سمیع اللہ ملک
پچھلی چھ دہائیوں سے زائدکشمیری عالمی ضمیرکوجگانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ پچھلے دوعشروں سے آزادی کی تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جان کی قربانی دیکر آزادی حاصل کرنے کاعزم پوری آب وتاب سے جاری وساری رکھاہواہے۔بھارتی ظلم وستم اورجبری تسلط کے خلاف کچھ دیر کیلئے یہ تحریک مسلح جدوجہد کی صورت میں بھی جاری رہی لیکن اب تک بھارت نے کشمیرمیں ظلم وستم کاوہ بازارگرم کررکھاہے جس سے پوری مہذب دنیابھی آگاہ ہے لیکن اب تک کسی بھی عالمی ادارے کو بھارت کواس بہیمانہ ظلم وستم روکنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اگر کسی انسانی ہمدردی کے ادارے نے کشمیرکے معاملے میں کسی دلچسپی کااظہاربھی کیا تو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کا نعرہ لگانے والی بھارتی سرکار نے کشمیرتک رسائی دینے سے صاف انکارکردیالیکن اس کے باوجودکشمیرمیں ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں اکثرعالمی ضمیرکوجھنجھوڑتی رہتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بعض مشروط پابندیوں کے ساتھ بھارت نے یورپی یونین کے ایک وفدکوبھولے سے کشمیرجانے کی اجازت دیدی تواس وفدنے محدودوقت اوربے شمارپابندیوں کے باوجودجو۷۰صفحات پرمشتمل ایک چشم کشارپورٹ مرتب کی اس کاحاصل اک جملہ یہ بھی تھاکہ ”کشمیردنیاکی خوبصورت ترین جیل ہے“۔ گزشتہ سال ۱۸سے ۲۴مئی تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چاررکنی وفدنے بکرم جیت باتراکی سربراہی میں وادی کے سیاسی،غیرسیاسی اورسول سوسائٹی کے کئی افراد سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ کئی دوسرے آزادذرائع سے معلومات حاصل کیں۔اس رپورٹ کے باضابطہٴ اجراء کیلئے ایمنسٹی کے اس وفدنے دوبارہ سرینگرکادورہ کیااوراپنی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کوایک کتابی شکل میں کشمیری عوام اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا ۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے لیڈروں جناب سیدعلی گیلانی۔میرواعظ عمرفاروق کے علاوہ دیگر کشمیری لیڈروں شبیراحمد شاہ‘ لبریشن فرنٹ کے ملک یاسین اورنعیم خان نے اس رپورٹ کازبردست خیرمقدم کرتے ہوئے عالمی برادری کواس کانوٹس لینے کی اپیل بھی کی۔اس رپورٹ کے حقائق کو کشمیرکے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بھی جھٹلا نے کی ہمت نہ کرسکے اورکچھ تحفظات کے ساتھ اس رپورٹ کی روشنی میں کچھ اصلاحی اقدامات اٹھانے اوراس کوردی کی ٹوکری میں نہ پھینکنے کاسیاسی وعدہ کئے بغیرنہ رہ سکے لیکن ”وہ وعدہ ہی کیاجووفاہوگیا“کے مصداق اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
اس ۷۰صفحات کی رپورٹ میں کشمیریوں کی حالِ زارکاجونوحہ بیان کیاگیاہے اس میں سرِ فہرست ”پبلک سیفٹی ایکٹ“جیسے ظالمانہ قانون کوہدفِ تنقیدبنایاگیاہے جس کوخودبھارتی سپریم کورٹ کالاقانون قراردے چکی ہے۔اس رپورٹ میں بھارتی حکومت کے ساتھ عدلیہ کوبھی برابرکاقصورواراورشریک مجرم قراردیاگیاہے ۔انہی ظالمانہ قوانین کی بناء پر حکومت عدلیہ کے کسی بھی فیصلے اورکسی بھی حکم کونہ صرف نظراندازکردیتی ہے بلکہ بعض معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اورکئی مقدمات میں عدلیہ کو ناکامی کاسامناکرناپڑتاہے۔زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ سیکورٹی وانٹیلی جنس ادارے اورپولیس خودکوقانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اوران کے جاری مظالم کوروکنے والا کوئی ایسا آہنی ہاتھ موجودنہیں جوان کوکشمیری عوام پرغیرقانونی ظلم وستم روارکھنے سے روک سکے۔
پبلک سیفٹی ایکٹ جوکہ بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اورخود بھارت کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کو کالا قانون قراردے چکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس قانون کابے ہنگم استعمال ہورہا ہے۔دنیاکاکوئی قانون معصوم بچوں پرظلم وستم روارکھنے کی اجازت نہیں دیتالیکن کشمیرمیں ہزاروں نابالغ بچے اس کالے قانون کے تحت نظر بند کردیئے گئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی اس رپورٹ میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے کہ اس کالے قانون کے نام پرلاقانونیت کابازارگرم ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کیلئے صرف پچھلے سات سالوں ۲۰۰۳ء سے لیکر ۲۰۱۰ء تک کے ان مقدمات کا جائزہ لیاگیاجواس کالے قانون کے تحت درج کئے گئے۔اس تحقیق سے پتہ چلا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے ظالمانہ قانون کے تحت انسانی حقوق کی زبردست پامالی کی گئی اوراس عرصے میں اس وحشیانہ قانون کے تحت آٹھ ہزار سے زائدلوگوں کوقیدکیاگیاجبکہ صرف جنوری ۲۰۱۰ء سے لیکر ادسمبر۲۰۱۰ء کے آخرتک ۳۲۲افرادکوگرفتارکرکے بے پناہ اذیتوں سے دوچارکیاگیا۔اس رپورٹ میں مزیدیہ انکشاف بھی کیاگیاکہ اس انسانیت سوزقانون کے تحت جن افرادکوگرفتارکیاجاتاہے،انہیں نہ تو فوری طورپرگرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیاجاتاہے اورنہ ہی ان کواپنی صفائی کیلئے کسی قانونی امدادکی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ایک طرف تو ریاست کے عسکری ادارے اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ اب وادی میں صرف پانچ سو جنگجو سرگرم ہیں اوردوسری طرف دس لاکھ فوج کے علاوہ سیکورٹی اورانٹیلی ایجنسیوں اداروں کی بھرمارنے ہرکشمیری مردوزن اوربچوں کودنیاکی اس خوبصورت جیل میں ہراساں کرنے کاکام جاری رکھاہواہے۔اس قانون کے تحت جہاں آزادی پسندقیادت کی پہلی اوردوسری صف کے رہنماوٴں کوجیل میں رکھ کران کی آوازکودبانے کیلئے استعمال کیا جا رہاہے وہاں مجبورومقہور بوڑھے مردوزن اوربچے بھی اس قانون کی دسترس سے محفوظ نہیں۔اپنے بنیادی انسانی حقوق کامطالبہ کرنے والے مظاہرین کوبھی اسی غیرقانونی قانون کے تحت انتقام کانشانہ بنایاجارہاہے ۔
اس رپورٹ میں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کا دم بھرنے والی بھارتی سرکار کے چہرے سے یہ نقاب بھی اٹھایاگیا ہے کہ کشمیرمیں حکومتی ادارے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارافرادکوعدالت میں مجرم ثابت کرنے اورانہیں سزادلوانے کی بجائے ان بے گناہ افرادکوجیلوں میں بند رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان مبینہ قوانین کے تحت متوازی ظالمانہ فوجداری نظام چلایاجارہاہے۔رپورٹ میں اس ظالمانہ قانون ،انتظامی حراست کو فوری منسوخ کرنے ،نظربندوں پرفوری باقاعدہ فردِ جرم عائدکرنے، مجسٹریٹ کے سامنے فوری پیشی کویقینی بنانے،اسیروں کیلئے قانونی مشورے،طبی معائنے کی سہولت اورعزیزواقارب کے ساتھ رابطے میں سہولت کی فراہمی کویقینی بنانے کامطالبہ کیاگیاہے۔۔ رپورٹ میں کئی اور سفارشات کوبھی شامل کیاگیاجس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاگیاہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں کی رسائی کویقینی بنایاجائے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس برائے ایذارسانی اورورکنگ گروپ برائے غیرقانونی گرفتاری کی سفارشات کابھی فوری جائزہ لیاجائے ۔
دوسری طرف بھارت نے کشمیرمیں جہاں مزیددولاکھ فوج کااضافہ کردیاہے وہاں بھارتی فوجیوں کو کشمیری زبان سکھانے کا عمل محض اس لئے شروع کردیا گیا ہے کہ ڈوگرہ سرٹیفکیٹ کے تحت ان کوکشمیری شہریت دیکروادی میں آبادی کاتوازن تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائے تاکہ وادی کومستقل طورپرمذہبی بنیادپرتقسیم کردیاجائے اورمستقبل میں اس تقسیم سے فائدہ اٹھاکر کشمیرکوقانونی طورپربھارت کاحصہ قراردینے میں کوئی مشکل باقی نہ رہے ، لیکن سازشی عناصر کبھی بھی اپنے اس پروگرام میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔کیاوہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ یک لاکھ جانوں کی قربانی کے بعد بھی کشمیریوں کے عزم میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی وہ بھلا اس سازش کو کیسے کامیاب ہونے دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے رہنما جناب سید علی گیلانی اوردیگر رہنماوٴں نے ایسے کسی بھی منصوبے کی بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا ہے اوردنیابھر میں بسنے والے کشمیریوں نے اظہارِ یکجہتی کیلئے اس غیرقانونی سازش کے خلاف سخت ردعمل کااعلان بھی کیاہے۔