پاکستان اپنی جمہوری اور سیاسی تاریخ کے سب سے سنہری دور میں کھڑا ہےاور یہاں تک پہونچنے کے لئے تمام فریقین نے اپنے سیاسی مفادات کے باوجود بے مثال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں شفاف انتخابات کی تکمیل کے لیے نگراں حکومت کا قیام ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر سبھوں کی نظر تھی اور گمان غالب تھا کہ وزیر اعظم کے معاملے میں ضرور کچھ نہ کچھ تلخیاں پیدا ہونگی لیکن الیکشن کمیشن کی دانش مندی نے اس مسئلے کو بھی حل کر لیا اور ملک کو میر ہزار خان کھوسو جیسا نگراں وزیر اعظم دیا جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت عوامی توقعات پر بالکل پوری نہیں اتری لیکن اس نے انتقامی سیاست سے گریز کیا اور یہ کارنامہ اس حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس ضمن میں آصف علی زرداری کی تعریف بھی کرنی ہوگی کہ انہوں نے صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے صدر دونوں عہدوں پر اپنی اہلیت کو ثابت کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلوں سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے نائب صدر ہیں بلکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کہ پاکستان جیسے ملک میں سیاست کیسے کی جاتی ہے اور سیاسی شطرنج کی اس بساط پر شہ اور مات کیسے دیا جاتا ہے۔ شہ اور مات کی بہترین مثال نگراں حکومت کے قیام کے وقت سامنے آئی جب پیپلز پارٹی نے امیدواروں کی ایسی ترتیب سامنے رکھی جو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی میر ہزار خان کھوسو تک پہونچی اور جسے نواز لیگ نے بھی بہ سروچشم قبول کر لیا۔ دوسرا مرحلہ پنجاب میں نگراں وزیر اعلی کے قیام کا تھا اور یہاں بھی بازی آصف علی زرداری کے ہاتھ ہی رہی۔ نجم سیٹھی کو نگراں وزیر اعلی کے لئے سامنے رکھ کر انہوں نے مخالفین کو حیران کر دیا۔ سندھ اور بلوچستان میں تو ان کے مخالفین تھے ہی نہیں اور تھے بھی تو برائے نام تھے۔
اب رہ گئی بات عام انتخابات میں کامیابی اور نا کامی کی تو یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے زمین پر کچھ ایسا نہیں کیا ہے جسے لے کر وہ عوام کے پاس جا سکیں۔ ان کے کار کن تو خیر کسی بھی حال میں ان کے ساتھ ہی رہیں گے تاہم صرف کارکنوں سے انتخابات میں کامیابی ملنی مشکل ہے اور عوام ان سے ذرا بد دل ہے۔ در اصل اس حکومت کے پورے پانچ سال اپنے وجود کو بچائے رکھنے کی تگ و دو میں صرف ہو گئے جبکہ عوام کو جمہوریت اور آمریت سے کوئی مطلب نہیں ہے اسے تو بنیادی سہولیات درکار ہیں جو پچھلے پانچ سالوں میں اسے نہیں مل سکی ہیں۔ عوام کو کیا خبر کہ حکومت کو کس طرح کے مسائل درپیش ہیں اور جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے۔
اب اگر پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی نتائج پر غور کریں تو وہ کچھ اس طرح ہوگا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا البتہ نئی حلقہ بندیوں سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایک دو نشستوں پر ان کے نقصان کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ نیشنل اسمبلی کے انتخابات میں ابھی تک کوئی ردو بدل نظر نہیں آ رہا ہے۔ پنجاب میں یوں تو مسلم لیگ نواز نے اپنے ووٹ بچا کر رکھے ہیں تاہم ایسا بھی نہیں ہوگا کہ پنجاب حکومت سے ہر آدمی خوش ہو لہذا Anti Incumbency کا پنجاب میں کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دے گا اور دو فیصد ووٹوں کا ادھر ادھر ہونا کئی نشستوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں نوجوان عمران خان سے متاثر ہیں اور وہ بھی جو دونوں بڑی جماعتوں سے اکتا گئے ہیں۔ عمران خان ووٹوں کے معاملے میں شاید خوش قسمت رہیں تاہم نشستوں کے معاملے میں ان کی جماعت بہت زیادہ کچھ نہیں کر پائے گی۔ بلوچستان میں جمہوری وطن پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ایک خوش آئند قدم ہے لیکن پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بلوچستان کے حالات انتخابات کی اجازت دیتے ہیں۔ میر حاصل بزنجو، سردار اختر مینگل اور طلال بگٹی یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان سے جب تک ایف ۔سی کو نہیں ہٹایا جاتا ہے ، جب تک فوج کی سر گرمیاں کم نہیں ہوتی ہیں تب تک وہاں انتخابات نہیں ہو سکتے ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بلوچستان میں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور صورت حال تھوڑی بہت تبدیل ہوگی بہت زیادہ کی امید نہیں کی جانی چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں بھی زیادہ تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ کل ملا کر پنجاب میں کچھ تبدیلی کی امید ہے اور یہ تبدیلی بہت بڑی تبدیلی ہوگی کیونکہ پاکستان کی کل ۲۷۲ قومی اسمبی کی نشستوں میں ۱۴۵ پنجاب میں ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے انتخابات کے نتائج پر بڑا فرق پڑنے والا ہے یہ سوال بہر حال بر قرار ہے کہ فرق کس طرح کا ہوگا۔