عزیزن
مصنف : تریپوراری شرما
ترجمہ : مظہر احمد
صفحات : 111 قیمت : 100 روپئے
اشاعت : مئی 2008
ناشر : ایم۔آر۔ پبلی کیشنز، گلی کالے خان، کوچہ چیلان، دریاگنج، نئی دہلی 110002
مبصر : پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
”عزیزن“ ایک ڈراما ہے جس کا اصل متن ہندی میں ہے۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار عزیزن ایک حقیقی کردار ہے جس نے 1857 کے انقلاب میں اپنی جائے سکونت کانپور میں قومی اتحادی فوج کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ عملی طور پر خود بھی ایک اہم کردار بٹھایا تھا۔ اس حقیقی واقعے کو بنیاد بناکر تریپوراری شرما نے ہندی میں ڈراما لکھا ہے جس کا اردو ترجمہ مظہر احمد نے کیا ہے۔
”عزیزن“ صنفی اعتبار سے ایک ڈراما ہے۔ اس لحاظ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ صنف اور فن کو نبھانے میں حقیقی عنصر اس میں کس حد تک باقی رہ پایا ہوگا لیکن کتاب کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ مصنف نے فن سے زیادہ واقعے کی صداقت پر توجہ صرف کی ہے۔ تریپوراری شرما نیشنل اسکول آف ڈراما میں ایک سینیئر استاد ہیں اور لگ بھگ بیس برسوں سے وہ اسٹیج ڈرامے سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی مشہور ڈرامے لکھے ہیں مثلاً عکس پہیلی، کاٹھ کی گاڑی، پوشاک سزا، وکرمادتیہ کانیاپاسن اور ریشمی رومال وغیرہ۔ اپنی صلاحیت اور تجربے کی بدولت بیرون ملک میں بھی ان کی پذیرائی ہے اور کئی بڑے ممالک کی سفر بھی کرچکی ہیں۔
اٹھارہ سو ستاون کے انقلاب میں کانپور کی قومی اتحادی فوج کے کارناموں اور نانا صاحب کی پیشوائی کا جہاں بھی ذکر آیا ہے ”عزیزن“ نامی اس طوائف کا ذکر ضرور کیا گیا ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کے زمانے میں کسی ہندوستانی عورت کا ایک فوجی کی طرح کردار نبھانا اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کے انقلاب کے تاریخ نویسوں نے ”عزیزن“ کے اس کارنامے کا اعتراف تو کیا ہے لیکن کسی نے اس کے کردار پر خاطر خواہ روشنی نہیں ڈالی ہے۔ تریپوراری شرما نے اس انقلاب کے مختلف تاریخی ماخذ کو سامنے رکھ کر ”عزیزن“ کی حریت پسندی اور اس کے عملی اقدام کو ڈرامے کی صورت میں مفصلاب پیش کیا ہے۔
عزیزن، شہر کانپور کے ایک محلے میں پیشے سے طوائف تھی مگر جسم فروش نہیں تھی وہ اردو تہذیب و تمدن کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔ جب 1857 کا انقلاب سامنے آیا تو اس کی دانشمندی نے حریت پسندی کو مہمیز کیا۔ اس وقت اس کی عمر 24 سال کی تھی۔ وہ شہر کی معروف خوب صورت اور سبھوں کی منظور نظر ڈیرے دار طوائف تھی۔ بڑے بڑے عزت دار گھرانے کے لوگ اپنے بچوں کی تربیت اس کی نگرانی میں کراتے تھے۔ ان شرفا سے اس کے رقص کی محفل بھی بارونق ہوتی تھی۔ غزل گائیکی سے عزیزن کا بالاخانہ عندلیبوں کا چمن زار بنا ہوا تھا۔ جب 1837 کا ہنگامہ برپا ہوا تو اس کی حریت پسندی نے اپنے بالاخانے کو انگریز دشمنوں کی خبرگیری کا مرکز بنایا اور بڑی چالاکی سے اپنے مقصد کی جانب گامزن ہوئی۔
عزیزن ایک خوددار، مخلص اور عزت نفس کی پاسدار تھی۔ حب الوطنی اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا۔ جب انقلاب سامنے آیا تو محفل رقص کو حاشےے پر رکھا اور ملک دشمن انگریزوں سے انتقام اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ اس نے اپنی زندگی داو ¿ پر لگا کر رام چندر رواو ¿ تاتیا ٹوپے اور نانا صاحب کی فوج میں شامل ہوگئی۔ عزیزن کو یہ تحریک اپنے ایک عاشق شمس الدین سے ملی جو خود ہندوستان کا ایک ایمانداری سپاہی تھا۔ جو اکثر آدھی رات کو اس کے بالاخانے پر آتا تھا اور اسی بالاخانے پر خفیہ میٹنگیں ہوتی تھیں۔ ”مستی چورا گھاٹ“ اور ”بی بی گھر“ کے سانحے میں عزیزن کا کردار تاریخ نویسو کو اپنی جانب مائل کرتا ہے۔ اس پر انگریزوں کے خلاف جاسوسی کا الزام تھا جس کے سبب ہمیشہ انگریزی فوج کے نشانے پر رہی۔ ایک انگریز مورخ عزیزن کی جنگی صلاحیتوں سے متعلق لکھتا ہے:
”وہ اسلحہ باندھے گھوڑے پر سوار، بجلی کی طرح شہر کی گلیوں اور فوجی چھاو ¿نیوں میں چکر لگایا کرتی۔ کبھی وہ گلیوں میں گھوم گھوم کر بے حال اور زخمی سپاہیوں کو دودھ اور مٹھائی بانٹتی اور کبھی پھل بانٹتی تھی۔ کبھی زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹی کرتی۔ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کے قلعے کی دیوار کے نیچے باغی سپاہیوں کے حوصلے کو بڑھاتی تھی۔ وہ محاذ پر گولا بارود اور اپنے سپاہیوں کو ناشتہ، کھانا بھی پہنچاتی تھی۔“
(مقدمہ ”عزیزن“ اردو ترجمہ، ص 6)
حقیقت یہی ہے کہ عزیزن نفسیاتی طور پر بھی ایک مجاہدہ تھی جس کا انکشاف اس ڈرامے میں کیا گیا ہے۔ اس کے اندر کی عورت کا وجود حق اور سچائی کا پاسدار تھا اور اسی سوچ نے اس کے وجود کو آہنی بنا دیا تھا جہاں عورت اور مرد کی جسمانی ساخت بیچ میں حائل نہیں ہوتی۔ عزیزن کی ذہانت، قائدانہ صلاحیت، معرکہ آرائی کا ہنر، مخبری جنگی تدابیر اور شہادت کو یہ کتاب واضح کرتی ہے۔ یہ وضاحت عزیزن کو حضرت محل اور جھانسی کی رانی کی ہمسر نہیں تو شریک کار کا درجہ ضرور عطا کرتی ہے۔