Home / Socio-political / عربوں کی بیداری کیلئے کتنے قذافی کا خاتمہ چاہئے؟

عربوں کی بیداری کیلئے کتنے قذافی کا خاتمہ چاہئے؟

عابد انور

افریقی شیر،قبائلی طرز زندگی گزارنے والا اور مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا لیبیا کے معزول صدر مرد آہن کرنل معمر قذافی کو مغربی ممالک کی فوج ناٹو اور ان کے چمچوں نے جس طرح بے رحمی سے قتل کیا ہے اس سے مسلمانوں کو ایک بار پھر ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے وقار، خوداعتمادی اور غیرت کو زبردست دھچکا پہنچا ہے، وہ ایک بار پھر اسی دور سے گزرے جب صدام حسین کو عین بقرعید کے دن 30 دسمبر 2006 کو تختہ دار پر کھینچا گیا تھا۔ یہ صرف قذافی کا قتل نہیں ہے عرب کی عزت، و قار ، حمیت و غیرت کا قتل ہے ، اس قتل سے مغرب نے ایک ساتھ کئی پیغام دیا ہے۔ پھانسی کسی بھی ہوسکتی ہے اور کسی بھی حکمراں کا زوال ہوسکتا ہے لیکن جس طرح ذلیل و خوار کرنے کا انداز اپنا یاگیا ہے وہ نہ صرف بے حد دردناک ہے بلکہ بہت افسوسناک بھی ہے اور مداخلت کی بدترین مثال بھی۔ آخری مسلم ممالک کو ہی کیوں آسان شکار سمجھا جاتا ہے ، کیوں مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اورمغربی ممالک کو جرم کا احساس تو دور کی بات ان کے چہرے پر شکن تک نہیں آتی۔ ایک اچھے خاصے ملک کو کیوں تباہ کردیا جاتا ہے اور دنیا خاص طور پر مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ عرب لیگ اور تنظیم اسلامی کانفرنس کے قیام کا جواز کیا ہے؟، آج تک ان تنظیموں نے عرب ممالک کے کون سے مفادات کی نگہبانی کی ہے، کس مسئلے کو حل کیا ہے؟، درحقیقت عرب لیگ اور تنظیم اسلامی کانفرنس کے ممالک کے سربراہ امریکہ اور یوروپی ممالک کے غلام ہیں،عیش پرستی، آرام طلبی اور حکومت کی چاہ نے انہیں کہیں کانہیں چھوڑا ہے ، وہ صرف امریکی اور مغربی مفادات کے چوکیدار ہیں۔ دوسرے ممالک کو فلاحی کاموں کے لئے چندہ بھی ان ہی کے اشارے پر دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے اسلامی مدارس کو اب عرب ممالک سے چندہ بہ مشکل ملتا ہے۔ کیوں کہ انکل سام نہیں چاہتے کہ مدارس کا فروغ ہو ۔ انہوں نے اپنے قوم کے لئے کچھ نہیں کیا، نہ اعلی تعلیمی ادارے قائم کئے نہ ہی ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ کا جال بچھایا، آج وہ ہر چیز کے لئے دوسروں کے محتاج ہیں، تیل کی دولت سے مالامال ان ممالک کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے۔نہ ہی صنعت قائم کی ہے، نہ ہی زراعت و کاشتکاری کو فروغ دیا ہے اور نہ ہی دیگر وسائل پیدا کئے ہیں انہوں نے تیل کی دولت سے مغرب کی معیشت کو پروان چڑھایا اور آج اس حالت میں ہیں کہ وہ اپنا پیسہ بھی وہاں سے نہیں نکالتے اس سے بدترین غلامی اور کیا ہوسکتی ہے۔ شجاعت و بہادری کیلئے مشہور قوم آج اپنی فوج کی تربیت کے لئے بھی دوسروں کا محتاج ہے۔ اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا جارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا استعمال کون کرے گا ، کیا عرب ممالک کے تربیت یافتہ افراد موجود ہیں یا ان کو چلانے کے لئے مغربی سے کرائے کے افراد لائیں گے اور کیا وقت پڑنے پر وہ افراد ان کے خلاف ان ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرے گا۔ عرب ممالک کو ایک دوسرے کا خوف دکھاکرمغربی ممالک زنگ آلود اور ”آف ڈیٹیٹ “ہتھیار فروخت کرکے اپنی تباہ ہوتی اقتصادی نظام کو درست کرنے پر لگے ہیں۔

لیبیا میں کی جانے والی بغاوت کو تیونس اور مصر کے انقلاب سے جوڑا جاتا ہے جو کہ قطعاً غلط ہے تیونس کا انقلاب یاسمین وہاں کے لوگوں کا پیدا کردہ اور آمد انقلاب تھا اور مصرمیں سا لہا سال کی جبرو ظلم ، جمہوری، انسانی حقوق ، بنیادی سہولت کے فقدان کی وجہ سے تھا اور اس میں کوئی بیرونی عناصر شامل تھے بلکہ دہائیوں سے جبروتشدد برداشت کرنے والے حزب اختلاف اور مصر کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے والے اخوان المسلین کے اہلکار شامل تھے جو بغیر کسی تشدد کے تحریر چوک پر مظاہرہ کررہے تھے یہ لوگ نہ تو عوام پر حملے کر رہے تھے اور نہ ہی بے قصور مخالفین کی جان لے رہے تھے۔ اسی لئے دونوں انقلابات بغیر کسی بڑے خون خرابہ کے پایہ تکمیل تک پہنچے۔ مگر لیبیا کی بغاوت مکمل طور پر آورد تھی۔ اس میں شروع سے ہی بیرونی عناصر شامل تھے، مغربی ممالک خصوصاً فرانس، امریکہ کھلم کھلا ڈالر اور ہتھیار سے حمایت کر رہے تھے۔ گرچہ حسب روایت عرب لیگ نے بھی مغربی ممالک کی حمایت کی تھی لیکن وہ اس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مطلب ناٹو کی بمباری نہیں تھا۔ کیا عرب لیگ کے رہنما اتنے نادان اور بھولے تھے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے اس حمایت کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ عرب لیگ کی حمایت اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی حمایت کا پروانہ ملتے ہی ناٹو کی سرکردگی میں فرانس کے طیارے لبیائی عوام پر ٹوٹ پڑے۔ پورے لبیا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ جتنی بھی بہترین عمارتیں تھیں، حکومت کے دفاتر تھے ناٹو افواج نے سب پر بمباری کرکے سب کو تباہ کردیا تاکہ تعمیر نو کے نام پر مغربی ممالک کی کمپنیوں کو بہترین قیمت پر ٹھیکہ مل سکے اور مغرب کی حالت نزع میں پڑی معیشت کو زندگی نو ملے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مسلم مخالف کارکردگی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی۔ وہ صرف مغربی مفادات اور اسرائیل کا محافظ ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لیبیا کی بغاوت کوتیل کے کھیل کے آئینہ میں دیکھنے کی ضرورت ہے ویسے مغربی ممالک کا عرب خصوصاً تیل پیدا کرنے والے ممالک میں مداخلت اسی سے منسلک رہی ہے لیکن لیبیا کا معاملہ کچھ الگ ہے، اس بغاوت کا مقصد اور قذافی کے خاتمے کا ہدف جہاں مغربی ممالک کا اپنے دشمنوں کا خاتمہ تھا وہیں یہ پیغام بھی واضح ہے کہ عرب کے دوسرے ممالک اس کی طرح حماقت نہ کریں جو معمر قذافی نے کی تھی۔ وہ عرب اتحاد کے زبردست علمبردار تھے اور جب یہ ممکن نہ ہوسکا تو افریقی ممالک میں اتحاد پید ا کرنا چاہتے تھے تاکہ استعماری قوتوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔ انہوں نے ستر کے عشرے میں عرب قوم پرستی کی تحریک چھیڑی اور انہوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری ، شامی اور اردنی رہنماوٴں کے ساتھ کئی معاہدوں میں باندھا بھی لیکن نوے کی دہائی میں عراق کویت جنگ اور عربوں کی صف میں انتشار ، عرب ممالک کا امریکہ کو دعوت دینے کی وجہ سے کرنل معمر قذافی کا خواب چکنا چور ہوگیا تو افریقی ممالک کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے وہاں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔ کرنل معمر قذافی نے دنیا بھر میں مختلف عسکریت اور شدت پسند تنظیموں کی بھی پشت پناہی کی جن میں تنظیم آزادئی فلسطین ، آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی شدت پسند گروپ شامل ہیں۔ ان تنظیموں کی مدد کا مقصد صیہونی اور اس کے حامیوں کے قلعہ میں دراڑ ڈالنا تھا۔ وہ آخر تک افریقی اتحاد کے لئے مسلسل کوشاں رہے۔

کرنل معمر قذافی 1942 میں سِرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان میں عرب قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ اوائل جوانی سے ہی عرب قوم پرستی کے علمبردار مصری صدر جمال عبدالناصر کے زبردست مداح اور شیدائی تھے اور انہیں اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے۔ 1956 کے نہر سوئز کے بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش تھے۔انہی مظاہروں اور احتجاج کے دوران لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ ان کے دماغ میں درآیا تھا جس کو پروان چڑھنے میں فوجی تربیت نے مہمیز دی۔ جب وہ 1969 میں برطانیہ سے تربیت حاصل کرکے لوٹے تو ان کے دماغ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل پہنچانے خیال آیا اور انہوں نے بھی بن غازی شہر کو اس کے لئے منتخب کیا۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ قذافی کے خاتمہ کا سبب بھی بن غازی شہرسے اٹھنے والی بغاوت ہی بنی اورباغیوں نے پہلے اسی شہر کو قبضہ کیا اور اسی شہر کو مرکز بناکراپنی کارروائی اور یہیں سے بغاوت پورے لبیا میں پھیلی ۔ وہ اس وقت کے شاہ ادریس کو معزول کرکے خود تخت پر بیٹھ گئے اور شاہ ادریس کو قتل کرنے کے بجائے ملک بدر کردیاجو اس وقت باغی بھی کرسکتے تھے۔ جس وقت انہوں نے لیبیا کا زمام اقتدار سنبھالا تھا اس وقت مغربی کمپینوں کاتیل پر قبضہ تھا انہوں نے ان سب کو نکال باہر کیا اور تیل کی دولت پر لیبائی عوام کا قبضہ بحال کیا۔ انہوں نے تیل پیدا کرنے کے حقوق اپنے خاندانوں، اپنے قبیلوں اور دوسرے قبائل میں تقسیم کئے ۔ اس طرح لیبیا کی دولت لیبیا میں ہی رہنے لگی۔ لبیا نے اس دوران کافی ترقی کی۔ کرنل قذافی لبیا کا آئین اپنی کتاب” گرین بک“ کی بنیاد پر تیار کیا تھا اور انہوں نے اس کتاب میں سوشلزم، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلووٴں شامل کیا تھا۔ انہوں نے عوام کی سہولت کے لئے خاطر خواہ کام بھی کئے تھے لیکن وہ بھی اس بیماری سے نہیں بچ سکے جو عموماً عرب حکمرانوں کو ہے۔ جمہوری اور آزادی خیال کے اظہار کا حق انہوں نے بھی لیبیائی عوام سے سلب کرلیا۔1973میں میں جماہریہ کے نام سے ایک ایسا نظام وضع کیا جس میں بظاہر اختیارات عوام پر مشتمل ہزاروں پیپلز کمیٹیوں کے ہاتھ میں تھے لیکن عملاً ماہرین کے مطابق کرنل قذافی ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے۔اپنے پورے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کے مخالفت کو انتہائی بیدردی سے کچل کر رکھ دیا تھا۔

کرنل قذافی نے عوام کو تمام سہولتیں بہم پہنچائیں جو ان کی زندگی کے لئے ضروری تھیں۔ لبیا میں بچے کی پیدائش پر ماں کو فوری طور پر پانچ ہزار ڈالر دئے جاتے تھے، کار کی خریداری میں پچاس فیصد کی سبسڈی دی جاتی تھی، شادی شدہ دلہن جوڑے کو پچاس ہزار ڈالر دئے جاتے تھے، بینک کے قرضوں پر کوئی سود نہیں لیا جاتا تھا، تعلیم، طبی سہولت یہاں تک بیرونی ممالک علاج کی سہولت بھی مفت حاصل تھی، لبیا میں 25 فیصد لوگ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں۔ 83فیصد عوام تعلیم یافتہ ہیں۔ کاشتکاری کے لئے زمین، تمام آلات اور دیگر سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں، قذافی آبپاشی کے بڑے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کے بھی جانے جاتے تھے جس سے لبیائی عوام میں خوش حالی آئی۔ تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ لبیائی عوام کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا تھا۔ملازمت ملنے تک اوسط تنخواہ بے روزگاروں کو دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر سہولتیں حاصل تھیں جو مغربی ممالک میں عوام کو حاصل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بھی عوام میں بے چینی پھیلی اور کرنل قذافی نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھ سکے۔ اس زعم میں رہے کہ وہ حالات کو قابوں کرلیں گے اور وہ کربھی لیتے اگر ناٹو اور مغربی ممالک نے باغیوں کا ساتھ نہیں دیا ہوتا۔ لبیا میں قذافی کے زوال کی عبارت اسی دن لکھ دی گئی تھی جب لبیا کے بعض حصے کو سلامتی کونسل نے خطہ عدم پرواز قرار دیا تھا۔ اگر وہ بروقت عوام کو جمہوری حق دے دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔

قذافی کے اقتدار کے ابتدائی دور سے ہی مغربی ممالک سے تعلقات کشیدہ رہے تھے ۔ خصوصا فرانس سے جب انہوں نے فرانسیسیوں کی بڑی تعداد کو لبیا سے فرانس منتقل کردیا تھا۔امریکی صدر رونالڈ ریگن کے حکم پر امریکی طیاروں نے 1986میں یورپ کے بعض شہروں میں بم دھماکوں کے الزام میں دارالحکومت طرابلس اور بن غازی شہر پر بمباری بھی کی جس میں کرنل قذافی کی لے پالک بیٹی ہلاک ہوگئی تھی۔امریکہ اور برطانیہ نے دسمبر 1988 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے نزدیک پین امیریکن کے مسافر بردار جہاز کی تباہی کا ذمہ دار معمر قذافی کو قرار دیتے ہوئے لیبیا پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں عائد کروادی تھیں۔2003 میں عراق میں صدام حکومت کا خاتمہ اور سقوط بغداد کے بعد کرنل معمر قذافی تنہا مغرب مخالف رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے اختلافات دور کرنے کے لئے اپنے شہریوں کو لاکربی کا مقدمہ اسکاٹ لینڈ کے قانون کے تحت ہالینڈ میں چلوانے پر متفق ہوگئے تھے اور معاوضہ کے طور پر اربوں ڈالر دائے کئے تھے دنیا میں دیا جانے والا سب سے بڑامعاوضہ تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اپنے جوہری پروگرام بھی مغرب کے حوالے کردیا تھا۔ لیکن کہتے ہیں سانپ کسی کا دوست نہیں ہوتا وہ اپنی عادت سے مجبورہوکر ضرور کاٹتا ہے کیوں کہ اس کی فطرت میں کاٹنا ہے یہی حال مغربی ممالک کا ہے وہ ہر حال میں کاٹے گا خواہ اسے کتنا ہی دودھ کیوں نہ پلایا جائے۔ دوسرے عرب ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے ورنہ ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو کرنل قذافی کا ہوا ہے۔

لبیا کی بغاوت میں تیل کا کھیل سب سے اہم رہاہے ۔ ماہرین کے مطابق لبیا میں تمام افریقی ممالک میں تیل کے ذخائر سب سے زیادہ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لبیا میں جو تیل نکالا جاتا ہے اس کی کوالٹی سب سے عمدہ ہوتی ہے اوراس میں محنت کم لگتی ہے ۔گرچہ قذافی نے تمام مغربی ممالک نکال باہر کیا تھا لیکن گزشتہ تین چار برسوں کے دوران فرانس، اٹلی، برطانیہ کی کچھ کمپنیوں کو تیل نکالنے کے حقوق دئے تھے۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مغربی ممالک سے ان کے تعلقات استوار ہوجائیں لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک نے نہ صرف کرنل قذافی کے اقتدار کا خاتمہ کیا بلکہ ان کی زندگی بھی ختم کردی۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب لیبیا میں کیا ہوگا۔ کیا عبوری قومی کونسل کے ارکان لبیا کو سنبھال پائیں گے؟،وہاں کثیر تعدادمیں موجود قبائل کسی ایک کی سرکردگی میں متحد ہوجائیں گے ؟ کیا کرنل قذافی کا قبیلہ خاموش بیٹھا رہے گا جب کہ سرت اور بنی ولید میں بڑے پیمانے باغیوں نے ناٹو افواج کی مدد سے قتل و غارت گری کو انجام دیا ہے۔کیا لبیا اب دوسرا عراق بن جائے گا اور خانہ جنگی شروع نہیں ہوجائے گی۔ ایسے بہت سے سوال ہیں جو لاینحل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ناٹو افواج کام مکمل ہوتے ہی چلی جائیں گی بلکہ کسی نہ کسی بہانے وہاں موجودرہیں گی۔ لبیا میں کیا ہوا ہے اور کتنے لوگ مارے گئے ہیں یہ بہت د نوں کے بعد پتہ چلے گا جب آزاد میڈیا اور آزاد انسانی حقوق کے علمبردار وہاں جائیں گے ابھی تو وہی بات سامنے آئے گی جو ناٹو ، مغربی ممالک اور باغیوں کی عبوری قومی کونسل چاہے گی۔

سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ آخر کب تک مسلم ممالک مغربی ممالک کا آسان شکار بنتے رہیں گے۔ اسرائیل کے ہاتھوں لاکھوں فلسطین مارے گئے ہیں مغربی ممالک نے وہاں ناٹو افواج کو کیوں نہیں بھیجا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مظلوم فلسطین کی آزادی کاحق کیوں تسلیم نہیں کرتی ۔ کیا اقوام متحدہ صرف مسلم ممالک کو سزا دینے کے لئے ہے۔ اقوام متحدہ کے امریکہ کے علاوہ چاروں مستقل رکن روس، چین، فرانس اور انگلینڈ نے فلسطین دوسرے شورش زدہ خطہ کو بچانے کے لئے اپنے پاور کا استعمال کیوں نہیں کیا۔ یہ ممالک امریکہ کی پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیوں نہیں کرتے۔اس کا مطلب یہ ہے سب پیسے اورٹھیکے کا کھیل ہے جو سب مل کر کھیل رہے ہیں ۔مغربی تہذیب کا نیا فارمولاہے پہلے تباہ کرو اور پھر تعمیر نو کے نام پر وہاں کی دولت کو لوٹ لو۔ اپنی تباہ شدہ معاشرتی ثقافت میں مبتلا کرکے عوام کوکسی لائق نہ چھوڑو۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. پتہ نہیں یہ قم کب خواب غفلت سے بیدار ہوگی ۔ ۔ ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *