آج قومی اردو کونسل کے صدر دفتر ’فروغ اردو بھون‘ میں اردو کے سفیروں یعنی عالمی شہرت یافتہ شاعروں کے ساتھ اردو کے مسائل اور فروغ کے موضوع پر لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے ایک خصوصی ملاقات اور شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ آج کی اس محفل میں اردو ادب سے وابستہ اہم شخصیات اور اردو کے نمائندہ اخبارات کے مدیروں کے علاوہ قومی اردو کونسل کے ممبران نے بھی شرکت کی۔ اس ملاقات کا مقصد سہ رخی تھا ایک طرف تو قومی اردو کونسل (نوڈل ایجنسی برائے وزارت ترقی انسانی وسائل ) غیر ملکی شاعروں اور دہلی کے ادبی حلقوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک بامعنی ملاقات کرنا چاہتی تھی۔ جسٹس کاٹجو کی صدارت میں اس محفل کا اہتمام کیا گیا ۔ قومی اردو کونسل اردو دنیا میں اردو زبان و ادب سے متعلق جو تحقیقی ، تخلیقی اور اشاعتی کام انجام دے رہی ہے ان سے اردو کے ان مہمان شعرا کو واقف کرانا اس تقریب کا مقصد تھا اور اردو کے فروغ میں جو ہند آریائی وراثت کے امین ہیں عالمی سطح پر انھیں متعارف کرایا جا سکے۔
قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے اس موقع پر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی ہمہ گیریت سے انکار نہیں کیا جا سکتا میں قومی اردو کونسل کی جانب سے آپ سبھی کا استقبال کرتا ہوں۔ اردو زبان کی تہذیب، مذہب ، ذات اور سرحد میں قید نہیں ہے،اردو زبان کے کئی پہلو ہیں۔ دکن سے جب یہ زبان شمال کی طرف آتی ہے تو اس کو ایک نئی پرواز ملتی ہے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں مشاعروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اور ہم بحیثیت اردو داں اس سچائی سے انکار نہیں کر سکتے۔آج اردو زبان بر صغیر کے علاوہ مغرب کی نئی بستیوں میں ترقی کے چراغ جلا رہی ہے۔
قومی اردو کونسل کے وائس چیئرمین جناب پروفیسر وسیم بریلوی نے بیرون ممالک سے آئے شعرا جناب انور مسعود (پاکستان)، جناب عزیز نبیل (قطر)، ڈاکٹر زبیر فاروق (متحدہ عرب امارات)، جناب باصر کاظمی(لندن)، جناب میکس بروس نادر (امریکہ) کا ایک مختصر سا تعارف پیش کیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ آج اردو ایسے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے جہاں اس کے مستقبل سے قطعی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو ادب و صحافت کی مقتدرشخصیات اور سماجی کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب نے آج یہاں آکر محفل میں رنگ بھرا ہے۔ 64برسوں میں اردو کا کسی حد تک جو نقصان ہوا ہے آج غیر اردو داں گھرانے اس کی بھرپائی کر رہے ہیں۔ ایسے افراد اور غیر اردو اداروں کی پذیرائی ہونی چاہیے، جنھوں نے اردو زبان و ادب اور صحافت کو تحفظ فراہم کیا ہوا ہے۔ جسٹس کاٹجو کے تعارف میں انھوں نے کہا کہ ساری زندگی جج کے فرائض انجام دیے لیکن حقیقت میں وہ اردو زبان کے وکیل ہیں۔ آج وہ اردو کے لیے صداقت و انصاف کے پیکر بن کر کھڑے ہیں۔
جہاں جہاں کوئی اردو زبان بولتا ہے
وہیں وہیں میرا ہندوستان بولتا ہے
اس شعر کے ساتھ پروگرام کی نظامت کی ذمے داری سنبھالتے ہوئے جناب منصور عثمانی نے عزیز نبیل کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق بھیونڈی، مہاراشٹر سے ہے اور وہ انجمن محبان اردو کے بینر تلے دوحہ، قطر میں اردو کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔
عزیز نبیل:
میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
کسی نے کھودیا مجھ کو کسی نے پایا مجھے
اس سلسلے کی اگلی کڑی جناب باصر کاظمی تھے، جن کا تعلق لندن سے ہے۔وہ انگلینڈ میں انگریزی ادب اور ڈرامے کے استاد ہیں۔ ’تلاش خیال‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا ہے۔ آپ کے والد مشہور شاعر ناصر کاظمی تھے۔اسی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ :
باصر کاظمی:
خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر ہے کہ اٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
پہلے امریکی اردو شاعر ا ور اسرار الحق مجاز اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ایوارڈ یافتہ جناب میکس بروس نادر ،مولانا شبلی کے فن و خدمات اپنی ریسرچ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ :
وہ شوخ انتقام کا خوگر نہیں رہا
شیشہ گروں کے شہر میں پتھر نہیں رہا
جناب زبیر فاروق جن کا تعلق دبئی سے ہے وہ امراض جلد کے ماہر ہیں۔عربی ،اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت عبور حاصل ہے ان کی اب تک 31کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ دونوں ہی زبانوں میں اپنے لطیف انداز میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں :
جگ کے آگے رونا کیا صحراوٴں میں بونا کیا
چین سے رہنے دے گا کون اب سونا کیا
پروفیسر مسعود انور جن کا تعلق اسلام آباد (پاکستان ) سے ہے ان کے کلام سے ہر ایک چہرے پر مسکراہٹ اور رونق سی آگئی۔ ہر ایک شخص ان کے باذوق طنز و مزاح سے محظوظ ہو رہا تھا وہ مزاحیہ شاعری کے علاوہ سنجیدہ شاعری میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا ایک سنجیدہ کلام کچھ اس طرح ہے :
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
اس تقریب میں مہمان شعرا کو گلدستے پیش کرکے ان کا استقبال کیا گیا اور اردو کے تئیں ان کی بے لوث خدمات کی ستائش کی گئی۔
اس خاص موقع پر عربی نژادشاعر ڈاکٹر زبیر فاروق، جناب میکس بروس نادر کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوا کہ اردو سے وابستگی رکھنے والے لوگ بر صغیر تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کی فکر انگیز مقبولیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان دو حضرات نے اپنی ذاتی اور لسانی تجربات سے شرکائے محفل کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ نئی امیدوں کی داغ بیل ڈالی ۔ اپنی گفتگو سے بھی انھوں نے اردو زبان کے حوالے سے نئے امکانات کی وضاحت کی۔
بعد ازاں عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلے ’دستاویز ‘( دوحہ /دہلی) کا اجرا صدرِ مجلس جناب جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اور مجلے کے حوالے سے معروف فکشن رائٹر سید محمد اشرف نے گفتگو کی جسٹس کاٹجو نے اردو کی ہمہ گیری کی وضاحت کرتے ہوئے اردو کو ایک مخصوص طبقے کی زبان کے بجائے ہندوستانیت کا ترجمان بتایا۔ پروگرام کے اختتام پر جناب وسیم بریلوی نے تمام شرکا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس محفل میں کونسل کے پرنسپل پبلی کیشن آفیسر جناب نسیم احمد، وزارت ترقی انسانی وسائل کے مشیر اور مشہور صحافی جناب عزیز برنی ، پروفیسر اختر الواسع ، پروفیسر طاہر محمود، روزنامہ انقلاب کے مدیر جناب شکیل شمسی، جناب افضل مصباحی، روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ایڈیٹر جناب اسد رضا،محترمہ وسیم راشد ،(ایڈیٹر چوتھی دنیا)، سید محمد اشرف ، جناب انجم عثمانی (ڈی ڈی اردو) ، ڈاکٹر ڈی ایچ خان (این سی آر ٹی) ، کونسل کے ممبران جناب علیم الدین اسعدی ،جناب حافظ مطلوب کریم،جناب فاروق انجینئر، جناب فرید احمد، جناب فیروز بخت احمد، پروفیسر ابن کنول (دہلی یونیورسٹی)، پروفیسرمعین الدین جینا بڑے، جناب انیس اعظمی (سکریٹری دہلی اردو اکادمی)، جناب پی کے حسین مداور، ڈاکٹر رحمن جے این یو، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب ملک زادہ جاوید، ڈاکٹر شاہد ماہلی،ڈاکٹر شمیم احمد (دہلی یونیورسٹی)، ڈاکٹر شمس اقبال (این بی ٹی)، پروفیسر شریف حسین قاسمی،ڈاکٹر سید اختر حسین، سید پرویز،جناب منیت مورجانی(دی ہندو اخبار انگریزی)، جناب اے رحمن، جناب نوشاد علی، جناب طارق خان، نے شرکت کی۔
(رابطہٴ عامہ سیل)