Home / Socio-political / غلط طرز عمل و فکر

غلط طرز عمل و فکر

 عباس ملک

ملک میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں کے علاوہ مختلف تنظیموں اوراداروں کے ملازمین کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاجی مظاہروں اور کیمپوں کا انعقاد ہو رہاہے ۔ایسا ہی ایک احتجاج پچھلے دنوں پشاور روڈ پر حلقہ این اے۔ 54کے ووٹرز نے بھی کیا ۔اس موقع پر حلقہ کے ممبر قومی اسمبلی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں آپ حضرات میڈیا سے رابطہ کریں ۔میڈیا تو عوام کے رابطہ کیے بغیر بھی عوام کے مسائل کیلئے ہمہ تن گوش ہوتا ہے ۔دوسرا میڈیا کی اولین ذمہ داری ہی عوامی مسائل کع اجاگر کرنا اوراسے حکومت تک پہنچانا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو معاشرے میں اہم ترین ستون کی حیثیت حاصل ہے ۔ میڈیا عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہورہا تو پھر اپنی ذمہ داری کو میڈیا کے سر منڈھنے کو عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانے اور اپنے احساس ذمہ داری سے منہ موڑنے کے علاوہ کیا ہے ۔اس وقت ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ آیا کہ لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کا اجرا ء کیا میڈیا کی ذمہ داری ہے ۔دوسرا اگر حکمران اگر عوام دشمنی پر اتر آئیں تو میڈیا کو عوام کی نمائیندگی کا براہ راست اختیار حاصل ہو جاتاہے یا پھر عوامی نمائیندے ہی اس استحقاق کے حامل رہتے ہیں ۔اس سے زیادہ اور اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا عوام نے اپنے مسائل کے حل کیلئے سیاسی لیڈر شپ کو ووٹ دئیے یا میڈیا کو اس کا مینڈیٹ دیا ہے ۔لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی ،بیروزگاری ،امن عامہ جیسے مسائل کی میڈیا نے ہمیشہ نشاندہی کی لیکن کیا عوام کے منتخب کردہ عوامی نمائیندوں نے بھی اس شدت اور احساس سے ان مسائل کو حل کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔عوامی نمائیندے ووٹ حاصل کرنے کیلئے میڈیا کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔ایک خبر اور ایک انٹرویو کیلئے خود چل کر آتے ہیں ۔اس کی اعلی ترین امثال کیلئے تانگہ پارٹی کے چیئرمین اور کئی دفعہ کے چمپیئن وزیر اور موجودہ خارجہ امور پر بے باک گفتگو کیلئے میڈیا کو استعمال کرنے والے سابق وزیر کو دیکھا جا سکتا ہے ۔میڈیا اگر ان کو چند دن کیلئے نظر انداز کر دے تو ان موسمی پرندوں کے اپنے ہمسائے بھی ان کا نام بھول جائیں ۔اصل میں یہ میڈیا کی اپنی کوتاہی ہے کہ وہ عوام کو نظرانداز کرنے والے ان موسمی پرندوں کو نظرانداز نہیں کرتا ۔ان کے کمنٹس کے بغیر میڈیا کی نشریات اور طباعت میں کوئی فرق نہیں آتا لیکن نجانے کیوں میڈیا ان مجہولوں سے پیچھا چھڑانے میں عوام کا ساتھ اور راہنمائی نہیں کر پا رہا ۔

جمہوریت کے چمپیئن جہور کیلئے بیانات میں ہر قربانی دینے کے دعویدار ہیں لیکن انہوں نے کبھی قربانی کا مفہوم بھی جاننے کی کوشش نہیں کی ۔

اپنے مفادات کی قربانی تو درکنار اپنے مفادات کیلئے آئین اور قانون کو استعمال کرنے میں ہرگز کسی تساہل کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ جلسے اور جلوسوں میں حکمرانوں کے خلاف ہذیانی جذبات کے ساتھ لہرانے والے بازو آخر حکومت کی پشت پناہی کیلئے ہی کیوں وقف ہو جاتے ہیں ۔یہ ہاتھ بیوروکریسی کے گریبان تک جانے کیلئے استعمال کیوں نہیں ہوتے ۔اس لیے کہ یہی بیوروکریسی ان کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کا زینہ اور وسیلہ بھی ہے ۔اداروں کے افسران ان کے جائز و ناجائز کی تکمیل کیلئے خود کو وقف رکھتے ہیں جبکہ سیاستدان بھی ان کی پشت پناہی کیلئے اپنا رسوخ استعمال کرتے ہیں ۔سیکورٹی وی آئی پی ،رہائشی علاقہ جات وی آئی پی ،پروٹوکول وی آئی پی ،ان کیلئے پہلے ہی تھے اب ان کی حدود کے سب ڈویژن اور فیڈر واپڈا بھی وی آئی پی ہو گئے ۔ان کو انصاف بھی وی آئی پی ملتا ہے اور ان کو اختیار بھی وی آئی پی حاصل ہے تو عوام کیلئے وی آئی پی دھکے ہی بچتے ہیں۔عوام کو دینے کیلئے ان کے پاس خوش کن نعرے اور طفل تسلیاں ہیں ۔اس وی آئی پی ماحول میں انقلاب کی سوچ کون اور کیوں رکھے گا۔اپنا کوئی دشمن بھی کبھی ہوا ہے کوئی۔اس جنت سماں ماحول سے نکلنے کیلئے اسلامی مساوات کے اصول کی ترویج کی سوچ کیلئے جگہ کیونکر پیدا ہو گی۔ ابراہیم بن ادھم بنا نا تو سب چاہیں گے لیکن حوصلہ کون کرے اور پہل کون کرے گا ۔جن کے جی A/C میں بھی گھبرا رہے ہوں وہ گاڑی میں سفر کرنے کا انقلابی اقدام اٹھانے کیلئے کیونکر تیار ہو جائیں گے ۔ان سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ عوام کی طرح ٹیکسی کا استعمال کرپائیں گے ۔جن کی اپنی جانیں اتنی قیمتی ہوں کہ وہ سیکورٹی کے بغیر سفر نہیں کر پاتے ان کو اپنی جان بچانے سے فرصت ہوگی تو عوام کی جان و عزت کی حفاظت کا خیال آئے گا ۔اپنے مال و متاع کو بچانے کیلئے ہر اصول کو قربان کرنے والوں سے انقلاب کی توقع تو دور کی بات کسی اچھائی کی توقع بھی شیطان سے سجدے کی توقع رکھنے کے مترادف ہے ۔یہاں تو مذہبی جماعتوں کے امیر بھی اسلامی مساوات سے کوسوں دور کھڑے نظر آتے ہیں۔عام دنیا دار سیاستدان سے توقع کیوں؟

ان سیاستدانوں کی موجودگی اور ان کی راہنمائی اور قیادت میں انقلاب کے نعرے دیوانے کی بڑ ،اس کا خواب یا پھر شیخ چلی کا پلا ؤ ہی کہلا سکتا ہے ۔عمران خان ہو ں یا میاں شہباز شریف وہ بنیاد تو بتائیں جس پر انقلاب کی عمارت تعمیر کرنے کے نعرے بلند کرتے ہیں ۔الطاف بھائی کی طرز کا انقلاب لانے سے ملک میں بھتہ مافیا اور خانہ جنگی تو ہو سکتی ہے لیکن غریب عوام کی حالت زار پر کوئی فرق آنے والا نہیں ۔سیاسی عمائدین سے انقلا    ب کی نہیں اسی خانہ جنگی کی توقع رکھی جا سکتی ہے ۔یہ بھی طالبان کی طرح اپنے کچھار مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ جس کے ہاتھ جو علاقہ لگے وہ اسی ہر ہاتھ صاف کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے ۔یہ صوبائی تقسیم اسی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی منصوبہ بندی کی پیش بینی ہے ۔یہ تقسیم اس خواب کی تکمیل کی بنیاد بننے گی ۔اس وقت بھی اگر عدلیہ چاہے تو ممکن ہے کہ ملک میں انصاف کی فراوانی سے ملک کو چمٹی ہوئی ان جونکوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے ۔کتنے ہی واضح حقائق کے باوجود ابھی تک کسی قومی مجرم کو سزا نہ ملنے سے یہ امید کا یہ چراغ بھی چراغ سحر کی طر ح ٹمٹما رہا ہے ۔آج کی عدلیہ اور آنے والی عدلیہ میں بہت فرق ہو گا۔کون جانے اس میں کوئی نہ اور ناں کہنے والا یا سب جی حضور ہی کہنے والے ہوں۔انقلاب اگر ممکن تھا اور ہے تو وہ عدلیہ کے ہاتھوں ممکن ہے ۔اسے بھی آئین اور گڑے مردوں کے پوسٹ مارٹم میں الجھا کر انقلابی اقدامات سے دور رہنے پر مجبور کر دیا گیا یا پھر دانستہ یہ روش اختیار کی گئی ۔ڈنگ ٹپاؤ اور نوکری بچاؤ معاشرے کے اکابرین کے طرز عمل اور طرز فکر سے اخلاقی انحطاط تو تھا ہی لیکن اب دیگر خدشات بھی سر اٹھانے لگے ہیں ۔ اس قوم کا مسیحا کون بنے گا میڈیا یا سیاستدان یا دونوں مل کر اس کشتی کو بھنور سے نکالنے کی سبیل کریں گے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *