Home / Socio-political / فیصلہ تیراترے ہاتھوں میں ہے دل کہ شکم

فیصلہ تیراترے ہاتھوں میں ہے دل کہ شکم

سمیع اللہ ملک

پاکستان کے موجودہ حالات کے پس منظرمیں ۲مئی کے بعدمسلسل ہونے والے واقعات کے سامنے ۹مئی کوہماری افواج کے کورکمانڈرکاایک اہم اجلاس ہوا۔یہ کور کمانڈرکاماہانہ اجلاس اس لئے بہت اہم تھاکہ ۲مئی کوایبٹ آباداور۲۲مئی کومہران بیس پرملکی سلامتی اورخودمختاری کوجس طرح چیلنج کیاگیا،اس نے پاکستانی عوام کے اعتمادکوبری طرح ہلاکررکھ دیااورعوام اورعسکری قیادت کے مابین رشتے پرہرطرف سے انگلیاں اٹھناشروع ہوگئی ہیں۔گزشتہ کورکمانڈرکااجلاس ایبٹ آبادکے واقعے کے فوری بعدہواتھاجس میں کورکمانڈرنے یہ کہاتھاکہ اب پاکستانی فوج امریکاکے ساتھ اپنے تعلقات پرنظرثانی کرے گی اوراس کے ساتھ ہی پاکستان میں تمام امریکی اہلکارجوفوج کوبعض معاملات میں تکنیکی تربیت کیلئے موجودتھے ان سے تمام معاہدے ختم کرکے ملک چھوڑ دینے کی ہدائت کردی گئی۔

اس کورکمانڈرکے اجلاس کی اس لئے بہت اہمیت تھی کہ عسکری قیادت کوقوم کے اندرایک واضح سراسیمگی اورخوف کی ایسی واضح شکایات سامنے آئی ہیں کہ قوم اپنے اس ادارے پراپنا پیٹ کاٹ کرجوخرچ کررہی ہے اس سے مطلوبہ نتائج کیوں برآمد نہیں ہوسکے ،اب قوم اپنے مستقبل کی سلامتی کیلئے سوال پوچھ رہی ہے کہ ان کمزوریوں کی نشاندہی کے بعداب کیااقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس سے قوم کاشکستہ اعتماد بحال ہوسکے۔ گوکہ آج کے اجلاس میں قوم کومستقبل کے حوالے سے کوئی متعین اورٹھوس لائحہ عمل نہیں دیاگیالیکن کورکمانڈرکے اس اجلاس نے قوم کویہ پیغام دیاکہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اتحادکی ہے۔پاکستانی فوج کے اس اہم ترین اجلاس میں پاکستان میں فیصلہ سازی کے بہت اہم فورم نے یہ پیغام بھی دیاکہ پاکستانی فوج پارلیمنٹ کی اس قراردادکی مکمل حمائت کرتی ہے جس کے ذریعے ایبٹ آبادکے واقعے کی تحقیقات کااعلان کیاگیاتھااوراس قراردادمیں پاکستان کی امریکاسے ایک آزادپاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کوکہاگیاتھالیکن آج کے اس اجلاس میں یہ زوردیکرکہاگیاکہ پاکستان کی فوج جمہوریت کی حمائت جاری رکھے گی۔

کورکمانڈرکے اس اجلاس میں یہ بات بھی زوردیکرکہی گئی کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کی کوئی حمائت نہیں کی جارہی کیونکہ یہ تاثرپیداہواتھا کہ موجودہ شدیدبیرونی دباوٴ کے نتیجے میں سیاسی اورعسکری قیادت ایک دوسری کی غلطیوں کوچھپانے کی کوشش کررہی ہے۔اسی لئے کورکمانڈرکے اس اجلاس میں یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی جس کے نتیجے میں کورکمانڈرکے اس اجلاس میں یہ کہاگیاکہ”فوجی قیادت نے اس عزم کااظہارکیاہے کہ کسی خاص سیاسی جماعت کوترجیح دینے کی بجائے جمہوری نظام کی حمائت جاری رکھی جائے گی اوردہشتگردی کے خلاف دیگرقانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ آئین کے مطابق تعاون کیاجائے گا“۔اس اجلاس کے بعدجواعلامیہ جاری کیاگیاجوحالیہ کورکمانڈرز کے سابقہ روایات کے برعکس سب سے طویل اورتفصیلی اعلامیہ تھا۔اس میں بارہایہ بات کہی گئی کہ دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے کی ذمہ داری پاک فوج اورتمام قانون نافذکرنے والے اداروں کی ہے اور پاک فوج ان تمام اداروں کی مکمل حمائت اورمددکی پابندہے۔

اس اجلاس میں سب سے زیادہ فوج اور امریکاکے ان نئے تعلقات کواجاگرکیاگیاکہ پاک فوج اب امریکاسے ۲مئی سے قبل کے تعلقات نہیں رکھناچاہتی اوران تعلقات کوازسرنو استوارکرنے کی اشدضرورت ہے اوراس اجلا س میں دس ارب ڈالرکی امریکی امدادکے افسانے کی قلعی بھی کھولی گئی اورکہاکہ امریکی فوجی امدادکارخ ملکی معاشی امدادکی طرف موڑدیاجائے اورحکومت کواس سے مطلع بھی کیاگیاہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے حوالے سے فوج نے اپنی حمائت کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ ”شرکاء نے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ نوٹ کیاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اورحکومت کی جانب سے تعینات کئے گئے کمیشن کی حتمی تحقیقات میں التواکے باوجودکچھ طبقات اپنے مشاہداتی تعصب کی وجہ سے مسلح افواج خصوصاً آرمی کے امیج کوقصداًخراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں“۔یہ بھی بتایاگیاکہ فوج کے کورکمانڈرزنے حالیہ دنوں میں میڈیامیں فوج اورعوام کے درمیان تحفظات والے بیانات پربھی کافی غوروخوض کیاگیا۔اس اجلاس کے تفصیلی اعلامیہ میں یہ بھی کہاگیاکہ:

”چیف آف آرمی سٹاف نے فورم کوبتایاکہ امریکاکے ساتھ فوجی تعلقات کاجائزہ دوطرفہ تعاون کی روشنی میں لیاجائے گا،پاک امریکاتعلقات کو۲مئی کے واقعے اور۱۴مئی کومنظورکی گئی مشترکہ پارلیمانی قراردادکی روشنی میں ازسرنودیکھاجائے گا،اس معاملے میں پاکستانی عوام کی امنگوں کوبھی مدنظررکھاجائے گا،ان تمام امورکے تقاضوں کے پیش نظر آرمی نے پاکستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں کی تعدادمیں واضح کمی کردی ہے۔یہ واضح کرناضروری ہے کہ پاک فوج نے آج تک ایف سی اورجدیدہتھیاروں کی تربیت کے علاوہ امریکاسے کبھی بھی کسی اورتربیتی تعاون کی پیشکش منظورنہیں کیں اورموجودہ حالات میں یہ تعاون بھی ختم کردیاگیاہے“۔فورم کوچیف آف آرمی سٹاف نے مطلع کیاکہ ”پاکستان کیلئے فوجی تعاون کی بجائے معاشی تعاون زیادہ اہم ہے ۔مارچ۲۰۱۰ء میں پاک امریکااسٹرٹیجک ڈائیلاگ میں موٴقف کومدنظررکھتے ہوئے حکومت کوتجویزدی گئی تھی کہ پاک فوج کیلئے امریکی فنڈزکوپاکستان کی معاشی امدادکیلئے استعمال کیاجائے جس کی مددسے عام آدمی پربوجھ کم کیاجاسکتاہے“۔

کورکمانڈرزکے اجلاس کا اعلامیہ کہ جوپاکستانی پارلیمانی قرادادمیں واضح کہاگیاتھاکہ امریکاسے دوری اورامریکاسے لگاوٴ نہیں ہوناچاہئے اس سے ہم آہنگ نظرآرہاہے۔پاکستان اورامریکاکے انٹیلی جنس اداروں میں تعلقات کادوبارہ اجراء ہوچکاہے ۔اب سی آئی اے اورآئی ایس آئی میں تعلقات دوبارہ بحال ہوچکے ہیں۔آج کے اجلاس میں اس پرروشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہاگیاکہ”شرکاء کومطلع کیاگیاکہ امریکاکے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کس حدتک قائم ہے ،یہ فیصلہ کیاگیاکہ انٹیلی جنس معلومات کاتبادلہ سختی سے دوطرفہ بنیادوں اورمکمل شفافیت کی بنیادوں پرہوگا۔امریکی انٹیلی جنس حکام کوواضح کردیاگیاہے کہ ہماری سرزمین پرکسی امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کو آزادانہ آپریشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی“۔

فوج کی جانب سے یہ بھی کہاگیاکہ اب ریمنڈڈیوس جیسے آپریشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ پاک فوج کو امریکی امداکی جوتشہیرکی گئی ہے اس کے بارے میں بھی بہت ہی اہم انکشافات کئے گئے ۔”چیف آف آرمی سٹاف نے فورم کویہ بھی بتایاکہ گزشتہ دس سالوں میں پاک فوج کی جانب سے ۱۳سے ۱۵/ارب ڈالر کے اخراجات کی بات بھی غلط ہے ، اتحادی سپورٹ فنڈکے تحت امریکاسے ۱۳/ارب ڈالر کی بجائے حکومت پاکستان کو اب تک صرف ۶․۸/ارب ڈالرملے ہیں ،اس رقم میں سے پاک فوج کیلئے گزشتہ دس سالوں میں صرف ۴․۱/ارب ڈالرمختص کئے گئے اورپاک فضائیہ اورپاک بحریہ کواس سے بھی کم رقم ملی،بقیہ ۶/ارب ڈالر کی رقم حکومتِ پاکستان نے بجٹ کیلئے استعمال کی یعنی یہ رقم پاکستانی عوام کی فلاح کیلئے خرچ کی گئی“۔

اجلاس کے اعلامیہ میں اس بات پربھی بہت زوردیاگیاکہ” شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے کسی ٹائم فریم کاکوئی غیرملکی دباوٴ نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان کے لوگوں سے کہاگیاہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجودغیرملکی دہشتگردوں کوازخودکاروائی کرکے نکال دیں اورشمالی وزیرستان میں رہنے والے اپنے مستقبل اورقسمت کافیصلہ خودکریں اوراس بات کابھی انتباہ کیاگیاہے کہ پاکستان کی سرزمین کوکسی دوسرے ملک میں کسی بھی کاروائی کیلئے استعمال کرنے اورملک کے اندرکسی بھی قسم کی دہشتگردی کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی۔اس تفصیلی اعلامیہ میں پاکستانی قوم کویہ بہت زوردیکرکہنے کی کوشش کی گئی ہے ۲مئی کے واقعہ کے بعدتمام امریکی فوجیوں کوملک چھوڑنے کی ہدائت کردی گئی ہے اور اب پاک فوج امریکاکے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کوازسرنو ترتیب دے رہی ہے۔آئی ایس آئی اورسی آئی اے میں اب تعلقات کی نوعیت پہلے جیسی قطعاًنہیں بلکہ شفاف اوربرابری کی سطح پراستوارہونگے ۔بنیادی پیغام یہ ہے کہ اگرحکومت پارلیمانی قراردادکے مطابق ایک آزادخارجہ پالیسی ترتیب دیتی ہے جوامریکی اثرورسوخ سے پاک ہوتوفوج اس کی حمائت کرے گی،فوج اپنے اندرپہلے ہی امریکی اثرونفوذ سے پاک ایسانظام ترتیب دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔

دوسری اہم بات جواس اعلامیہ میں اس تاثرکوزائل کیاگیا کہ عسکری قیادت کی ہمدردیاں کسی خاص سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور پاکستانی قیادت جس کاامیج پاکستانی عوام کے سامنے کافی خراب ہے اس کے ساتھ عسکری قیادت جڑی نظرنہ آئے بلکہ فوج کی دلچسپی جاری جمہوری نظام کے ساتھ ہے۔ یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں لیکن قوم کوکسی ٹھوس اورمضبوط حکمت عملی کاانتظارہے جس سے پاکستان کی مشکلات ختم ہوسکیں جوکورکمانڈرزکے اس جامع اورتفصیلی اعلامیہ میں کہیں نظرنہیں آتی بلکہ یہ موجودہ حالات پرایک تبصرہ معلوم ہوتاہے۔قوم تویہ توقع کررہی ہے کہ آخرپاکستان کوان مشکلات سے کیسے نکالاجائے؟

تہران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہمسایہ ملک ایران کے صدراحمدی نژادنے ہمارے نیوکلیراثاثوں کے بارے میں جن امریکی سازشوں کاانکشاف کیاہے” امریکا پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کرناچاہتاہے اورہمارے پاس اس بات کے ٹھوس شواہدموجودہیں۔امریکاکامقصد یہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اورعوام کوکمزوروناتواں کرکے عملاً پاکستان پراپناکنٹرول حاصل کرلے۔امریکااقوام متحدہ اوراسی طرح کے دوسرے بین الاقوامی اداروں کولیورکے طورپراستعمال کرتے ہوئے زمین ہموارکرے گااورپاکستان میں وسیع پیمانے پراپنی موجودگی کاجوازپیداکرتے ہوئے اس کی آزادی وخودمختاری کومفلوج کردے گا“۔

ایسے ہی خدشات کااظہارسوڈان کے سابق نائب وزیراوراہم سیاسی رہنماجلال الدین عبدالمجیدالکریم نے کیاہے کہ ”امریکاکی نظریں پاکستان کے جوہری اثاثوں پرہیں اوروہ انہیں ختم کرناچاہتاہے۔پاکستان اسلام کاقلعہ ہے جس کی حفاظت تمام اسلامی ممالک پرلازم ہے۔مجھے یادہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکے دورمیں امریکانے پاکستان کواپنے جوہری اثاثے ظاہرکرنے کیلئے کہاتھالیکن پاکستان نے اس امریکی دھمکی کونظراندازکردیاتھا۔اس کے بعدسے امریکا جوکچھ پاکستان میں کررہاہے یاکروارہاہے ،اس کی نظریں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پرہیں“۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مسلح افواج کی بعض پالیسیوں پرکڑی تنقیدکی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود پوری قوم یکسوئی اورپورے یقین واعتمادکے ساتھ سمجھتی ہے کہ ان قومی اثاثوں کے نگرانی عالمی معیارسے بھی زیادہ محکم ،کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے تحت ہیں لیکن کیاہی اچھاہوتاکہ کورکمانڈرزکے اس اجلاس کے اعلامیہ میں قوم کے نام ایسی یقین دہانی کااظہارکیاجاتااورقوم کے دل میں یہ خدشہ پیدانہ ہوتاکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی وعسکری قیادت ابھی تک ملک و قوم کی سلامتی اورخودمختاری کے خدشات کاکوئی حل پیش کرنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔

دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت فیصلہ تیراترے ہاتھوں میں ہے دل کہ شکم

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *