ڈاکٹر خواجہ اکرام
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی اور اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکموت بھی ہے۔یہ شہردریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ کراچی 1947 سے1960 تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ اس شہر کو روشنیوں کا مشہر بھی کہا جاتا ہے اور اسے عروس البلاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔تہذیبی اعتبار سے بھی یہ شہر کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس شہر میں ملک کے کونے کونے سے روزگار اور دیگر مواقع کی تلاش میں آتے ہیں ۔ تقسیم وطن کے وقت ہندستان سے ہجرت کرنے والوں کی بھی سب سے بڑی تعداد یہیں موجود ہے ۔مختلف رنگ و نسل کے لوگو یہاں آباد ہیں اور تہذیبی رنگارنگی کے سبب بھی یہ شہر دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔لیکن اس شہر کا المیہ یہ ہے کہ اس شہر میں امن عماہ کی صورت حال ہمیشہ بد سے بد تر رہی ۔کبھی لسانی تعصب نے اور کبھی مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق کے سبب اس شہر میں خون خرابے ہوتے رہے۔80 اور 90 کی دہائیوں میں یہاں تشددکے واقعات اور لسانی اور تہذیبی فسادات نے زور پکڑا جس کے نتیجے میں آرمی کو مدخلت کرنی پڑی باوجود اس کے کراچی کے حالات ابھی تک سدھر نہیں سکے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اس شہر کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے میدان کارزار میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مستقل خون خرابے اور سیاسی و تہذیبی عداوتوں کے سبب اب یہ شہر جسے روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا تھا، نفرتوں کی تاریکیوں میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔اس شہر کی عوام مہنگائی، لوٹ مار، کرپشن، بھتہ خوری، لینڈ مافیا، لوڈشیڈنگ، نا انصافی اوردہشت گردی کے حالات کے شکار ہیں ۔ زندگی خوف و ہراس کے سائے میں سائے میں گزر رہی ہے، شہر میں امن و سکون کے قیام کے لیے حکومت کی تمام کوششیں رائیگاں ہو رہی ہیں ۔ اب تو آئے دن قتل و خون اس شہر کا مقدر بنتا جارہا ہے۔سیاسی پارٹیوں کی زور آزمائی اسے مزید ہوا دے رہی ہے۔لیکن حکومت ان پارٹیوں کی سر زنش کے بجائے ان سے مفاہمتوں کی سیاست میں الجھی ہوئی ہے ۔ اس لیے ان پارٹیوں کو ایک طرح سے ھکلی آزادی ملی ہوئی ۔ ابھی حالیہ فسادات کی وجہ سیاسی پارٹیوں کی آپسی جنگ ہی تھی ۔ مگر جو پارٹیاں جنگ کر رہی ہیں وہی پارٹیاں امن کی اپیل بھی کر رہی ہیں۔ ملیر کی صورتحال پر سینیٹر بابر غوری نے کہا کہ ملیر میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے، یہ کیسی مفاہمتی پالیسی ہے جس میں ہمارے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مہاجر قومی موومنٹ (آفاق گروپ) کے کارکنوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے علاقوں میں انٹری دی ہے جس پر یہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں سے درمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ پورے پاکستان خصوصاًکراچی میں امن و سکون اور استحکام کے لیے صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیں‘ ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور ایم کیوایم سمیت تمام جماعتیں اپنے اپنے زیر اثر علاقوں کو ایک دوسرے کے لیے نو گو ایریا بنانے کے بجائے ہر جماعت کے رہنما اورکارکن کا خیر مقدم کریں‘ا یک دوسرے کو گلے لگائیں ‘پیار ومحبت کا نیا سلسلہ شروع کریں اور آپس کی نفرتوں کو ختم کر دیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے لہٰذا ہمیں اس قسم کی سیاست نہیں کرناچاہیے جس سے ملک میں محاذ آرائی جنم لے۔ الطا ف حسین نے مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام‘مسلم کانفرنس اور یگر اپوزیشن جماعتوں کےرہنماوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہاکہ ہم آپ کی طرف اتحاد و یگانگت ‘ دوستی اور پیار کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔مسلم لیگ نواز گروپ کے رہنماوں و کارکنان ماضی کی تلخ باتیں بھول جائیں ااورپاکستان کے استحکام کے لیے مل جل کر کام کریں۔اورعوامی نیشنل پارٹی (سندھ) کے صدر و چیئرمین پختون ایکشن کمیٹی (لویہ جرگہ) شاہی سید نے باچا خان مرکز کراچی سے جاری بیان میں کہا ہے کہ کراچی کا امن برباد کرنے والے ایک بار پھر نئے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں۔کراچی کا ایک حصہ بھی مسلح دہشت گردوں کے تسلط سے نہیں بچا ہوا۔ شاہی سید نے لانڈھی کے علاقے کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرپسندوں نے ملیر، سعود آباد اور لانڈھی سمیت پورے شہر کے عوام کو یرغمال بنایا ہواہے۔ ملیر، لانڈھی میں چند گھنٹوں میں 12 افراد کی ہلاکتیں اور 23 افراد کا زخمی ہونا حکومتی اقدامات پر سوالیہ نشان ہے۔ عوام مسلح دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ منظم مسلح کارروائیاں ثابت کر رہی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات سے نادیدہ قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر مستقل امن کے لئے کوششیں کرنا ہونگی۔ کراچی میں بدامنی کے اصل محرکات کو سمجھے بغیر امن کا وقفہ عارضی رہےگا۔ان تمام صورت حال کے باوجود شہر میں امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں حکومت کی ناکامی یقیناً کئی سوالات کھڑیی کرتی ہے ۔انھیں سوالات کو لے کر اب حکمراں اور اپوزیشن پارٹیوں میں زبنانی جنگ بھی شروع ہوگئی ہے ۔ ایک طرف لوگ خون سے لت بت ہیں ت ودسری جانب سیاسی پارٹیاں اپنی محاذ آرائیوں میں جٹی ہوئی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاںمحمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پی پی پی کی موجودہ حکومت نے عوام کو مایوس کیا ہے اور عوام کی مایوسی غصے میں تبدیل ہو چکی ہے ٫ حکومت نے اب بھی اگر اپنی ترجیحات اور توجہ عوامی مسائل کے حل کی طرف نہ دی تو یہ غصہ ایک ایسے سیلاب کی شکل اختیار کر سکتا ہے جو حکومت کو بہا لے جائے گا . نواز شریف نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ٫خصوصا فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہو رہی ہے .مہنگائی ٫ بے روزگاری اور امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی . سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا جا رہا اور یہ تمام صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ نواز شریف کے اس بیان کے جواب میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جن کی اپنی حکومت کرپشن کے الزامات کے باعث ختم ہوئی آج وہ کرپشن کی بات کررہے ہیں۔ کسی کے کہنے پر حکومتیں نہیں گرتیں۔ سیاست میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو عدالت میں جائے۔حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ عوام ہی کرسکتے ہیں،انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ساڑھے 3 سال سے اتحاد ہے ‘ایم کیو ایم نے کراچی میں امن و امان کے قیام ، 17ویں اور 18 ویں ترمیم سمیت ہر موقع پر ہمارے ساتھ تعاون کیا، اختلافات جمہوریت کا حصہ ہیں ۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی اعلیٰ عہدوں پرمجرم فائز ہیں، ملک میں زیادہ ترخواتین اور نوجوان تحریک انصاف کوپسند کرتے ہیں۔کراچی میں قانون کی حکمرانی نہیں،اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کیاجارہاہے۔ کوئی نہیں جانتا ایم کیوایم کس طرف ہے، ہردن کی طرح اس کا موقف بھی تبدیل ہوتارہتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں صدر آصف علی زرداری سب سے بڑے مجرم ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ پورا پاکستان اس وقت آتش فشاں بنا ہوا ، دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے سبب لوگ خوف و ہراس کے سائے میں جی رہے ہیں ۔دہشت گردانہ واقعات کے سبب ملک کے بڑے اقتصادی شہر میں کاروابری زندگی ٹھپ ہوتی جارہی ہے ۔ معیشت کے اس نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کی شبیہ بھی خراب ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن حکمراں اور اپوزیشن سمیت پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اب بھی اور ایسے حالات میں بھی خود اپنے وجود کی جنگ میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں ایسی مفاہمتیں ہورہی ہیں جو مستقبل میں مزید انتشار کا سبب بنیں گی۔کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کسی اور کا ہاتھ نہیں اگر کسی کا ہاتھ ہے تو وہ وہاں کی سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ ہے اور حکمراں پارٹی کی غیر موثر حکمت عملی کا قصور ہے کہ اب تک کسی پارٹی نے اس شہر کو سکون نہیں عطا کیا۔گزشتہ دس بیس برسوں سے جاری تصادمات کے نتیجے میں اب تک جو اقتصادی نقصانات ہوئے ہیں وہ اس کی کبھی بھر پائی کرنے کی کوشش نہیں ہوئی ۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اگر یہ یونہی چلتا رہا تو یہ عروس البلاد ایک آتش فشاں بن جائے گا۔
***