قومی اردو کونسل نے اردو والوں کا حوصلہ بڑھایا ہے: زاہد علی خاں
اردو تعلیم کے لیے اردو والوں کو خود سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے: سید محمد اشرف
اردو زبان سے عشق کرتا ہوں جو سچائی کی زبان ہے: عطاء الحق قاسمی
قومی اردو کونسل نے اس کانفرنس سے اردو والوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے: پروفیسر وسیم بریلوی
نئی دہلی: 6ستمبر ، ’اکیسویں صدی میں اردو: فروغ اور امکان‘ کے موضوع پر قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے منعقد کی گئی بین الاقوامی کانفرنس میں آج پہلے سیشن کا موضوع ’اردو کے فروغ میں فلم اور میڈیا کا کردار‘ تھا۔ جس میں جلال حفناوی، آصف اعظمی، مشرف عالم ذوقی اور شکیل شمسی نے اپنے مقالات پیش کیے۔ مصر میں اردو کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے جلال حفناوی نے مصر اور ہندوستان کے تجارتی لین دین میں اردو کو ایک مضبوط میڈیم بتایا۔ ساتھ ہی اردو کی کتابوں کے عربی تراجم کا حوالہ بھی دیا۔ اردو کا فروغ اور ہندوستانی ماس میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے آصف اعظمی نے اردو کوقومی وراثت قرار دیتے ہوئے اردو رسم الخط کو ثقافت کا بے حد اہم حصہ قرار دیا۔ انھوں نے اردو کی روح اور اس کے ورثے کو سامنے رکھ کر نئے چینل اور صحافتی ادارے کے قیام پربھی زور دیا۔اردو کے تئیں امید کا اظہار کرتے ہوئے مشرف عالمی ذوقی نے بتایا کہ اردو کمیونٹی کے سامنے تشخص کا مسئلہ ہے۔ سوتیلے رویے کے باوجود اردو زندہ ہے۔ بنیادی تعلیم کو قدیم روش سے ہٹا کر جدید ٹیکنالوجی سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اب ای بک E-Book اور دیگر ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے جس میں آن لائن، آف لائن، ڈکشنری، اردو ٹولس، اردو میڈیا، اردو فاؤنٹس، اردو کی بورڈاور کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی روزگار سے جڑے مختلف اسکیموں اور کورسز کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی کوششوں کو قابل ستائش بتایا۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد فلمی صنعت میں اردو زبان کے وسیع تر استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے شکیل شمسی نے اردو کو فلمی صنعت کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ سیشن کے اختتام پر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے کونسل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ’عالمی قلم کار ایسوسی ایشن ‘ کے قیام کی تجویز رکھی اور درخواست کی کہ اس نوعیت کے پروگرام چھوٹے شہروں میں بھی منعقد کیے جانے چاہئیں۔ ڈاکٹر ناشر نقوی نے پنجاب کے حوالے سے اردو میلہ کے انعقاد کی تجویز رکھی اور یونیورسٹی آف پنجاب اور حکومت پنجاب کی جانب سے جملہ تعاون فراہم کرنے کی پیش کش کی۔مظفر شہ میری نے درسی اور عام بول چال کی زبان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی خاطر ورکشاپ یا کانفرنس کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے مختلف مقالات پر اظہارِ خیال کیا اور میڈیا اور فلم کے حوالے سے مختصراً گفتگو کی۔ مجلس صدارت کی دوسری رکن محترمہ کامنا پرشاد نے بے حد حسین الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی بات رکھی۔ معروف صحافی اور سماجی کارکن زاہد علی خان نے قومی اردو کونسل کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل نے اس کانفرنس کا انعقاد کرکے اردو والوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ انھوں نے اپنے روزنامہ ’سیاست‘ کی ویب سائٹ کے حوالے سے یہ خوشگوار اطلاع بھی فراہم کی کہ دنیا کے ایک سو بیالیس 142 ممالک اور تین ہزارپانچ سو چوبیس 3524 شہروں میں اردو پڑھنے والے موجود ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہر مہینے تقریباً پندرہ لاکھ لوگ روزنامہ ’سیاست‘ پڑھتے ہیں۔ کونسل کے وائس چیئرمین پروفیسر وسیم بریلوی نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالات کا مختصراً جائزہ لیا اور تجاویز و سفارشات پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے خوش آئند مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اردو نہ کبھی ختم ہوئی تھی اور نہ کبھی ختم ہوگی۔ انھوں نے ڈاکٹر خواجہ اکرام کی کوششوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ آج کونسل کا ڈائرکٹر ایک ایسا شخص ہے جو عہدحاضر کی تمام ضروریات سے ہم آہنگ ہے اور رات دن بغیر تھکے اور رکے اردو کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔
دوسرے سیشن کی مجلس صدارت میں پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر اسلم آزاد، پروفیسر وسیم بریلوی اور عابدہ انعام دار شامل تھے۔ تاجکستان سے تشریف لائیں مالاخوا زیب النسا نے اپنے پہلے مقالے میں کہا کہ اردو زبان نے ہندوستان اور تاجکستان کے درمیان ایک تہذیبی و ثقافتی رابطہ قائم کیا ہے۔ تہران یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی نے غالب اور نظیر کی شاعری میں انسان دوستی کے عناصر کی نشان دہی کی۔ جب کہ پاکستان سے آئے پروفیسر جمیل اصغر نے اقبال بحیثیت انسان دوست شاعر کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے اردو افسانے میں انسان دوستی کے عناصر پر اپنی گراں قدر رائے سے سامعین کو فیض یاب کیا۔ اعظم کیمپس پونے کی نائب صدر محترمہ عابدہ انعام دار نے صدارتی کلمات میں ہندوستان کے آئین میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام سے متعلق دفعات کی جانکاری دی اور کہا کہ ہمیں ان کا سہارا لیتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور اردو کی بنیادی تعلیم کی سمت میں پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے چلائی جارہی اسکیموں اور پروگراموں کی جانکاری دی اور یہ مشورہ بھی دیا کہ کونسل ان اسکیموں کے نفاذ میں اہم کردار ادار کرسکتی ہے۔ پروفیسر اسلم آزاد نے بہار میں اردو کی صورت حال پر روشنی ڈالی۔ جب کہ پروفیسر عتیق اللہ نے اردو قواعد اور زبان سے متعلق بڑی عالمانہ گفتگو کی۔
’سفارشات اور تجاویز‘ پر مبنی اختتامی اجلاس میں عطاء الحق قاسمی نے امریکی اور یوروپی ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو بھی اسی طرح مل جل کر اتحاد و اتفاق سے رہنا چاہیے بلکہ ان دونوں ممالک کے درمیان ویزے کی شرائط میں نرمی دینے کی ضرورت ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے اختتامی کلمات میں اردو کی ترقی سے متعلق بہت اہم نکات پر روشنی ڈالی ۔انھوں نے اس تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی جملہ کارگزاریوں کا اجمالی خاکہ پیش کیا اور کانفرنس کو نہایت کامیاب بتایا۔ پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے اردو، عربی اورفارسی کی تعلیم و تدریس اور ترویج و ترقی سے متعلق اردو والوں کی طرف سے حکومت ہند کے لیے تجاویز کی ایک لمبی فہرست پیش کی جس پر مزید غور و خوض کے بعد مرکزی حکومت کے روبرو پیش کرنے پر اظہارِ اتفا ق کیا گیا۔
(رابطہ عامہ سیل)