیاسی لوگوں کے درمیان خیالات کی غیر ہمواری ہے اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔ سب کو معلوم ہے کہ اسلام اور جمہوریت میںٕ کوئی تضاد نہیں ۔ اسلام نے ہی جمہوریت کی راہ دیکھائی ہے ۔تو پھر جمہوریت اور شریعہ کے درمیا ن یہ تضاد کیوں ہے ؟
ان تمام اور اس جیسے اور بھی سوالوں کے جوابات ہمیں ڈھونڈ نے ہوں گے اور مثبت طرز پر بحث و مباحثے کو راہ دینی ہوگی تو شاید رائے عامہ ہموار ہوسکے۔