Home / Socio-political / عدلیہ اور عوامی توقعات

عدلیہ اور عوامی توقعات

                        

عدلیہ اور عوامی توقعات
                  عباس ملک

عوام کو عدلیہ سے کافی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ فی زمانہ ایسی کوئی اور طاقت نہیں جو اس اخلاقی گراؤٹ کا شکار معاشرے کو اپنی صیح سمت کی جانب موڑنے کی طاقت رکھتی ہو۔ عوام اس کیلئے عدلیہ کی جا بجا اور بیجا حمایت بھی کرتے ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ بیشک ملکی ایشوز پر فیصلے صادر کر کے  اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے ۔ عوام یوں محسوس کر رہے ہیں جیسے اعلیٰ عدلیہ صرف طبقہ اشرافیہ کیلئے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے ۔ صدر ، وزیر اعظم ان کے رفقاء اور ان کے احباب کے سوا کسی کی داد رسی کیلئے وقت دینا سپریم کورٹ کی ذمہ داریوں میں شاید شامل نہیں ۔ عوام سے متعلقہ مسائل کی شنوائی کیلئے مناسب وقت نہ دینے کے سبب عوام میں یہ احساس محروی اب شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ جس عدلیہ کی بحالی کیلئے انہوں نے قربانی دی وہ بھی ان سے وفا کرنے کی بجائے طبقہ اشرافیہ کیلئے مخصوص ہو گئی ہے ۔اعلیٰ عدلیہ پارلیمانی جھگڑوں اور آئینی موشکافیوں کی تشریح کرنے میں اس قدر منہمک ہے کہ اسے عوام سے براہ راست متعلقہ مسائل کی طرف توجہ دینے کیلئے مناسب وقت نہیں مل پا رہا ۔ انصاف میں تاخیر اور اس کا گراں ہونا انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن کر عدلیہ کے دامن پر داغ بن رہا ہے ۔اعلیٰ عدلیہ جہاں پر اکابرین کے مقدمات کی بلا تاخیر سماعت کر رہی ہے وہاں پر ماتحت عدلیہ ڈسڑکٹ کورٹس وغیر ہ میں آج بھی غریب اور متوسط طبقہ کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جو عدلیہ بحالی تحریک سے پہلے تھا ۔لمبی لمبی تاریخیں اور تاخیری حربوںکا استعمال ایک طبقہ کی آمدن کا ذریعہ اور انصاف کی فراہمی میں بنیادی رکاوٹ ہے ۔طبقہ اشرافیہ دولت کے ذور پر انصاف کے دروازے عام آدمی کی استطاعت سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جس وقت انصاف کا دروازہ عام آدمی کیلئے کھولتا ہے تو وہ اس وقت اپنا دنیا میں وقت یا تو پورا کر چکا ہوتا ہے یا پھر آخری دم پر ہوتا ہے ۔اس کے جمع پونجی انصاف کے حصول میں خرچ ہو کر وہ مقروض ہو چکا ہو کر معاشرے میں بے وقعت اور بے عزت ہو چکا ہوتا ہے ۔انصاف کی فراہمی میں دیر انصاف کے میسر نہ ہونے کے مساوی اور مترادف قرار دی جاتی ہے ۔دیوانی کیسوں میں تو یہ صورتحال تشویشناک حد تک انصاف کے نہ ہونے کی مساوی ہے ۔دیوانی مقدمات کو اس قدر لٹکایا جاتا ہے کہ اس کیلئے سالہا سال کی بجائے عمر خضر کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ انصاف کی گراں ہونے سے بھی کسی غریب عام متوسط آدمی کی سوچ یہیں تک محدود ہو تی ہے کہ اتنا خرچ کر کے بھی شاید وہ انصاف کی دہلیز بھی کراس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو ۔ اس لیے انصاف کے دروازے پر دستک دینے کی بجائے مصلحت کی دہلیز ہی پر اکتفا کر لیا جائے ۔ اس مصلحت کوشی کے سبب عام طور پر کئی ایسے حقیقی مقدمات جو معاشرے کی اخلاقیات پر بری طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں نظر انداز ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے میں اس کی انصاف کی تاخیر سے انصاف کی عدم فراہمی کا تاثر پختہ ہو کر مظلوم کو احساس محرومی سے دوچار کر تا ہے ۔ اسے اگے وہ ظالم کیلئے یہ تاثر پختہ کرنے کا سبب بنتا ہے کہ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں وہ جو چاہے کر لے اس کے گریبان تک کوئی ہاتھ آ ہی نہیں سکتا ۔ اس لیے وہ مزید دلیری کے ساتھ ظلم کا تسلسل شروع کر تا ہے ۔ایسی چند مثالیںبھی موجود ہیں جن میں انتقاما٘ ظلم کے راہ اختیار کرنے کا سبب انصاف کی عدم فراہمی اور اس میں تاخیر کو سبب گردانا گیا ہے ۔جب انسان سوچتا ہے کہ اس کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں یا اس کے درد کی دوا کسی کے پاس نہیں یا پھر اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں تو پھر اس اندھیرے میں اسے اپنی ذات ہی منصف اور اپنی ذات ہی مسیحا نظر آتی ہے ۔اس تنہائی کے عالم میں وہ خود کو ہی مدعی اور خود کو ہی منصف قرار دے کر خود ساختہ عدالت قائم کر کے اپنا مقدمہ خود ہی لڑتا ہے ۔ خود ہی دلائل دیتا ہے اور خود اس کا رد کرتا اور خود ہی فیصلے صادر کرتا ہے ۔ اکابرین اور طبقہ اشرافیہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری آسانی سے ہو سکتی ہے او ر اس میں توسیع ہو تی ہے ۔انہیں مقدمات میں شخصی پیشگی سے استثنا ء بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ انہیں ذرا سی تکلیف پر فوراً میڈیکل کی سہولت فراہم ہو جاتی ہے ۔انہیں اے کلا س اور بی کلا س کے تحت سہولیات فراہم کرنے کیلئے قانونی اورآئینی چھتری فراہم ہوتی ہے ۔ انصاف سب کیلئے اور مساوی انصاف کا نعرہ ان تمام نکات کے سامنے سرنگوں اور دم توڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔انصاف غریب کی دہلیز پر تو کیا غریب انصاف کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑتا منصف کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔ مان لیا جائے کہ معاشرے میں غریب کے مسائل اور مقدمات کی تعداد  زیادہ ہونے کے سبب ان کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ہے ۔طبقہ اشرافیہ کے چند فیصد کے مقدمات کو بھی نبٹانے کی صلاحیت بھی ہمارے انصاف کے محکمہ میں نہیں ہے ۔عوام کے تناسبی مقدمات کی زیادتی انصاف کی فراہمی اورتاخیر کا سبب ہے پھر ایسی کون سی امثال و روایات قائم کی گئی ہیں جن کی وجہ سے طبقہ اشرافیہ اور اکابرین کو یہ محسوس ہو ا ہے کہ وہ بے لگام اور مختار کل نہیں بلکہ ان کے سامنے انصاف کی مضبوط دیوار ہے ۔ انہیں اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہونا پڑے گا ۔وہ ظلم کرنے اور کسی کا حق مارنے کیلئے آزاد نہیں بلکہ قانون اور آئین کے مضبوط ہاتھ اس کو اپنی گرفت میں لے لیں گے ۔ سالہا سال کے انتظار کے باوجود بھی ابھی تک انصاف کے دیوتا ابھی تک چنداں ایسی امثال پیش کرنے میں کیوں ناکام ہیں ۔ا ختیار و اقتدار کے غلط استعمال صاف نظر آنے کے باوجود بھی قانون کی گرفت سے بچ جانے والے طبقہ اشرافیہ کے فرعون اب انصاف کے کٹہرے کو بھی

عوام کی نظروں میں گرانے کی پوری سعی کر رہے ۔ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں عدلیہ کا اپنا ہاتھ اس لیے ہے کہ عدلیہ نے انہیں رعایات دے کر خود ان کے ہاتھ اپنے گریباں تک پہنچنے کیلئے آزاد چھوڑے ۔ایسے میں آزاد اور مختار عدلیہ سے وابستہ عوامی توقعات کا خون عدلیہ کے رویے کے سبب ہے ۔ عدلیہ کو ایسی روایات قائم کرنے میں تاخیر کے سبب نہ صرف اپنے وقار کی بحالی میں دشواری کا سامنا ہے بلکہ عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے کا الزام بھی اس کے سر ہے ۔ عدلیہ مختار اور آزاد ہونے کے باوجود بھی اگر اس چند فیصد کے اگے بے بس ہے تو پھر عوام کس سے اور کیسے انصاف کی توقع رکھیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *