مالیگاؤں دھماکہ: انصاف کا عمل مسلمانوں کیلئے دشوار کیوں؟
admin
November 19, 2011
Socio-political
785 Views
عابد انور
انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی کے زمرے میں آتی ہے جس کا شکار مسلمان بڑے پیمانے پر اور منظم طور پر آزادی کے بعد سے ہورہے ہیں۔ پوری دنیا میں انسانیت کے تئیں عوام، حکومت، اہلکار، میڈیا اور عدلیہ کے نظریے میں تبدیلی آئی ہے لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے تئیں سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ حکومت، افسران، میڈیا اور انصاف کے دیگر ذرائع کے نظریے میں ان کے تئیں مزید سختی آگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام انجام دینے والے حکومت میں تو سرخرو ہوتے ہی ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں جلد ہی راحت مل جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے خلاف جلد شکایت ہی درج نہیں ہوتی اگر درج ہوجاتی ہے تو پولیس اور عدالتی نظام کا رویہ ان کے تئیں نہایت ہمدردانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بہ آسانی کسی بھی سنگین جرم سے بچ جاتے ہیں۔ یہ باتیں فرقہ وارانہ فسادات، بم دھماکے اور دیگرواردات کے سلسلے میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ جہاں بھی دیکھیں بقول فیض ”سنگ و خشت مقید ہیں سگ آزاد“۔ہندوستان میں ہونے والے بیشتر بم دھماکوں کی روئداد یہی ہے۔ اصل مجرم کھلی ہواؤں میں سانس لے رہے ہیں اور بے قصور جیل کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ اس نا انصافی کو توسیع دینے اور امتیاز برتنے میں میڈیا کا رول نہایت قبیح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند بم دھماکے میں سیکڑوں مسلم نوجوان آج سلاخوں کے پیچھے ہیں نہ ہی ان کو سزا دی گئی ہے اور نہ ہی ضمانت۔ حکومتی مشنری عدالتی کارروائی کو اس قدر طول دیتی ہے کہ عمر قید کی سزابے قصور افراد یونہی پورای کرلیتے ہیں۔ خواہ گودھرا کیس ہو یا ممبئی بم دھماکے جس میں تھوک کے حساب سے موت کی سزائیں دی گئی ہیں اور بہت سارے افراد بے قصور ثابت ہوئے لیکن بیشتر ان میں سے عمر قید کی سزا کے برابر جیل میں گزار چکے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ہمارا عدالتی نظام، حکومت، افسران یا ہندوتوا کا علبرداروہ میڈیا جو ہر واقعہ کے لئے جان بوجھ کرمسلم نوجوانوں کو ان دھماکوں میں ملوث کرتے ہیں۔کسی واقعہ میں اگر کسی ہندو کا نام ابتدائی تفتیش میں سامنے آتا بھی ہے تو دوسری خبر میں اس کی جگہ کسی مسلمان کا نام آجاتا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں دھماکہ خیز مادہ برآمد کیا جاتا ہے اسے بھی دوسرا رخ دے دیا جاتا ہے اگر یہ دھماکہ خیز مادہ کسی مسلمان کے پاس سے برآمد ہوتا ہے تو اس کی زد میں پارلیمنٹ،اکشر دھا م مندر، وزیر اعظم سمیت تمام چھوٹے بڑے سیاسی لیڈران ہوتے ہیں لیکن اگر یہی دھماکہ خیز مادہ کسی غیر مسلم کے پاس سے برآمد ہوتا ہے کہ تو اس کارخ کان کنی اور پتھر توڑنے کی طرف موڑ دیاجا تا ہے۔ جب تک اس نظریے میں تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ یہاں انصاف ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
2006کے مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں گذشتہ پانچ بر سوں سے جیل کی صعوبتیں بر داشت کر نے والے نو ملزمین سے سات کی رہائی عمل میں آگئی ۔ ان میں سے دو ممبئی بم دھماکے کے بھی ملزم ہیں اس لئے انہیں رہا نہیں کیا گیا ۔ ان کی رہائی کا راستہ اسی وقت صاف ہوگیا تھا جب سوامی اسیمانند نے 20 دسمبر 2010کو مالیگاؤں، اجمیر، حیدرآباد، سمجھوتہ ایکسپریس سمیت دیگر بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان میں ہندو دہشت گردوں سمیت آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا ہاتھ ہے۔ اس ایجنسی نے تمام تحقیقات مکمل کرلی تھیں یہ بات عدالت کو بتادی تھی لیکن اس نے عدالت میں ملزمین کو ضمانت دینے کی کوئی بات نہیں کی تھی جس کی وجہ ملزمین کو بے حد مایوسی ہوئی تھی۔ خصوصی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کے جج وائی ڈی شنڈے کی عدالت میں مالیگاؤں بم دھماکہ۲۰۰۶ میں ماخوذ نوملزمین نورالہدیٰ شمس الدین۔شبیر احمد مسیح اللہ ۔ رئیس احمد رجب علی منصوری ۔ ڈاکٹر سلمان فارسی عبد اللطیف ۔ ڈاکٹر فروغ اقبال احمد مخدومی۔ شیخ محمد علی عالم شیخ، آصف خان بشیر خان جنید ۔محمد زاہد عبد المجید انصاری اور ابرار احمد غلام محمد کے مقدمہ کی سماعت گزشتہ ماہ ہو ئی تھی۔ جس کے دوران این آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ا س نے ملزمین کا برین میپنگ نارکو ٹیسٹ اور دیگر طبعی تجزیہ کیا ہے ۔جج شنڈے نے استغاثہ کو حکم دیاتھا کہ وہ ۴، نومبر تک تحقیقاتی رپورٹ کے ساتھ ساتھ ان ملزمین کے برین میپنگ (barin maping test) اور پولو گرافی رپورٹ(Polyghraphy Report ) نیز ملزمین کی جانب سے داخل کردہ درخواست ضمانت کا جواب عدالت میں پیش کرے تاکہ مقدمہ کی سماعت کے وقت فریقین کے وکلاء اس پر بحث کر سکیں۔سوامی اسیمانند کے بیان حلفی کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں کو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کے مالیگاؤں دھماکہ کے الزام میں گرفتار بے قصور لوگوں کی ضمانت ہوجائے گی لیکن سی بی آئی نے اس سلسلے میں کوئی پیش نہیں کی اور اس کی تحقیقات کا دائرہ اے ٹی ایس کے طر ز تک محیط تھا۔ مسلمانوں کے مطالبے پر حکومت نے اسے کی تفتیش سی بی آئی سے قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کو مارچ 2011 کو سونپ دی۔ اس ایجنسی نے اپنی تفتیش ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہی اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔ ممبئی کی عدالت نے نو مسلمانوں کو ضمانت دی تھی ان میں سے سات کو رہا کر دیا گیا ۔ حالانکہ عدالت نے ان لوگوں کی ضمانت پانچ نومبر کومنظور کی تھی لیکن جیل سے باہر آنے میں انہیں مزید گیارہ روز لگے ہیں۔ پانچ نومبر کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ ملزمان کی جانب سے ضمانت کی درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی۔ان کا اب یہ موقف ہے کہ ان دھماکوں میں مسلمان شدت پسندوں کے بجائے ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ تھا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ملزمان کو پچاس ہزار روپے کے مچلکے پر رہا کردیا جائے لیکن تفتیشی ایجنسی این آئی اے تفتیش کے ژولیدہ زلف کے حصار باہر نہیں نکلنا نہیں چاہتی ۔
مالیگاؤں بم دھماکہ کی کہانی بھی اسی پلاٹ پر لکھی گئی تھی اور وہ مکمل طور پر اس میں کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن سوامی اسیمانند کے اقرار جرم نے اس سازش کی تہ بہ تہ پرت سے پردہ اٹھایا اور جو نام سامنے آیا اس سے دہشت گردی کی ایک نئی کہانی سامنے آئی۔اس میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو ہندوستانی سماج ایک مذہبی گرو، ایک محافظ اور ایک اپدیشک کے طور پرجانے جاتے تھے۔ اس میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیمانند اور آر ایس ایس سے وابستہ کئی سینئر پرچارک شامل تھے۔ ہندوستانی انتظامی اور سیکورٹی مشنری کی سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ کسی ہندو کو دہشت گرد تسلیم نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں دہشت گردی کے واقعات صرف مسلم نوجوان ہی انجام دیتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پر نظر رکھنے والی خفیہ ایجنسی کو دھماکے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتایا وہ جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں کہ کسی مسلمان کو پکڑ لیں گے اور کیس حل ہوجائے گا۔ مالیگاؤں میں عین شب برات کی شام میں مہاراشٹر کے مالیگاوٴں میں 29 ستمبر2006 کو موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکے کرکے سات کو ہلاک اور 70 سے زائد افراد کو زخمی کردیا تھا۔اس کے مالیگاؤں میں دوسرا 2008 کو ہوا تھا جس میں37 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سوامی اسیماند کو گزشتہ سال 19 نومبر 2009کو اجمیر ، حیدرآباد اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسیمانند نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ”آر ایس ایس نے اپنے کارکن سنیل جوشی کا قتل کروایا ہے اور اس سے وابستہ کئی لوگ ان دھماکوں کے لئے ذمہ دار تھے.” سی بی آئی نے اسیمانند کے اقبالیہ بیان کے بعد عدالت میں عرضی دی تھی کہ اسے اس معاملے میں دوبارہ جانچ کی اجازت دی جائے۔ 2006 میں ممبئی سے مالیگاؤں میں بم دھماکوں کے سلسلے میں ممبئی اے ٹی ایس نے 2006 میں ہی چارج شیٹ داخل کی تھی۔ اس تفتیش سے مسلمان خوش نہیں تھے کیوں کہ ان کا ہی جانی اور مالی نقصان بھی ہوا تھا اور ان ہی کے افراد بھی پکڑے گئے تھے۔سخت دباؤں اور پرزور مطالبے کی بنیاد پر یہ معاملہ اے ٹی ایس سے لے کر سی بی آئی کو سونپ دی گئی تھی۔ ممبئی اے ٹی ایس نے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس دھماکہ میں شامل مسلم نوجوانوں کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔27 اگست 2011 ان مسلم نوجوانوں کا برین میپگ اور پولیوگرافی ٹیسٹ گجرات کی لیبارٹری میں این آئی اے کرائی گئی تھی۔ ان ملزموں پر مکوکا بھی لگایا تھا لیکن بے گناہی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔
مسلمانوں خصوصاً جیل بند بے قصور مسلم نوجوانوں کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب بامبے ہائی کورٹ نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے دو ملزمان کو ضمانت کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے شیونرائن کلساگرا اور شیام ساہوکو یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی تھی کہ ان کے خلاف ثبوت کافی نہیں ہیں۔ جسٹس اے ایم ترپاٹھی نے کہا کہ ملزم صرف دھماکوں کے اہم ملزم رام چندر کلساگر کو جانتے ہیں اور وہ بھلے ہی سازش سے واقف تھے لیکن صرف اس بنیاد پر ہی انہیں مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب کہ دوسری جانب پورے ملک میں صرف شک کے بنیاد پر بہت سارے مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ظاہر ہے عدلیہ کا رویہ اس معاملے پر کافی خطرناک حد تک فرقہ وارانہ ہو چکا ہے۔ وہیں دہشت گردی کے معاملے میں ملک کا دوہرا معیار بھی سامنے آتا ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام پر مسلسل مسلمانوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو اجاگر کرنا چاہئے کہ اگر انڈین مجاہدین نام کی مسلم نوجوانوں کی کوئی تنظیم ہے تو اس کا سربراہ کون ہے، کون چلاتا ہے اور فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔ کاش مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو اور محض جاننے اور ڈائری میں نام ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن نہ کردی جائے۔ بیشتر بم دھماکے میں ایسا ہی ہوا ہے اور محض نام بتانے اورملزم کی ڈائری میں نام درج یا ٹیلی فون نمبر ہونے کی بناء پر نہ صرف حراست میں لیا گیا بلکہ جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیا۔طویل عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔
جن لوگوں ں پر الزام تھا ان کو ضمانت دلانے میں انتظامیہ جس سرعت کا مظاہرہ کیا وہ ہندوستان کے انصاف کے دہرے معیار کی پول کھولتا ہے ۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں جیل قید مسلم نوجوانوں نے جب جب ضمانت کی درخواست کی دی سی بی آئی اور دوسری ایجنسیوں نے ہمیشہ مخالفت کی لیکن یہ مخالفت شیورنرائن اور رام ساہو کے معاملہ میں سامنے نہیں آیا ۔ملک کی معتبر سمجھی جانے والی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے آخر اتنے طویل عرصہ میں کیا تفتیش کی۔انہوں نے کس چیز کو بنیاد بنایا یا صرف ممبئی پولیس کے بیان کو درج کرکے تفتیش شروع کردی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں تربیت یافتہ افراد اور تیز طرار افسران ہوتے ہیں جو حقائق کی تہہ تک پہنچنے کا مادہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود سی بی آئی کا رویہ اس معاملے میں کیوں معاندانہ رہا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب مرکزی حکومت سے لیکر ریاستی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں انصاف کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے کا ہے تو سی بی آئی بھی اسی کا ایک حصہ ہے اور سی بی آئی اس کے اشارے کے بغیر کسی کو بے داغ قرار نہیں دے سکتی۔ سی بی آئی بھی اسی اکثریتی معاشرے کا ایک جز ہے جو پوری طرح مسلمانوں کے بارے میں مفروضات کے حصار میں ہے۔
مالیگاوٴں دھماکوں کے الزام میں گرفتار ہوئے دیانند پانڈے کے لیپ ٹاپ سے بہت سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ اس لیپ ٹاپ سے میٹنگ کا آڈیو بھی ملا تھا اور اس اجلاس میں آر پی سنگھ بھی موجود تھے۔ اے ٹی ایس نے ان دھماکوں کو لے کر 4000 صفحات کی چارج شیٹ مکوکا عدالت میں داخل کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پروہت نے ‘الگ آئین ، الگ ہندو قوم’ کے قیام کا پرچار کرنے کے مقصد سے 2007 میں ہندو وادی تنظیم ابھینو بھارت کاقائم کیا تھا۔چارج شیٹ کے مطابق سخت گیر نظریات کی تشہیر کے لئے آرمی افسر نے خود کے لئے اور ابھینو بھارت کے لئے تقریبا 21 لاکھ روپے جمع کئے تھے۔یہ ملزم ہیں لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت ، سدھاکر ، بھان دویدی عرف دیانند پانڈے عرف شنکراچاریہ اور میجر (ر) رمیش اپادھیائے۔اس کے علاوہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے پروین متالک کوگرفتار کر لیاتھا۔ انہوں نے مالیگاوٴں بم دھماکے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ سخت گیر ہندو تنظیم ابھینو بھارت کے اہم رکن ہیں اور وہ کرنل پروہت کے نجی سیکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ممبئی پولیس کے مطابق متالک نے 22 ستمبر 2008 کو کرنل پروہت کے کہنے پر سدھاکر چترویدی کے گھر سے دھماکہ خیز جمع کیا۔پولیس نے اپنی تفتیش میں پایاتھاکہ دھماکے کی جگہ سے جو دھماکہ خیز ملے تھے وہ سدھاکر چترویدی کے گھر سے ملے دھماکہ خیز مادہ سے میل کھاتے ہیں۔اے ٹی ایس کی طرف سے دائر چارج شیٹ کے مطابق پروہت نے 11 دیگر کے ساتھ مل کر سازش رچی تھی ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان ملزموں کے اعتراف جرم کے بعد بھی سی بی آئی نے ان مسلم نوجوانوں کو ضمانت دینے کی مخالفت کی تھی۔ اب یہ نوجوان باہرآگئے ہیں لیکن کیا حکومت، تفتیشی ایجنسی اور میڈیا ان لوگوں کو ان کے قیمتی پانچ واپس کرسکتے ہیں؟۔ ان لوگوں کے بے قصور جیل میں بند ہونے کی وجہ سے ان کے گھر والوں کو جن تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیا حکومت تلافی کرے گی؟۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی اورجواب دہی طے نہیں کی جاتی ۔ ان لوگوں کی تنخواہ سے بے قصور افراد کو ہرجانہ ادا نہیں کیا تا ۔ اس کے علاوہ انتظامی مشنری، افسران کے تربیتی نظام میں تبدیلی ،نفسیات کی تفہیم کے بغیر مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی توقع فضول ہے۔
D- 64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nangar, New Delhi- 110025 INDIA
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
مالیگاؤں دھماکہ: انصاف کا عمل مسلمانوں کیلئے دشوار کیوں؟تیشہ فکر عابد انور انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی کے زمرے میں آتی ہے جس کا شکار مسلمان بڑے پیمانے پر اور منظم طور پر آزادی کے بعد سے ہورہے ہیں۔ پوری دنیا میں انسانیت کے تئیں عوام، حکومت، اہلکار، میڈیا اور عدلیہ کے نظریے میں تبدیلی آئی ہے لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے تئیں سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ حکومت، افسران، میڈیا اور انصاف کے دیگر ذرائع کے نظریے میں ان کے تئیں مزید سختی آگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام انجام دینے والے حکومت میں تو سرخرو ہوتے ہی ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں جلد ہی راحت مل جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے خلاف جلد شکایت ہی درج نہیں ہوتی اگر درج ہوجاتی ہے تو پولیس اور عدالتی نظام کا رویہ ان کے تئیں نہایت ہمدردانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بہ آسانی کسی بھی سنگین جرم سے بچ جاتے ہیں۔ یہ باتیں فرقہ وارانہ فسادات، بم دھماکے اور دیگرواردات کے سلسلے میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ جہاں بھی دیکھیں بقول فیض ”سنگ و خشت مقید ہیں سگ آزاد“۔ہندوستان میں ہونے والے بیشتر بم دھماکوں کی روئداد یہی ہے۔ اصل مجرم کھلی ہواؤں میں سانس لے رہے ہیں اور بے قصور جیل کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ اس نا انصافی کو توسیع دینے اور امتیاز برتنے میں میڈیا کا رول نہایت قبیح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند بم دھماکے میں سیکڑوں مسلم نوجوان آج سلاخوں کے پیچھے ہیں نہ ہی ان کو سزا دی گئی ہے اور نہ ہی ضمانت۔ حکومتی مشنری عدالتی کارروائی کو اس قدر طول دیتی ہے کہ عمر قید کی سزابے قصور افراد یونہی پورای کرلیتے ہیں۔ خواہ گودھرا کیس ہو یا ممبئی بم دھماکے جس میں تھوک کے حساب سے موت کی سزائیں دی گئی ہیں اور بہت سارے افراد بے قصور ثابت ہوئے لیکن بیشتر ان میں سے عمر قید کی سزا کے برابر جیل میں گزار چکے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ہمارا عدالتی نظام، حکومت، افسران یا ہندوتوا کا علبرداروہ میڈیا جو ہر واقعہ کے لئے جان بوجھ کرمسلم نوجوانوں کو ان دھماکوں میں ملوث کرتے ہیں۔کسی واقعہ میں اگر کسی ہندو کا نام ابتدائی تفتیش میں سامنے آتا بھی ہے تو دوسری خبر میں اس کی جگہ کسی مسلمان کا نام آجاتا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں دھماکہ خیز مادہ برآمد کیا جاتا ہے اسے بھی دوسرا رخ دے دیا جاتا ہے اگر یہ دھماکہ خیز مادہ کسی مسلمان کے پاس سے برآمد ہوتا ہے تو اس کی زد میں پارلیمنٹ،اکشر دھا م مندر، وزیر اعظم سمیت تمام چھوٹے بڑے سیاسی لیڈران ہوتے ہیں لیکن اگر یہی دھماکہ خیز مادہ کسی غیر مسلم کے پاس سے برآمد ہوتا ہے کہ تو اس کارخ کان کنی اور پتھر توڑنے کی طرف موڑ دیاجا تا ہے۔ جب تک اس نظریے میں تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ یہاں انصاف ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ 2006کے مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں گذشتہ پانچ بر سوں سے جیل کی صعوبتیں بر داشت کر نے والے نو ملزمین سے سات کی رہائی عمل میں آگئی ۔ ان میں سے دو ممبئی بم دھماکے کے بھی ملزم ہیں اس لئے انہیں رہا نہیں کیا گیا ۔ ان کی رہائی کا راستہ اسی وقت صاف ہوگیا تھا جب سوامی اسیمانند نے 20 دسمبر 2010کو مالیگاؤں، اجمیر، حیدرآباد، سمجھوتہ ایکسپریس سمیت دیگر بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان میں ہندو دہشت گردوں سمیت آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا ہاتھ ہے۔ اس ایجنسی نے تمام تحقیقات مکمل کرلی تھیں یہ بات عدالت کو بتادی تھی لیکن اس نے عدالت میں ملزمین کو ضمانت دینے کی کوئی بات نہیں کی تھی جس کی وجہ ملزمین کو بے حد مایوسی ہوئی تھی۔ خصوصی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کے جج وائی ڈی شنڈے کی عدالت میں مالیگاؤں بم دھماکہ۲۰۰۶ میں ماخوذ نوملزمین نورالہدیٰ شمس الدین۔شبیر احمد مسیح اللہ ۔ رئیس احمد رجب علی منصوری ۔ ڈاکٹر سلمان فارسی عبد اللطیف ۔ ڈاکٹر فروغ اقبال احمد مخدومی۔ شیخ محمد علی عالم شیخ، آصف خان بشیر خان جنید ۔محمد زاہد عبد المجید انصاری اور ابرار احمد غلام محمد کے مقدمہ کی سماعت گزشتہ ماہ ہو ئی تھی۔ جس کے دوران این آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ا س نے ملزمین کا برین میپنگ نارکو ٹیسٹ اور دیگر طبعی تجزیہ کیا ہے ۔جج شنڈے نے استغاثہ کو حکم دیاتھا کہ وہ ۴، نومبر تک تحقیقاتی رپورٹ کے ساتھ ساتھ ان ملزمین کے برین میپنگ (barin maping test) اور پولو گرافی رپورٹ(Polyghraphy Report ) نیز ملزمین کی جانب سے داخل کردہ درخواست ضمانت کا جواب عدالت میں پیش کرے تاکہ مقدمہ کی سماعت کے وقت فریقین کے وکلاء اس پر بحث کر سکیں۔سوامی اسیمانند کے بیان حلفی کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں کو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کے مالیگاؤں دھماکہ کے الزام میں گرفتار بے قصور لوگوں کی ضمانت ہوجائے گی لیکن سی بی آئی نے اس سلسلے میں کوئی پیش نہیں کی اور اس کی تحقیقات کا دائرہ اے ٹی ایس کے طر ز تک محیط تھا۔ مسلمانوں کے مطالبے پر حکومت نے اسے کی تفتیش سی بی آئی سے قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کو مارچ 2011 کو سونپ دی۔ اس ایجنسی نے اپنی تفتیش ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہی اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔ ممبئی کی عدالت نے نو مسلمانوں کو ضمانت دی تھی ان میں سے سات کو رہا کر دیا گیا ۔ حالانکہ عدالت نے ان لوگوں کی ضمانت پانچ نومبر کومنظور کی تھی لیکن جیل سے باہر آنے میں انہیں مزید گیارہ روز لگے ہیں۔ پانچ نومبر کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ ملزمان کی جانب سے ضمانت کی درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی۔ان کا اب یہ موقف ہے
کہ ان دھماکوں میں مسلمان شدت پسندوں کے بجائے ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ تھا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ملزمان کو پچاس ہزار روپے کے مچلکے پر رہا کردیا جائے لیکن تفتیشی ایجنسی این آئی اے تفتیش کے ژولیدہ زلف کے حصار باہر نہیں نکلنا نہیں چاہتی ۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کی کہانی بھی اسی پلاٹ پر لکھی گئی تھی اور وہ مکمل طور پر اس میں کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن سوامی اسیمانند کے اقرار جرم نے اس سازش کی تہ بہ تہ پرت سے پردہ اٹھایا اور جو نام سامنے آیا اس سے دہشت گردی کی ایک نئی کہانی سامنے آئی۔اس میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو ہندوستانی سماج ایک مذہبی گرو، ایک محافظ اور ایک اپدیشک کے طور پرجانے جاتے تھے۔ اس میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیمانند اور آر ایس ایس سے وابستہ کئی سینئر پرچارک شامل تھے۔ ہندوستانی انتظامی اور سیکورٹی مشنری کی سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ کسی ہندو کو دہشت گرد تسلیم نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں دہشت گردی کے واقعات صرف مسلم نوجوان ہی انجام دیتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پر نظر رکھنے والی خفیہ ایجنسی کو دھماکے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتایا وہ جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں کہ کسی مسلمان کو پکڑ لیں گے اور کیس حل ہوجائے گا۔ مالیگاؤں میں عین شب برات کی شام میں مہاراشٹر کے مالیگاوٴں میں 29 ستمبر2006 کو موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکے کرکے سات کو ہلاک اور 70 سے زائد افراد کو زخمی کردیا تھا۔اس کے مالیگاؤں میں دوسرا 2008 کو ہوا تھا جس میں37 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سوامی اسیماند کو گزشتہ سال 19 نومبر 2009کو اجمیر ، حیدرآباد اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسیمانند نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ”آر ایس ایس نے اپنے کارکن سنیل جوشی کا قتل کروایا ہے اور اس سے وابستہ کئی لوگ ان دھماکوں کے لئے ذمہ دار تھے.” سی بی آئی نے اسیمانند کے اقبالیہ بیان کے بعد عدالت میں عرضی دی تھی کہ اسے اس معاملے میں دوبارہ جانچ کی اجازت دی جائے۔ 2006 میں ممبئی سے مالیگاؤں میں بم دھماکوں کے سلسلے میں ممبئی اے ٹی ایس نے 2006 میں ہی چارج شیٹ داخل کی تھی۔ اس تفتیش سے مسلمان خوش نہیں تھے کیوں کہ ان کا ہی جانی اور مالی نقصان بھی ہوا تھا اور ان ہی کے افراد بھی پکڑے گئے تھے۔سخت دباؤں اور پرزور مطالبے کی بنیاد پر یہ معاملہ اے ٹی ایس سے لے کر سی بی آئی کو سونپ دی گئی تھی۔ ممبئی اے ٹی ایس نے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس دھماکہ میں شامل مسلم نوجوانوں کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔27 اگست 2011 ان مسلم نوجوانوں کا برین میپگ اور پولیوگرافی ٹیسٹ گجرات کی لیبارٹری میں این آئی اے کرائی گئی تھی۔ ان ملزموں پر مکوکا بھی لگایا تھا لیکن بے گناہی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ مسلمانوں خصوصاً جیل بند بے قصور مسلم نوجوانوں کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب بامبے ہائی کورٹ نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے دو ملزمان کو ضمانت کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے شیونرائن کلساگرا اور شیام ساہوکو یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی تھی کہ ان کے خلاف ثبوت کافی نہیں ہیں۔ جسٹس اے ایم ترپاٹھی نے کہا کہ ملزم صرف دھماکوں کے اہم ملزم رام چندر کلساگر کو جانتے ہیں اور وہ بھلے ہی سازش سے واقف تھے لیکن صرف اس بنیاد پر ہی انہیں مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب کہ دوسری جانب پورے ملک میں صرف شک کے بنیاد پر بہت سارے مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ظاہر ہے عدلیہ کا رویہ اس معاملے پر کافی خطرناک حد تک فرقہ وارانہ ہو چکا ہے۔ وہیں دہشت گردی کے معاملے میں ملک کا دوہرا معیار بھی سامنے آتا ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام پر مسلسل مسلمانوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو اجاگر کرنا چاہئے کہ اگر انڈین مجاہدین نام کی مسلم نوجوانوں کی کوئی تنظیم ہے تو اس کا سربراہ کون ہے، کون چلاتا ہے اور فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔ کاش مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو اور محض جاننے اور ڈائری میں نام ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن نہ کردی جائے۔ بیشتر بم دھماکے میں ایسا ہی ہوا ہے اور محض نام بتانے اورملزم کی ڈائری میں نام درج یا ٹیلی فون نمبر ہونے کی بناء پر نہ صرف حراست میں لیا گیا بلکہ جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیا۔طویل عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ جن لوگوں ں پر الزام تھا ان کو ضمانت دلانے میں انتظامیہ جس سرعت کا مظاہرہ کیا وہ ہندوستان کے انصاف کے دہرے معیار کی پول کھولتا ہے ۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں جیل قید مسلم نوجوانوں نے جب جب ضمانت کی درخواست کی دی سی بی آئی اور دوسری ایجنسیوں نے ہمیشہ مخالفت کی لیکن یہ مخالفت شیورنرائن اور رام ساہو کے معاملہ میں سامنے نہیں آیا ۔ملک کی معتبر سمجھی جانے والی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے آخر اتنے طویل عرصہ میں کیا تفتیش کی۔انہوں نے کس چیز کو بنیاد بنایا یا صرف ممبئی پولیس کے بیان کو درج کرکے تفتیش شروع کردی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں تربیت یافتہ افراد اور تیز طرار افسران ہوتے ہیں جو حقائق کی تہہ تک پہنچنے کا مادہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود سی بی آئی کا رویہ اس معاملے میں کیوں معاندانہ رہا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب مرکزی حکومت سے لیکر ریاستی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں انصاف کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے کا ہے تو سی بی آئی بھی اسی کا ایک حصہ ہے اور سی بی آئی اس کے اشارے کے بغیر کسی کو بے داغ قرار نہیں دے سکتی۔ سی بی آئی بھی اسی اکثریتی معاشرے کا ایک جز ہے جو پوری طرح مسلمانوں کے ب]
]>