Home / Socio-political / مدارس اسلامیہ اور ان کو بدنام کرنے کی سازش

مدارس اسلامیہ اور ان کو بدنام کرنے کی سازش

ڈاکٹر خواجہ اکرام

پوری دنیامیں تعلیم کو مسلمانوں کے درمیان عام کرنے کے لیے مسلم معاشرے میں مدارس اسلامیہ کا ایک ایسا نظم ہے  جس کا  نعم البدل دنیا کے کسی تعلیمی نظام میں نہیں ہے۔ان مدارس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تعلیم و تدریس سے لے کر قیام و طعم  ہر چیز کا نظم مدارس خود کرتے ہیں ۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کو کسی طرح   کہ نہ تو فیس ادا کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی انھیں کسی اور طرح کے اخراجات  دینے پڑتے ہیں۔ بر صغیر میں ایسے مداراس کی اچھی خاصی تعداد ہے جو تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی  انجام دے رہے ہیں ۔ان مدارس نے اپنے ممالک میں  لٹریسی ریٹ کو بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ۔ مسلم معاشرے میں تعلیم  کو فروغ دینے میں ان مدارس کا بڑا ہاتھ ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان مدارس کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کی اکثریت  میں تعلیم کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔مدارس کا نظام ایسا ہے کہ یہ اپنے وسائل خود پیدا کرتے ہیں اور ان کے وسائل میں سب سے اہم ذریعہ زکوات اور فطرہ ہے ۔ اسلام کا یہ ایسا نظام ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا کے تمام مدارس اور بالخصوص ہند وپاک  کے مدارس اپنے تعلیمی پروگرام کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلا رہے ہیں۔ان مدارس میں کوئی ایسا نظم نہیں ہے کہ یہ  مرکزی طور پر کسی ایسے نظام سے جڑے ہوں  جو ان کو آپس میں مربوط کیے ہوئے ہو یا ایک سا تعلیمی نظام ہو ۔ اس کے باوجود اگر ہم مدارس کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ  یونیورسٹی جیسے نظام سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود ان کے یہاں ایک جیسا نصاب ہے اور ایک جیسا تعلیمی دوران بھی ۔ تقریباً تمام مدراس درس نظامیہ  کے تحت اپنے نصاب کو مرتب کرتے ہیں اور ہر مدرسے میں تقریباً ایک جیسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ان مدارس میں چونکہ تعلیم کا مقصد علم دین ہے اس لیے یہ بنیادی طور پر ایک ہی جیسی کتابیں پڑھاتے ہیں ۔ اور یہ نظام صدیوں سے چلے آرہے نظام پر ہی مبنی ہے ۔ اگر یہ کسی مرکزی بورڈ سے جڑ جائیں تو یہ اور بھی بہتر کارکردگی انجام دے سکتے ہیں ۔ یہ مرزی نظام وہ خود بنا لیں تب بھی یہ ممکن ہے ۔لیکن جو بھی مدارس کی اپنی اہمیت ہے اور ان کا ایک وقار ہے ۔

لیکن حالیہ برسوں میں مدارس   کے حوالے سے کچھ ایسی خبریں آئیں  کہ ان کی وجہ سے مدارس کو دوسرے زایوں سے بھی دیکھا جانے لگا۔ خاص طور پر بر صغیر میں جب  مداراس کی بات آتی ہے تو اس حوالے سےا یک نامناسب پہلو یہ جڑ جاتا ہے کہ کہیں  نہ کہیں  کچھ  مدارس دہشت گردی جیسی برائیوں میں ملوث ہیں ۔ یہ بات پاکستان کے کچھ مدرسوں کی وجہ سے سامنے آئی۔پاکستان کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے بھی مدارس اس حوالے سے زیر غور آئے جب طالبان کی تنظیمیں سامنے آئیں ، ان تنظیموں میں وہ لوگ  پیش پیش رہے جو مدرسوں سے جڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد جنوبی ایشیا میں   جب دہشت گردی کے حالات سامنے آئے تو مدرسوں کو بھی اس ل کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔ یہ پہلا المناک اور افسوسناک  زاویہ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے سامنے آیا اور اس نے مدارس کے وقار اور تقدس کو مجروح کیا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے زما نے  میں خود صدر پاکستان جنرل مشرف نے اس  کو تسلیم کیا کہ پاکستان کے کچھ مدارس ایسے ہیں جہاں دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے چنانچہ انھوں نے کچھ مدرسوں  پر پابندی عائد کی اور کچھ مدرسوں پر امریکہ کی مدد سے حملہ بھی کیا گیا ۔ یہ بات پوری دنیا کے لیے اندوہناک تھی کہ مدرسے جو تعلیم کی جگہ ہیں ان کے تقدس کو بھی چند مفاد پرستوں نے بدنام کیا ۔ بات صرف پاکستان کے  مخصوص مدرسوں تک محدود رہتی تو بھی قابل قبول تھاکہ جو ملوث ہیں اور مدراس کو بدنام کر رہے ہیں ان کو سخت انجام بھگتنا چاہیے لیکن اس باہنے سے عالمی سطح پر مدراس  کو بدنامی کا سامنہ کرنا  پڑا۔ یہ بات افسوسناک ہے  کہ پاکستان میں چند مدارس کی وجہ سے ایسے اہم مقامات کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ اس کے بعد  پاکستانی حکومتوں نے ایسے مدارس کی نشاندہی کی اور ان پر شکنجہ کسا ۔ لیکن ابھی حالیہ واقعہ جو پاکستان کے مدرسے کے حوالے سے سامنے آیا وہ بھی قابل مذمت ہے کیونکہ اس سے  ایک بار پھر تمام مدراس  کے وقار پر سوالیہ نشان کھڑا کیا جا رہا ہے ۔ کراچی میں پولیس نےگلشنِ معمار کے علاقے میں واقع مدرسہ منبع العلوم میں زنجیروں سے باندھ کر رکھے جانے والے چالیس سے زائد طالب علموں کو رہا کرایا ۔ پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ بازیاب کروائے جانے والے افراد کی عمریں بارہ سے پچاس سال کے درمیان ہیں۔مقامی حکام کے مطابق ان افراد کو مدرسے کے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا اور ان پر تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا بازیاب کیے جانے والے زیادہ تر طالب علم نشے کے عادی ہیں اور انہیں ان کے والدین علاج کے لیے مدرسہ لائے تھے۔دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ آیا ان بچوں کو کہیں دہشت گردی کے لیے تو تیار نہیں کیا جا رہا تھا۔دوسری جانب کراچی میں مدرسہ منبع العلوم پر پولیس کے چھاپےاور وہاں سے زنجیروں میں جکڑے افراد کی بازیابی کے واقعے کو جمعیت علمائےاسلام (ف) کراچی کےامیر قاری محمد عثمان نے مدارس کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مدرسےمیں ترکِ منشیات کے لیے ایک شعبہ قائم تھا جو منشیات کے عادی افراد کا علاج کرتا تھا۔

اب حقیقت جو بھی ہو لیکن جس انداز سے ان کو رہا کریا گیا ہے اس سے غلط میسج عام ہو اکہ کہ مدرسے میں اس طرح کو غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ اگر یہ بات منان بھی لی جائے کہ انھیں ترک منشیات کے لیے رکھا گیا تھا تو اس مدرسے کو ایسی تربیت کے لیے حکومت  کے مناسب محکمے سے اجازت لینی چاہیے تھی ، اگر اس مدرسے کے پاس اس کی اجازت ہوتی تو یہ پولیس کراوئی ہوتی ہی نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ  اس طرح کے  علاج کے لیے مخصوص طریقے ہوتے ہیں ۔ کیا اس مدرسے کے پاس کوئی مخصوص طریقہ تھا اور ان کے پاس اس طرح کے لوگوں کے علاج کے لیے  تجربہ کار افراد بھی تھے یا نہیں ؟ اگر نہیں تھے تو یہ بھی ایک طرح کا غیر انسانی رویہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مدرسے تو تعلیم و تربیت کی جگہ تو ضرور ہیں مگر اس طرح کے لوگوں کے علاج  کے لیے کوئی دورسی جگی کا بھی انتخاب کیا جاسکتا تھا ۔ کیوں انھیں مدرسوں میں رکھا گیا ۔ مدرسے کی اس  لاپرواہی  نے مدرسوں کے وقار کو نہ صرف پاکستا ن میں مجروح کیا ہے بلکہ برصغیر میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور مدرسوں کو بلا وجہ کی تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اس  لیے حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ اس  کی پوری غیر جانبدارنہ تحقیق کرائے اور صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کرے تاکہ مدرسے کے وقار  کو مجروح ہونے سے بچایا جاسکے۔

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. بہت بہت شکریہ ۔۔۔

    حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیق کرے۔
    ہم بھی اس قسم کی ظلم و ذیادتی کے مخالف ہیں مگر۔۔۔ جہاں تک اس خبر کا تعلق ہے ۔۔ یہ تو ایک منظم سازش ہی نظر آتی ہے ۔

    والسلام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *