مسلمان امن کی علامت بنیں
ذیشان احمدمصباحی
ادارہ فکر اسلامی، شاہین باغ،نئی دہلی-۵۲
zishanmisbahi@gmail.com
Contact: 9911611567
پروپیگنڈہ، سازش، مکرو فریب اور میڈیائی شرانگیزیوں کے اس دور میں بہت سے حقائق مشتبہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔میڈیا کے ذریعہ آج جن حقائق کا انکشاف ہوتا ہے دوسری ہی صبح ان کی حقیقت ایک افسانہ بن جاتی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر چیز میںشک کرنے لگیں۔ذرائع ابلاغ کے تمام تر غیر ذمہ دارانہ رویوں کے با وجود بہت سی باتیں ایسی ہیںجن میں شک کرنا خود فریبی کے ہم معنی ہوگا۔مثال کے طور پر اگر کوئی آر ۔ایس ۔ایس اور طالبان کے متشدد نظریات میں بھی شبہ کرنے لگے تو اس کی اس معصومانہ ادا پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔اگر کوئی اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہتا ہے ،مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بات اپنے آپ میں جتنی غلط ہوگی اتنی ہی غلط آر۔ ایس۔ ایس اور طالبان کے رویوں کی حمایت کرنا بھی ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے اصلاح کا جو طریقہ اختیار کیاہے اسے نہ موجودہ حالات کے تناظر میںدرست کہا جا سکتا ہے اورنہ ہی اسلامی نقطہ نظر سے اس کی تائید کی جا سکتی ہے۔طالبان کے اس رویے کے سماجی،اقتصادی،سیاسی اور عالمی اسباب و عوامل پر بحث کرنا ایک الگ موضوع ہے۔
۱۱/۹ کے بعد ملکی اور عالمی میڈیا کے ذریعہ برابر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گاہے بہ گاہے اہل سنت و جماعت،دیوبندی جماعت،اہل حدیث،شیعہ اور دیگر مکاتب فکر کے نمائندوں نے اس کی زبانی اور تحریری تردید کی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف دہشت گردی کے حوالے سے اسلام کا موقف پیش کردینے سے دہشت گردی سے براءت کی یہ ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس سیاق میںجس طرح میڈیا کارول مشتبہ ہے، مسلم جماعتوں اور نمائندوں کا کردار بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ گاہے بہ گاہے دہشت گردی سے اپنی براءت کا اظہار کرکے وہ حقیقت کے ساتھ پورے طور پر انصاف نہیںکر پاتے اور نہ اپنی ذمہ داریوںسے عہدہ برآ ہوپاتے ہیں۔
پچھلے دو تین سالوں میں مزارات پربم باری اوراہانت کے جو غیرانسانی و غیراخلاقی واقعات سامنے آئے ہیں ان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی قبرکی مسماری ، حضرت خواجہ غریب نواز کے احاطے میں بم دھماکہ اور گزشتہ دنوں حضرت داتا گنج بخش ہجویری علیہ الرحمہ کے احاطے میں خود کش حملہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مولانا تھانوی کی قبر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے مذمتی بیانات مہینوں تک قومی اخبارات پر چھائے رہے جب کہ بعض حلقوںمیں خوشی کاسماں بھی دیکھنے میں آیا ۔حضرت خوا جہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے مزار پر جو واقعہ پیش آیا اس کے اثرات ملکی اور عالمی میڈیا میں ظاہر ہوئے لیکن اس کے با وجود تمام مسالک کے نمائندوں نے متفقہ طور سے کھل کر اس کی مذمت نہیں کی جس طرح کی جانی چاہیے تھی۔اس کے بر عکس یہ ہوا کہ خانقاہی اور صوفی مسلمانوں نے اس کا ذمہ دار وہابی طبقہ کو ٹھہرایااور اس کے خلاف مذمتی بیانات دیے۔بعدمیں جو انکشافات سامنے آئے وہ چونکا دینے والے تھے ۔معتبرذرایع نے واضح طورپر اجمیر بم دھماکہ کے پیچھے مختلف ہندو تنظیموں کے ہاتھ ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔
داتا صاحب کے مزار پر حالیہ خود کش حملے سے چند روز قبل مزار کے ذمہ داروںکو کوئی تہدیدآمیز فون آیا تھاکہ مزارات کی اصلاح کرواور عورتوں کو مزارات پہ آنے سے روکو، ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔اسی کے بعد یہ واقعہ پیش آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہند و پاک کے اہل سنت اس دھماکے کا ذمہ دار ان مسلکی گروپوں کو سمجھ رہے ہیں جومزارات اور خانقاہوں کو غلط سمجھتے ہیں۔پاکستان کی کچھ سنی تنظیموں نے تو باضابطہ بندوقوں اور اسلحوں کے ساتھ مظاہرے کیے اور اپنے مخالف مسلکی گروپوں کو للکارا۔ادھر دوسری جماعتوں کی طرف سے اس گھناﺅنے عمل کی جس طرح مذمت ہونی چاہیے تھی نہیںہوئی۔
یہاں بہت ممکن ہے کہ داتا صاحب کے مزار پر ہوئے اس خود کش حملے کے پیچھے بھی وہی مقاصد کار فرما ہوں جو اجمیر دھماکے کے پیچھے تھے اور اجمیر ہی کی طرح اس حملے کے پیچھے بھی انہی غیر مسلم تنظیموں اور اسلام دشمن عناصر کا ہاتھ ہو جن کے بارے میںمسلمانوںکا ہر مسلکی گروپ یہ اعلان کرتا ہے کہ مخالفین اسلام کا نشانہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان پر حکومت کرنا ہے اور پھر ہر مسلک کے افراد دشمن کی سازش کو کامیا ب بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہےں۔لیکن صرف یہ شبہ پیش کرکے ان تمام کاروائیوں کی ذمہ داری آسانی کے ساتھ اسلام دشمن قوتوں پر ڈال کر آگے بڑھ جانا انصاف اور دانشمندی نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کے ممتاز اسکالر معروف ماہر اقتصادیات ڈاکڑنجات اللہ صدیقی نے اپنی تازہ کتاب”اکیسویںصدی میںاسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی‘ ‘میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے وابستہ بعض نوجوان غلط راہ پر پڑ گئے ہیں،مولانا مودودی اور جماعت کے دیگر ذمہ داروں نے جہاد و تحریک کا جو مفہوم اور طریقہ بتایا تھا اس کو سمجھنے میںان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ غیر اسلامی متشددانہ راستوں پرچل پڑے ہیں۔جماعت اسلامی کے موجودہ ذمہ داران کو اس بات کا احساس بھی ہے لیکن وہ’ گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں،وہ نہ ان نوجوانوںکی حمایت کرتے ہیں اور نہ کھل کر ان کی مذمت۔ نتیجے کے طور پر ان کی ےہ مجرمانہ خاموشی مسلم نوجوانوںمیں تشددد کو جنم دی رہی ہے۔
ڈاکڑنجات اللہ صدیقی کی یہ بات بڑی حد تک جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر تحریکات اور مسالک پر بھی صادق آرہی ہے۔یہ سچ ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب نہیں ہے ،یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان مجموعی طورپر دہشت گرد نہیں ہیں،یہ بھی سچ ہے کہ مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غیر مسلم طاقتیں آج مسلمانوں کو اتنا توڑ دینا چاہ رہی ہیں کہ ان میںمذہب،مسلک،سماج،سیاست اور تمدن کسی نقطے پر بھی اتحاد کا امکا ن باقی نہ رہے اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف نفرت کرےں بلکہ موقع ملنے پرایک دوسرے کی گردن بھی کاٹ ڈالیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مختلف جماعتوں سے وابستہ مسلم نوجوان اسلام اور جہا د کی تفہیم میں حد سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ان کا جنون انہیں نظری اور عملی تشدد اور تباہ کاری پر اکساتارہتا ہے لیکن ان جماعتوں کے رہنما کھل کر نہ ان نوجوانوں کی تفہیم کرتے ہیں اور نہ دہشت گردانہ کاروائیوں کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے واردات انجام دینے والے کون ہیںیہ تو معمہ بنا رہ جاتا ہے لیکن مسلم طبقات اور گروہ خود ایک دوسرے کو سب و شتم کرکے دست و گریباں ہو جاتے ہیںاور مخالفین کی اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو کوشش ہے انہیں غیر شعوری طور پر مواد اور دلائل فراہم کر دیتے ہیں۔
یہودیوں،عیسائیوںاور سنگھیوں کی اسلام دشمنی کارونا رونے والے آخر اپنی اسلام دوستی کا ثبوت کب پیش کریںگے،دشمن کی سازش کو وردِ زباں رکھنے والے آخر کب اس سازش کو ناکام کرنے کی سوچیںگے،یہودی دماغ کی تعریف کرکے اپنی بے وقوفی کو جواز بخشنے کی کوشش کرنے والے آخر اپنے دماغ کا استعمال کب کریںگے اور گاہے بہ گاہے دہشت گردی سے اپنی براءت کا اظہار کرنے والے آخر کب دنیا کے سامنے امن کے نمائندہ اوررواداری کے علم بردارکے طور پر اپنے آپ کو پیش کریںگے؟؟؟اگراسلام کو امن کا مذہب کہنے میںدلی طور پر ہم مطمئن ہیںتو دہشت گردی سے براءت کے بجائے عالمی امن کی کوشش میںعملی طور پر خود کو آگے کیوں نہیں کرتے؟شاید ہمیںاس امر میں اب بھی شبہ ہے کہ ’اسلام کی ترجیح جنگ نہیں صلح ہے۔‘