معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے طالب حسین آزاد کی گفتگو
(آتش رفتہ کا سراغ کے حوالہ سے)
طالب حسین آزاد: ذوقی صاحب، آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت گفتگو کے لیے نکالا۔ لے سانس بھی آہستہ کے بعد آتش رفتہ کا سراغ— یعنی آپ کے نئے ناول کو جو کامیابی ملی ہے، اس کے لیے آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میری طرح بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک کے بعد ایک ناول اور ہر ناول، ناول نگاری کی روایت میں اضافہ کرتا ہوا۔ آخر آپ اتنا کیسے لکھ لیتے ہیں۔؟
ذوقی: یہ میں بھی نہیں جانتا طالب صاحب۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ میں ان بہت سارے لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ہمارے یہاں ٹیگور نے بہت لکھا۔ پریم چند نے بہت لکھا۔ آپ بنگلہ زبان، تمل، ملیالم میں دیکھیں تو مجھ سے زیادہ لکھنے والے مل جائیں گے۔ ادب کمٹمنٹ کا بھی نام ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں۔ میرے پاس شروع سے یہ کمٹمنٹ رہا ہے۔ مغرب کی بات کریں تو بالزاک، دوستو فسکی، ٹالسٹائے، حال کی بات کریں تو نجیب محفوظ، اوہان پاملک ہزاروں نام ہیں، جن کا کام لکھنا ہے، وہ لکھیں گے ہی۔ پریم چند لکھنے کو مزدوری کرناکہتے تھے۔ اردو میں شوقیہ لکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یا ایسے لوگوں کی جن کے پاس نہ تجربے ہوتے ہیں اور نہ ہی جن کے پاس زندگی کو سمجھنے کا کوئی مختلف زاویہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس کوئی آئیڈیالوجی نہیں۔ مجھے یہ لکھنے پڑھنے کی دنیا پسند ہے۔ اس لیے جب تک سانسیں ہیں، لکھنے کا شغل بھی جاری رہے گا۔
طالب حسین آزاد:’ آتش رفتہ کا سراغ‘ لکھنے کا خیال کیسے پیدا ہوا۔ ؟
ذوقی: اچھا ناول نگار سیاسی اور سماجی طورپر باشعور ہوتا ہے۔ اس کی نظر سماج، معاشرے اور سیاست پر جمی رہتی ہے۔ وہ یہ دیکھتا رہتا ہے کہ معاشرے میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اور سیاست کے کاروبار نے معاشرے کا کیا نقصان کیا ہے۔ میں ایک مسلم معاشرے میں پیدا ہوا۔ آنکھیں کھولیں تو بہار میں ہونے والے فسادات نے دکھی کیا۔ نئے موضوعات کے علاوہ میرا ایک موضوع مسلمان بھی رہا ۔ مسلمان جو ایک بڑی آبادی ہونے کے باوجود شک اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بار بار اسے ایماندار اوروطن پرست ہونے کے لیے صفائی دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسکول میں تھا تو وہاں بھی کم وبیش یہی ماحول تھا۔ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد شہید کردی گئی۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترائوں نے نفرت کا جو ماحول تیار گیا، اس سے باہر نکلنا مشکل تھا۔ آگے بڑھیے تو گودھرہ کی آگ، اور بھی کتنے فساد—۲۰۰۰ کے بعد مسلمان عالمی سطح پر شک کے گھیرے میں آگئے۔ اور نئی صدی کے ۱۳ برسوں میں فرضی انکائونٹرس نے بھی مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا— اور اسی درمیان جب دہلی میں بٹلہ ہائوس جیسا سنگین حادثہ پیش آیا تو مجھے ناول کا موضوع مل چکا تھا۔ لیکن اس ناول کو لکھنا آسان نہیں تھا۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے ایک پوری صدی سے گزرنا تھا۔ غلامی، تقسیم کے واقعات کا تجزیہ کرنا تھا اور ساتھ ہی آزادی کے ۶۷ برسوں کی سیاسی فضا کو بھی سامنے رکھنا تھا۔ ایک مشکل اور بھی تھی، ایسا نہ ہو کہ اس ناول کے شائع ہونے کے بعد مجھے بھی تنگ نظر اور فرقہ پرست سمجھا جائے۔ غرض کہ اس ناول کو تخلیق کرنا آگ کے دریا سے گزرنے جیسا تھا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ ناول شائع ہونے کے بعد نہ صرف اسے پسند کیا گیا بلکہ لے سانس بھی آہستہ کی طرح اس ناول کو بھی قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میری سب سے بڑی مضبوطی میرے قارئین ہیں۔ میں نقادوں پر نہیں اپنے قارئین پر بھروسہ کرتا ہوں۔
طالب حسین آزاد: کیا یہ ناول مکمل ہے۔ سنا ہے کہ یہ ناول تین حصوں پر مشتمل ہے؟
ذوقی: آپ نے بالکل صحیح سنا ہے۔ اس ناول کے تین حصے ہیں لیکن ہر حصہ اپنی جگہ مکمل بھی ہے۔ آتش رفتہ کا سراغ کے بعد میرا ناول ’اردو‘ بہت جلد منظر عام پرا ٓئے گا۔ اردو میں میں نے ان سوالوں کے جواب تلاش کیے ہیں جو مسلمانوں کو الزام کے گھیرے میں لے آتے ہیں۔ جیسے بھگوڑے مسلمان، باہر سے آئے ہوئے مسلمان— یہ ملک تو دراوڑ کا تھا۔ آرین بھی باہر سے آئے تھے۔ دراوڑ قوم سے الجھے۔ اورحکومت کرنے لگے۔ دراوڑ دوحصوں میں تقسیم ہوگئے۔ دراصل یہی دراوڑ شودر تھے۔ یہ ملک تو شودروں کا تھا۔ لیکن طالب صاحب، ملک کسی کا نہیں ہوتا، ملک طاقت کا ہوتا ہے۔ مسلمان بھی باہر سے آئے اور حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ جو لٹیرے تھے، وہ لوٹ کر باہر چلے گئے۔ لیکن مغل لوٹ کے ارادے سے نہیں آئے تھے۔ مغلوں نے ایک نئی تہذیب سے روشناس کرایا اور عہد شاہجہانی میں ہمیں اردو جیسی بیش قیمت زبان بھی مل گئی۔ ’اردو‘ ہزار برسوں کا سفر ہے۔ مسلمانوں پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے ہزار برسوں کے سفر کا جائزہ لینا بھی ضروری تصور کیا، اس لیے ’اردو‘ لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ اردو کے بعد ’ملک بدر‘ تیسرے اور آخری حصے کے طور پر سامنے آئے گا۔
طالب حسین آزاد: کیا یہ بھگوا آتنک واد پر پہلا ناول ہے۔؟
ذوقی: میں اس نظر سے نہیں سوچتا۔ میں پہلے اور دوسرے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول کا ایک موضوع بھگوا آتنک واد بھی ہے۔ لیکن اسکا اصل موضوع اس وقت کا ہندستان ہے۔ اور ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو بے انصافیاں ہوئی ہیں۔ سیاسی اور سماجی سطح پر ان کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری تھا۔ بھگوا آتنک واد ۱۸۹۲ سے کام کررہا ہے۔ اور آگے بھی کام کرتا رہے گا۔ آپ دیکھیے، جس طرح بھاجپا کی سیاست میں آرایس ایس اب پارٹی پر حاوی ہوگئی ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بدترین دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ بھاجپا نے چہرے سے مکھوٹا ہٹا دیا۔ یہ مکھوٹا کیا تھا؟ یہ تمام باتیں آپ اس ناول کی مدد سے جان سکتے ہیں۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ آتش رفتہ کا سراغ ڈرائنگ روم کی دین نہیں ہے میں نے ایک وسیع تناظر میں اس ناول کی دنیا بسائی ہے۔
طالب حسین آزاد: کیا اس طرح کا ناول لکھتے ہوئے آپ کو خوف نہیں محسوس ہوتا۔
ذوقی: میں اس کا جواب بہت پہلے اپنی کتاب بھوکا ایتھوپیا میں دے چکا ہوں۔ میں نے سرکاری ملازمت اس لیے قبول نہیں کہ مجھے بہر حال لکھنے کی ذمہ داری کو پورا کرنا تھا۔ سرکاری ملازمت کا مطلب ہے سچ سے پردہ پوشی۔ ادیب کے اندر خوف ہو تو وہ لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس ناول پر زیادہ تر دوستوں نے کہا یہ ایک جرأت مندانہ قدم ہے۔ ادیب میں حوصلہ اور جرأت نہ ہو تو اس کو قلم کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہئے۔
طالب حسین آزاد: آپ بہار کے رہنے والے ہیں۔ کیا کبھی بہار کی سیاست کو لے کر لکھنے کا خیال نہیں آیا۔
ذوقی: میں جب بھی کوئی ناول شروع کرتا ہوں میرے سامنے بہار ہی ہوتا ہے اور میرا وطن آرہ— مجھے بہاری ہونے پر فخر ہے۔ ہاں، بہار کی سیاست کو لے کر میں نے نہیں لکھا۔ عبد الصمد صاحب نے بہار کی سیاست کو لے کر کئی مقبول ناول دیئے ہیں۔ شموئل احمد نے مہا ماری لکھا ہے۔ شفق کے ناولوں میں بھی بہار کی سیاست کا عکس محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں بودھ گیا کو موضوع بنا کر ناول لکھنے کاخواہش مند ہوں مگر کب لکھوں گا، نہیں جانتا۔ ابھی ایک ساتھ تین ناولوں پر کام کررہا ہوں۔
طالب حسین آزاد: مجھے یقین ہے آپ بودھ گیا کو موضوع بنا کر ناول ضروری لکھیں گے۔ ہمیں اس دن کا انتظار رہے گا۔ آپ نے گفتگو کے لیے وقت دیا۔ آپ کا بے شکریہ۔
ذوقی: آپ کا بھی شکریہ۔