Home / Litrature / عہد حاضر کے تناظر میں تکنالوجی کی اہمیت

عہد حاضر کے تناظر میں تکنالوجی کی اہمیت

اردو کے حوالے سے

جدید تر ین ٹکنالوجی کو جب ہم اردو کے نقطہ ٴ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اکثر ٹکنالوجی اردو زبان سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں ۔ان تمام پہلوؤں پر الگ الگ گفتگو کرنے کی ضروت ہے ۔ظاہر ہے اس کے لیے وقت بھی درکار ہے ۔ لہٰذا یہاں ہم صرف انٹرنیٹ کی افادیت اور اردو زبان میں اس کو رواج دینے کی ضرورت پر گفتگو کریں گے۔
لیکن اس سے قبل ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو ‘ اردو زبان’ کے حوالے سے ہے ۔اکثر اردو زبان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ زبان اب مر رہی ہے اور اس کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں ۔لیکن یہاں میں بی بی سی کی ایک رپورٹ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ بی بی سی کاخود مختار ادارہ ہے جو خبر رسانی کے سبب پوری دنیا میں اپنی شناخت اور اہمیت رکھتا ہے ، اس کے سائٹس پر Urdu learning کی سہولت بھی موجود ہے ۔لیکن اس سائٹس پر اردو سیکھنے کے عمل سے پہلے Home Page پر جو چند جملے اردو زبان کے حوالے سے لکھے گئے ہیں اُن پر غور خوض کرنا زیادہ مناسب ہے تاکہ ہم اردو زبان کی وسعت کا اندازہ بھی کرسکیں۔ملاحظہ فرمائیں:

Why learn Urdu?
1. ” It is a living language spoken by 490 million people around the world.
2.”The Urdu community in the UK numbers about one million speakers.
3 ” It is not just a practical language spoken on a daily basis, but one that produced scholarships and poetry.
www.bbc.uk/urdu. بحوالہ

پہلے جملے میں بی بی سی نے جو اعداد و شماردی ہے ،وہ قابل غور ہے کیونکہ ہر طرف اور کم از کم ہندستا ن میں باربار یہ بات کہی جاتی ہے کہ اردو زبان ختم ہو رہی ہے اور اس کا مستقبل بہت روشن نہیں۔آپ سب جانتے ہیں کہ زبان کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بولنے والے کتنے ہیں ۔ہم اردو بولنے والے جب بھی اعداد و شمار کی بات کرتے ہیں تب یا تو سرحدوں کی لکیروں میں کھو جاتے ہیں یا اپنے ملک کے محدود رواج اور حکومت کی بے بنیاداعداد و شمار پر صبر وسکون کر لیتے ہیں۔حالانکہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیامیں انگریزی کے بعد جس زبان نے وسیع علاقوں میں ہجرت کی ہے وہ اردو ہے ۔یعنی عالمی سطح پر اردو کو اس اعتبار سے دوسرا مقام حاصل ہے۔
قابل توجہ امر :
بی بی سی کے مطابق ارود بولنے والوں کی تعداداگر 490 million ہے تو اس میں سے ایک ڈیڑھ سو ملین ایسے ضرور ہوں گے جو رسم خط سے واقف نہیں ہیں ۔ایسے لوگوں کی تعداد ہندستان میں اور مغربی اور یوروپی ممالک میں زیادہ ہے ۔پاکستان کے بارے میں مجھے علم نہیں۔لیکن مغربی اور یوروپی ممالک میں نئی نسل کی ایک بڑی تعداد ہے جو اردو تو بولتی ہے مگر پڑھ لکھ نہیں سکتی۔یہ طبقہ جدید طرز تعلیم سے ہم آہنگ ہے ۔معمولی معلومات کے لیے بھی نئی نسل کے بچے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔انٹرنیٹ ان کے تدریسی نظام کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔اس صورت حال کو ذہن میں رکھیں اور سائبر اسپیس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اتنی بڑی آبادی کے لیے انٹرنیٹ پر اردو میں اُتنا کچھ موجود نہیں جتنا کہ ضرورت ہے ۔ او ر اِ س سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے اس سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم نہ صرف کمپیوٹر کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں بلکہ اسے ایک Basic tool کی حیثیت بھی دیں ۔کیونکہ یہ آج کے دور کی بڑی ضرورت اور اردو زبان کو فروغ دینے میں اس کا بڑ ارول ہو سکتا ہے ۔ یہ رول کیسا اور کس طرح ہوگااس پر ذیل میں ہم چند نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہیں گے۔
آج کے دور میں علم کی وسعتیں بے کنار ہیں اور اس کی جہتیں بھی تبدیل ہوچکی ہیں ۔علم کے اس بحرِبے کنارکا تصور اب بدل چکا ہے۔یہاں میں علم کے اُس سمندر کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو زمین میں نہیں خلاوٴں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔یہ سمندر آج کی دنیا کی ایسی ضرورت بن گیا ہے کہ اگر اس کی موجوں کے تلاطم سے کوئی تہذیب ،خطہ، ملک یاقوم آشنا نہ ہوئی تو اس گلوبل ولیج میں شاید اس کی حصہ داری نہ رہے۔جی ہاں! سٹیلائٹ کے نظام پر مبنی تیزی سے گامزن دنیا کی تمام تر معلومات اور تمام تر امکانات اسی سمندر کی گہرائیوں میں پنہاں ہیں ۔ اس سمندر سے موتی وہی چُن کر لائیں گے جو غوّاص اور شناور ہوں گے ہیں ۔عہد حاضر کی تمام ترقی اورتنزلی اسی سے منسوب ہے ۔لیکن گھبرانے کی بھی کوئی بات نہیں کیونکہ اس مضطرب اور تلاطم خیز سمندر تک رسائی آپ کی Finger Tips(انگشت کی پوروں) سے ہوسکتی ہے۔ کمپیوٹر کے Key Board پر انگشت رکھ کر دنیا اور دنیا کے تمام علوم و فنون اور ممکنہ معلومات آپ گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہی سائبر اسپیس ہے اور یہی خلاوٴں میں علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمند ر ہے۔سائبر اسپیس کی جو تعریف کی گئی ہے وہ کچھ اس طرح ہے:

“Cyberspace” is a term coined by a science fiction writer to describe the place where data is stored, transformed and communicated. Its meaning has broadened to include the full array of computer-mediated communications and interactions.”


یعنی سائبراسپیس عہد حاضر کا وہ خزانہ ہے جہاں علوم و فنون اورمعلومات کا ذخیر ہ پنہاں ہے۔یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے ہم آہنگی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
انسانی زندگی ارتقاءکی منزلیں طئے کرتی ہوئی آج جس دور سے گزر رہی ہے اسے ہم (Cyber Age) کا نام دے سکتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ترسیل و ابلاغ کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انسانی معاشرے نے اس سے قبل بھی بہت ساری تبدیلیاں دیکھیں ہے، لیکن یہ تبدیلی جس قدر جلد رونما ہوئی اسی سرعت کے ساتھ اس نے انسانی سماج کے ہر شعبے میں خود کو ایستادہ کرلیا۔ ترسیل کے اس نئے زاویے سے دنیا سچ مچ واقعی ایک گلوب نظر آنے لگی اور دنیا کے ایک کنارے بیٹھا شخص دنیا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے انسان سے نہ صرف ہمکلام ہونے لگا بلکہ اس کے ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے اس کے جذباتی تغیرات کے نشان چہرے پر تلاش بھی کرنے لگا۔ ہزاروں میل کی دوری کلیدی تختے پر انگلیوں کی ذرا سی جنبش کے ذریعے طئے ہونے لگی۔ اس طرح ٹکنالوجی کی اس انقلابی دنیا کو سائبر اسپیس کا نام دیا گیا۔ زبان اور ادب کا تعلق بھی اسی انسانی معاشرے سے ہے اور ان پر بھی اس تبدیلی کا ویسا ہی اثر ہوا جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبو ںپر ہوا ۔ ادب نے جب ڈیجیٹل اوتار لیا اور برقی تاروں اور مصنوعی سیاروں کے زریعے دور دراز کا سفر طئے کرتے ہوئے اپنی ایک الگ ڈیجیٹل دنیا تشکیل دی تو اسے ادبی سائبر اسپیس کے نام دیا گیا۔
آج جبکہ جدید ٹکنالوجی نے گلوبل گاﺅں اور آفاقی سماج کی بنیاد ڈالی ہے ، ادب اس سے کیسے الگ رہ سکتاہے۔ ادب بھی برقی لہروں کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کر رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو جدید ترین رجحانات کو اپنانے کی اپنی قدیم ترین روایت پر قائم رہے اور جدید ٹکنالوجی کو اپنے وسیع دامن میں جگہ دے۔ کیونکہ اب مسئلہ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کے مفید اور غیر مفید ہونے کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا ہمارے اندر اس سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ادب کے اپنے قاری تک پہونچنے وسائل کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے اس معاشرے کو سمجھنا جس میں ہم رہ رہے ہیں اور آج کا معاشرہ صارفیت زدہ معاشرہ ہے۔ میں بھی اپنی بات بتانے کے لئے مارکیٹنگ کی ہی تھیوری کا استعمال کر رہا ہوں۔ معیشت کا ایک بہت ہی واضح اصول ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول ہے۔
عہد حاضر کو ہم تشہیری اور برقی یا ڈیجیٹل دور کہہ سکتے ہیں ۔
اس دور میں وہی قومیں ، نسلیں اور وہی تہذیب و تمدن زندہ رہیں گی جو وقت کے تقاضے اور مطالبے کو اپنائیں گی۔
موجودہ دور

تشہیری برقی
(۱)تشہیری : آج اسی کو اہمیت، تفوق،مقبولیت حاصل ہے جو اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہے۔
وگرنہ ہمیں جودستیاب ہیں اُن سے بھی بہت سی اچھی چیزیں موجود ہیں لیکن عدم تشہیر کے سبب اُن کو اِس صارفی دنیا میں اہمیت ، مقبولیت او ر تفوق حاصل نہیں ہے۔
اس زمرے میں مختلف اداروں ، اور تنظیموں کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں کہ جو صرف دکھاوے کے لیے موجود ہیں مگر تشہیر کے سبب دنیا ان کو تسلیم کرتی ہے اور جو تشہیر سے دور ہیں انھیں وہ لائق اعتنا نہیں ہیں ۔
(
۲)

انٹرنیٹ ٹیلی ویژن ریڈیو دیگر ذرائع

ویب سائٹس بلاگس ای میل گروپ میل چیٹینگ یوٹیوب بلاگس اورکوٹ فیس بُک آرکائیوز

ویب سائٹس :www. سے تمام Sites کُھلتے ہیں ۔جس کا مطلب ہے ۔Word Wide Web یعنی ایسا جال جس کے سہارے ساری دنیا میں رسائی ہو سکتی ہے۔اس منزل میں میں آپ کی خواہش اور جستجو کے مطابق تمام چیزیں دستیاب ہیں ۔شرط یہ ہےکہ آپ کو اس راہ کی نزاکتوں کا علم ہو۔
ای میل : اب شاید آنے والی نسلوں کو خطوط غالب یا غبار خاطر جیسی تحریریں پڑھنے کو نہ ملیں ۔
کیونکہ اب خطوط کا زمانہ رخصت ہوچکا ہے ۔آنے والا وقت شاید ای میل اور بلوگس کا زمانہ ہوگا۔
چیٹینگ : جی ہاں ! غالب کا یہ شعر بھی شاید آنے والی نسلوں کے لیے مہمل ہوجائے کہ :
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں
کیونکہ جدیدتکنالوجی کی موجودگی میں اب نئی نسل کے لیے کسی کو قاصد بنانے کی ضرورت لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ اپنے پیغام کو اہتمام سے لکھیں ، اسے اہتمام سے پَیک کریں اور قاصد کے حوالے کریں ۔اب تو انگلیوں کی جنبش سے نہ صرف براہ راست گفتگو ہو سکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں ۔
( (Messengerکے ذریعے۔
آرکائیوز: جو چیزیں ابھی ویب پہ دستیاب ہیں وہ کسی بھی وقت آپ دوبار ہ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے نہ تو الماریوں کی ضرورت ہے اور نہ کتابوں کو دیمک سے بچانے کی فکر ہے۔
بلاگس: انٹرنیٹ پریہ ایساصفحہ ہے جس کوکوئی بھی آسانی سے اس کا استعمال کر سکتاہے ۔ دوسروں کی تحریریں بھی پڑھ سکتا ہے اور اپنی بھی تحریریں اس پر اَپ لوڈ کرسکتا ہے۔
یوٹیوب: یہ نیٹ ورکینگ سائٹ بنیادی طور پر ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کے لیے ہے۔ اس میں آپ کسی بھی موضوع پر موجودہ حالات و کوئف سے متعلق کسی بھی طرح کی ویڈیو کِلپینگ (Video clippings)کو دیکھ سکتے ہیں یا اپنے کسی پروگرام کی Video clippings اَپ لوڈ کر سکتے ہیں ۔ یہی وہ سائٹ ہے جس میں ‘ فتنہ ’ نامی فلم اَپ لوڈ کی گئی تھی ۔اس کا جواب بھی اسی سائٹ پر آیا تھا۔
گروپ میل: اجتماعی طور پر چھوٹے گروپ سے بیک وقت رابطے اور اظہار خیالات کے لیے اس طرح کے میل کو Create کیا جا سکتا ہے۔اس کے ذریعے ایک ہی پیشے یا ایک ہی طرح کے فرائض سے جُڑے ہوئے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو رابطے میں رکھ سکتے ہیں۔
اورکوٹ: نئی نسل کے لئے انٹرینٹ کا یہ نیا تحفہ ہے ۔یہ سوشل نیٹ ورکینگ سائٹ ہے۔ اس کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے متعارف کرانا ، دوسروں سے متعارف ہونا،اسکریپینگ(Scraping) وغیرہ اور بھی بہت کچھ۔( اس جیسے اور بھی سوشل نیٹ ورکِینگ سائٹ ہیں جیسے Perfspot, Pagii وغیرہ )
فیس بُک : یہ اورکوٹ سے بہتر ہے اس میں کسی سے آئن لائن چیٹینگ بھی کر سکتے ہیں اور اس میں اِ ن باکس (Inbox) کی سہولت بھی موجود ہے۔اس طرح کے نیٹ ورک دراصل نئی کو پسندبھی اور یہ انھیں طرح طرح کی سہولیات بھی مہیا کراتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ Interactive سائٹس ہیں ۔
دیگر ذرائع: موبائل ، فیکس اور دیگر ڈیجٹل ٹکنالوجی وغیرہ ۔

حصہ دوم :
اب اہم سوال یہ ہے کہ ہم ان تمام ٹکنالوجی کو کس طرح ارود میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس کا بہت آسان اور سیدھا سادہ طریقہ ہے ۔اس کے لیے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کمپیوٹر کو اردو میں تبدیل کریں ۔ Exp اور Vista دونوں کو ہم پورے طور پر اردو میں استعمال کرسکتے ہیں ۔
تکنیکی ہدایات
یہ ہدایات ان لوگوں کے لیے ہے جو Windows XPیا Vista استعمال کرتے ہیں
اپنے کمپیو ٹر پر اردو لکھنے کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں،اس طرح آپ اپنے کمپیوٹر پر ان پیج کے علاوہ Word پر پربھی اردو میں سوالات لکھ سکتے ہیں۔اگر آپ کے کمپیوٹر میں بیک اپ فائل ہے تو Windows XP کی CD کی ضرورت نہیں،ورنہ Windows XP کی CD ڈالیں۔1۔ پہلے Start بٹن سے Control Panel میں جا کرRegional and Language Options پر کلک کریں2۔ لینگویج ٹیب کا انتخاب کریں اور انتخاب کرنے کے بعد Install Files for Complex Script and right –to-left languages(Including Thai) پر ٹک) (√کا نشان لگائیں۔3۔ پھر Apply بٹن کو کلک کریں ۔4۔ پھرDetails بٹن پر کلک کریں ۔5۔ اس کے بعد Add بٹن پر کلک کریں۔ پھر Input Language پر کلک کر کے Urdu کو منتخب کر لیں ۔اس کے بعد آپ باہر آجائیں ۔
اور Key Board layout /IME: پر کلک کر کے Phonetic کو منتخب کرلیں۔اس کے بعد OK بٹن کلک کر کے باہر آجائیں۔
اب آپ اردو فونٹ انسٹال کرلیں
فونٹ اور کی بورڈ کی دستیابی : نیو ایج میڈیا سینٹر ڈاٹ کوم یا روزنامہ جنگ یا اردو نیوز اردو ڈاٹ کوم کی سائٹ سے اردو فونٹ اور اردو فونیٹک کی بورڈ داؤن لوڈ کر سکتے ہیں ۔
( میں احتیاطاً یہ دونوں چیزیں ڈسٹینس ایجوکیشن کی ڈائریکٹر صاحبہ کو دے کر جا رہا ہوں جو صاحب اسے لینا چاہیں ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔یا میری موجودگی میں اگر آپ اپنے کمپیوٹر پر یہ سہولیات چاہتے ہیں تو میری خدمات حاضر ہیں )
نوٹ: ان ہدایات پر عمل کرنے کے بعد آپ کے کمپوٹر کے نیچے لائن میں Taskbar پر EN کا نشان بن کر آجائے گا۔اب آپ کوجب بھیWord میں اردو لکھنا ہو یا ای میل کرنا ہو یا کسی اور پروگرام پر کام کرنا ہو آپ بصد شوق پورے کمپیوٹر کو اردو میں استعمال کر سکتے ہیں ۔صرف اتنا کرنا ہے کہ Taskbar پر EN کو کلک کریں گے توکا نشان دکھے گا۔اس پر کلک کرکے براہ راست اردو میں لکھنا شروع کر دیں۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی دشواری ہو تو ہمیں میل کریں۔
khwajaekram@gmail.com
khwajaekram@yahoo.co.in
Ekramuddin@mail.jnu.ac.in
ظاہر ہے اس مختصر وقت میں اس سے زیادہ اور بات نہیں کی جا سکتی اس لیے باقی تمام ذرائع یا نیٹ ورک کا استعمال کیسے کیاجاسکتا ہے؟ یہ آپ کے شوق پر منحصر ہے۔ آپ کمپیوٹر پر Trail and error سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

3 comments

  1. حدیث نبویؐ ہے کہ ہوشیار وہ شخص ہے جو اپنے عصر کی روح کو سمجھتا ہو۔ استعاراتاً تو یہ بات شخص واحد کے لئے کہی گئی ہے لیکن اس کا اطلاق ہر معاشرے، ملک ، قوم اور ملت پر ہوتا ہے۔جو شخص اپنے عصر کی روح کو سمجھتا ہے وہ یہ بھی خوب سمجھتا ہے کہ اب جدید ٹکنالوجی سے الگ رہنا گویا اپنی ترقی کی راہیں مسدود کرنا ہے۔ اردو زبان و ادب جس نے تمام نا مساعد حالات کے باوجود اپنے وجود کو نہ صرف بچائے رکھا ہے بلکہ اپنی دلکشی بھی باقی رکھی ہے ، ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اسکی اس دور جدید سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کریں۔ پہلی بار مجھے اس بات کا احساس ہوا ہے کہ ہمارے اساتذہ اردو ادب کی بقاء کی جدو جہد میں نئی نسل کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ اب اور زیادہ غفلت اس زبان کے لئے مہلک ثابت ہوگی۔
    راغب اختر

  2. urdu font to smjh hi me nhi a rha hai

  3. Hi, Everything dynamic and very positively! 🙂
    Rufor

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *