Home / Socio-political / مسئلہ کشمیر : چین او رپاکستان کی مداخلت

مسئلہ کشمیر : چین او رپاکستان کی مداخلت

  کیا چین مسئلہ کشمیر میں دلچسپی لےرہا ہے؟ کیا چین پاکستان کے ساتھ مل کر ہندستان کو مشکلات میں ڈالنا چاہتا ہے ؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ان دنوں میڈیا کی سر خیاں بنی ہوئی ہیں۔ سچائی یہی ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہے بلکہ پاکستان کی غیر مستحکم صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے ان علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چا ہ رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چین کی شر انگیزی کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی وہ لداخ کے خطے میں در اندازی کر رہا ہے تو کبھی اروناچل پردیش کے حوالے سے روز نئی نئےی باتیں کر رہا ہے ۔ حالانکہ ہندستان کی جانب سے چین کے کسی معاملے میں دخل اندازی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ہندستان کے باربار اعتراض اور محتاط رویہ اپنانے کے لیے توجہ دلانے کے بعد بھی چین نےکوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا ہے۔چین کے اس حوصلے اور شر انگیزی کے حوالے یہ کہا جا رہا ہے کہ چین دراصل ایشائی خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے اس راہ میں اس کے لیے سب سےمشکل یہ ہے کہ ہندستان امریکہ کا دوست ہے جو چین کو کسی طرح بھی گوارا نہیں ہے کیونکہ اس سے چین کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔دوسری جانب پاکستان اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ہند اور چین کے مابین جو کشیدگی یا سرد جنگ کی نوبت ہے اس سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے اگر چین پاکستان کے ساتھ مل جائے اس طرح پاکستان یہ چاہتا ہے چین کا اعتماد حاصل کر کے اسے ہندستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔اسی لیے پاکستان گذشتہ ایک دہائی یہ کوشش کررہا ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوجائیں ، آپ گذشتہ ایک دہائی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اس دوران پاکستان کا کوئی حکمراں نہیں ہے جس نے چین کا دورہ نہ کیا ہو۔خیر یہ تو پاکستان کااپنا معاملہ ہے اور اس کی خام خیالی ہے کہ وہ چین کی مدد سے ہندستان کو زیر کرنا چاہتا ہے۔اسی لیے کشمیر کی جو فضا ساز گار ہورہی تھی اس کو مکدر کرنے میں پاکستان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنرل مشرف نے اپنی پارٹی کے لانچ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ہمیشہ دہشت گردوں کی مدد کرتا رہا ۔ ابھی بھی پاکستان کے تربیت یافتہ اور امداد یافتہ دہشت گردوں نے کشمیر میں دراندازی کے سلسلے کو تیز کر دیا۔اور پاکستان کی ایک نئی چال جس کاانکشاف خود امریکی اخبار نے کیا ہے کہ وہ پاک مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں چینی افواج کو جگہ دی جارہی ہے تاکہ وہ ہندستان کو خائف کر سکے۔ قارئین کے لیے اس مضمون کا ارود ترجمہ من و عن یہاں پیش کر رہا ہوں تاکہ پاکستان کی ہند مخالف سر گرمیوں کو سمجھا جا سکے۔’’نیویارک ٹائمز میں معروف مصنف سلیگ ہیریسن نے اپنے مضمون میں چونکا دینے والا انکشاف کیا تھا ہیریسن نے لکھا تھا کہ پاکستان گلگت بلتستان کو چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے 10ہزار جوان علاقے میں آ چکے ہیں۔ یہ مضمون نیویارک ٹائمز میں آراء کے صفحات پر26اگست کو شائع ہواتھا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے شمال میں ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں ایک خاموش جغرافیائی وسیاسی بحران پنپ رہا ہے۔ جہاں پاکستان متنازعہ کشمیر کے شمالی مغربی حصے اہمیت کے حامل خطہ گلگت بلتستان کا کنٹرول چین کے حوالے کر رہا ہے۔ سلیگ ہیریسن جو سینٹر فارانٹرنیشنل پالیسی کے ڈائریکٹر ایشیا پروگرام ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کے سابق بیورو چیف برائے جنوبی ایشیا ہیں نے ”پاکستان کے مثالی سرحدی علاقوں پر چین کا کنٹرول“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ جب دنیا کی توجہ سیلاب سے تباہ حالی دریائے سندھ کی وادی پر مرکوز ہے۔ پاکستان کے شمال میں ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں ایک خاموش جغرافیائی وسیاسی بحران پروان چڑھنے لگا ہے جہاں پاکستان اس خطے کا کنٹرول چین کے حوالے کر رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا مغربی حصہ جو شمال میں گلگت سے لیکر جنوب میں آزاد کشمیر تک پھیلا ہوا ہے اور وہ دنیا کیلئے بند ہے اس کے برعکس بھارت نے مشرقی کشمیر میں میڈیا کو رسائی دے رکھی ہے جہاں وہ پاکستان کی حمایت یافتہ بغاوت سے نبرد آزما ہے مختلف غیر ملکی انٹیلی جنس ذرائع پاکستانی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے گلگت بلتستان میں دو نئی تبدیلیوں کا انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانی کیخلاف وہاں ایک بغاوت پروان چڑھ رہی ہے اور پیپلز لبریشن آرمی کے تقریباً سات ہزار سے گیارہ ہزار فوجی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں چین اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان کے ذریعے خلیج تک محفوظ ریل اور سڑک کے راستے یقینی بنا سکے۔ جب تیز رفتار ریل اور روڈ کے رابطے گلگت بلتستان سے گزر کر مکمل ہو جائیں گے تو چین اپنے مشرقی علاقوں سے سامان کو اپنے ہی تیار کردہ گوادر پسنی اورماڑہ کے بحری بیسز تک اڑتالیس گھنٹوں میں پہنچانے کے قابل ہو جائے گا جو خلیج کے مشرق میں واقع ہیں پیپلز لبریشن آرمی کے زیادہ تر جوان جو گلگت بلتستان میں داخل ہو رہے ہیں توقع ہے وہ ریل روڈ پر کام کریں گے اور بعض قراقرم ہائی وے کی توسیع پر کام کر رہے ہیں جو پاکستان کو چینی صوبے سنکیانگ سے ملاتی ہے اور دوسرے ڈیموں ایکسپریس ویز اور دیگر منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ پراسرار انداز میں خفیہ مقامات پر 22 سرنگیں تعمیر کی جا رہی ہیں جہاں پاکستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ سرنگیں ایران سے چین تک مجوزہ گیس پائپ لائن کیلئے ضروری ہیں جو گلگت سے ہوتی ہوئی ہمالیہ سے گزرے گی۔ بلکہ یہ میزائلیوں کو ذخیرہ کرنے کیلئے بھی اس تعما] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *