Home / Socio-political / ابھی وقت نہیں آیا شاید

ابھی وقت نہیں آیا شاید

     ابھی وقت نہیں آیا شاید

    عباس ملک malikabbas78@yahoo.com

 

تیونس اور مصر میں عوامی بیداری کی تحریک کے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں یہ سوال ہے جو ہر خاص و عام کیلئے اہمیت رکھتا ہے ۔خطہ کو تاریخی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کے اثرات کچھ زیادہ اہم نظر نہیں آرہے ۔امت مسلمہ خلافت کی وحدت کے زیر سایہ نہیں کہ ایک صوبہ کے حالات سے دیگر اکائیاں متاثر ہوں ۔جو بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ایشیاءکے مسلمان اگر خطہ کے حالت سے متاثر ہو کر اپنی راہیں متعین کرتے تو یقینا اس سے پہل کئی مواقع پر ایسا ہوتا ۔جنگ بلقان اتحادیوں نے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو پارا پارا کرنے کیلئے برپا کی تھی ۔اس کے زریعے ہی مسلمانوں کی وحدت کی لڑی کو توڑا گیا ۔البتہ اس کے خلاف تحریک خلافت کے پلیٹ فارم سے احتجاج کرنے سے ہند کے مسلمانوں کو اتحاد کیلئے پلیٹ فارم میسر آیا ۔تحریک خلافت کو تحریک پاکستان کی بنیادی اینٹ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ پچھلی دھائیوں میں خطے میں انقلاب ایران سے پڑوس پاکستان کے عوام متاثر نہیں ہوئے ۔حالانکہ یہ ایک مذہبی تحریک تھی ۔ایران میں مذہبی عناصر نے امریکی سامراج کے ایک ایجنٹ کے خلاف تحریک کامیابی سے ہمکنا ر کی تھی ۔ایرانی آج اسی تحریک کو اگے بڑھا کر جمہوریت کے زینے طے کر رہے ہیں ۔ مذہبی عناصر نے بادشاہت جو کہ سویت یونین کے زیر بار تھی کے خلاف افغانستان میں انقلاب برپا کیا ۔یکے بعد از دیگرے کشت و خون سے لبریز انقلابات افغانوں ے پہلے سویت یونین کے ایجنٹوں کے خلاف برپا کیے اور بعد ازاں مذہبی عناصر نے غلبہ حاصل کر کے اسے طالبان تحریک کی صورت دی۔اس کے نتیجے میں وہ امریکہ کے زیر بار آئے ۔انقلاب ایران اور انقلاب افغان میں قدر مشترکہ امریکہ کی دلچسپی ہے ۔شاہ ایران امریکہ کا وفادار اور شاہ افغا ن سویت یونین کے زیر بار تھا ۔ایران میں امریکہ اپنے ایجنٹ کو بچانے میں ناکام رہا لیکن سویت بادشاہت کو شکست دینے میں اس کی سڑیجڈی کامیاب رہی ۔ایران سے متاثرہ اسٹریجڈک ضروریات کو حاصل کرنے کیلئے افغانستان کو بیس کیمپ بنانے کی کوشش میں امریکہ آج تک مصروف عمل ہے ۔اس کے بعد سویت بیلٹ سے منسلک عراقی صدر صدام کو بھی امریکہ نے ایرانی کیمپ کو متبادل بنانے کی ضرورت کے تحت تخت سے تختہ دار تک پہنچایا ۔ ایران ،افغانستان اور عراق پاکستان سے انتہائی قریب اور ہمسایہ ممالک ہیں ۔ہمسایہ ممالک میں مذہبی عناصر کے غلبہ اور انقلا بات کے باوجود پاکستان میں مذہبی سیاسی عناصر کو پارلیمان میں بالا دستی حاصل نہیں ہوئی ۔البتہ ان کی سیاسی مداخلت کا رجحان بڑھ گیا۔اس سے انکے سیاسی دباﺅ میں اضافہ ہوا۔دیکھنے میں افغان انقلاب جو کہ ظاہر شاہ سے شروع ہو کر نجیب اللہ تک کی صورت میں سویت بالادستی کے خلاف جاری رہا کے پیچھے پاکستان کا عمل دخل خارجی اور داخلی امور کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اتنے قریبی تعلق کے بنا پر پاکستان کو داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا آج تک ہے ۔اس کے اثرات معاشی ضرور رہے ہیں لیکن انقلابی تبدیلی کی روح کا پیش خیمہ بننے سے قاصر رہے ۔تیونس ،مصر ،اردن میں مذہبی عناصر کی طرف سے امریکی سامراجی ایجنٹوں کے خلاف تحریک عروج پر ہے ۔مشرق وسطی کے بیشتر حکمران ذاتیات اور نیو ورلڈ آرڈر کے ترجمان کی حیثیت سے مبرا قرار نہیں پاتے ۔بیشتر مسلمان حکمران ملی حمیت سے قطع نظر دنیاوی معاشیات کے اصولوں کے نگہبان ہی قرار پاتے ہیں ۔مشرق وسطی میں حکمرانوں نے اگرچہ خاندانوں کو بھی معاشی عروج دیا لیکن اس کے ساتھ عوام کی فلاح کو بھی مدنظر رکھا ۔ان ریاستوں کے عوام کی حالت دنیا کے دیگر مسلم معاشروں سے بدرجہا بہتر ہے ۔مشرق وسطی کے عرب نوکری اور ملازمت کو ترجیح نہیں دیتے ۔تجارت ان کیلئے مرغوب ہے ۔ایسے میں ان کے بیشتر اداروں کیلئے مسلم اور غیر مسلم ممالک سے شخصی اور حکومتی طور پر افرادی قوت کو درآمد کر کے اس کمی کو پورا کیا جاتاہے ۔اس سے ان ممالک کی دولت کا ایک حصہ ان ممالک کو زر مبادلہ کی صو رت میں برآمد ہو جاتا ہے جہاں سے افرادی قوت دارآمد کی گئی ۔درآمد کندگان کی دولت برآمد ہونے سے ایڈمنسٹریشن اور کارکن فراہم کرنے والے معاشرے مستفید ہوئے ۔برآمدی افرادی قوت پر انحصار کرنے کا ازالہ اب دشوار امر ہے ۔

امریکی مفادات کے پیش نظر مشرق وسطی کے بگڑے ہوئے حلات پر امریکی تشویش بجا ہے ۔امریکی فوجی اڈے اورامریکی پالتو اسرائیل کیلئے مصر اور اردن ایک دفاعی لائن اور حصار کا کام کرتے ہیں ۔اگر بنیاد پرست اخوان المسلمین کو اقتدار منتقل ہوا تو امریکی اور اسرائیلی مفادات کو شدید زک پہنچنے کا احتمال یقینی ہے ۔اس کے اثرات اردن اور لبنان پر ضرور ہونگے ۔اس کے ساتھ اخوان فلسطینی تحریک انتقاضہ کی پشت پناہی کو اولیت دیکر اسرائیل کیلئے مصائب کھڑے کر سکتے ہیں ۔فلسطین کے موجودہ امریکی مفادات کے حکمرانوں کیلئے بھی ان کے دل میں شاید جذبہ ہمدردی نہ ہو ۔اسلامی ممالک میں مذہبی بنیاد پرستی کا ڈھونگ رچا کر معاشروں میں اعتدال پسندوں ،بنیاد پرستوں اور سیکولر ز کو باہم دست و گریباں رکھنا امریکی سٹیجڈی کا اہم ترین حصہ اور عنصر ہے ۔اس کیلئے مشرق وسطی ،ایران ،عراق ، افغانستان ،فلسطین سب واضح دلیلیں اور ثبوت ہیں ۔یہ اب حلق کی ہڈی نہ تو امریکہ سے نگلی جا رہیی ہے اور نہ ہی اگلی جارہی ہے ۔

مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے حالات کو اپنے سڑیجڈک مفادات کیلئے اگر امریکہ کنٹرول کرنے میں ناکام رہا تو یہ امریکہ کیلئے انتہائی مضر ہو گا ۔ان حالات کا براہ راست پاکستان یا پاکستانیوں کا متاثر ہونا نظر نہیں آ رہا ۔نہ تو یہ تاریخ کی روایت ہے اور نہ ہی اس خطے سے براہ راست کوئی ایسی روایت منسلک ہے ۔البتہ اگر عوام اگر از خود چاہیں تو ممکن ہے کہ کل ہی تخت و تاج کی ملکیت واپس لینے کیلئے وہ بھی دارلحکومت کا گھیراﺅ کر لیں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *