Home / Socio-political / ملکی حالات تشویشناک،مگر پاکستانی پولیس خوش…!

ملکی حالات تشویشناک،مگر پاکستانی پولیس خوش…!

Jhakملکی حالات تشویشناک،مگر پاکستانی پولیس خوش…!

ہر ملک میں جرم روکنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس نصب کی جاتی ہیں۔پولیس کا کام اپنے علاقہ میں ہونے والی غیر قانونی حرکات کو روکنا ، مجرموں کو پکڑنا اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوتا ہے۔تاکہ مجرم کو جرم کی سزا دِلائی جائے اور وہ آئندہ جرم سے پرہیز کرے۔ملکی حالات کے پیش نظر بڑے شہروں میں جگہ جگہ پولیس کے ناکے لگائے جاتے ہیں۔عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے کہ ان علاقوں میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذد میں آنے سے بچنے کیلئے پولیس کے ساتھ تعاون کیا جائے،لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس اہلکار گاڑیوں کے چیکنگ کرنے کے علاوہ غیر متعلقہ سوالات بھی کرتے ہیں۔اکثر وبیشتر ان کی بحث کا دائرہ کارکچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے۔اصل لائسنس کو بھی جعلی قرار دیتے ہوئے کُچھ پیسوں کا مطالبہ کر تے ہیں۔حالانکہ لائسنس چیک کرنا اور اس کی معیاد کے ختم ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ٹریفک پولیس سے ہے لیکن چیکنگ کے وقت وہ ہر اُس معاملے میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔اگر کسی شہری کو ایمرجنسی نوعیت کا معاملہ درپیش ہوتو وہ پولیس کی چیکنگ اور اس حوالے سے ان کے غیر متعلقہ سوالات سے پریشان دیکھائی دیتا ہے۔پولیس اہلکاروں کا سامنا اکثر موٹر سائیکل سواروں سے ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پولیس اہلکار موٹرسائیکل کے کاغذات اور لائسنس دیکھائے جانے کو ناکافی سمجھتے ہوئے تلاشی لیتے ہیں، تلاشی سے بھی بات نہ بنے تو موٹر سائیکل کی لائیٹیں اور اِشارے تک جلا کر دیکھانے کو کہتے ہیں، اشارہ یا لائٹ خراب ہو نے پر جرمانہ وصول کرتے ہیں ہیں جس کی کوئی رسید نہیں ہوتی،پولیس والے لائیٹوں اور اِشاروں کے چلنے یا نہ چلنے کے بارہ میں ایسے پوچھتے ہیں جیسے پولیس اہلکار نہیں بلکہ موٹر سائیکل کے الیکٹریشن ہوں ۔آخر کار کسی نہ کسی بھانے چانے پانی کا خرچہ وصول کر ہی لیتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس صرف اور صرف اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے ،اس طرح شہریوں کو تکلیف بھی نہیں ہوگی اور وہ اپنے کام یعنی مجرموں کو پکڑنے پر بھی بھرپور توجہ دے سکیں گے۔

پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ اُن کیلئے بڑی خوشخبری سے کم نہیں مگر جو مزاح اُنہیں چھین کر کھانے میں آتا ہے وہ شاید تنخوا ہ میں نہیں اس وجہ سے تنخواہوں میں اضافے کے باوجود عام شہروں کی جیبوں سے نکلوانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔لہٰذا اچھی تنخواہوں کے ساتھ چھینا جھپٹی جاری رہتی ہے۔مگر حیرت اس بات کی ہے کہ اُن کے گھروں میں پھر بھی پوری نہیں پڑتی۔اس کے علاوہ پاکستانی پولیس تشدد کے معاملے میں بھی پوری دنیا میں ایک پہچان رکھتی ہے۔اس بارہ میں تو ایک مشہور لطیفہ کُچھ اس طرح ہے،ایک ملک کے بادشاہ کا پالتو ہرن جنگل میں گُم گیا بہت تلاش کیا مگر نہیں مِلا آخر کار بادشاہ نے امریکی پولیس سے گزارش کی کہ وہ جنگل سے پالتو ہرن ڈونڈ دیں، کافی دن تلاش کتنے کے بعد جب امریکی پولیس بھی ڈھونڈنے میں ناکام رہی تو بادشاہ نے جاپان کی پولیس سے گزارش کی اور جب جاپان کی پولیس بھی بادشاہ کا ہرن نہ ڈھونڈ سکی تو بادشاہ کو ایک شخص نے مشورہ دیا کہ آپ پاکستانی پولیس سے گذارش کریں وہ اس معاملہ میں ضرور کامیاب ہوں گے۔بادشاہ نے پاکستانی پولیس سے گذارش کی اور پاکستانی پولیس کے جنگل میں داخل ہونے کے 1گھنٹہ بعد ہی بادشاہ کو خوشخبری دی گئی کہ ہرن مِل گیا۔بادشاہ بہت خوش ہوا اور جب ہرن دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو بادشاہ کے سامنے ایک صحت مند ہاتھی لایا گیاجو بادشاہ سے عرض کر رہا تھا”جناب مجھے اور مت ماریں میں ہی آپکا ہرن ہوں“…!

پاکستان کے حالات تشویشناک ہونے سے پاکستانی پولیس میں سے اکثراہلکاروں کو دُکھ نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ اُنہیں ناکوں پر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ عام شہرویوں کی موٹر سائیکلوں،گاڑیوں چیکنگ کے ذریعے یا کسی بہانے سے پیسے بٹورنے کا موقع مِلتار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چیکنگ وقت کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے،لیکن اس عمل کو پولیس ڈیپارٹمنٹ لوگوں کے تحفظ کے لئے استعمال کرے نہ کہ انہیں پریشان کرنے کیلئے،پولیس کا اولین فرض ہے کہ وہ وعوام کو تحفظ دے کر ان میں اعتماد پیدا کرے۔ہم تو متعلقہ محکمے سے عرض ہی کر سکتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں ایسا نظام وضع کریں جو مجرموں کی گرفت کی جانب تو پیش رفت ضرور ثابت ہو لیکن عوامی پریشانی کا باعث نہ بنے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *