Home / Socio-political / مسلم سکھ کی مشترکہ میراث

مسلم سکھ کی مشترکہ میراث

مسلم سکھ کی مشترکہ میراث
سمیع اللہ ملک

(پہلی قسط)

’’اوبھرا گامیاتو تے آزاد ہوگیاپر اسی تے ہمیشہ لئی غلام ہوگئے ، اج اسی اپنے پرکھاں اگے بڑے شرمندہ ہاں‘‘۔(او بھائی گامیا’’غلام محمد‘‘تم تو آزاد ہو گئے لیکن ہم ہمیشہ کیلئے غلام ہو گئے ہیں اوراپنے بزرگوں سے شرمندہ ہیں)۔یہ رقت آمیز منظربیس سال کے بعد میری آنکھوں کے سامنے آج پھر تازہ ہو گیاجس نے ہر دیکھنے والے کو آبدیدہ کردیا تھا جب سارا گاؤں دودیرینہ دوستوں بابا غلام محمد اوربابا ہرنام سنگھ کی نہ رکنے والی آو وزاری اورسسکیوں کے ساتھ سفید داڑھیوں کو تر کرتے ہوئے بے اختیاربہتے آنسوؤں کو دیکھ رہاتھا۔یہ دونوں دوست قیام ِ پاکستان کے ۴۵ سالوںکے بعد پہلی مرتبہ مل رہے تھے اور ہرنام سنگھ اور بابا غلام محمداس پیرانہ سالی میں ایک دوسرے کو اس طرح مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اندر ضم ہو جائیں گے۔مسلم سکھ دوستی کی اس مشترکہ میراث کو ظالم طاقتوں نے جداتو کردیالیکن ان کی محبت والفت کوپانچ دہائیوں کافراق اور مضبوط کردے گا،اس کی کسی کوبھی توقع نہ تھی۔
سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گرو’’بابا نانک‘‘۱۵/اپریل۱۴۶۹ء لاہور اورشیخوپورہ کے وسط ایک گاؤںبھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ شریف) میں ایک کھتری نسل کے ہندو کلیان چاندداس بیدی‘‘ جو ’’کالو مٹھا‘‘کے نام سے مشہورتھے،کے گھرمیں پیداہوئے ۔ اس وقت ہندوستان پر سلطان لودھی کی حکومت تھی۔ بابا گرونانک کے والد’’ علاقے کے ایک مسلمان جاگیردار رائے بلوار بھٹی کے ہاں پٹواری تھے ۔ سکھوں کے ہاں نومبر کے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کو ان کا جشن پیدائش پر’’اکاش دیواس‘‘ منایا جاتا ہے،اس لحاظ سے ہر سال یہ تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے چنانچہ ا س سال ۲۱۰۲ء کو یہ تاریخ ۲۸ نومبر کو آئی جسے دنیا بھر کے ہزاروںسکھوں نے بالخصوص ننکانہ پاکستان اور بالعموم ساری دنیامیں بڑی دھوم دھام سے منایا۔ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کر ان سکھوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بابا گرونانک کابچپن ان کی ہمشیرہ کے سسرال میں گزرا۔ان کی ہمشیرہ کانام ’’بے بے نانکی‘‘ تھا۔سکھ روایات کے مطابق پانچ سال کی عمر سے ہی بابا جی مذہبی کہانیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ان کے والد نے انہیں سات سال کی عمر میں روایتی تعلیم کے لیے اسکول میں داخل کروادیا۔فطری ذہانت کے باعث بہت جلد اپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔نو سال کی عمر میں جب پروہت نے ایک مذہبی تقریب میں جانونامی دھاگا پہناناچاہاتو انہوں نے اس رسم کو اداکرنے سے انکار کردیاگویا ان کے اندرتوحید کی ایسی کوئی کرن چھپی ہوئی تھی جس نے ان کو ایسے نکار کی طاقت فراہم کی۔اپنی ذہانت کے بل بوتے پرسنسکرت کے علاوہ عربی اور فارسی پر ان کو مکمل عبور حاصل تھا۔بابا کے بہنوئی لاہور میں گورنر کے ہاں ناظم جائدادکی حیثیت سے ملازم تھے، سرکاری امور کی ادائیگی میں بابا جی اپنے بہنوئی کاہاتھ بھی بٹاتے تھے۔بابا گرونانک کے اس مذہبی رحجان نے سب سے پہلے ان کی ہمشیرہ ’’بے بے نانکی‘‘کواس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے بابا گرونانک کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کر لیا۔
باباگرونانک کا یہ بچپن سے معمول تھا کہ وہ سورج نکلنے سے قبل گھر کے قریب ندی کے ٹھنڈے پانی میں اترجاتے اوروہاں خدائے واحد کی حمدبیان کرتے تھے۔سکھ روایات کے مطابق۱۴۹۹ء تیس سال کی عمر میں بابا جی نے گاؤں کے قریب ’’کالی بین‘‘ندی میں ایک گہرا غوطہ لگایااورجب کافی دیر تک اپنے دوستوں کے پکارنے پر بھی پانی کی سطح پر نہ آئے تو ان کے دوستوں کوبڑی تشویش ہوئی۔گاؤں میں موجود دولت نامی مسلمان غوطہ خور نے ندی کاوہ خاص حصہ چھان مارا لیکن بابا جی کا کوئی سرغ نہ مل سکا۔گاؤں والوں کو بابا جی کے ڈوب جانے کا قطعی یقین ہوگیا لیکن تین دن کے بعد بابا جی اچانک اپنے گھر لوٹ آئے لیکن اپنے غائب ہونے کے بارے میں ایک دن مکمل خاموش رہے۔اگلے دن لوگوں کے بے انتہا اصرار پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولے :
’’نہ کوئی مسلمان ہے اور نہ ہی کوئی ہندوہے،تو پھرمیں کس کے راستے پر چلوں؟؟؟میں تو بس خدا کے راستے پر چلوں گاجو نہ مسلمان ہے نہ ہندوہے‘‘۔انہوں نے اپنے غائب ہونے کی بابت یہ بھی بتایا کہ ان تین دنوں میں انہیں خداکے دربار میں لے جایاگیاجہاں انہیں’’ امرت‘‘خدائے واحد کی محبت کا جام پلایا گیاجہاں انعام کے طور پرخدانے اپنی رحمتوں اوربالا دستی کا وعدہ فرمایا۔خدا نے اسی توحید کے پیغام پر عمل کرنے اوردوسروں کو پہنچانے کا حکم بھی دیا، جس کے بعد بابا جی نے فوری طورپراپنی کل جمع پونجی غریبوں میں تقسیم کردی اوراپنے بہت ہی قریبی دو مسلمان دوستوں ’’بالا مطرب اورمردانہ‘‘ کے ہمراہ اسی توحیدی عقائد کی ترویج کیلئے گاؤں چھوڑ کرایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔
سکھ روایات کے مطابق بابا گرو نانک کے پہلے چار طویل سفروں (اداسی)میں بلا شبہ ہزاروں میل کی طویل مسافت میں ’’توحید‘‘ یعنی خدائے واحد کے سچے پیغام کا درس مقصود رہا ۔ بنگال سے آسام،تامل ناڈو،کشمیر،لداخ،تبت اورآخری مشہور سفر بغداد سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی اپنے عقیدے کے پرچارمیںمشغول رہے۔ ان کا آخری اورپانچواں سفر اندرون پنجاب رہا جہاں انہوں نے بے شمار مریدوں کو بت پرستی کی لعنت سے آگاہ کرتے ہوئے توحید کی طرف مائل کیااوراس پیغام میں ان کے دو مسلمان ساتھی’’ بالا اور مردانہ‘‘ ان کے پیغام کو گیت اور سنگیت کی شکل میں ڈھال کرلوگوں کو متوجہ کرتے تھے۔ بابا گرو نانک نے ابتدائی تعلیمات میںسب سے پہلے جھوٹ کو ترک کرنے،مذہب کی غیر ضروری رسومات سے پر ہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیر کسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر چھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض(چھپے ہوئے چوروں) تکبر، غصہ، لالچ، ناجائز خواہشات اورشہوت سے مکمل پرہیز کا حکم دیا گویاتوحید کا درس اورپانچ امراض کی نشاندہی یقینا اسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیںجن سے بابا گرونانک اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کیلئے ان کو ضروری جانا۔
۔انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنما ستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت اوریکسانیت کا پتہ چلتا ہے :
۱۔نام جپنا:اس سے مراد خدا کانام لیتے رہنا،اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کو ذہن وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ’’اے اہل ایمان خدا کا کثرت سے ذکر کیا کرو(۳۳:۴۱)
۲۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کمانا ہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلا ل کو قراردیا ہے۔
۳۔ونڈچکنا:اس سے مراد دولت کو بانٹنا ہے اور مل جل کر کھانا ہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ”بیشک صدقات (زکوۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے )آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں(جہاد کرنے والوں پر)اور مسافروں پرزکوۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے یہ سب اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے(۶۰:۹)۔گویا بابا گرو نانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔
گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت،تصوف اور روحانیت کا پرچارک بھی ہیں۔ آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشوا حضرت بابا فرید گنج شکر کے ہمعصر تھے۔اپنے طویل تبلیغی سفروں میں بابا گرونانک کو کئی جید مسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اور مکالمے کے کئی مواقع ملے ۔ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس اور خانقاہوں پر غریبوں کے مفت کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جو ابھی تک جاری وساری ہے جس کو عرفِ عام میں لنگر کا نام دیا جاتا ہے ۔ بابا گرونانک نے بھی اپنے طویل سفرکرنے کے بعد بقیہ زندگی گزارنے کیلئے ۱۵۲۲ء میں کرتار پورگاؤں کی بنیاد رکھی( جو بھارت اور پاکستان کی سرحد پر پاکستان میں واقع ہے) جہاں’’کرتان اور لنگر‘‘ کی تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عقائد کی ترویج و تبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوںکو مفت کھانے پینے کی سہولت فراہم کی۔سکھ مورخین کے مطابق ا س دھارمک بستی کیلئے جہانگیر بادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گروارجن صاحب کو نذر کردی تھی۔ اس جگہ پر گرو صاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔مشہور سکھ سکالر گیانی گیان سنگھ کے مطابق کرتار پور کو آباد کرنے کی تحریک ایک مسلمان میر عظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتار پورپنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی ۔اکبر بادشاہ بابا گرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوںنے کرتارپور کیلئے ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔(جاری ہے)

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. Congratulation!Innovative & valualbe article.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *